سیاست کی دنیا

محمد طارق، امراؤتی

منتری جی وزیرخارجہ تھے۔ موت نے ہی انھیں لوک سبھا سے خارج کیا۔ وہ جب لوک سبھا سے پرلوک سدھارے، سُر (فرشتے) انہیں سیدھا سورگ لے گئے۔

سورگ میں ہر قسم کے پھلوں کے باغات، جن میں دودھ اور شہد کی بہتی ہوئی نہریں، شفاف پانی کے جھرنے، ہیرے جواہرات اور بیش قیمت موتیوں سے بنے محلات جن میں حوروغلمان کی آمدورفت تھی۔

سورگ دیکھ کر منتری جی کی باچھیں کھل گئیں۔ ’’ارے واہ! میں سمجھتا رہا تھا، مرنے کے بعد کچھ نہیں، مگر یہاں تو پرماتما نے میرے لیے سورگ سجا رکھی ہے۔ دنیا تو میرے لیے سورگ تھی ہی اور پرلوک بھی سورگ!‘‘

’’ہے پرماتما تو بڑا مہان ہے۔

سارے جگ میں تیری شان ہے۔

تو دیالو اور مہربان ہے۔

تجھ پر میرا ایمان ہے۔‘‘

’’خاموش! چرب زبان، مکار، عیاش، بدمعاش، اپنی بکواس بند کر۔ یہ تیری دنیا نہیں اور نہ لوک سبھا، یہ پرلوک ہے۔ یہاں پرماتما کا ہی قانون چلتا ہے اور پرماتما جیسا انصاف کرنے والا کوئی نہیں، جس طرح تو جیون بھر جنتا کو جھوٹے سپنے دکھا کر ان کی زندگیاں نرک بناتا رہا اسی طرح آج تجھے سورگ دکھا کر نرک میں پہنچانے کا یہ شبھ کاریہ پرماتما نے ہمیں سونپا ہے۔‘‘ سروں نے منتری جی کی مشکیں باندھیں۔

’’نہیں!‘‘ منتری جی چیخ اٹھے ’’یہ ورودھی پکش کا کام ہے۔ یہ ورودھی پکش کا کام ہے۔‘‘

منتری جی چلا رہے تھے اور سُر انھیں نرک کی طرف گھسیٹتے ہوئے لے جارہے تھے … اور اُن کا مردہ جسم شہر کے فرسٹ کلاس، اسپتال کے بیڈ پر پڑا تھا۔ بیڈ کے اطراف ان کے اہل و عیال، پارٹی کے نیتا، فلم کے ابھینتا، منتری، سنتری، الیکٹرانک میڈیا اور پرنٹ میڈیا کے رپورٹر سوگ کا سوانگ رچائے، ہاتھ باندھے، سرجھکائے کھڑے تھے۔

منتری جی کی موت کے وقت ان کے سرہانے ان کا بیٹا اور دوسری طرف وزیر صحت، پائنتی میں دائیں طرف قانون منتری اور بائیں پارٹی کے مہا سچیو بیٹھے تھے۔اطراف میں ان کی پتنی، ملک کے مشہور اخبار ’’جنتا کی آواز‘‘ کے سمپادک اور منتری جی کا ایک کاریہ کرتا اور سنتری کھڑے تھے۔

انھوں نے منتری جی کی آخری دل دوز چیخ سنی تھی چیخ کے بعد منتری جی کے لبوں سے نکلے ہوئے ٹوٹے لہجے میں کہے ہوئے آخری لفظوں کو سب نے بغور سنا تھا اور پھر ان لفظوں کو ایسے اچک لیا تھا جیسے وہ منتری جی کے آخری لفظ نہیں، ان کے لیے قیمتی خزانہ تھے۔ ’’یہ … ورودھی… پکش… کا … کام … ہے۔‘‘

’’ڈیڈی نے کیا کہا؟ تم نے سنا؟‘‘ منتری جی کے بیٹے نے وزیرِ صحت سے دریافت کیا۔

’’ہاں! میں نے سنا۔‘‘ وزیر صحت جو تجربہ کار، منجھے ہوئے سیاست داں تھے آہ بھر کے نپے تلے لفظوں میں فرمانے لگے: ’’انھوںنے موت کو گلے لگاتے ہوئے کہا یہ ورودھی لوگوں کا کام ہے۔‘‘

’’نہیں، منتری جی نے ایسا تو نہیں کہا۔‘‘ منتری جی کا کاریہ کرتا جو پاس کھڑا تھا بول پڑا۔ ’’اُن کے آخری شبد تھے، ’’یہ ورودھی پکش کا کام ہے!‘‘

