سوچ میں تبدیلی کی ضرورت

شمشاد حسین فلاحی

زندگی کی بنیاد سوچ اور فکر پر ہوتی ہے، جیسی سوچ ہوگی ویسا ہی عمل ہوگا۔ اور جب بات عمل کی ہو تو ہم یقین کے ساتھ کہہ سکتے ہیں کہ ہر انسان کا عمل نہ صرف اس کی اپنی زندگی کو متاثر کرتا ہے بلکہ سماج، معاشرے، خاندان اور ماحول پر بھی اس کا اثر پڑتا ہے۔ اس بات کا انسانی نفسیات کے ماہرین کچھ اس طرح تجزیہ کرتے ہیں کہ میز پر سامنے رکھا ہوا گلاس آدھا خالی ہے مگر دوسرا شخص اسی گلاس کو دیکھ کر کہتا ہے کہ یہ گلاس آدھا بھرا ہوا ہے۔ ایک قول منفی سوچ کی عکاسی کرتا ہے اور دوسرا قول مثبت سوچ کی۔ حالاں کہ دونوں ہی باتیں حقیقت پر مبنی ہیں مگر سوچنے کا انداز الگ الگ ہے۔

ایک حکایت بیان کی جاتی ہے کہ ایک مرتبہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام اپنے حواریوں کے ساتھ کہیں جا رہے تھے۔ راستے میں ایک مرا ہوا کتا پڑا تھا، جس سے تعفن ہو رہا تھا۔ کسی نے کہا کہ کتا کتنا گندہ جانور ہے دیکھو کس قدر بدبو آرہی ہے۔ یہ سن کر حضرت عیسیٰ علیہ السلام نے کہا کہ دیکھو اس کے دانت کتنے سفید چٹے اور چمک دار ہیں۔ بات واضح ہے کہ مثبت سوچ رکھنے والے اپنے لیے اور اپنی ذات کی اصلاح کے لیے کوئی نہ کوئی مثبت پہلو نکال ہی لیتے ہیں اور ایسا صرف اس وجہ سے ہوتا ہے کہ ان کی سوچ مثبت ہوتی ہے۔ وہ برائی کے پیچھے پڑنے کے بجائے اچھائیاں تلاش کرتے ہیں اور ان اچھائیوں کو اپنی زندگی میں جاری و نافذ کرنے کی فکر کرتے ہیں۔ کہا جاتا ہے کہ ایک مرتبہ کسی نے حکیم لقمان سے پوچھا کہ آپ نے ادب و سلیقہ کہاں سے سیکھا؟ انھوں نے جواب دیا کہ بے ادبوں سے۔ سننے والا حیران ہوا اور بولا ایسا کیسے ہو سکتا ہے۔ انھوں نے جواب دیا کہ جو برائی ان کے اندر دیکھی بس اس سے اپنا دامن بچا لیا۔ کتنی بڑی حقیقت ہے اور ہماری عملی زندگی سے کس قدر گہرا تعلق رکھتی ہے اور حقیقت یہ ہے کہ ہماری سوچ ہی ہماری سماجی، معاشرتی، معاشی اور خاندانی زندگی میں ہمارے رویوں کو متعین اور مستحکم کرتی ہے۔ اگر ہم منفی سوچ کے ساتھ زندگی گزارتے ہیں اور لوگوں کے ساتھ اسی منفی سوچ کے ساتھ معاملہ کرتے ہیں، جو غلط اور تکلیف دہ بات ہے، تو ہماری زندگی میں بھی دشواریاں، مشکلات اور نفرتیں گھل جاتی ہیں اور اگر ہم اس کے برعکس اچھی سوچ کے ساتھ زندگی جیتے اور لوگوں سے معاملات کرتے ہیں تو ہمیں خوشیاں، محبتیں اور احترام و ذہنی سکون حاصل ہوتا ہے اور زندگی میں اگر سکون، اطمینان اور مسرتیں حاصل ہوں تو یہ زندگی کی بڑی کامیابی ہے جو کم ہی لوگوں کو حاصل ہوتی ہے۔

رسولِ پاکؐ کی زندگی کو اگر ہم بہ غور دیکھتے ہیں تو اندازہ ہوتا ہے کہ آپ کی زندگی منفی سوچ سے کس قدر پاک تھی اوراس میں مثبت اور اچھی سوچ کس قدر پختہ طور پر رواں دواں تھی۔ طائف کی واویوں میں لہولہان ہونے کے باوجود آپؐ کی زبان پر اہل طائف کے لیے بد دعا نہ آئی۔ اسی طرح مکہ کی زندگی میں اپنے ان دشمنوں کے لیے بھی، جو دن رات آپؐ کو تکلیف پہنچاتے نہ تھکتے تھے، کبھی بدخواہی کے جذبے نے سر نہ اٹھایا۔ اس کے برخلاف آپ کا رویہ یہ رہا کہ ’’جو مجھ سے کٹے میں اس سے جڑوں اور جو مجھے محروم کرے میں اسے دوں۔‘‘ کس قدر عظیم سوچ ہے اور کتنا سکون و دلی اطمینان فراہم کرنے والی ہے انسان کو۔

