سورہ یٰسین میں اللہ رب العزت فرماتا ہے: ’’تاکہ تم خبردار کرو ایک ایسی قوم کو جس کے باپ دادا خبردار نہ کیے گئے تھے۔ اسی وجہ سے یہ غفلت میں پڑے ہوئے ہیں۔‘‘
آپؐ نے فرمایا: ’’سورئہ یٰسین قرآن کا دل ہے۔‘‘ اور تاکید فرمائی کہ یہ سورئہ ہر مسلمان کے دل میں رہنی چاہیے۔ یہی سبب ہے کہ آخری پارے کی چھوٹی چھوٹی سورتوں کے علاوہ جو سورہ سب سے زیادہ پڑھی جاتی ہے، یا یاد کی جاتی ہے وہ یہی سورت ہے۔
اس کی کثرتِ تلاوت کے باوجود امتِ مسلمہ کے نزدیک یہ قابلِ توجہ امر نہیں کہ اس سورہ کو پڑھنے اور سمجھنے کی اتنی تاکید کیوں ہے؟ اس کی خصوصیت کیا ہے یا اسے دل کی حیثیت کیوں دی گئی؟ مسلم ذہن میںیہ بات نہیں آتی کہ بظاہر قرآن کے براہِ راست مخاطب آپؐ تھے، مگر بالواسطہ تمام اہلِ ایمان اس کے مخاطب ہیں۔مگر کیا ہم مذکورہ بالا آیت کا حق ادا کرتے ہیں؟ یا صرف نزولِ برکت یا کارِ ثواب ہمارے پیشِ نظر ہے؟ یہ آیت ہم سے کیا مطالبہ کرتی ہے؟
آپؐ کی زندگی، آپ کا مشن اور اس کے لیے جدوجہد ہمارے سامنے ہے۔ آپؐ نے فرمایا :’’میری مثال اس شخص کی طرح ہے، جس نے آگ جلائی اور پروانے اندھا دھند اس آگ پر ٹوٹے پڑرہے ہیں۔‘‘ نارِ جہنم سے حتی الامکان ہم بچنے کی کوشش تو کرتے ہیں مگر کیا ہم دوسروں کو اس سے بچانے کی فکر بھی اس انداز میں کرتے ہیں جس کا حضورﷺ نے اس حدیث میں ذکر فرمایا ہے۔
قرآنی سورتوں میںہم جابجا دوزخ کی تصویر دیکھتے ہیں تو خوف سے رونگٹے کھڑے ہوجاتے ہیں۔ مثلاً سورئہ ابراہیم میں فرمایا گیا ہے: ’’اس دن تم مجرموں کو دیکھو گے کہ زنجیروں میں ہاتھ پاؤں جکڑے ہوں گے۔ تارکول کے لباس پہنے ہوں گے۔ اور آگ کے شعلے ان پر چھائے جارہے ہوں گے۔‘‘
سورہ الکہف میں فرمایا: ’’ہم نے ظالموں کے لیے آگ تیار کررکھی ہے۔ جس کی لپٹیں انھیں گھیرے میں لے چکی ہیں۔ وہاں اگر وہ پانی مانگیں گے تو ایسے پانی سے ان کی تواضع کی جائے گی جو تیل کی تلچھٹ جیسا ہوگا۔ جو ان کا منھ بھون ڈالے گا۔‘‘ دوسری جگہ فرمایا: ’’آگ ان کے چہروں کو چاٹ ڈالے گی، جس سے ان کے چمڑے نکل آئیں گے۔‘‘
دن بھر کی نماز کے بعد آخری رکعت میں ہم سب دہراتے ہیں: ان عذابک بالکفارِ ملحق۔ بے شک کافروں کو تیراعذاب ملنے والا ہے۔مگر یہ کیسا حقِ ہمسائیگی ہے کہ وطنی بہنوں سے ہم ہر طرح کا معاملہ رکھتے ہیں۔ ان کے دکھ درد میں شریک ہوتے ہیں۔ تہواروں کے موقع پر اور شادی بیاہ میں لین دین ہوتا ہے۔ ایک دوسرے کے ساتھ گھنٹوں تفریحی گفتگو بھی ہوتی ہے۔ مگر یہ ہماری حد سے بڑھی ہوئی غفلت ہے یا خود غرضی کہ ہم انہیں دوزخ کی آگ سے بچانے کی کوئی فکر نہیں کرتے، ہمارے دل میںان کے لیے درد نہیں،تڑپ نہیں، اور اس کا احساس تک نہیں۔
قرآن و حدت بنی آدم کاجوتصور دیتا ہے اس کے مطابق اور ایک حدیث کی رو سے بھی تمام خداکی مخلوق کنبے اور خاندان کے مانند ہے۔ مگر اس کو بھڑکتی آگ سے بچانے کے لیے ہم کیا کررہے ہیں؟ یہ نہایت اہم سوال ہے۔ کیا جواب ہے امتِ مسلمہ کے پاس؟ جب یہ رب کے سامنے فریاد کریں گے اور ہمارا دامن تھام کر بتائیں گے کہ رب العالمین تیرے ان بندوں نے تو کبھی ہمیں تیرا پیغام سنایا ہی نہیں۔ رب العزت! تیرے ان فرمانبردار بندوں سے ہمارے تعلقات بہت اچھے تھے۔ مگر حقِ ہمسائیگی ادا کرنے کے باوجود، اور کفر کے اندھیروں میں بھٹکتے دیکھنے کے باوجود انھوں نے ہمیں نورِ حق سے محروم رکھا۔ قرآن کو ہدی للناس سمجھنے کے بجائے ورثہ میں ملی کتاب سمجھا۔ آپؐ کو رحمۃ للعالمین نہیں رحمۃ للمسلمین بنادیا اور جنت پر اپنی اجارہ داری سمجھی۔ اے الٰہ العالمین! اگر ہم انکارِ حق کے مجرم ہیں تو یہ کتمانِ حق کے مجرم ہیں۔ انھیں اس جرم کی پوری سزا دی جائے۔
——