سپریم کورٹ کا ایک فیصلہ اور مسلم سماج

شمشاد حسین فلاحی

۴؍دسمبرکو سپریم کورٹ نے اپنے ایک فیصلہ میں کہا ہے کہ طلاق شدہ مسلم عورت دوسری شادی تک اپنے سابق شوہر سے گزار بھتہ (نان نفقہ) حاصل کرنے کی حقدار ہے۔ عدالت نے واضح کیا ہے کہ یہ نان نفقہ محض عدت کی مدت تک ہی محدود نہیں ہوگا۔ اور وہ عام گھریلو عدالت میں دفعہ ۱۲۵ کے تحت عرضی داخل کرکے لے سکتی ہے۔ جسٹس بی ایس ریڈی اور جسٹس وی ایس ورما کی بینچ نے یہ فیصلہ شبانہ بانو کی عرضی کی سماعت کرتے ہوئے سنایا جو گوالیر کی رہنے والی ہیں۔ عدالت نے شبانہ کے سابق شوہر عمران کی اس عرضی کو خارج کردیا جس میں اس نے یہ کہا تھا کہ مسلم عورت طلاق کے بعد اپنے سابق شوہر سے نان نفقہ لینے کی حقدار نہیں ہے۔ عدالت نے واضح طور پر یہ بھی کہا کہ مسلم قانون کسی عورت کو عام عدالت میں جانے سے نہیں روکتا۔

یہ با ت بھی اہم ہے کہ گوالیر کی شبانہ اور عمران کا قضیہ کا بنیادی سبب شبانہ کو جہیز کے لیے تنگ کیا جانا ہے۔ حاملہ شبانہ کو اس کے شوہر نے میکے پہنچادیا، جہاں اس نے ایک بچہ کو جنم دیا مگر شوہر نے اس کے اخراجات اور بچے کی کوئی پرواہ نہیں کی۔ اس سے تنگ آکر شبانہ نے مقامی عدالت میں دفعہ ۱۲۵ کے تحت عرضی دائر کردی اور معاملہ سپریم کورٹ تک پہنچا جہاں مذکورہ ججوں نے شبانہ کے سابق شوہر عمران کو دوہزار روپے ماہانہ اور مقدمہ کا خرچ ادا کرنے کی ہدایت دی۔

مذکورہ فیصلہ ایک طرف تو ملک کے مسلمانوں کے لیے دور رس نتائج کا حامل ہے، دوسری طرف کئی پہلوؤں سے مسلم سماج کے لیے قابلِ توجہ اور غوروفکر کا موضوع بھی ہے۔

اہلِ علم جانتے ہیں کہ اب سے کوئی ۲۳ سال قبل مشہور شاہ بانو کیس میں بھی اسی طرح کا فیصلہ عدالت کی جانب سے آیا تھا جس پر ملک کے مسلمانوں کی جانب سے شدید احتجاج ہوا تھا اور بالآخر حکومت نے خصوصی بل کے ذریعہ اس فیصلہ کو کالعدم قرار دیا تھا۔ اور ایسا اس لیے ہوا تھا کہ یہ فیصلہ ملک میں پہلے سے چلے آرہے قانون ’’مسلم پرسنل لاء‘‘ کے خلاف تھا۔

اُس وقت تو فیصلہ کی تلوار ہٹ گئی تھی مگر اس کے بعد سے اب تک موقع موقع سے ایسے سوشے مستقل چھوڑے جاتے رہے جن کے سبب مسلمانوں کے پرسنل لا کو شدید اندیشوں نے گھیر لیا۔ اور حقیقت یہ ہے کہ ان بیس پچیس سالوں میں ملک میں سیاسی سطح پر جو تبدیلیاں واقع ہوئی ہیں اور اسلام اور مسلمانوں اور ان کے پرسنل لاء سے متعلق جو سوچ پروان چڑھی ہے، نیز یکساں سول کوڈ کی طرف داری کرنے والوں کو جو عروج نصیب ہوا ہے، اس سے مستقل طور پر نہ صرف مسلم پرسنل لاء کو اندیشوں کا سامنا ہے بلکہ مسلم سماج اور ان سے متعلق بہت ساری چیزیں گھٹن کا شکار ہوئی ہیں۔ اس مدت میں میڈیا کے ذریعے بہت سے ایسے اشوز اچھالے جاتے رہے ہیں جن پر مسلم سماج دفاع کرتے کرتے تھک سا گیا ہے۔ اور اب ایسامحسوس ہوتا ہے کہ اس کی دفاعی لائن کمزور پڑگئی ہے۔

