سونیا سے عائشہ تک

شہباز عالم باروی

س: آپ کا پرانا اور اب اسلامی نام کیا ہے؟

ج: میرا پرانا نام سونیا شرما (Sonia Sharma) تھا جو اسلام قبول کرنے کے بعد عائشہ صدیقہ ہوگیا۔

س: آپ کا وطن اور خاندانی بیک گراؤنڈ؟

ج: میری پیدائش ۱۹۷۲ء؁ میں چنڈی گڑھ میں ہوئی۔ میں جب پانچویں کلاس میں تھی تو والد صاحب کا انتقال ہوگیا۔ والد صاحب کے انتقال کے بعد والدہ نے ایک پرائیویٹ اسکول میں نوکری کرلی، تاکہ گھر اور ہماری تعلیم کے اخراجات پورے کیے جاسکیں۔ ہم دو بہن بھائی ہیں، ہم لوگ ہندوؤں میں اعلیٰ ذات سے تعلق رکھتے تھے اور برہمن خاندان سے تھے۔ گھر کے ہر فرد کی طرح میں بھی پوجا پاٹ کے لیے مندر جاتی تھی، میرے گھر کے لوگ درگاہ پر بھی چادر چڑھانے کے لیے جاتے تھے۔ میرا پورا خاندان جے پور (راجستھان) کا رہنے والا ہے۔

والدہ صاحبہ ابھی حیات ہیں میری والدہ دو بہنیں ہیں ان کا کوئی بھائی نہیں ہے۔ والد دو بھائی اور ایک بہن ہیں۔ والد کے بڑے بھائی امریکہ میں رہتے ہیں میری پھوپھی کینیڈا میں رہتی ہیں۔

س: آپ کی تعلیم، غیر تعلیمی صلاحیتیں، اور مشاغل وغیرہ؟

ج: جے پور سے میں نے بی اے (آنرس) کیا تھا اس کے بعد ۲۲ سال کی عمر میں میری شادی ہوگئی۔ شادی کے بعد B.Ed.اور اس کے بعد انگریزی میں M.A.کیا۔ اس کے علاوہ مانٹیسری ٹریننگ کا ایک سال کا کورس اور ارلی چائلڈ ہوڈ ایجوکیشن میں بھی ڈپلوما کیا۔ کیریر گائڈنس سے میری خاصی دلچسپی رہی ہے اور میں نے اس میدان کا بھی ایک ڈپلوما حیدرآباد سے کیا ہے۔ میں نے ایک سال ٹریننگ پروف ریڈنگ میں بھی حاصل کی ہے اور ایک کمپنی میں کوالٹی انالسٹ کی حیثیت سے ایک سال نوکری بھی کی ہے۔ لیکن میرا اصل میدان اور دلچسپی تعلیم و تربیت ہی ہے اور اس وقت میں کریسینٹ گرلس جونئیر کالج کی پرنسپل ہوں۔

س: آپ اسلام سے کب اور کیسے متعارف ہوئیں؟

ج: اسلام سے قربت کا میرا تجربہ عجیب ہے۔ یہ ۱۹۹۱ کی بات ہے جب میں کریم نگر (آندھرا پردیش) میں ایک اسکول میں ٹیچر تھی جو مسلم اسکول تھا۔ ایک روز میں کلاس لے رہی تھی کہ ایک لڑکی نے دوسری لڑکی سے کہا کہ’’ صرف مسلمان ہی جنت میں جائیں گے۔‘‘ یہ بات مجھے بہت کھٹکی۔ صرف مسلمان ہی جنت میں کیوں جائیں گے؟ اس لڑکی کی بات نے میرے دل میں ایک ہلچل پیدا کردی اور میں سوچنے لگی آخر ایسا کیوں ہوگا؟ اس لڑکی کی یہ بات اس وقت تو مجھے بہت بری لگی تھی لیکن اس کے الفاظ نے میری زندگی میں ایک انقلاب پیدا کردیا۔ اس کی بات نے مجھے اتنا زیادہ جھنجھوڑا کہ میں نے یہ فیصلہ کر لیا کہ یہ سوال میں اپنی اسکول کی پرنسپل (ذاکرہ مشتاق بلام) سے جو اس اسکول کی مالک اور جماعت اسلامی کی کارکن تھیں، کیا۔ جب میں نے ان سے یہ سوال پوچھا تو انھوں نے مجھے حلقہ خواتین کے اجتماع میں آنے کی دعوت دی اور میں اجتماع میں جانے لگی پھر کیا تھا مجھے یہ اجتماع اچھا لگنے لگا یہاں تک کہ اجتماع میں میں ساری مسلم عورتوں سے گھل مل گئی اور مسلم عورتیں میری دوست ہوگئیں۔

