سپریم کورٹ نے ۶؍دسمبر کو اپنے ایک فیصلے میں نہ صرف لڑکیوں کو ہوٹلوں اور ریستورانوں میں شراب سرو کرنے کی اجازت دے دی بلکہ اس پیشے سے وابستہ لڑکیوں کی کم از کم عمر ۲۵ سال سے گھٹا کر ۲۱ سال بھی کردی۔
گذشتہ دنوں دہلی ہائی کورٹ کے ایک فیصلہ کے خلاف دہلی حکومت نے اپیل کی تھی جس میں ہائی کورٹ نے کم از کم ۲۵ سال عمر کی لڑکیوں کو شراب سرو کرنے کی اجازت دے دی تھی۔ سپریم کورٹ نے نہ صرف اس کے خلاف اپیل کو خارج کردیا بلکہ ان لڑکیوں کے لیے عمر کی کم از کم حد گھٹا کر ۲۱ سال کردی۔ سپریم کورٹ نے اپنے فیصلہ میں دہلی حکومت کو بھی تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے سوال کیا کہ جب شراب پلانے والی لڑکیوں کی کم از کم عمر کی حد ۲۵ سال تھی اور شراب پینے والوں کے لیے بھی کم از کم ۲۵ سال کا ہونا ضروری تھا، ایسے میں حکومت کیا کرسکی؟ اور جیسکا لال اور بی ایم ڈبلیو جیسے واقعات کیوں پیش آئے؟ اس طرح سپریم کورٹ نے دہلی سرکار کے ان تمام اسباب اور اندیشوں کو ناقابلِ قبول گردانا جو اس نے لا اینڈ آرڈر اور امن و قانون اور تحفظ کو بنیاد بناکر کورٹ کے سامنے پیش کیے تھے۔
سپریم کورٹ نے لڑکیوں کو شراب پیش کرنے کی اجازت کے پیچھے جو دلیل پیش کی ہے وہ یہ ہے کہ جنس کی بنیاد پر مردو عورت کی تفریق نہیں کی جاسکتی اور جس طرح ایک مرد شراب سرو کرسکتا ہے اسی طرح ایک عورت کو بھی یہ حق حاصل ہے۔ سپریم کورٹ نے دہلی سرکار سے یہ بھی کہا کہ وہ بار اور ریستوران میں خواتین کارکنان کے تقرر کی مخالفت کرنے کے بجائے جنسی تفریق کے سبب ہونے والے برے نتائج کی روک تھام کے لیے مناسب قدم اٹھائے۔
سپریم کورٹ نے عمر کی حد کم کرنے کے لیے بھی دلیل دی ہے اور کہا ہے کہ آج کے دور میں لڑکے لڑکیاں ۲۲-۲۳ سال کی عمر میں ہوٹل مینجمنٹ میں ڈپلوما یا ڈگری لینے کے بعد اس لائق ہوجاتے ہیں کہ وہ اپنے میدانِ تعلیم میں نوکری کرلیں۔
سپریم کورٹ کیونکہ ہندوستان کے نظام عدل کا سب سے اعلیٰ ادارہ ہے اور اس اعتبار سے قابل صد احترام ہے اس لیے عدالت عالیہ کے فیصلہ پر تنقید کا حق تو حاصل نہیں ہے البتہ کورٹ کے فیصلہ کے بعد احساس ہوتا ہے کہ کہیں اس فیصلہ سے ہماری ’’پراچین بھارتیہ سبھیتا‘‘ جس میں شراب کو پاپ تصور کیا جاتا تھا، خطرات کی زد میں تو نہیں ہے؟ اس فیصلہ کو پڑھ کر ہمارے ذہن میں وہ اشتہارات اور بڑے بڑے ہورڈنگس بھی گھومنے لگتے ہیں جن میں شراب بندی اور نشہ بندی کی بھارت واسیوں کو نصیحت کی جاتی ہے اور انھیں ’دھرم‘ سنسکرتی اور مہاپروشوں کے اقوال کا حوالہ بھی دیا جاتا ہے۔ اور اس پر ہر سال سرکاری خزانے سے کروڑوں روپے صرف کیے جاتے ہیں۔ اس وقت ہماری نظر میں ’راشٹرپتا‘ گاندھی جی کا وہ قول ہے جو ایک بہت بڑے ہورڈنگ پر ’پریوار کلیان منترالیہ‘ کی طرف سے لگایا گیا ہے۔ ہورڈنگ پر لکھا ہے: ’’شراب جسم اور روح دونوں کو تباہ کردیتی ہے۔‘‘