’’تم نے غلط سنا!‘‘ قانون منتری کاریہ کرتا پر برس پڑے۔

’’ہاں، تم نے غلط سنا۔‘‘ پارٹی کے مہا سچیو نے کاریہ کرتا کو تیکھی نظروں سے دیکھا۔

’’تم غلط کہہ رہے ہو، میں نے منتری جی کے آخری شبدوں کو دھیان سے سنا۔‘‘ ’’جنتا کی آواز‘‘ اخبار کا سمپادک پر اعتماد لہجے میں کہنے لگا: ’’منتری جی نے اپنے کٹھور جیون کی انتم یاترا پر جاتے سمئے اپنی موت کا کارن ہمیں بتادیا یہ ورودھی لوگوں کا کام ہے۔

وہ کاریہ کرتا بھلا مانس تھا، بھونچکا ہوگیا۔ سہم کر کہنے لگا: ’’ہاں، آپ لوگ جو کہہ رہے ہیں، وہی صحیح ہے۔ میں نے ہی غلط سنا۔‘‘

’’مگر ان کی موت تو ہارٹ اٹیک سے ہوئی ہے!‘‘  منتری جی کی پتنی ساڑی کے آنچل سے آنسو پونچھتے ہوئے بولی۔

’’شش!‘‘ سمپادک نے اپنے ہونٹوں پر انگلی رکھ کر منتری جی کی پتنی کو خاموش رہنے کا اشارہ کیا اور پھر بہت نمرتا سے کہنے لگا : ’’ماتا جی! منتری جی کیسے مرے، مرتے وقت انھوںنے کیا کہا یہ ہم سب جانتے ہیں۔ ہمیں ان کی موت کا اتنا ہی دکھ ہے، جتنا آپ کو ہے۔ وہ ہمارے لیے آدرش پُرش تھے۔ دیش کے بہادر، نڈر، دلیر نیتا، وہ ہارٹ اٹیک سے نہیں مرے، ان کی موت کا کارن ورودھی لوگ تھے، آپ نہیں جانتے اس راج نیتی کو۔‘‘

منتری جی کی پتنی فطرتاً سیدھی سادھی تھیں۔ گھر، گرہستی والی عورت، اسی لیے تو منتری جی نے اپنی پتنی کو راج نیتی سے اتنی دور رکھا تھا کہ اسے راج نیتی کی باتیں پلّے نہ پڑتی تھیں۔ وہ جیسا دیکھتیں، ویسا ہی بولتی تھیں جیسا سنتی تھیں ویسا ہی کہتی تھیں مگر اپنے پتی کی موت پر وہ جو دیکھ رہی تھیں اور جو سن رہی تھیں سب اُنھیں غلط لگ رہا تھا اسی لیے انھوں نے کہہ دیا تھا کہ ’’ان کی موت تو ہارٹ اٹیک سے ہوئی ہے۔‘‘

مگر سمپادک کے سمجھانے پر وہ شش و پنج میں مبتلا ہوکر ساڑی کے آنچل سے آنسو پونچھتے ہوئے سوچ رہی تھی، ان کی موت کا کارن … ورودھی لوگ؟ کون ہوسکتے ہیں میرے پتی کے ورودھی، وہ تو ہارٹ اٹیک سے مرے ہیں … تاہم سب کہہ رہے ہیں کہ انہیں ورودھی لوگوں نے مارا ہے … کیسے؟!

منتری جی کی پتنی کے دماغ کی نسیں تن رہی تھیں، سر جیسے پھٹا جارہا تھا اور ان کی آنکھوں سے آنسوؤں کی جھڑی جاری تھی۔ دیکھتے ہی دیکھتے اسپتال میں نیتا، علم کے ابھی نیتا، منتری، سنتری، شہر کے بزنس مین، اخبار اور ٹی وی کے رپورٹر آنے لگے تھے۔

وہ اپنے پتی کی لاش کے سرہانے غمزدہ ، پتھر کی مورت بنی اوڑھی، لپٹی، سرجھکائے کھڑی تھیں۔

لوگ آتے، ہاتھ باندھ کر، سرجھکا کر کھڑے ہوتے اور سوگ کا سوانگ رچا کر چلے جاتے۔ یہ سلسلہ کافی دیر چلا۔

پھر منتری جی کے اہل و عیال سمّان کے ساتھ منتری جی کی لاش کو ان کے بنگلے میں لے گئے اور ان کے انتم سنسکار کی تیاری میں جٹ گئے اور اخبار، ٹی وی کے رپورٹر منتری جی کی موت پر سنسنی خیز رپورٹ تیار کرنے میں مصروف ہوگئے۔

ٹی وی کے ہر نیوز چینل پر منتری جی کی موت کی خبر سنسنی خیز انداز میں کچھ اس طرح پیش کی جارہی تھی:

