ہمارے نکمّے پن کی کوئی حد نہیں۔
آفس سے نکلے تو گاڑی حسیب بھائی کی طرف موڑ دی کہ وہ کئی دنوں سے یاد کررہے تھے۔
فون بجا، کال گھر سے تھی، ابا حضور کی آواز آئی:’’ کہا ںہو، اب تک گھر کیوں نہیں پہنچے؟‘‘
ہم نے حسیب بھائی کا بتایا۔
’’نازیہ کی طبیعت اتنی خراب ہے اور تمہیں کچھ خیال ہی نہیں۔ نالائق فوراً گھر پہنچو اور اسے لے کر ڈاکٹر کے پاس جاؤ۔‘‘
ہمارے دل میں عجیب عجیب ہول اٹھنے لگے۔ نہ جانے کیا ہوگیا۔ صبح تک ہلکا سا نزلہ تھا۔ انہی خیالوں میں غلطاں وپیچاں گھر پہنچے۔ اب ہمارے پاس آٹومیٹک لاک کی چابی ہوا کرتی تھی۔ لہٰذا سیدھے اندر تک دھمک پڑے۔ کیا دیکھتے ہیں موصوفہ کچن میں کھڑی پیاز کاٹنے میں مصروف ہیں۔
’’ارے باپ رے باپ! یہ کیا کررہی ہو؟‘‘
’’السلام علیکم! پیاز کاٹ رہی ہوں۔‘‘ وہ مسکرا کر بولیں۔
’’چھوڑو پیاز و یاز کو، اماں ابا نے دیکھ لیا تو غضب ہوجائے گا۔‘‘ ہم گھبرا کر بولے۔
’’ارے وہ کیوں… روز ہی تو کاٹتی ہوں۔‘‘ وہ بھنویں اچکا کر بولیں۔ ویسے بھی کم پیاری نہیں تھیں، ایسے میں اور زیادہ لگنے لگیں۔
’’تمہاری طبیعت خراب ہے نا؟‘‘
’’ارے نہیں… ہلکا سا نزلہ ہے۔‘‘ وہ ناک سوں سوں کرکے بولیں۔
’’تمہیں تو ہلکا سا ہوگا، پر مجھ پر بہت سارا گرے گا، تمہارے ابا نے اگر اس طرح کام کرتے تمہیں دیکھ لیا۔ خدا کے لیے کچن چھوڑو اور کمرے میں چلو۔‘‘ ہم نے منت سماجت کی۔ ابا ہماری شادی سے پہلے تک ہمارے تھے، اب ان کے زیادہ ہوگئے تھے، اماں کا بھی یہی حال تھا۔ نازیہ نے ان دونوں کی خدمت ہی کچھ اتنی زیادہ کی تھی اور اس محبت سے کی تھی کہ سب کو اپنا گرویدہ کرلیا تھا۔
گویا ماں باپ کی محبت میں وہ ہماری رقیب بن چکی تھیں، لیکن ایسا رقیب کسے برا لگتا ہے، ہم انہیں زبردستی کمرے میں کھینچ لائے۔
’’دیکھو ڈاکٹر کے یہاں تو چلنا ہی پڑے گا، چاہے بیماری ہو یا نہ ہو۔‘‘ ہم نے فیصلہ سنایا۔
’’میں خود ڈاکٹر ہوں مجھے بھلا کیا ضرورت ہے!‘‘ وہ ناز سے بولیں۔
’’ابا نے فون کرکے مجھے حکم دیا ہے کہ تمہیں ڈاکٹر کے پاس لے جایا جائے ورنہ وہ مجھے چھوڑیں گے نہیں۔‘‘
’’کیا دھمکی دی تھی؟‘‘
’’انداز تو ایسا ہی تھا۔‘‘ ہم نے کندھے اچکائے۔
’’کروں گی کیا ڈاکٹر کے پاس جاکے؟‘‘
’’کچھ بھی کر آئیں گے، یہاں سے تو نکلیں۔ کہیں ابا نہ آجائیں۔‘‘ ہمارے سر پر تلوار لٹک رہی تھی۔
کسی نہ کسی طرح ہم ڈاکٹر صاحبہ کو لے کر گاڑی میں بیٹھے۔
’’کچھ کھاتے پیتے ہیں اور گھر چلتے ہیں۔‘‘ انھوں نے مشورہ دیا۔
’’واپس آکر جھوٹ بولیں گے؟‘‘ ہم کو صرف ابا حضور کے سامنے جواب دہی کا خوف تھا۔
’’میں آئینہ میں دیکھ لیتی ہوں اپنے آپ کو، بتادیجیے گا کہ ڈاکٹر نے دیکھ لیا مجھے۔‘‘