اسکول کی مالکن اونر نے مجھے کچھ کتابیں مطالعہ کے لیے دیں۔ ان سب کتابوں کا میں نے تنہائی میں سنجیدگی سے مطالعہ کیا۔ خوش قسمتی سے جب میں گھر پر ان کتابوں کا مطالعہ کرتی تو میرے شوہر بھی کچھ نہیں کہتے تھے۔ مریم جمیلہ کی کتاب ، پردہ، تفہیم القرآن اور شہادت حق پڑھ کر میں بہت متاثر ہوئی تھی۔

۱۹۹۹ تک میرا مطالعہ چلتا رہا، اب میں بالکل مسلم سوسائٹی میں رہنے لگی تھی۔ میرا مزاج تحقیقی رہا ہے اور میں ہمیشہ یہ جاننے کی کوشش کرتی رہی ہوں کہ ایسا کیوں ہوتا ہے اور کیسے ہوتا ہے؟ تحقیق کرنے کی عادت بچپن سے رہی اس مزاج نے اسلام تک پہنچنے میں بھی میری مدد کی۔

س: آپ باقاعدہ مسلمان کب ہوئیں اور کیسے؟

ج: نومبر ۱۹۹۹ء میں میں پورے طور سے اسلام میں داخل ہوگئی۔ کتابوں کے مطالعہ نے میری دنیا ہی بدل کر رکھ دی اب میرے دل میں آخرت،قیامت، خدا کے سامنے جواب دہی کا خیال راسخ اور پختہ ہوچکا تھا اور پردہ کرنا بھی مجھے پسند آنے لگا تھا۔ حالاں کہ میرے شوہر ابھی ہندو ہی تھے، لیکن اللہ کا شکر ہے کہ وہ اس کے بعد بھی مجھے ان سب باتوں سے روکتے نہیں تھے۔

س: اسلام قبول کرنے کے بعد دوستوں اور خاندان کا ردِّعمل کیا تھا؟

ج: میرے لیے سب سے بڑا مسئلہ میرے شوہر کا تھا، کیونکہ میری شادی جب ۲۲ سال کی عمر میں ہوئی تو وہ بالکل ہندورسم و رواج کے مطابق ہوئی تھی اس وقت اسلام کا تصور بھی ہمارے ذہنوں میں نہیں تھا۔ میرے شوہر جن کا پرانا نام ونے شرما تھا اور اب عمر فاروق ہے، وہ مندر جاکر پوجا پاٹ کرتے لیکن مجھے اس کے لیے مجبور نہیں کرتے تھے۔ میں اسلامی لٹریچر کا مطالعہ کرتی تو وہ اس سے بھی مجھے نہیں روکتے تھے یہاں تک کہ انھوں قرآن کے پڑھنے سے بھی کبھی مجھے نہیں روکا۔ گھر میں ایک طرف میں خاموشی سے مطالعہ کرتی رہتی، البتہ جب میں اسلام کے بارے میں کچھ بتانے کی کوشش کرتی تو وہ مجھ سے کہتے کہ میں اس بارے میں کچھ بھی نہیں جاننا چاہتا۔ تم کو جو کچھ کرنا ہے کرو۔ جب میں نے شوہر سے اسلام قبول کرنے کی اجازت مانگی تو انھوں نے کہا جو کرنا ہے تم کرو، یہ تمہارا معاملہ ہے۔ میں نے اپنی یہ ساری باتیں حلقہ خواتین کی مقامی ناظمہ (جاویدہ بیگم ورنگلی) کو بتائیں جب میںنے یہ بتایا کہ میرے شوہر نے مجھے اسلام قبول کرنے کی اجازت دے دی ہے تو انھوں نے کہا کہ صرف شوہر کی اجازت ہی کافی نہیں بلکہ ان کو بھی اسلا م قبول کرنا ہوگا ورنہ شوہر کو چھوڑنا ہوگا یہ سن کر میں پریشان ہوئی اس لیے کہ ایک عورت کے لیے سب سے بڑا مسئلہ یہی ہوتاہے۔ میں تنہائی میں نمازیں پڑھتی، روزے رکھتی، پاک صاف رہتی اور اپنی زندگی بالکل اسلامی طریقے سے گزارنے لگی تھی۔