’’دیکھئے! منتری جی کی موت کا راز … کس نے کیا منتری کا قتل؟ … منتری جی نے موت کے وقت کیا اقرار … منتری جی کے آخری شبد تھے : ’’یہ ورودھی لوگوں کا کام ہے‘‘… کون تھے وہ ورودھی لوگ؟ … دیکھئے ہمارے نیوز چینل پر … جو رکھتا ہے پل پل کی خبر …ہم پیش کریں گے منتری جی کی زندگی اور موت پر ایک خاص رپورٹ، بریک کے بعد‘‘

ہر نیوز چینل پر منتری جی کی زندگی کو اس طرح پیش کیا جارہا تھا جیسے وہ ان کے ہر فعل کے عینی شاہد تھے، ان میں دیش کے مختلف سیاسی اور غیر سیاسی پارٹیوں کے نیتا بھی شریک تھے جو سج دھج کر ٹی وی پر آکر منتری جی کی موت پر پہلے غم کا اظہار کررہے تھے اور پھر ان کی شان میں زمین آسمان کے قلابے ہی نہیں ملا رہے تھے بلکہ آسمان سر پر اٹھا رہے تھے۔

بہرحال سارے نیوز چینل پر منتری جی کو بے باک، دلیر، بہادر لیڈر، غریبوں، دلتوں اور بچھڑے ہوئے لوگوں کا مسیحا، دیش بھکت، کسانوں کا ہمدرد، مزدوروں کا دوست، آتنک واد کا دشمن، انسانیت کا علمبردار اور امن کا ٹھیکیدار بناکر پیش کیا گیا۔

ہر نیوز چینل ان فرقہ وارانہ فسادات کو فراموش کررہا تھا جسے کروانے میں منتری جی ماہر تھے ۔ جہاں بھی وہ بھاشن دیتے ماحول کو اتنا گرما دیتے کہ فساد ہونے سے اسے کوئی مائی کا لال نہیں روک سکتا تھا۔ ہر نیوز چینل نے ان کے بھاشنوں سے ہوئے ہولناک، دل دہلانے والے فسادات کو یکسر نظر انداز کردیا تھا اور منتری جی کی ہارٹ اٹیک سے ہوئی فطری موت کو ان کا قتل بناکر پیش کرنے میں وہ کامیاب ہوگئے تھے۔

ایک نیوز چینل پر بریکنگ نیوز چل رہی تھی ’’منتری جی کو زہر دیا گیا تھا، کون تھا منتری جی کا قاتل، کس نے دیا تھا انہیں زہر، تفتیشی ایجنسیاں اس کی تفتیش کررہی ہیں۔‘‘

…سب سے تیز تیسرے نیوز چینل نے قاتل کو پیش کرکے سنسنی پھیلادی۔ ’’دیکھئے ! سب سے پہلے نے کیا منتری جی کی موت کے راز کا پردہ فاش! منتری جی کا قاتل کوئی اور نہیں ان کا کاریہ کرتا نکلا، جو درحقیقت ایک آتنک وادی تھا اور انہیں قتل کرنے کے لیے ہی ان کی پارٹی میں شامل ہوا تھا۔ اسی نے منتری جی کی چائے میں زہر ملایا تھا۔ خفیہ ایجنسی نے ’’خفیہ طریقے‘‘ سے اس کا پتہ لگالیا اور پولیس نے اسے دھردبوچا۔ دیکھئے کاریہ کرتا کے بھیس میں اس آتنک وادی کو جس کا تعلق باقاعدہ ایسی آتنک وادی سنگٹھن سے ملا ہے جو دیش میں آتنک پھیلا کر دیش کے ٹکڑے کرنا چاہتی ہے۔‘‘

پھر ٹی وی اسکرین پر ایک نوجوان کو دکھایا گیا۔ وہ نوجوان کوئی اور نہیں، وہی سہما ہوا کاریہ کرتا تھا۔ جو منتری جی کی موت کے وقت ان کے سرہانے کھڑا تھا جس نے منتری جی کے منہ سے نکلے ہوئے آخری شبدوں میں کوئی ہیرا پھیری نہیں کی تھی۔

الیکٹرانک میڈیا نے منتری جی کو مہاپرش ثابت کردیا تھا رہی سہی کسر پرنٹ میڈیا نے پوری کردی۔

سب سے پہلے ’’جنتا کی آواز‘‘ کے سمپادک نے ان پر خصوصی شمارہ نکالا اور پھر دیگر زبانوں کے اخبارات اور رسائل نے اس کی تقلید میں منتری جی کے ’’گوشے‘‘  چھاپے۔ ان پر خصوصی نمبر نکالے۔