اگر ہم اس طرح کے فیصلوں کو مثبت انداز میںلیں بھی تب بھی یہ دشواری رفع نہیں ہوتی کہ مسلم سماج کے جو بھی مسائل عدالت میں جائیں گے یا جاتے ہیں ان پرعدلیہ اپنے خاص نظام کے تحت ہی فیصلہ کرے گی اور اپنے اصول و ضوابطہ کا لحاظ ضرور رکھے گی اور اسے رکھنا چاہیے۔ دوسری بات عدلیہ کی مجبوری بھی تصور کی جاسکتی ہے کہ جج حضرات ماہرینِ قانون ہوتے ہیں اور فیصلہ رائج قانون ہی کی روشنی میں کرتے ہیں۔ مسلمانوں کے پرسنل لاء یا اسلام اور قرآن و حدیث کی ہدایات سے ان کی واقفیت یا تو ہوتی نہیں یا سرسری ہوتی ہے یا وہ اس کی اسپرٹ کو سمجھنے سے قاصر رہتے ہیں۔ حالانکہ اس دوران طلاق کے سلسلہ میں ایک سے زیادہ ایسے فیصلے عدالت کی طرف سے آئے ہیں جو عین شریعت کی اسپرٹ کے مطابق تھے۔ مگر اس بات کو یقینی نہیں سمجھا جاسکتا کہ مسلمانوں کے مسائل میں طلاق وغیرہ کو لے کر ہمیشہ ایسے ہی فیصلے آتے رہیں گے۔اس لیے مسلم سماج کو غور و فکر کرنا چاہیے کہ وہ کیسے اپنے ’پرسنل‘ معاملات میں شریعت کا لحاظ رکھتے ہوئے زندگی گزار سکتا ہے۔

گوالیر کی شبانہ بنام عمران کے کیس میں طلاق یا ازدواجی تعلق کے ٹوٹنے کی بنیادی وجہ جہیز کی صورت میںسامنے آتی ہے۔ اور یہ کوئی منفرد معاملہ نہیں ہے۔ ہمارے موجودہ سماج میں اکثر جہیز ہی ازدواجی تعلق کے ٹوٹنے کا سبب بنتا ہے۔ کہیں یہ طلاق کی صورت میںسامنے آتا ہے تو کہیں دلہنوں کے قتل کی صورت میں ۔ ’’نسبتاً شریف‘‘ لوگ دلہن کو قتل نہیں کرتے تو طلاق دے دیتے ہیں۔ یہ سنگین صورتِ حال ہے۔ جو مسلم سماج میں بھی تیزی سے پھیلتے جہیز کے ’وائرس‘ کی نشان دہی کرتی ہے۔ اس لیے یہ کہنا شاید حقیقت سے زیادہ قریب ہوگا کہ مسلم سماج کے اہل علم و فکر اور مسلم تنظیمیں اور ادارے مسلمانوں کو بتائیں کہ یہ کس قدر خطرناک ہے اور اس کے سماجی، معاشرتی اور دینی نقصانات کس قدر بھیانک ہیں۔

جہیز کے سماجی و معاشرتی نقصانات اور اس کے بھیانک نتائج سے عوام کو واقف کرانے کے ساتھ ساتھ مسلم عوام کو طلاق کے بے دریغ استعمال اور اس کے غیر شرعی انداز کے ذاتی اور خاندانی زندگی پر پڑنے والے اثرات سے بھی واقف کرانا وقت کی اہم ترین ضرورت ہے۔