ہم اس بحث میں نہیںجاتے کہ باروں اور ریستورانوں میں کس عمر کی لڑکیاں شراب پیش کرتی ہیں اور شراب مرد پیش کرتے ہیں یا عورتیں اس لیے کہ یہ حکومت اور انتظامیہ کا دردِ سر ہے اور شاید یہی وجہ ہے کہ دہلی سرکار ایسا نہیں چاہتی تھی، ہمیں تو بنیادی طور پر شراب کے چلن، اس کے استعمال، اس کے لائسنسنگ اور اس کے قانونی جواز سے ہی اختلاف ہے۔ اور ایسا اس وجہ سے ہے کہ یہ جسم اور آتما دونوں کی تباہی کا ذریعہ ہے۔
ہاں لڑکیوں کو شراب پروسنے کی اجازت اور عمر کی حد کم کرنے کا معاملہ کچھ ایسے فیمنسٹ لوگوں کے لیے بھی توجہ کا مرکز ہوسکتا ہے جو باروں اور ریستورانوں میں عورتوں کے شراب پروسنے کو عورت ذات کی تحقیر سمجھتے ہیں اور یہ سوال کرتے ہیں کہ آخر عورت ہی کیوں شراب پروسے؟ اور وہ بھی ۲۱ سال کی نوجوان لڑکی۔ ان کا خیال یہ ہے کہ یہ جنس کی بنیاد پر تفریق کا خاتمہ نہیں بلکہ عورت کو جنس بازار بناکر اس طرح پیش کرنا ہے کہ وہ خریداروں کو رجھا سکے۔اسی حقیقت کی طرف معروف خاتون ،سماجی کارکن، صحافی اور ’منوشی‘ کی ایڈیٹر مدھوکشور نے واضح طور پر اشارہ کیا ہے کہ بار والوں کو کھلی آزادی کا مطلب ریپ، چھیڑ خانی اور ’ویشیاورتی‘ کو بڑھاوا دیناہے۔ انھوں نے سوال کیا ہے کہ جو لوگ اس طرح کے قوانین کی حمایت کرتے ہیں کیا وہ لوگ اپنی لڑکیوں یا بہوؤں کو بارٹنڈروں میں کام کرنے کو کہیں گے؟
خود کشی کی طرف بڑھتا امریکی معاشرہ
۵؍دسمبر کو امریکہ کے شہر ’اوماہا‘ کے ایک شاپنگ مال میں ایک بیس سالہ نوجوان نے اپنی رائفل سے بلاوجہ اندھا دھند گولیاں چلا کر کم از کم آٹھ افراد کو ہلاک اور کئی کو زخمی کردیا۔ بعد میں اس نے خود کو بھی گولی مارکر ہلاک کرلیا۔ رابرٹ ہاکنس نامی نوجوان نے ایک تعجب خیز سوسائڈ نوٹ بھی جائے واردات پر چھوڑا جس میں لکھا ہے: ’’اب میں مشہور ہوجاؤں گا۔‘‘
امریکی معاشرہ میں اس طرح کا بلاوجہ تشدد تیزی سے بڑھ رہا ہے۔ اس میں خاص طور پر نوعمر اور نوجوان نسل شامل ہے۔ یہاں تک کہ اسکول کے چھوٹے چھوٹے بچے بھی اندھا دھند فائرنگ کے خطرناک جرم کا ارتکاب کرتے ہیں۔ جبکہ ابھی گذشتہ اپریل ہی میں ورجینیا ٹیک یونیورسٹی کے ایک طالب علم نے اچانگ گولیاں چلا کر ۳۲ لوگوں کو ہلاک کرنے کے بعد خود کو بھی گولی مارلی تھی۔
ان واقعات اور اس طرح کے دیگر واقعات سے جو گذشتہ چند سالوں میں دنیا کے سپر طاقت اور نام نہاد مہذب ملک میں واقع ہوئے ہیں،جہاں ہر طرف خوش حالی کا دور دورہ ہے، د ولت کی ریل پیل ہے اور ہر طرح کی آزادی اور سامان عیش موجود ہے۔ آخر ایسا کیوں ہے؟ اس پر ماہرین سماجیات اور ماہرین نفسیات نے غوروفکر کرنا شروع کردیا ہے۔ ان کا خیال ہے کہ تمام تر ترقی اور خوشحالی کے باوجود امریکی معاشرہ کے افراد کی زندگی میں ایک ناقابلِ تسخیر خلا ہے اور وہ خلا پیدا ہوا ہے، زندگی کی مادی ہوڑ اور ایک خاص قسم کے کلچر کے سبب جس میں انسان ایک طرف تو ضروریات زندگی کی تکمیل اور عیش وعشرت کے سامان فراہم کرنے کے لیے پیسہ کمانے کی مشین بن گیا ہے۔ ہم ہندوستانی لوگوں کے بہت سارے مسائل ہماری غربت اور افلاس کے سبب ہیں اور ہم خوش حالی کی اسی جدوجہد میں لگے ہیں جہاں امریکہ پہنچ گیا۔ محسوس ایساہوتا ہے کہ جہاں غربت و افلاس ایک مسئلہ ہے وہیں دولت اور عیش سامانی و خوشحالی کے بھی اپنے مسائل ہیں اور امریکہ میں اس طرح کے واقعات اور ان میں اضافہ اسی کی نشاندہی کرتے ہیں۔
امریکی معاشرہ کی صورت حال یہ ہے کہ وہاں بچپن ہی سے لوگ ایسے آزاد معاشرہ میں پرورش پاتے ہیں جہاں ان پر نہ والدین کا کنٹرول ہے اور نہ ان کی تعلیم و تربیت میں کوئی رول۔ حالت یہ ہے کہ اگر والدین یا دونوں میں سے کوئی ایک بچہ کو ڈانٹ یاپیٹ دے اور بچے پولیس سے شکایت کردیں تو والدین قابلِ سزا جرم کے مرتکب ٹھہرائے جاتے ہیں۔ اس طرح وہاں پلنے والی نسل انتہائی خود سری اور باغیانہ سوچ کے ساتھ پرورش پاتی ہے۔ والدین کے پاس کہیں تو ان کی معاشی مصروفیات کے سبب اور کہیں قانون سے مجبور ہوکر، بچوں کو دینے کے لیے کچھ نہیں۔ اسی طرح بن باپ کے بچوں کی پرورش بھی وہاں سرکاری نگرانی میں انجام پاتی ہے۔ ایسی صورت حال میں بچوں کو جو جذباتی غذا ملنی چاہیے وہ نہیں مل پاتی۔ چنانچہ امریکی معاشرہ میں نو عمر مجرمین کی تعداد میں جس تیزی سے اضافہ ہورہا ہے، اس نے اس سماج کے دانشوروں کی نیند اڑا دی ہے اور وہ خاندانی نظام کے استحکام کو وقت کی ضرورت قرار دینے لگے ہیں۔
بعض لوگوں کا خیال ہے کہ امریکی معاشرہ میں تشدد کے فروغ میں بڑا کردار ٹیلویژن کا بھی ہے جس میں مار دھاڑ اور قتل و غارت گری کے واقعات سب سے زیادہ دکھائے جاتے ہیں۔ اسی طرح یہ بھی قابلِ غور ہے کہ بھاگ دوڑ کی معاشی زندگی میں آدمی جیسے ہی فارغ ہوتا ہے اس کا واحد بہلاوا ٹیلی ویژن ہوتا ہے اور اس وقت امریکہ دہشت گردی کے خلاف جو جنگ لڑ رہا ہے، ہر وقت اور ہر جگہ اسی کی خبریں ہیں۔ گویا اب وہاں کا معاشرہ خبروں کے نام پر بھی تباہی و بر بادی اور قتل و غارت گری ہی کے مناظر دیکھنے پر مجبور ہے۔
سخت معاشی جدوجہد کی زندگی جذباتی اور روحانی خلا نے امریکی معاشرہ کو ڈپریشن اور تناؤ کی کیفیت سے دوچار کردیا ہے۔ اور یہ اور اس طرح کے واقعات ڈپریشن اور تناؤ ہی کا نتیجہ ہیں۔
ہم مشرق کے لوگ امریکی معاشرہ کے ان واقعات سے سبق حاصل کرسکتے ہیں کہ ترقی و تہذیب کی برتری کے اس ماڈل نے جو پوری دنیا پر چھا جانے کے لیے تیا رہے ، خود اس معاشرہ کو کس کیفیت سے دوچار کردیا ہے جس میں اس نے پرورش پائی ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ امریکہ اور پوری مغربی دنیا کے معاشرتی نظام کا شیرازہ بکھر چکا ہے اور ہم مشرق کے لوگوں کا معاشرہ بکھراؤ کی راہ پر گامزن ہے۔ تو کیا ہم مسلمان اپنے معاشرہ کو اس بکھراؤ اور انتشار سے بچانے کی طرف متوجہ ہیں؟