قرآنِ مجید نے سچ بولنے والوں کی تعریف کی ہے اور جھوٹ بولنے والوں کے بارے میں بتایا ہے کہ وہ سخت سزا پائیں گے۔ سچ بولنے والوں کو جو انعامات ملیں گے ان کے بارے میں اللہ پاک نے فرمایا: ’’یہ وہ دن ہے (قیامت کا دن) جس میںسچوں کو ان کی سچائی بہت فائدہ دے گی۔ ان کے لیے ایسے باغ ہیں جن کے نیچے نہریں بہہ رہی ہیں۔ یہاں وہ ہمیشہ رہیں گے۔ اللہ ان سے راضی اور وہ اللہ سے راضی، یہی بڑی کامیابی ہے۔‘‘ (المائدۃ:۱۹۹)
اس آیت سے اس مرتبے اور شان کا اندازہ ہوتا ہے جو اللہ پاک اپنے اُن بندوں کو دے گا جو سچے ہوں گے۔ آخرت کی زندگی کے فائدے کے علاوہ اس دنیا میں بھی ایسے لوگوں کو بہت عزت اور کامیابی نصیب ہوتی ہے جو جھوٹ نہیں بولتے۔
جھوٹ دراصل ایک ایسی برائی ہے جس کی وجہ سے زندگی میں بہت فساد پھیلتا ہے اور جو انسان کے اندر بزدلی کی وجہ سے پیدا ہوتی ہے۔
جھوٹی بات اس بات کوکہا جاتا ہے جس میں اصلیت کو چھپایا گیا ہو اور کسی بے گناہ پر الزام لگادیا گیا ہو، مثال کے طور پر ننھے میاں کے ہاتھ سے شیشے کا گلاس گر کر ٹوٹ گیا اور جب امی جان نے پوچھا کہ گلاس کس نے توڑا ہے تو صاف انکار کردیا۔ میں نے تو نہیں توڑا۔ یا یہ کہہ دیا یہ تو منی باجی نے توڑا ہوگا۔ وہی پانی پی رہی تھیں۔
اچھی بات تو یہ تھی کہ ننھے میاں اپنی غلطی مان لیتے اور امی جان کو بتادیتے کہ گلاس میرے ہاتھ سے گر کر ٹوٹ گیا ہے۔ ایسی صورت میں امی کی پریشانی اسی وقت ختم ہوجاتی۔ انہیں معلوم ہوجاتا کہ نقصان کس طرح ہوا ہے، لیکن ننھے میاں نے سزا کے خوف سے ایسا نہ کیا، دوسرے لفظوں میں وہ بزدل ہونے کی وجہ سے ایسا نہ کرسکے اور ان کے جھوٹ سے گلاس ٹوٹ جانے کا معاملہ ختم ہونے کے بجائے اور الجھ گیا۔ وہ اس طرح کہ امی جان نے گھر کے دوسرے بچوں پر شک کیا یا بے گناہ منی کی شامت آئی، جس پر ننھے میاں نے الزام لگایا تھا۔
بچوں نے اپنی بے گناہی ثابت کرنے کے لیے غل مچایا اور یوں گھر میں اچھا خاصا شور مچ گیا۔ غور کیا جائے تو دنیا میں جتنے جھگڑے اور خرابیاں نظر آتی ہیں وہ جھوٹ یا ایسی ہی کسی برائی کی وجہ سے پیدا ہوتی ہیں۔ اگر سب سچ بولیں اور اسی طرح کے دوسرے گناہ نہ کریں تو ہماری زندگی ہر قسم کی خرابیوں سے پاک ہوجائے۔ دنیا میں فساد پھیلنے کے علاوہ جھوٹ اور دوسرے گناہوں میں ایک بڑی خرابی یہ بھی ہے کہ یہ گناہ کرنے والے جو فائدہ حاصل کرنے کے لیے گناہ کرتے ہیں وہ انہیں حاصل نہیں ہوتا۔ یہ تو ممکن ہے کہ چند دن کسی کو معلوم نہ ہو کہ ننھے میاں جھوٹے ہیں یا سچے، لیکن آخر یہ بھید کھل جاتا ہے۔ بزرگوں نے کہا ہے سو دن چور کے ایک دن سادھ کا۔ اس کہاوت کا مطلب یہی ہے کہ گناہ کرنے والا بالآخر پکڑا جاتا ہے اور اس کے بارے میں سب جان جاتے ہیں کہ یہ تو نرے گپّی اور دھوکہ باز ہیں۔ اب وہ اپنی طرف سے لاکھ اچھے بنیں، اپنے شریف اور نیک ہونے کا یقین دلائیں، لیکن کسی کو اعتبار نہیں آتا، بلکہ حالت یہ ہوجاتی ہے کہ دوسروں کے گناہ بھی ان کے نام لگتے ہیں۔ غلطی کسی نے بھی کی ہو سب سے پہلے انہی کی طرف دھیان جاتا ہے جیسے پولیس سب سے پہلے نامی غنڈوں سے پوچھ گچھ کرتی ہے۔ بچپن میں تو خیر یہ معاملہ اس سے آگے نہیں بڑھتا کہ کسی بچے نے جھوٹ بولا اور امی یا ابو نے ڈانٹ ڈپٹ کر چھوڑ دیا، لیکن بڑی عمر میں ایسی عادتوں سے بہت نقصان اٹھانا پڑتا ہے۔ ایسا آدمی کسی دفتر میں کام کررہا ہو یا تاجر ہو سب اسے ایک فضول اور بیہودہ آدمی سمجھتے ہیں۔ اس کی بات کا اعتبار نہیں کرتے، نہ اس کے ساتھ مل کر کوئی کاروبار کرنے کے لیے تیا رہوتے ہیں۔ سب یہی کہتے ہیں، خدا جانے اس کی کون سی بات سچ ہے، کون سی جھوٹی اور اللہ جانے یہ کب کس قسم کا نقصان پہنچادے! خدانخواستہ اگر کسی بچے کو جھوٹ بولنے کی عادت پڑگئی ہے، تو اسے چاہیے یہ عادت فوراً چھوڑ دے۔ اگر اس نے ایسا نہ کیا تو ہوتے ہوتے یہ ایسی پکی ہوجائے گی کہ کوشش کرنے کے باوجود نہ چھوٹ سکے گی اور اسے ساری زندگی اس کا برا نتیجہ بھگتنا پڑے گا۔ نہ وہ ترقی کرسکے گا اور نہ اسے عزت حاصل ہوگی۔ ان سب باتوں کے علاوہ جھوٹ کے بہت بڑا گناہ ہونے کا ایک ثبوت یہ بھی ہے کہ کوئی شخص بھی یہ نہیں چاہتا کہ اس سے جھوٹ بولا جائے۔ یہاں تک کہ جو لوگ خود جھوٹ بولتے ہیںاُن کی خواہش بھی یہی ہوتی ہے کہ ان سے جو بات کہی جائے سچ ہو اور اُن کے ساتھ جو معاملہ کیا جائے اس میں کسی قسم کی بے ایمانی نہ ہو۔ اور یہ خواہش اس لیے ہوتی ہے کہ ہر کوئی اس نقصان سے بچنا چاہتا ہے جو جھوٹ اور دوسرے گناہوں کی وجہ سے لازمی طور پر پہنچتا ہے۔
غور کریں تو ہماری دنیا کا سارا کاروبار سچ اور ایمانداری کی وجہ سے چل رہا ہے۔ اسکول میں جو ماسٹر صاحب پڑھاتے ہیں وہ اپنا کام اس لیے باقاعدگی سے کرتے ہیں کہ وعدے کے مطابق انہیں ہر مہینے مقررہ تاریخ پر تنخواہ مل جاتی ہے۔ اس کے بجائے اگر حکومت وعدے کے مطابق تنخواہ نہ دے تو ماسٹر صاحب بچوں کو پڑھانا چھوڑ دیں گے اور اسکول بند ہوجائے گا۔ بس یہی حال دنیا کے سارے کاموں کا ہے، لوگ اپنے وعدے پورے کرتے ہیں (وعدہ پورا کرنا بھی سچ بولنا ہی ہے) دوسروں کے وعدوں پر اعتبار کرتے ہیں اور سب کام چل رہے ہیں۔ اگر خدا نہ کرے ایسی صورت پیدا ہوجائے کہ ہر آدمی جھوٹ بولنے اور دوسروں کو دھوکہ دینے لگے تو سارا انتظام تل پٹ ہوجائے۔
اللہ پاک نے جھوٹ کو ایک بڑا گناہ قرار دیا ہے، تو اس کی وجہ یہی ہے کہ یہ بہت زیادہ تباہی پھیلانے والی عادت ہے۔ بچوں کو چاہیے اس کے پاس بھی نہ جائیں۔ یقینا یہ ایک بہت بڑا گناہ ہے۔ اللہ پاک نے جھوٹوں پر لعنت بھیجی ہے۔ جھوٹ چھوٹا ہو یا بڑا، اس سے بچنا ضروری ہے۔