اسلام نے مرد کو طلاق کا حق دیا ہے اور عورت کو خلق کا حق۔ لیکن دونوں ہی صورتوں میں اس کی کنجی مرد کے ہاتھ میں رکھی گئی ہے اور اگر مرد ہی اس کا ناجائز اور غلط استعمال کرے تو یہ نعمت کے بجائے لعنت بن کر سامنے آتی ہے۔ اسلام نے شوہر و بیوی کے درمیان جدائی کی صورت کو بھی قبول کیا ہے مگر ساتھ ہی اس کا طریقہ اور اس کے مراحل سے بھی اچھی طرح باخبر کیا ہے۔اور یہ اسلام کی نظر میں اتنا اہم ہے کہ خود اللہ تعالیٰ نے اپنی کتاب میں واضح طور پر بیان فرمایا ہے اور اس کا جاننا اتنا آسان ہے کہ ہر فرد قرآن کھول کر اس کا واضح علم حاصل کرسکتا ہے مگر افسوس کہ لوگ اسے حاصل کرنا نہیں چاہتے مگر استعمال ضرور کرتے ہیں۔ اگر ہم اس سلسلہ کی اسلام کی تعلیمات کو دیکھیں تو صاف اندازہ ہوتا ہے کہ اسلام ازدواجی زندگی کو گھٹن اور تلخی کے ساتھ جینے کی اجازت نہیں دیتا بلکہ ایسی صورت میں معاملہ کو افہام وتفہیم اور سمجھ بوجھ اور سمجھا بجھا کر حل کرنے کی تعلیم دیتا ہے۔ اور اگر معاملہ پھر بھی حل نہ ہو تو علیحدگی کو بھی قبول کرتا ہے۔ مگر یہ علیحدگی بھی احسن طریقے سے ہو اسلام یہی تعلیم دیتا ہے۔ جبکہ موجودہ سماج میں دیکھنے میں یہ آتا ہے کہ لوگ اس معاملہ کو اپنی ’’انا‘‘ کا معاملہ بناتے ہیں پھر ایک دوسرے کو بدنام کرنے اور رسوا کرنے کی تدابیر کرتے ہیں اور پھر عدالتوں میں پہنچتے ہیں جہاں زندگی کی قیمتی متاع یوں ہی برباد ہوتی ہے، عزتوں کے جنازے نکلتے ہیں، ذہن و فکر پریشان اور پراگندہ ہوتے ہیں، زوجین، گھر والے اور اگر بچے ہوں تو بچے ذہنی طور پر تعذیب اور ٹارچر کا نشانہ بنتے ہیں۔ مالی وسائل کی بربادی، وقت اور صلاحیتوں کے ضیاع کے ساتھ ساتھ عدالتی نظام پر غیر ضروری بوجھ کا سبب بھی بنتے ہیں۔

اگر ہم ان پہلوؤں پر غورکریں اور معاملات کو احسن اور شریفانہ طریقے پر طے کرنے کی کوشش کریں تو ایک طرف تو ہم بے شمار مسائل سے نجات حاصل کرسکتے ہیں دوسری طرف اسلام اور مسلمانوں کے لیے ’’تماشائیوں کی ہوٹنگ‘‘ سے محفوظ رہنے کی تدبیر بھی کرسکتے ہیں۔ ٹھیک اسی طرح جس طرح ہم اپنے دیگرمعاملات کے سلسلہ میں گفت و شنید کرتے اور آپس میں حل کرنے کی کوشش کرتے ہیں، ان مسائل کو بھی حل کرنے کی کوشش کریں تو اپنی ذات، سماج اور عدالتی نظام کے حق میں بھی بہتر ہوگا۔

یہ بات واضح ہے کہ مسلم سماج میں اس طرح کے مسائل کا بنیادی سبب دین سے دوری، غفلت اور اسلامی تعلیمات کے سلسلہ میں عدم توجہی ہے۔ اس لیے اس بات کی ہر جانب سے ہر ممکن کوشش ہونی چاہیے کہ مسلم عوام میں دینی بیداری لائی جائے اور انہیں اپنی زندگی اسلامی تعلیمات کی روشنی میں گزارنے پر آمادہ کیا جائے۔ اگر مسلم سماج میں دینی بیداری آجائے تو وہ نہ صرف اس قسم کے بہت سے مسائل سے نجات حاصل کرلے گا بلکہ ملک کے لیے ایک مثالی سماج بن جائے گا۔ اور جہاں یہ ہماری دنیا و آخرت کے لیے بہتر ہوگا وہیں ہندوستانی سماج پر بھی بڑا احسان ہوگا۔

مزید

حالیہ شمارے

ماہنامہ حجاب اسلامی شمارہ ستمبر 2023

شمارہ پڑھیں

ماہنامہ حجاب اسلامی شمارہ اگست 2023

شمارہ پڑھیں