سپر طاقت ناکامیوں کے حصار میں

آصف جیلانی

سرد جنگ کے خاتمے کے بعد توقع تھی کہ امریکہ معرکہ آرائی سے آزاد امن کے اس دور کو اپنے اقتصادی اور سیاسی فروغ کے لیے استعمال کرے گا اور اس سے بہرہ مند ہوگا۔ لیکن ایسا محسوس ہوتا ہے کہ امریکیوں کی خصلت میں جنگ بھری ہوئی ہے۔ امریکی صدور کے ذہنوں میں یہ بات نقش ہوگئی ہے کہ جب تک وہ کوئی جنگ نہیں لڑیں گے اور اس میں فتح مند نہیں ہوں گے ان کا نام تاریخ میں نہیں آئے گا اور آئندہ نسلیں ان کے دور کو یاد نہیں رکھیں گی۔ یکے بعد دیگرے پچھلے پانچ صدور کے ہاتھ جنگوں کے خون سے رنگے ہوئے ہیں۔ لنڈن بی جانسن کے زمانے میں ویت نام کی جنگ، رونالڈ ریگن کے دور میں گرینیڈا، لبنان اور لیبیا پر فوج کشی، بڑے بش کے زمانے میں ۱۹۹۰ء کی خلیج کی پہلی جنگ، کلنٹن کے دور میں عراق کے خلاف خلیج کی جنگ اور سربیا، بوسنیا اور کوسووا میں فوج کشی ان صدور کی جنگجویانہ پالیسیوں کی مظہر ہیں۔ چھوٹے بش کے صدر بنتے ہی جن کا کٹّر جنگجو قدامت پسندوں ڈک چینی، ڈونالڈ رمسفیلڈ، اور پال وولفووٹز نے محاصرہ کررکھا تھا، دو بڑی جنگوں کے منصوبے تیار ہوچکے تھے۔ اور ایسا محسوس ہوتا تھا کہ جیسے انتظار 9/11کا تھا۔ ستمبر میں نیویارک کے ٹریڈ ٹاورز پر حملہ ہوا اور ۲۶؍روز کے اندر اندر افغانستان پر فوج کشی کی گئی۔ اس سے پہلے دنیا میں کہیں اتنی سرعت کے ساتھ اتنی بڑی فوج کو جنگ کے لیے منظم نہیں کیا گیا تھا۔ یہ واقعی حیرت انگیز بات تھی اور یقینا ایک طویل عرصے کی منصوبہ بندی اور تیاری کے بغیر یہ فوج کشی ممکن نہیں تھی، جس میں افغانستان کے شہروں، پہاڑوں اور کھیت کھلیانوں کو آناً فاناً میں تہس نہس کرکے رکھ دیا گیا۔ شروع کے تین ماہ میں خود امریکی اعداد وشمار کے مطابق پندرہ ہزار سے زیادہ افغان شہری ہلاک ہوئے۔ امریکہ کے افغانستان پر حملے کا اولین مقصد اسامہ بن لادن کو پناہ دینے والی طالبان کی حکومت کا قلع قمع کرنا، اسامہ بن لادن کو تلاش کرنا اور ان کی تنظیم القاعدہ کا خاتمہ قرار دیا گیا تھا۔ دس سال بعد بھی امریکی، طالبان سے نبرد آزما ہیں، اور اب اتنے زچ ہوچکے ہیں کہ ۲۰۱۴ء میں افغانستان سے اپنی فوج کے انخلاء کی تیاری کررہے ہیں۔
قدم قدم پر اپنے مقاصد میں ناکامی کے بعد امریکی اپنے مقاصد بھی تبدیل کرتے رہتے ہیں۔ پہلے افغانستان کے خلاف جنگ کا مقصد اسامہ بن لادن کو پکڑنا اور القاعدہ کا قلع قمع کرنا بتایا گیا تھا۔ جب اس میں فوری طور پر کوئی کامیابی نہ ہوسکی تھی امریکیوں اور ان کے اتحادیوں نے یہ جواز پیش کرنا شروع کردیا کہ یہ جنگ دراصل لندن، واشنگٹن اور یورپ کے شہروں کو دہشت گردی سے محفوظ رکھنے کے لیے لڑی جارہی ہے۔ جب اس منطق پر سوال شروع ہوئے تو یہ کہا گیا کہ یہ جنگ درحقیقت افغانستان میں جمہوریت کے قیام اور اس کو مضبوط بنانے کے لیے لڑی جارہی ہے۔ اس میں شک نہیں کہ کابل میں صدر کرزئی کی قلعہ بندحکومت اور دھاندلیوں کے بل پر افغان پارلیمنٹ کا ڈھانچہ تو کھڑا کردیا گیا ہے، لیکن ملک میں اقتدار بدستور علاقائی جنگ جو سرداروں کے ہاتھ میں ہے۔ امریکہ اور اس کے اتحادی نہ صرف طالبان کو زیر کرنے میں ناکام رہے ہیں، بلکہ اب اس افغان فوج میں تیزی سے بڑھتے ہوئے طالبان کے حامی عناصر سے شدید خطرہ لاحق ہے، جس کی تربیت پر اب تک امریکیوں نے ۱۲؍ارب ڈالر خرچ کیے ہیں۔ ۲۰۰۷ء سے اب تک افغان فوجیوں کے ہاتھوں ناٹو کے ۷۶ فوجی مارے جاچکے ہیں۔
دراصل ابھی تک امریکیوں کو افغانستان کے تاریخی حقائق کا صحیح معنوں میں ادراک نہیں ہوسکا ہے۔ ۱۹۱۹ء سے جب کہ امان اللہ خاں کے زمانے میں پہلی بار آئین نافذ ہوا تھا اور قومی اسمبلی کا قیام عمل میں آیا تھا، افغان فوج یکسر بے عمل رہی ہے۔ فوج نہ تو کسی بادشاہ یا صدر کو،نہ کسی حکومت کو تحفظ دے سکی ہے، اور نہ ملک کا دفاع کرسکی ہے۔ ۱۹۷۹ء میں جب سوویت فوج دریائے آموپار کرکے افغانستان پر قابض ہوئی تب بھی افغان فوج نے کوئی مزاحمت نہیں کی۔ یہی وجہ ہے کہ افغان فوج کو محض بینڈ باجے اور سلامی دینے والی فوج کہا جاتا رہا ہے۔
بہت سے امریکی فوجی افسروں کا کہنا ہے کہ موجودہ افغان فوج کی بنیا دپر امریکی فوجوں کے انخلاء کی حکمت عملی سخت تباہ کن ثابت ہوگی،کیونکہ یہ افغان فوج ناٹو کی افواج کے انخلاء کے بعد نہ تو ملک کی داخلی سیکوریٹی سنبھال سکے گی اور نہ ملک کا دفاع کرسکے گی۔ غرض امریکہ افغانستان میں پچھلے دس برس کی جنگ میں ناکام رہا ہے اور مستقبل میں بھی کامیابی کے امکانات معدوم نظر آتے ہیں۔
عراق جنگ کے جو مقاصد تھے،اُن میں سے امریکہ سوائے تیل پر قبضہ جمانے اور اسرائیل کو اس کے مشرقی محاذ کے خطرات سے نجات دلانے کے اور کچھ حاصل نہیں کرسکا ہے۔ اس جنگ کا بنیادی مقصد اس پورے علاقے میں امریکی فوجی، اقتصادی اور سیاسی تسلط جمانا تھا، جس میں امریکہ کو خفت آمیز ناکامی کا سامنا کرنا پڑا ہے۔ ۲۰۰۳ء میں امریکیوں کی طرف سے دعویٰ کیا جاتا تھا کہ دنیا کو محفوظ بنانے کے لیے صدام حسین کے اقتدار کا خاتمہ لازمی ہے۔ لیکن صدام حسین کے زوال کے بعد نہ تو عراق میں امن قائم ہوسکا ہے، اور نہ دنیا محفوظ ہے۔ امریکی اداروں کے اعداد وشمار کے مطابق صرف جنگ کے دوران ایک لاکھ پندرہ ہزار شہری اپنی جانوں سے ہاتھ دھو بیٹھے ہیں اور جنگ کے بعد امریکیوں کی بھڑکائی ہوئی شیعہ سنی لڑائی میں اب تک ۲۵؍ہزار شہری جاں بحق ہوچکے ہیں۔
عراقیوں کا کہنا ہے کہ یہ تمام تر خون جارج بش اور ٹونی بلیئر کے ہاتھوں پر ہے۔ امریکیوں کی ناکامی اس امر سے عیاں ہے کہ عراق جنگ کے بعد زاہدان سے لے کر بیروت کے ساحل تک پورے علاقے میں ایران کا سیاسی اور فوجی اثر بڑھا ہے، جس کے بارے میں امریکیوں نے سوچا تک نہیں تھا۔
