انتخابی امیدواروں کے کردار اور مجرمانہ ریکارڈس سے لے کر ووٹروں کے حقوق تک کا احاطہ کرتے ہوئے گزشتہ دنوں میں الیکشن کے اہم پہلوؤں پر سپریم کورٹ کے چار تاریخی فیصلے آئے۔ ان فیصلوں پر پورے ملک میں بڑی بحث شروع ہوگئی ہے۔ خاص طور پر سیاسی پارٹیوں میں ہلچل مچ گئی ہے اور وہ انتہائی تذبذب کا شکار ہوگئیں۔
سپریم کورٹ کے ان فیصلوں کا مرکز ووٹرس رہے ہیں۔ ان میں سے پہلے دو فیصلے ۱۰؍ جولائی کو سنائے گئے۔ پہلے ہی فیصلہ سے سیاسی طبقہ کی راتوں کی نیند حرام ہوگئی۔ اس کے تحت عدالت عظمیٰ نے رولنگ دی کہ اگر کوئی ممبر پارلیمنٹ یا اسمبلی سنگین جرم کا قصور وار پایا جائے اور انہیں دو سال یا اس سے زائد عرصہ کی سزا سنائی جائے تو فوری اثر سے ان کی رکنیت کالعدم ہوجائے گی۔ اس فیصلہ کے ذریعہ عدالت نے عوامی نمائندگی ایکٹ کے سیکشن (4) 8 کے تحت ملنے والی کرسی ان سے چھین لی ہے۔ اس سیکشن کے تحت سیاسی لیڈران کو اپنے خلاف جرم ثابت ہونے اور سزا سنائے جانے کے تین مہینے کے اندر اعلیٰ عدالت میں اپیل دائر کر کے قانون سازیہ میں اپنی کرسی بچانے کی سہولت دستیاب تھی۔ گزشتہ ۱۰؍ جولائی کو ہی سپریم کورٹ نے ایک اور فیصلہ کے تحت کسی بھی معاملہ میں گرفتار شدہ افراد کے الیکشن لڑنے پر پابندی عائد کردی ہے۔ اس کے بعد ۱۳؍ ستمبر کے ایک اور فیصلہ میں عدالت عظمیٰ نے رولنگ دی ہے کہ کوئی بھی شخص اپنے اثاثہ، تعلیمی اسناد اور مجرمانہ ریکارڈ کی تفصیلات پیش کیے بغیر الیکشن نہیں لڑ سکتا /سکتی۔ سپریم کورٹ نے داغدار قانون سازوں سے متعلق فیصلے پر اٹھے طوفان کے درمیان ہی ۲۷؍ ستمبر کو ایک اور فیصلہ صادر کیا۔ اس فیصلہ کے تحت عدالت نے واضح طور پر کہا کہ ووٹروں کو منفی ووٹ ڈالنے کا فطری حق حاصل ہے۔ ووٹرس کو سیاسی پارٹیوں کو یہ کہنے کا حق حاصل ہے کہ آپ کے ذریعے پیش کردہ امیدوار ہمارے ووٹ حاصل کرنے کے لائق نہیں ہے۔ عدالت نے الیکشن کمیشن کو بھی حکم دیا ہے کہ وہ الیکٹرونک مشینوں اور بیلٹ پیپروں کی فہرست کے آخر میں اوپر دیے گئے متبادلوں میںسے کوئی نہیں، کا متبادل مہیا کرائے تاکہ ووٹرس الیکشن لڑنے والے امیدواروں سے غیر مطمئن ہونے کی صورت میں انہیں مسترد کرسکیں۔
سیاست میں غنڈہ عناصر کی موجودگی اور انتخابی پراگندگی کوئی نئی بات نہیں ہے۔ اس کے خلاف وقت وقت پر آواز اٹھتی رہی ہے۔ سیاسی پارٹیاں بھی ایسے عناصر کو سیاست سے دور رکھنے کے لیے کوششیں کرنے کا دعویٰ کرتی رہی ہیں لیکن اس سلسلے میں ٹھوس حکمت عملی کسی بھی پارٹی نے ابھی تک پیش نہیں کی۔ سیاسی پارٹیوں کے ڈھلمل رویہ اور ان کی سرد مہری کا ہی نتیجہ ہے کہ سپریم کورٹ کو اس معاملے میں مداخلت کرنے پر مجبور ہونا پڑا۔ سچ کہا جائے تو یہ صرف عدالتی فیصلہ ہی نہیں، بلکہ رائے عامہ کی ترجمانی بھی ہے۔ ووٹرس نہ چاہتے ہوئے بھی ناپسندیدہ لوگوں کو منتخب کرنے کے لیے مجبور تھے لیکن عدالت کے حالیہ ’’حق استرداد‘‘ (رائٹ ٹو رجیکٹ) سے متعلق فیصلہ سے انہیں بڑی راحت ملی ہے۔ ان فیصلوں کے عملی پہلوؤں پر اکثر شبہات ظاہر کیے جاتے رہے ہیں۔ انہیں عملی شکل دیے جانے میں در پیش مشکلات کا حوالہ دیا جاتا ہے۔ بلاشبہ کچھ تکنیکی پریشانیاں پیش آسکتی ہیں لیکن کیا کچھ نام نہاد پریشانیوں سے بچنے کے لیے ہم اپنے سماج کو پراگندگی اور انحطاط کے چنگل میں کراہنے کے لیے چھوڑ دیں؟ دنیا میں تمام مسائل کے حل موجود ہیں۔ یہ مشکلات اور پریشانیاں بہ آسانی دور ہوسکتی ہیں بشرطیکہ عزم اور حوصلہ ہو، نیت درست ہو، جب تک نیت ٹھیک ہیں ہوگی، کسی بھی فیصلہ پر کام نہیں ہوسکتا۔ خواہ وہ کسی کا بھی فیصلہ ہو۔ آرڈیننس ڈرامہ، سے اس حقیقت کو مزید تقویت ملتی ہے۔