دیش بھر میں منتری جی مرکر ایسے امر ہوئے کہ چناؤ میں ان کی پارٹی کو پھر اقتدار مل گیا۔ منتری جی کا بیٹا بھی الیکشن ایسا جیتا کہ اس کے مخالف امیدوار کی ضمانت ضبط ہوگئی۔ پارٹی نے اسے وزیر صحت بنادیا۔

اور منتری جی کی پتنی! اس کے دماغ کی نسوں کا تناؤں کم نہیں ہوا تھا۔ بلکہ اتنا بڑھ گیا تھا کہ منتری جی کے فرزندِ ارجمند نے علاج کے لیے اپنی ماتا جی کو پاگل خانے میں بھرتی کردیا تھا جہاں اس کا علاج جاری تھا … مگر علاج سے اس کے دماغ کی نسوں کے تناؤ میں اضافہ ہورہا تھا۔

آج منتری جی کی پتنی کو ایسا لگ رہا تھا کہ اس کا سر واقعی پھٹ جائے گا۔ کھوپڑی سے سارا بھیجا باہر آجائے گا۔ اس کی کنپٹیاں بری طرح چٹخ رہی تھیں …اس لیے اس نے وارڈ بوائے کو قریب آنے کا اشارہ کیا، وارڈ بوائے اس کے پاس آیا۔

منتری جی کی پتنی التجا آمیز لہجے میں اس سے کہنے لگیں: ’’دیکھو بیٹا! تم مجھے سمجھ دار لگتے ہو، میرے بیٹے میں تو تھوڑی بھی سمجھ داری نہیں ہے … پاگل خانے میں ڈال دیا، میں پاگل نہیں ہوں … نہیں ہوں میں پاگل، جو دیکھتی ہوں وہی کہتی ہوں، جتنا سنتی ہوں اتنا ہی بولتی ہوں … سنو بیٹا! میری ایک بات غور سے سن لو’’عورت اپنے مرد کو جتنا جانتی ہے، اتنا کوئی دوسرا نہیں جانتا … تم سمجھ رہے ہو نا میری بات! ‘‘ میرے پتی، منتری جی کیسے تھے میں جانتی ہوں۔ ہارٹ اٹیک سے ہی ان کی موت ہوئی، انہیں کسی نے زہر نہیں دیا تھا، کوئی ان کا ور ودھی نہیں تھا۔ وہ سب کے ورودھی تھے۔‘‘

’’ڈاکٹر صاحب!‘‘ وارڈ بوائے گھبرا کر منتری جی کی پتنی سے چار قدم پیچھے ہٹا اور پاس کھڑے ڈاکٹر کو آواز دی۔‘‘ ڈاکٹر صاحب! منتری کی پتنی کو پھر دورہ پڑا ہے۔‘‘

’’نہیں، میں پاگل نہیں ہوں … میں پاگل نہیں ہوں … ‘‘ منتری جی کی بیوی پاگلوں کی طرح چیختے ہوئے کھڑے ہوگئی۔ اس کی چیخ سن کر دو وارڈ بوائے دوڑتے ہوئے آئے، انھوں نے ان کی بانہیں پکڑلیں۔

’’چھوڑو … مجھے چھوڑو… میں پاگل نہیں ہوں، پاگل میرا بیٹا ہے۔ پاگل اس کی پارٹی والے ہیں … پاگل، پاگل خانے کے باہر آزاد گھوم رہے ہیں، میں پاگل نہیں ہوں بچاؤ… بچاؤ…میں مرجاؤں گی، ہے بھگوان!‘‘

وہ وحشت زدہ چیخ رہی تھی اور وارڈ بوائے منتری جی کی بیوی کو E.C.T الیکٹروکنویسو تھیراپی کے لیے لے جارہے تھے۔

مزید افسانے پڑھیں!

لحاف

شش و پنج میں عید

احساس اور کردار

مزید

حالیہ شمارے

ماہنامہ حجاب اسلامی ستمبر 2024

شمارہ پڑھیں

ماہنامہ حجاب اسلامی شمارہ ستمبر 2023

شمارہ پڑھیں

درج بالا کیو آر کوڈ کو کسی بھی یو پی آئی ایپ سے اسکین کرکے حجاب اسلامی کو عطیہ دیجیے۔ رسید حاصل کرنے کے لیے، ادائیگی کے بعد پیمنٹ کا اسکرین شاٹ نیچے دیے گئے  وہاٹس ایپ پر بھیجیے۔ خریدار حضرات بھی اسی طریقے کا استعمال کرتے ہوئے سالانہ زرِ تعاون مبلغ 600 روپے ادا کرسکتے ہیں۔ اس صورت میں پیمنٹ کا اسکرین شاٹ اور اپنا پورا پتہ انگریزی میں لکھ کر بذریعہ وہاٹس ایپ ہمیں بھیجیے۔

Whatsapp: 9810957146