ادھر پاکستان سے متعلق صدر اوباما کے جو عزائم تھے وہ بڑی حد تک خود ان کی جنگجو پالیسیوں کی وجہ سے بکھر گئے ہیں۔ ستمبر ۲۰۰۸ء میں صدارتی انتخابی مہم کے دوران بارک اوباما نے صاف صاف کہا تھا کہ اگر پاکستان نے اسامہ بن لادن اور القاعدہ کے خلاف کوئی کارروائی نہیں کی اور امریکہ سے تعاون نہیں کیا تو امریکہ خود پاکستان میں فوجی کارروائی کرنے میں حق بجانب ہوگا جس کو امریکہ نے دس ارب ڈالر کی امداد دی ہے۔ جنوری ۲۰۰۹ء میں برسرِ اقتدار آنے کے بعد انھوں نے پاکستان کے تئیں نہایت جارحانہ پالیسیاں اختیار کیں۔ کہنے کو تو انھوں نے افغانستان میںجنگ کے جلد از جلد خاتمے کے لیے ۳۰؍ہزار امریکی فوج بھیجی لیکن دراصل اتنی بڑی تعداد میں افغانستان میں امریکی فوج جھونکنے کا مقصد پاکستان پر فوجی دباؤ بڑھانا تھا۔ پھر ایک بڑی تعداد میں بلیک واٹر کے کرائے کے فوجیوں کو خفیہ طور پر پاکستان کی سرزمین پر اتارنا، جنھوں نے دہشت گردی کے خلاف کارروائیوں کے نام پر پاکستان میں ٹارگٹ کلنگ کا سلسلہ شروع کیا، جس کا مقصد پاکستان میں عدمِ استحکام پیدا کرنا تھا۔ ریمنڈڈیوس بھی ان ہی کارروائیوں کا ایک اہم حصہ تھا جس نے جنوری ۲۰۱۱ء میں لاہور میں دو پاکستانی شہریوں کا قتل کیا تھا، جس کی رہائی کے لیے صدر اوباما نے براہِ راست مداخلت کی تھی۔
قبائلی علاقوںمیںامریکی ڈرون حملوں کی وجہ سے پاکستان میں صدر اوباما کی حکمتِ عملی کو زبردست زک پہنچی ہے۔ صدر اوباما نے پاکستان میں کھلم کھلا امریکی فوج بھیج کر جارحیت کے بجائے ڈرون حملوں کے ذریعے خفیہ جنگی حکمتِ عملی اختیار کی ہے۔ اس جنگ کے لیے بڑی تعداد میں فوجوں کی نقل و حرکت کی ضرورت نہیں اور نہ امریکی جانوں کا خطرہ ہے۔ ڈرون حملوں کا یہ سلسلہ بین الاقوامی قوانین کی صریح خلاف ورزی ہے جسے عالمی عدالتِ انصاف میں چیلنج کیا جاسکتا ہے، لیکن پاکستان کے موجودہ حکمرانوں کو اس بنا پر ہمت نہیں ہوتی کیونکہ یہ ڈرون حملے دراصل اس NROکا ایک حصہ ہیں جس کی بنیاد پر بے نظیر بھٹو وطن واپس آئی تھیں اور آج آصف علی زرداری ایوانِ صدر کے مکین ہیں۔ اوباما سے پہلے کسی امریکی صدر نے اس پیمانے پر چن چن کر شہریوں کو نہیں مارا جتنا کہ خود انھوںنے مارا ہے۔ ان کے ہاتھوں پر ۲۷۷۰ افراد کا خون ہے، جن میں ۱۶۰ معصوم بچے بھی شامل ہیں۔ صدر اوباما کے دور میںاب تک پاکستان کے قبائلی علاقوں میں ۲۱۰ ڈرون حملے ہوئے ہیں۔ جب کہ جارج بش کے زمانے میں صرف ۴۴حملے ہوئے تھے۔ صدر اوباما کا دعویٰ ہے کہ پاکستان میں ڈرون حملے بے حد کامیاب رہے ہیں کیونکہ ان کا کہنا ہے کہ ان میں شہری کم اور دہشت گرد زیادہ مارے گئے ہیں۔ جب کہ خود امریکی دفاعی مبصرین کا کہنا ہے کہ ہلاک ہونے والے شہریوں کی تعداد کا تناسب ایک دہشت گرد کے مقابلے میں دس ہے۔