یہ ایک داعی کی اور ہر مسلمان کی سوچ ہونی چاہیے کہ وہ بہ حیثیت مسلمان اس پیغام ربانی کو انسانوں تک پہنچانے والا ہے جو اس کے رب نے اس کے پاس شریعت اسلامی کی صورت میں بھیجا ہے۔ یہ سوچ اس اخلاق کریمانہ کی بنیاد ہے جو رسولِ پاکﷺ اس دنیا میں قائم اور جاری کرنے کے لیے تشریف لائے تھے اور اسی کو اپنی بعثت کا مقصد قرار دیا تھا کہ ’’میں دنیا میں اسی لیے بھیجا گیا ہوں کہ مکارمِ اخلاق کی تکمیل کروں۔‘‘

حجاب اسلامی کے صفحات میں ہماری مخاطب کیوں کہ خواتین ہیں اس لیے ہم ان سے اس طویل تمہید کے بعد یہ کہنا چاہتے ہیں کہ اس وقت خواتین کے سلسلے میں معاشرے کی ایک سوچ ہے اور یہ سوچ حقیقت پر مبنی نہیں اور نہ ہی توازن رکھتی ہے۔ ایک طبقہ اپنے علم و تجربہ یا جہالت کی بنیاد پر اسی کو بہتر سمجھتا ہے کہ خواتین کو آگے بڑھنے اور علم و فن کے میدان میں یکساں مواقع نہ دیے جائیں اس سے معاشرے میں کشمکش کی فضا پیدا ہوجائے گی۔ ہندوستان کے قدیم دانشوروں نے تو یہاں تک کہہ دیا کہ ’’ڈھول، گنوار، سکھ، سیوک، ناری۔ یہ سب تارڑ کے ادھیکاری۔

(جاہل آدمی، اولاد، خادم اور عورت کو کھینچ کر اور باندھ کر رکھنے ہی میں خیر ہے جس طرح ڈھول کو کس کر رکھنے میں ہی اچھی آواز آسکتی ہے) یہ ایک سوچ ہے، منفی سوچ اور سراسر غلط سوچ۔

اسی طرح دوسری سوچ ہے کہ عورت کو مکمل آزادی ہونی چاہیے۔ ظاہر ہے اس آزادی کی مثال ہمیں مغرب کے نظریہ آزادی کی صورت میں ملتی ہے اور اس کا نتیجہ کس صورت میں ہمارے سامنے ہے، ہم دیکھ سکتے ہیں۔

ان دونوں باتوں کے درمیان ایک سوچ خود عورت کی بھی ہوگئی ہے کہ اس نے ان دونوں فکروں کے درمیان میں سے کسی ایک کو منتخب کرنے ہی کو کامیابی تصور کرلیا ہے۔ حالاں کہ دونوں ہی اندازِ فکر منفی بنیادوں پر ہیں۔ ایک نظریہ عورت کو دبانے اور کچلنے کی فکر پر مبنی ہے اور دوسرا عین اس کی مخالفت اور ردِّعمل کی سوچ پر مبنی ہے اور عمل اور ردِّعمل کے درمیان مثبت، تعمیری اور توازن پر مبنی سوچ کہیں گم ہوکر رہ گئی ہے اور تہذیبی کشمکش کے اس دور میں انہی دونوں فکروں کے درمیان سے ایک کو اختیار کرنے کے لیے مجبور کیا جا رہا ہے۔ یہ دونوں اندازِ فکر کیسے بھی ہوں لیکن اسلام کے ماننے والوں کے لیے تو مناسب نہیں ہوسکتے۔

