گزشتہ پندرہ بیس دنوں کے اندر ملک میں دو واقعات ایسے ہوئے جن کی ابتدائی چند دنوں تو میڈیا میں کافی گونج رہی لیکن اس کے بعد جب واقعات کی پرتیں کھلنی شروع ہوئیں تو میڈیا سے غائب ہوگئے۔ حقیقت میں نفرت اور سنسنی پھیلانے والے ملکی میڈیا سے انہیں غائب ہو ہی جانا تھا۔ اگر میڈیا ان پر زیادہ بحث و تکرار کرتا تو جو لوگ ان سے فائدہ اٹھانا چاہتے تھے ان کے لیے مزید مشکلات پیدا ہوسکتی تھیں۔ ان دو واقعات میں ایک واقعہ تو راجستھان کے شہر اُدے پور کا تھا، جہاں مسلمان نام سے پہچانے جانے والے دو نوجوانوں نے ایک غیر مسلم ٹیلر کا قتل کردیا۔ مقتول کے بارے میں یہ بات ثابت شدہ تھی کہ اس نے نوپور شرما کی حمایت کی تھی ، جو اہانتِ رسول کی مرتکب ہوئی تھی اور جس کو ملک کی سپریم کورٹ نے سخت پھٹکار لگاتے ہوئے ملک سے معافی مانگنے کو کہا تھا اور حالات کے بگاڑ کا اسی کو ذمہ دار ٹھہرایا تھا۔ اس قتل کی خبر نے اچانک ملک میں سیاسی نفرت کو ابال پر چڑھا دیا تھا۔ ایک دو دن بعد کانگریس کے ترجمان نے ان دو نوجوانوں میں سے ایک کا کچا چٹھا کھولا تو پتہ چلا کہ وہ نفرت کی سودا گری کرنے والی اقلیت مخالفت سیاسی پارٹی کارکن اور اس کے قائدین سے قریب تھا۔ اس بارے میں ثبوت کے طور پر اس کی وہ تصویریں بھی وائرل ہوئیں جو لیڈران کے ساتھ کھنچوائی گئی تھیں۔
دوسرا واقعہ کشمیر کا ہے جہاں ایک گاؤں کے لوگوں نے دو دہشت گردوں کو پکڑ کر پولیس کے حوالے کردیا۔ ان میں سے ایک کے بارے میں بھی یہی باتیں سامنے آئیں کہ وہ سیاسی اعتبار سے اقلیت مخالف سیاست دانوں سے قریب تھا۔ یہ بات اہم ہے کہ اُدے پور کے واقعے کی مسلمانوں نے انفرادی اور اجتماعی ہر اعتبار سے مذمت کی اور یہ عین فطری بات ہے کیونکہ اسلام اور مسلمان اس طرح کی کسی حرکت کی شرعی، اخلاقی اور سماجی و سیای ہر اعتبار سے مخالفت کرتے ہیں۔ اور حقیقت بھی یہی ہے کہ اس طرح کی کوئی بھی حرکت غیر اسلامی، غیر اخلاقی اور سماج میں فساد پھیلانے کا ذریعہ ہے۔
ان دونوں واقعات سے ہندوستان کے مسلمانوں نے کچھ نیا سیکھا اور وقت و حالات کی کچھ نئی جہتیں ان کے سامنے آئی ہیں۔ اگر ان دونوں واقعات کو ’دہشت گردی‘ فرض کرلیا جائے تو یہ سوال ضرور پیدا ہوگا کہ اگر وہ افراد اسی طرح کے شدت پسند تھے، جس کا مظاہرہ انھوں نے اپنے عمل سے کیا تو وہ ان ’سیاسی گروؤں‘ سے اتنے قریب اور ان کے ساتھ کیوں اور کیسے تھے؟ اور اگر وہ بعد میں اس قدر شدت پسند ہوئے تو اس کے اسباب و عوامل کیا ہوسکتے ہیں۔ وہ کس کے لیے کام کررہے تھے اور کیوں کررہے تھے۔ کہیں ایسا تو نہیں کہ انہی لوگوں نے انہیں اپنے مقاصد کے لیے استعمال کیا اور انھوں نے جو کچھ کیا اس کا سیاسی استعمال ہی ان کا مطمح نظر تھا۔ ہر دو صورتوں میں یہ بات واضح ہے کہ وہ اسلام اور ہندوستانی مسلمانوں سے زیادہ ’اپنے مفاد‘ کے حق میں کام کررہے تھے یا ان لوگوں کے لیے کام کررہے تھے جنھوں نے ان واقعات سے سیاسی فائدہ اٹھانے کی کوشش کی۔
ہندوستان میں مذہبی بنیاد پر نفرت اور کشمکش کے اس دور میں اور حق و ناحق کی کشمکش کے ہر دور میں ناحق کے علم برداروں کی یہ کوشش ہوتی ہے اور اب بھی ہوگی کہ وہ اپنے مخالف گروہ سے ’اپنے کام کے‘ افراد تلاش کریں، اپنے لیے انہیں استعمال کریں اور ان سے پیدا ہونے والے حالات سے سیاسی فائدہ اٹھالیں۔
اب یہ سوال ہندوستان کی اقلیت کے لیے اہم ہے کہ وہ یہ دیکھے، سوچے اور تدارک کی کوشش کرے کہ ان کے نوجوان کہیں کسی لالچ، مفاد یا دھوکہ کا شکار ہوکر مخالفین کے فائدے اور ان کے اپنے نقصان کا سبب تو نہیں بننے پر آمادہ ہورہے ہیں؟ اس کے لیے ضروری ہے کہ ان کے اندر حالات کا پختہ اور گہرا سیاسی شعور بیدار کرنے کی فکر کرے، اس کے لیے منصوبہ بندی کرے اور اس بات کے لیے پہرے بٹھائے کہ اس کے نوجوان کسی بھی لالچ میں آکر مخالف گروہ کی سیاسی مہم کا شکار نہ ہوپائیں۔
یہ فکر ظاہر میں مخالف نظر آنے والے گروہوں ہی کے سلسلے میں کافی نہیں ہے بلکہ ان گروہوں کے سلسلے میں بھی ضروری ہے جو بہ ظاہر اسلام کا نام لے کر اور مسلمانوں کے مفاد کا حوالہ دے کر جذباتی استحصال کی کوشش کریں۔ دونوں گروپ اگرچہ الگ الگ ہیں، مگر نقصان کے اعتبار سے دونوں یکساں ہیں۔
ان دونوں و اقعات سے یہ بات واضح طور پر ابھر کر سامنے آئی ہے کہ یہ صورتِ حال ہندوستانی مسلمانوں کے لیے ایک نیا چیلنج بن سکتی ہے۔ اس چیلنج کا مقابلہ ہم اپنے نوجوانوں کو اعلیٰ تعلیم، مثبت اور تعمیری سوچ اور دور اندیشانہ ذہن کی تعمیر و تشکیل کرکے ہی کرسکتے ہیں۔ ہمیں یہ بات اچھی طرح سمجھ لینی چاہیے کہ حالات لمحوں میں نہ تو بگڑتے ہیں اور نہ لمحوں میں سدھرتے ہیں۔ قوموں کی زندگی میں حالات کی بہتری کے لیے طویل، مثبت اور دانشمندانہ سوچ کی ضرورت ہوتی ہے جسے ہمیں اپنے اندر پیدا کرنا ہوگا۔
شمشاد حسین فلاحی