موسم گرما کا آغاز ہوچکا تھا۔ اپریل کا مہینہ تھا۔ ٹاؤن شپ کے بازار میں گوبھی خریدتے ہوئے سبزی کی دکان کے ساتھ کھڑے ایک سائیکل والے پر میری نظر چلی گئی۔ بوڑھا سا آدمی تھا۔ اس کی سائکل کے کیریئر پر ایک بڑے سے جھابے میں کینو رکھے تھے۔ گوبھی والے کو پیسے ادا کرکے میں نے کینووالے پر مکرر نظر ڈالی۔ میلی سا دھوتی کرتا پہنے وہ بھرے پرے بازار میں جانے کب سے کھڑا گزرتے لوگوں کو امید افزا نگاہوں سے دیکھتا تھا مگر عورتیں اورمرد بڑی تیزی سے اس کے پاس سے گزرجاتے تھے۔
’’بابا جی! کس بھاؤ ہیں کینو؟‘‘ میں نے پوچھا
وہ ایک دم متوجہ ہوگیا۔ ’’بیٹا! تو پسند کر، جو بھاؤ مرضی لگالینا۔‘‘
’’نہیں بابا جی! بھاؤ بتاؤ۔‘‘ میں نے چھوکر دیکھا گرمیوں کے اس موسم میں کینو بڑی نرم اور پلپلے تھے۔ ’’یہ تو ٹھیک نہیں۔‘‘
میرے یہ کہنے کے ساتھ ہی باباجی کا چہرہ اتر گیا۔
’’یہ دیکھ۔ یہ اچھے ہیں‘‘ اس نے جھپٹ کر تیس چالیس کینوؤں میں سے چند اٹھاکر میری طرف بڑھا دیے۔
’’بابا جی! میرے کام کا کوئی بھی نہیں۔‘‘
اس کے چہرے پر لمحے بھر کے لیے زردی سی پھیل گئی جیسے میں نے اسے غم کی خبر سنادی ہو۔ کئی خیال میرے دل میں آئے۔ سوچا یہ سڑے بسے، پلپلے، دھوپ کے مارے کینو لینا میری عادت نہیں۔ میرے گھر کوئی بچہ ان کو نہیں چکھے گا۔ میں تو ہمیشہ بہترین سبزی اور اچھی قسم کے پھل خریدتی ہوں، مگر یہ باباجی … اللہ! میں کیاکروں؟ کجھ لیے بغیر میں بھی اس کے پاس سے چلی گئی تو اس کی دن بھر کی محنت اور تھکن سے اسے کیا حاصل ہوگا۔ یہ جانے کب سے اپنے کینو کا چھابا سنبھالے گاہکوں کا منتظر ہے۔ پتہ نہیں آج اس نے کچھ کھایا پیا ہے کہ نہیں۔ بھوکا پیاسا ستر اسی سال کا یہ بابا محنت مشقت سے اپنے خاندان کی کفالت کرتا ہوگا اور بڑی بڑی دکانوں پر قسم قسم کے پھل اپنی بہار دکھارہے تھے۔
’’کس بھاؤ دوگے کینو؟ میں نے پوچھا۔
’’بارہ روپے درجن ہیں۔ تم جو مرضی دے دینا۔‘‘ وہ ہر بھاؤ پر مجھے کینو دینے کو تیار تھا۔ اپنے خیال میں اس نے اچھے اچھے کینو جلدی جلدی چن کر لفافے میں ڈالنے شروع کیے۔ اس نے چھ آٹھ کینو ڈالے تھے کہ میں نے روک دیا۔
لفافہ اس نے میرے ہاتھ میں تھمادیا وہ جو اچھے تمہیں نظرآئیں، بے دھڑک لے لے بیٹا۔‘‘ بے جان سے کمزور ہاتھوں نے امید کی ڈوری مجھے تھمادی۔
اب یہ مجھ پر منحصر تھا کہ میں اسے مایوس نہ کروں۔
وہ مزید کینو چن کر مجھے دینے لگا۔ بظاہر وہ میری خوشنودی حاصل کرنے کے لیے یہ کام کررہا تھا۔ بڑی مشکل سے دس تک تعداد پوری کرکے میں نے ہاتھ روک لیا۔ میری نگاہ دوسری مرتبہ اس کے چہرے کی طرف چلی گئی۔غربت کی گود میں پلا اور زمانے کا ستایا ہوا بیمار سا بادامی رنگ کا محنت کش چہرہ تھا۔
’’بابا جی! جب منڈی جائیں تو کینو دیکھ بھال کر اچھے والے خریداکریں۔‘‘ یہ کہتے ہوئے میں نے پھر اس کے چہرے کی طرف دیکھا۔
’’بیٹا! میری نظر کمزور ہے۔ ٹھیک طرح نظر نہیں آتا۔ میرے گھر سے منڈی بہت دور ہے۔ سائیکل پر لاکر میں یہ کینو ٹاون شپ کے بازار میں بیچتا ہوں۔ پچاس ساٹھ روپے کے کینو میں روز خریدتا ہوں۔ بیس تیس روپے بچ جاتے ہیں۔ بس گزارا ہوجاتا ہے۔‘‘ باباجی کے پاؤں میں جوتی بڑی شکستہ سی تھی۔ کپڑے بھی میلے کچیلے پھٹنے والے تھے۔
’’باباجی! آپ کی عمر کیا ہوگی؟‘‘
’’بہتر سال ہوگئی ہے۔‘‘
’’اتنی عمر میں بڑی اچھی صحت ہے۔ ورنہ لوگ تو بڑی جلدی بوڑھے ہوجاتے ہیں۔ کچھ کام کرنے کے قابل نہیں ہوتے، لوگوں سے شکوے شکایت کرتے ہیں۔ مگر آپ میں کتنی ہمت ہے کہ روز منڈی سے پھل لاکر بازار میں بیچتے ہیں، کسی کے آگے ہاتھ نہیں پھیلاتے۔‘‘
’’بس گزارا ہورہا ہے بیٹا!‘‘ اس کے چہرے پر خوشی کی روشنی پھیل گئی۔
کینو والا لفافہ میں نے اٹھالیا اور سوکا نوٹ باباجی کی طرف بڑھایا۔ یہگاندھی جی کی تصویر والا قیمتی نوٹ تھا جو میرے بیٹے نے محنت سے کماکر مجھے دیا تھا۔
’’میرے پاس توکھلے پیسے نہیں۔‘‘
’’کوئی بات نہیں۔ باقی پیسوں سے کل منڈی سے دو قسم کے پھل لائیں اور فروخت کریں۔ پھر زیادہ منافع حاصل ہوگا تو آپ کپڑے دھونے کے لیے صابن اور پاؤں میں ایک جوتوں کا جوڑا ضرور خرید لیجیے گا۔‘‘
یہ کہتے ہوئے میں جلدی سے لوگوں کے انبوہ کثیر میں کھوگئی … کہیں وہ معمولی سی رقم قبول کرنے سے انکار نہ کردے … مگر اس سے بھی زیادہ اہم بات یہ تھی کہ میں اس کی حالت زار پر روئے بغیر نہ رہ سکی۔