ان دونوں اندازِ فکر کے علاوہ اسلام اپنے ماننے والوں کو ایک تیسری سوچ فراہم کرتا ہے اور وہ یہ ہے کہ ’’مومن مرد اور مومن عورتیں ایک دوسرے کے ولی (دوست) ہیں۔ وہ نیکیوں کا حکم دیتے ہیں اور برائیوں سے روکتے ہیں۔‘‘ یہ سوچ تعمیری اور مثبت سوچ ہے۔ اس کی رو سے جس طرح مرد کا سماجی و معاشرتی رول متعین ہوتا ہے اسی طرح سے عورت کا سماجی، معاشرتی اور خاندانی رول بھی واضح ہوتا ہے۔ خیر و شر کی کشمکش میں ایک عورت خاموش تماشائی نہیں رہ سکتی بلکہ خیر کی توسیع اور برائی کے خلاف جنگ میں وہ بھی اپنا رول ادا کرے گی اور بھرپور انداز میں ادا کرے گی اور اسے کرنا چاہیے۔ یہ بات عہد رسالت کی خواتین کی تاریخ دعوت و جہاد سے واضح طور پر سامنے آتی ہے۔ یہ سوچ دنیا کے سامنے اس حقیقت کو واضح کرتی ہے کہ نصف انسانیت کو تعمیر انسانیت کے رول سے محروم نہیں کیا جاسکتا اور یہ کہ نصف انسانیت کا تعطل اور بے کاری دین کو منظور نہیں۔ اگر ہم اس نتیجہ پر پہنچتے ہیں تو پھر ہماری خواتین کے لیے کوئی وجہ نہیں رہ جاتی کہ وہ کسی بھی وجہ سے خیر کے پھیلاؤ اور شر کی بیخ کنی کے موقع پر خاموش رہیں۔ اس کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ جب دنیا میں شر اور برائی کا فروغ ہوگا تو یہ نصف انسانیت بھی اس کے برے اثرات سے محفوظ نہیں رہ پائے گی۔ اس پوری گفتگو کا ماحصل یہ ہے کہ خواتین کو جمود، تعطل اور بے اثری کی منفی سوچ سے نکل کر حرکت، عمل اور موثر سماجی رول کی تعمیری سوچ کو اختیار کرتے ہوئے اور جمود کو توڑتے ہوئے حسب حال معروف کے فروغ اور منکر کے ازالے کی خاطر فعال رول کے لیے آگے آنا چاہیے۔

مثبت اور تعمیری سوچ کا ایک رویہ وہ بھی ہے جو ہمیں اپنے گھر اور خاندان میں اختیار کرنے کی ضرورت ہے اور اسی کو اہل خانہ اور رشتہ داروں کے ساتھ معاملات اور گفتگو میں برتا جانا چاہیے۔ ایسا اس لیے بھی ضروری ہے کہ ہماری مثبت اور تعمیری سوچ کا سب سے پہلا اور فوری اثر ہمارے اپنے خاندان اور رشتے ناطوں پر پڑتا ہے۔ ہم اپنی خاندانی اور گھریلو زندگی میں سب سے پہلے اور شاید سب سے زیادہ بھی، اپنوں کے منفی اور غلط برتاؤ سے متاثر ہوتے ہیں۔ جب ایسا ہوتا ہے تو ہمارے باہمی تعلقات اور رشتے ٹکراؤ اور ٹوٹ پھوٹ کی طرف بڑھنے لگتے ہیں، بدگمانیاں سر اٹھانے لگتی ہیں، دل ٹوٹنے لگتے ہیں اور اپنے پرائے بلکہ ان سے بھی زیادہ دور معلوم ہونے لگتے ہیں۔ آپ کو معلوم ہے کہ بدگمانیاں منفی سوچ ہی کے سبب پروان چڑھتی ہیں اور رشتوں کے تانوں بانوں کو اس طرح کاٹ ڈالتی ہیں جس طرح قینچی کپڑے کو کاٹ ڈالتی ہے۔

یہ ساس بہو کے جھگڑے، نند بھاوجوں کی کشمکش اور بھائیوں کے درمیان وجہ اور بے وجہ کے تنازعات صرف اسی سبب فروغ پاتے ہیں کہ ہم ایک دوسرے کے لیے اپنے دل و دماغ میں منفی سوچ پختہ کرلیتے ہیں۔ جب کہ ہمیں حکم دیا گیا ہے کہ ہم بدگمانیوں سے بچیں، ایک دوسرے کو اچھے القاب سے یاد کریں اور الزام تراشیوں سے پرہیز کریں۔

اچھی سوچ جہاں بھی ہوگی اور بری سوچ جہاں بھی ہم اختیار کریں گے وہ ہر صورت میں ہماری ذات، ہماری شخصیت اور ہماری ذہنی سکون کو متاثر کرے گی۔ اس لیے اس سے نجات ہماری پہلی ترجیح ہونی چاہیے۔ اتنا طے ہے کہ اگر ہم اپنی زندگی میں سے منفی سوچ کو نکال دیں تو اس کا سب سے بڑا فائدہ خود ہماری ذات کو حاصل ہوگا اور سب سے بڑا فائدہ تو اللہ کے یہاں حاصل ہونے والا ہے، جس کی ہمیں توقع کرنی چاہیے۔

مزید

حالیہ شمارے

ماہنامہ حجاب اسلامی شمارہ ستمبر 2023

شمارہ پڑھیں

ماہنامہ حجاب اسلامی شمارہ اگست 2023

شمارہ پڑھیں