بہرحال عوامی نمائندگان اور سیاسی لیڈر اپنی ذمہ داریوں سے دامن نہیں جھٹک سکتے۔ آخر انتخابات کے آتے ہی قتل و غارت گری اور اغوا جیسی مجرمانہ حرکتوں کا ماحول کیوں گرم ہوجاتا ہے؟ ذات پات کے نام پر صف بندی کیوں شروع ہوجاتی ہے؟ مذہبی امنگوں میں اتنی شدت کیوں آجاتی ہے؟ ہر چیز کو مذہب کی عینک سے کیوں دیکھا جانے لگتا ہے؟ دنیا کے ہر جمہوری ملک میں انتخابات کے دوران معیشت، تعلیم، روزگار، توانائی، آمد و رفت کے وسائل جیسے متعدد عوامی مسائل اٹھائے جاتے ہیں لیکن ہمارے ملک کا انداز ہی کچھ نرالا ہے۔ فوراً فساد، قتل، لوٹ مار، بلیک میلنگ اور غنڈہ گردی کا دور دورہ شروع ہوجاتا ہے۔ مذہب کو آلہ کار بنا لیا جاتا ہے۔ ایسا بھی نہیں ہے کہ ہمارے یہاں پبلک ایشوز کی کوئی کمی ہے۔ بے شمار مسائل منہ کھولے کھڑے رہتے ہیں لیکن مسئلہ یہ ہے کہ ان ایشوز سے جواب دہی بھی وابستہ ہے۔ ان ایشوز کے اٹھتے ہی جواب دہی اور ذمہ داریوں کا بوجھ سر پر آجاتا ہے۔ ووٹر پوچھنے لگتے ہیں کہ گزشتہ مدت کار میں آپ نے کیا کیا؟ شاید یہی وجہ ہے کہ انہیں اسی میں عافیت لگتی ہے کہ نان ایشو کو ایشو بنا دو اور آرام سے الیکشن جیت لو۔ نہ کوئی ذمہ داری اور نہ ہی کوئی جواب دہی۔
آخر ہمارا معاشرہ انحطاط پذیری کے دلدل میں کیوں پھنستا جا رہا ہے۔ آج گوتم بدھ، گرونانک، خواجہ معین الدین چشتیؒ، مہاتما گاندھی جیسے عدم تشدد، امن اور بھائی چارہ کے علمبرداروں کی سرزمین پر ماں، بہن اور بیٹیاں محفوظ نہیں ہیں، بھاگی بھاگی کے خون کا پیاسا بنا ہوا ہے، ایک پڑوسی دوسرے پڑوسی سے خوف زدہ ہے۔ ہر شخص اپنے پڑوسی کو شک کی نگاہ سے دیکھنے کو مجبور ہے جب ہ پڑوسی بلا تفریق مذہب و ذات جانی و مالی تحفظ کی ضمانت کے طور پر تسلیم کیے جاتے رہے ہیں۔پڑوسیوں کے حقوق و فرائض اپنی جگہ مسلم ہیں۔ پڑوسی دکھ سکھ کے قریب ترین ساتھی تصور کیے جاتے ہیں۔ اس ے باوجود ہمارے سماج میں ایک پڑوسی دوسرے سے خوفزدہ ہے۔ اپنی جان و مال کے لیے اپنے پڑوسیوں کو سب سے بڑا خطرہ تصور کرنے پر مجبور ہے۔ ایسا ماحول کیوں ہے؟ جب ہ ملک کا ہر شہری امن و آشتی ے مذکورہ پیامبروں کا پیروکار ہونے کا دعویٰ کرتا ہے۔ کوئی بھی مذہب تشدد، نفاق اور کسی بھی برائی کی اجازت نہیں دیتا۔ تمام مذاہب امن، بھائی چارہ، دوستی، محبت اور عدم تشدد کی تعلیم دیتے ہیں۔ پھر بھی ہمارا سماج تشدد سے پاک نہیں ہے۔ یہ ایک بڑا المیہ ہے۔ اس ی وجہ ہے اور وہ ہے اپنی شاندار روایتوں، مذہبی و اخلاقی اقدار سے انحراف، اپنے روشن ماضی سے ناواقفیت اور اپنے پیش روؤں کی ناقدری۔ ایسی صورتحال میں کیا کوئی بھی سماج خود کے مہذب سماج ہونے کا دعویٰ کرنے کا حق رکھتا ہے؟ ہرگز نہیں۔ بلاشبہ اس صورتحال کے لیے سماج و قوم کی قیادت کرنے والے طبقہ پر اس کی ذمہ داری سب سے زیادہ ہے کیوں کہ رائے عامہ تیار کرنے اور ماحول سازی میں اس کا اہم کردار ہوتا ہے۔lll