’’بہت خوب۔‘‘ ہمارے سر سے بوجھ ٹلا۔
’’اب کوئی گرما گرم چیز پیتے ہیں، بھاپ اڑاتی۔‘‘ نازیہ خوش ہوکر بولیں۔
’’ہاں سوپ صحیح رہے گا۔‘‘ ہم نے کہا تو انھوں نے سر ہلادیا۔
’’یہ تم اپنے اماں ابا کو سمجھاتی کیوں نہیں ہو؟‘‘ ہم مصنوعی غصہ چہرے پر طاری کرتے ہوئے بولے۔
’’اولاد بھلا کیا سمجھائے گی والدین کو۔‘‘
’’یہ تو بتاہی سکتی تھیں نا! کہ ہلکا سا نزلہ ہے، ایک آدھ خوراک دوا سے ٹھیک ہوجائے گا، خواہ مخواہ میں اتنی ٹینشن پھیلی۔‘‘
’’ابا نے کوئی مجھ سے پوچھ کر تھوڑا ہی کیا تھا فون، مجھے تو خبر بھی نہیں۔‘‘
’’کیا جادو کیا ہے تم نے میرے اماں ابا پر… کمال ہے۔‘‘ ہم نے داد دی۔
’’آپ پر بھی تو کیا ہے، بھول گئے کیا۔‘‘ وہ ادا سے بولیں۔
’’ایک بات بتاؤں نازیہ؟‘‘
’’چھوڑیں نہ بتائیں۔‘‘ وہ ہنسیں، ہمارا منہ بن گیا۔
’’اچھا بتا دیجیے۔‘‘ انھوں نے اصرار کیا۔
’’نہیں بتاتا!‘‘ ہم روٹھ کر بولے۔
’’معافی!‘‘ انھوں نے دونوں ہاتھ جوڑے
’’میں تم سے جو محبت کرتا ہوں نا اس کی آدھی وجہ یہ ہے کہ تم مجھ سے محبت کرتی ہو۔‘‘ ہم نے سکتہ دیا۔
’’اور باقی آدھی وجہ یہ ہے کہ تم میرے والدین سے محبت کرتی ہو، اور ان کی وہ خدمت کرتی ہو، جو میں نہ کرسکا۔‘‘ ہم جذباتی ہوگئے۔
’’کیا بات کرتے ہیں، وہ صرف آپ کے والدین نہیں ہیں۔‘‘
’’ہاں… صرف تمہارے والدین ہیں۔‘‘ ہم مسکرائے۔
گھر پہنچے تو سوچا کہ اب اماں ابا کو سلام کرلیں کہ نازیہ کو اب ’’ڈاکٹر‘‘ نے دیکھ لیا تھا اور کم ڈانٹ پڑنے کی توقع تھی۔ ابھی ہم ان کے کمرے کے نزدیک ہی پہنچے تھے کہ اندر سے اماں کی آواز آئی۔ ’’خواہ مخواہ آپ نے انہیں ڈاکٹر کے یہاں بھیجا۔‘‘
’’سوال ہی نہیں پیدا ہوتا کہ وہ ڈاکٹر کے یہاں جائیں، دیکھ لینا ضرور کچھ کھا پی کے ہی لوٹیں گے۔‘‘ ابا بولے تو ہم ٹھٹک گئے ۔ اولاد سمجھتی ہے کہ ماں باپ کچھ جانتے ہی نہیں۔
’’احمد پر تو یہ قیاس ٹھیک ہوتا، لیکن ہماری نازیہ بیٹی، ہم سے پوچھے بغیر کھانا نہیں کھاتی۔‘‘ اماں ناز سے بولیں۔
’’کچھ پی آئیں گے، کافی سوپ وغیرہ۔‘‘
’’پھر تو سوپ ہی پی کر آئیں گے، کیوں کہ کافی نازیہ کو پسند ہے، احمد کو نہیں اور سوپ احمد کو پسند ہے اور نازیہ کو نہیں… اور نازیہ کو تو آپ جانتے ہی ہیں۔‘‘
ہمارے دل پر ایک چرکا سا لگا۔ یا دآیا جب نازیہ نے کہا تھا ’’کوئی گرما گرم چیز پیتے ہیں، بھاپ اڑاتی۔‘‘
ہم صرف سلام کرکے واپس پلٹ گئے۔ ایسے والدین کو کیا غلط خبر دیتے جو سب کچھ ٹھیک ٹھیک جانتے تھے۔ افسوس تو اس بات کا تھا کہ ہم ہی کو نازیہ کی پسند معلوم نہ تھی اور اسی لیے ہم کہتے ہیں۔ ’’ہمارے نکمّے پن کی کوئی حد نہیں۔‘‘