سائنس دانوں نے جینیٹک انجینئرنگ کے ذریعہ ایک نہایت تیز رفتار اصلی زندگی پیدا کرڈالی ہے، وہ ہے ایک چوہا جو اپنے قدرتی بھائی بندوں کو آسانی سے شکست دے سکتا ہے۔ اس نئے جینیٹک چوہے کو جب ایک پنجرے کے اندر ترچھی پٹی پر کھلا چھوڑ دیا گیا تو یہ چھ گھنٹوں تک بغیر تھکے بغیر رکے دوڑتا رہا۔ یعنی رکنے تک وہ کئی کلومیٹر دوڑ چکا تھا۔ عام چوہا اسی رفتار سے محض دو سومیٹر دوڑ کر رک گیا اور ہانپنے لگا۔
یہ نیا چوہا عام چوہوں سے ۶۰ فیصد زیادہ غذا کھا سکتا ہے پھر بھی فٹ اور دبلا پتلا رہ سکتا ہے۔ یہ زیادہ عرصہ تک جی بھی سکتا ہے اور آخری عمر تک بچے پیدا کرسکتا ہے۔ رچارڈ ہینسن اور پروین حکیمی نام کے دو سائنس دانوں نے کلیو لینڈ اوہیو (امریکہ) کے کیس ویسٹرن رزرو یونیورسٹی ( ـCase Western Reseve Univrsity) میں کام کرتے ہوئے ایسا چوہا ایک جین کو بدل کر پیدا کردیا۔ یہ جین Pepck-Cنام کے انزئم کو کنٹرول کرتا ہے جو توانائی کے metabolismمیں مشغول رہتا ہے۔ اس جینیٹک تبدیلی نے جاندار کے ڈھانچہ پر چڑھے ہوئے عضلات کے اندرحد سے زائد توانائی پیدا کرنے کی صلاحیت بنادی ہے۔ ان محققین نے ایسے پانچ سو سپر چوہے تیار کیے ہیں۔ جو آسانی سے یوں پہچانے جاسکتے ہیں کہ یہ پنجرے میں ہر وقت دوڑتے نظر آتے ہیں۔ ان جینیٹک تبدیلی والے سپر چوہوں کی مادہ ڈھائی سال تک بچے دے سکتی ہے جبکہ عام چوہیا ایک ہی سال تک بچے دیتی ہے۔ عضلات اور Fatty Acidsکے اندر انزئم Pepck-Cجو رول ادا کرتی ہے اس پر پانچ سال تک مطالعہ کرنے کے بعد ایسے چوہے تیار کیے جاسکے۔ قدرتی چوہوں اور انسانوں کے برخلاف یہ سپر چوہے صرف Fatty Acidsکو ہی جلاکر توانائی حاصل کرتے ہیں۔ اس عمل میں بہت کم Lactic Acid پیدا ہوتا ہے جو میٹابولزم کا بائی پروڈکٹ ہے۔ اس acidسے زیادہ کام کرنے پر (خاص کر آکسیجن کی ناکافی مقدار کے سبب) عضلات میں اینٹھن اور اکڑن آنے لگتی ہے۔
عام چوہا دوڑتے دوڑتے ۱۹ منٹ پر رک گیا جبکہ یہ چوہا ۳۱ منٹ تک دوڑتا رہا۔ پروفیسر ہینسن کہتے ہیں کہ یہ ایسا عمل نہیں ہے جو آپ انسانوں کے ساتھ کرسکیں، کیونکہ یہ غیر اخلاقی ہوگا۔ حالانکہ کرسکنا ممکن ہے۔ اس کے لیے انسان کو غیر معمولی غذا اور زیادہ مقدار میں کھانی ہوگی۔ لیکن ہم جانتے ہیں کہ ورزش کی وجہ سے کینسر ہونے کا خطرہ کم ہوجاتا ہے۔ اس لیے چوہوں پر یہ تجربہ کیا گیا۔ تاکہ کینسر ختم کیے جانے کے مطالعہ میں کار آمد ثابت ہوسکے۔
ان سپر چوہوں کی تیاری بلاشبہ جدید سائنسی تحقیقات کا ایک بڑا کارنامہ تصور کیا جاسکتا ہے اور اسے ’’جینیٹک سپرمین‘‘ کی تیاری کی طرف ایک قدم بھی کہا جاسکتا ہے۔ اگرچہ سائنس دانوں نے ’’سپرمین‘‘ کی تیاری کے امکانات کو یہ کہہ کر رد کردیا کہ یہ غیر اخلاقی ہے۔ مگر ان غیر اخلاقی کہنے والوں کا معیار اخلاق اور فلسفۂ اخلاق ہر شب و روز تبدیل بھی ہوتا رہتا ہے۔ اور اس فلسفۂ اخلاق کی ان کے نزدیک مضبوط ترین بنیاد ان کا مفاد ہے۔ اگر ’’متوقع سپر مین‘‘ امریکی انڈسٹری کے لیے مفید ثابت ہوا تو انہیں اس کی تیاری کے لیے اتنا جواز کافی ہوگا کہ اس سے ان کاانڈسٹریل ڈیولپمنٹ ہوگا اور ’لیبر خرچ‘ کم ہوگا جس سے پروڈکٹ کی قیمت بھی کم ہوجائے گی اور دنیا کے تمام انسانوں کو سستی اشیا میسر آسکیں گی۔
واضح رہے کہ اب سے کئی سال پہلے جب امریکی سائنس دانوں نے DNAکی مدد سے ’ڈالی‘ نام کی بھیڑ پیدا کی تھی تو ساری دنیا میں ہلچل مچ گئی تھی۔ اس وقت بھی کہا گیا تھا کہ اس طریقے سے انسان نہیں پیدا کیے جائیں گے۔ اور آج اسی مسئلہ کو لے کر کافی ڈبیٹ ہے جبکہ بعض لوگوں کا خیال ہے کہ اس ترکیب سے سائنس دانوں نے کئی سو انسان پیدا کرلیے ہیں مگر اس بات کو لوگوں سے مخفی رکھا گیا ہے۔ اگر یہ بات درست ہو اور مستقبل میں ’’سپر مین‘‘ کی تیاری بھی جائز قرار دے دی گئی تو انسانیت کا کیا ہوگا؟ اس کے تصور سے ہی رونگٹے کھڑے ہوجاتے ہیں۔