اب میرے لیے دوسرا اور انتہائی دشوار مرحلہ اپنے شوہر کو اسلام قبول کرنے کے لیے تیار کرنا تھا۔ سب سے پہلے میں نے ان کو رسالہ دینیات کا مطالعہ کرنے کے لیے دیا۔ میں اکیلے میں ان کو بٹھا کر سمجھاتی رہتی۔ کچھ کچھ باتوں پر بحث و مباحثہ کرتی اور حق ان پر واضح کرنے کی کوشش کرتی۔ گھر میں مورتی رکھی ہوئی تھی وہ پوجا کرتے مگر میں مورتی پوجا نہ کرتی بلکہ الٹا انہیں ایسا نہ کرنے کے لیے کہتی تو وہ مجھے ڈانٹتے بھی نہیں۔ اللہ کا شکر ہے کہ میری باتوں کا ان پر اثر ہونے لگا۔ میں نماز میں اور تنہائی میں ان کے لیے دعائیں کرتی۔ پھر اللہ تعالیٰ نے میری دعا قبول کی اور وہ آہستہ آہستہ اسلام کی طرف راغب ہونے لگے، وہ قرآن سنتے اور اسلامی لٹریچرکا مطالعہ کرتے رہتے۔ پھر وہ بھی راضی ہوگئے اور ہم دونوں نے اسلام قبول کرلیا۔

دوستوں کو جب معلوم ہوا تو وہ خاموش رہے، خاندان والوں سے کافی دور تھی اس لیے ان لوگوں کو اس کا علم بھی نہیں ہوا کہ ان کی طرف سے کوئی مخالفت ہوتی۔

س: ہندو مذہب اور اسلام میں بنیادی فرق کیا ہے؟

ج: سب سے بڑا فرق آخرت کا تصور ہے۔ قرآن بالکل واضح کرتا ہے کہ انسان کی پیدائش دنیا میں دوبارہ نہیں ہوگی۔ مرنے کے بعد اسے زندہ کیا جائے گا، اور قیامت برپا ہوگی اور کئی خداؤں کی نہیں بلکہ صرف ایک ہی خدا کی عبادت کرنی چاہیے۔

س: آپ کے خیال میں عہد حاضر میں تبلیغ اسلام کا صحیح ترین طریقہ کیا ہے؟

ج: اپنی عملی زندگی کے ذریعے اسلام کا صحیح تصور پیش کیا جاسکتا ہے۔ میں سمجھتی ہوں کہ تبلیغ اسلام کا سب سے صحیح طریقہ یہی ہے، سارے پیغمبروں کا طریقہ یہی رہا ہے، آخری نبیؐ کا بھی یہی طریقہ رہا۔ صحابہ کرام کا طریقہ یہی رہا،امہات المومنین کا بھی یہی طریقہ رہا ہے۔

س: اسلام قبول کرنے کے بعد آپ حجاب (پردہ) میں رہنے لگیں، اس سے اب آپ کیسا محسوس کرتی ہیں؟

ج: میں پہلے سے اپنے آپ کو بہت محفوظ محسوس کرتی ہوں۔ بے پردہ رہنے والی عورتوں پر دوسرے مردوں کی نگاہیں پڑتی ہیں، حجاب میں رہنے والی عورتوں پر اللہ کی خاص رحمت ہوتی ہے۔

س: اسلام کے ساتھ پیدائشی اور نسلی مسلم عورتوں نے جو سلوک روا رکھا ہے، اس پر آپ کیا تبصرہ کریں گی؟

ج: میں اپنی ملّی بہنوں سے کہنا چاہوں گی، اللہ رب العزت نے انہیں مسلم گھرانے کی شکل میں اسلام کی امانت بخشی ہے، یہ ان پر اللہ کا خاص انعام ہے کہ انہیں مسلم گھروں میں پیدا کیا، انہیں چاہیے کہ وہ اس امانت کا خیال رکھیں۔ قرآن میں اللہ نے کہا ہے کہ امانتیں اہلِ امانت کے سپرد کرو، مسلم خواتین کو چاہیے کہ وہ اپنی زندگی مغربی تہذیب کی غلامی میں نہ گزاریں بلکہ اسلامی تہذیب کی غلامی میں گزاریں۔ حجاب کے بغیر مسلم عورتوں کی زندگی مکمل ہو بھی نہیں سکتی۔ قرآن میں بار بار حجاب کی تاکید کی گئی ہے۔ حجاب میں رہ کر اپنی زندگی گزاریں، بے پردہ عورتوں پر اللہ کی لعنت ہے۔

مزید

حالیہ شمارے

ماہنامہ حجاب اسلامی شمارہ ستمبر 2023

شمارہ پڑھیں

ماہنامہ حجاب اسلامی شمارہ اگست 2023

شمارہ پڑھیں