یہ امریکہ جیسی سپر طاقت کی ناکامی نہیں تو اور کیا ہے کہ اس نے شہریوں کی ٹارگٹ کلنگ کے لیے ڈرون حملوں کی یہ خفیہ جنگ اختیار کی ہے! یہ کہنا غلط نہیں ہوگا کہ عراق سے لے کر افغانستان اور پاکستان تک امریکہ ناکامی کا سامنا کررہا ہے۔ مشرقِ وسطیٰ میں انقلاب کی لہرنے اسے اس علاقے کے سیاسی اکھاڑے کے کنارے پر کھڑا کردیا ہے۔ اسرائیل جس خطرناک انداز سے اسے ایران کے خلاف جنگ میں ڈھکیل رہا ہے، اس پر صدر اوباما اگلے صدارتی انتخاب میں یہودی ووٹ اور یہودی مالی حمایت کی آس میں یکسر بے بس ہیں۔ ۲۰۰۹ء میں صدر کا عہدہ سنبھالنے کے بعد جس طمطراق سے اوباما نے گوانتاناموبے کا عقوبت خانہ بند کرنے کا اعلان کیا تھا، وہ تین سال کے بعد بھی محض وعدہ ہی ہے۔ اور مشرقِ وسطیٰ میں اسرائیل اور فلسطینیوں کے درمیان صلح کرانے کا دعویٰ بھی اسرائیل سے دوستی پر قربان ہوگیا ہے۔ یورپ اپنے مالی بحران کی وجہ سے امریکہ سے بالکل کٹ کر رہ گیا ہے۔ ویسے بھی یورپ اپنے موجودہ مالی بحران کا الزام امریکہ پر عائد کرتا ہے، جہاں بڑے بڑے بینکوں نے پوری دنیا کو مالی زلزلے سے دوچار کردیا ہے۔ جہاں تک روس کا تعلق ہے امریکہ کو توقع تھی کہ سوویت یونین کے مسمار ہونے اور سرد جنگ کے خاتمے کے بعد روس اپنے نئے سرمایہ داری نظام کی بدولت امریکہ کے قریب آئے گا، لیکن آج بھی امریکہ اور روس کے درمیان اتنی ہی وسیع خلیج حائل ہے، جتنی کہ سوویت یونین کے زمانے میں تھی۔ روس اس بات پر سخت ناراض ہے کہ امریکہ نے اس کے پرانے زیرِ اثر وسطی یورپ پر قبضہ جمالیا ہے اور یورپی یونین میں مشرقی یورپ کے ان ملکوں کی شمولیت کے بعد روس کے زیرِ اثر اس کے حریف بن گئے ہیں۔
چین کے ساتھ امریکہ کی اب تک اقتصادی تعاون اور دوستی کی زبردست پینگیں بڑھ رہی تھیں، لیکن شام کی شورش اور خاص طور پر ایران کے معاملے پر اختلافات اب کشیدگی کی صورت اختیار کرتے جارہے ہیں۔ جاپان آج کل اپنے اقتصادی اور جوہری مسائل میں بہت زیادہ الجھا ہوا ہے، اس لیے امریکہ کے ساتھ گرم جوشی کی جگہ سرد مہری نے لے لی ہے۔ اگر عالمی تناظر میں دیکھا جائے تو درحقیقت اس وقت امریکہ محض نام کا سپر پاور رہ گیا ہے اور یہ کہنا غلط نہ ہوگا کہ وہ اپنی ناکامیوں کے حصار میں گھرا ہوا ہے۔ ——

مزید

حالیہ شمارے

ماہنامہ حجاب اسلامی ستمبر 2024

شمارہ پڑھیں

ماہنامہ حجاب اسلامی شمارہ ستمبر 2023

شمارہ پڑھیں

درج بالا کیو آر کوڈ کو کسی بھی یو پی آئی ایپ سے اسکین کرکے حجاب اسلامی کو عطیہ دیجیے۔ رسید حاصل کرنے کے لیے، ادائیگی کے بعد پیمنٹ کا اسکرین شاٹ نیچے دیے گئے  وہاٹس ایپ پر بھیجیے۔ خریدار حضرات بھی اسی طریقے کا استعمال کرتے ہوئے سالانہ زرِ تعاون مبلغ 600 روپے ادا کرسکتے ہیں۔ اس صورت میں پیمنٹ کا اسکرین شاٹ اور اپنا پورا پتہ انگریزی میں لکھ کر بذریعہ وہاٹس ایپ ہمیں بھیجیے۔

Whatsapp: 9810957146