اب سے ساڑھے چودہ صدیوں قبل جب ہادی اعظم اور اللہ کے آخری رسول نے مکہ کی سرزمین سے اعلان حق فرمایا اس وقت دنیا کے حالات کیا تھے ہم سب کو معلوم ہیں۔ پھر بھی اب جبکہ زمانہ علوم و فنون کی روشنیوں اور ایجادات اور اختراعات کی کارفرمائیوں سے چمک رہا ہے، انسانوں کے دل و دماغ پر جاہلیت کے اندھیرے کچھ اس طرح چھانے لگے ہیں جس طرح ساڑھے چودہ سو سال پہلے کے انسانوں کے دل و دماغ پر چھائے ہوئے تھے۔ گویا قدیم زمانے کی جاہلیت نے نیا روپ دھار کر انسانیت پر حملہ کیا ہے اور ذہن و فکر اور علم و عمل کے سانچے پھر اسی شکل پر لوٹ آئے ہیں۔ اچھائیاں اور بھلائیاں نہ صرف معدوم ہورہی ہیں بلکہ برائیوں کو اچھائی اور بھلائی بناکر پیش کیا جارہا ہے اور خیروشر کے معیاری اور پیمانوں ہی کو بدل دیا گیا ہے۔ اپنی ذات، اپنی پارٹی اور گروہ اور اپنے ملک و قوم کے مفاد کی ہر چیز اور ہر عمل جائز اور درست اور دوسروں کا حق بھی ناحق۔ ظلم و جبر اور نا انصافی اور قوت و طاقت کے بل پر افراد اور اقوام کو غلام بنانے کا عمل پھر جاری ہے اور مظلوموں اور کمزوروں کی داد رسی اور ان کے حق کے لیے آوازیں اب کہاں اٹھ رہی ہیں اور کیسے اٹھ سکتی ہیں جبکہ ظلم و جبر اپنے عروج پر ہے۔ اسی طرح عورت کی ذلت و رسوائی اور اس کے استحصال کی جو کیفیت آج دنیا بھر میں نظر آتی ہے تاریخ انسانی میں اسکی اس قدرگندی مثال مشکل ہی سے نظر آئے گی۔ نصف انسانیت کی یہ توہین اور اس پر ظلم اور استحصال کی یہ کیفیت عرب کی جاہلیت سے بھی زیادہ سنگین اور شدید ہے جہاں غیرت و حمیت ہی کو ’تہذیب‘ کا انجکشن دے کر ختم کرنے کی کوشش ہورہی ہے۔
حضور اکرم ﷺ نے جب لوگوں کے سامنے اللہ کی دعوت پیش کی تو کیسے کیسے الزامات لگائے گئے اور کیا کیا تکلیفیں آپ کو اور آپ کے ساتھیوں کو دی گئیں؟ اور آج بھی وہی سلسلہ جاری ہے۔ توہینِ رسالت کی سازشیں عالمی سطح پر ہورہی ہیں اور اہلِ ایمان آج بھی گو نا گوں مشکلات و مصائب کا شکار بنائے جارہے ہیں اور یہ سب اس وجہ سے ہے کہ پیغام حق اور اس کے داعیوں کی کردار کشی کی جائے کہ وہ اور ان کا پیغام لوگوں کے دلوں میں جگہ نہ بناسکے۔ ان کوششوں کی نوعیت سیاسی بھی ہے اور تہذیبی اور ثقافتی بھی، مذہبی بھی ہے اور معاشی و اقتصادی بھی۔ علمی بھی ہے اور فکری بھی۔ گویا ایک ہمہ گیر سیلاب عداوت و مخالفت ہے اور تمام طاغوت اور اس کی کل قوتیں اس کی مخالفت کے لیے مجتمع ہوگئی ہیں اور ہورہی ہیں۔ حق کی یہ ہمہ گیر مخالفت و عداوت نہ تو تاریخ انسانی میں پہلی بار سامنے آئی ہے اور نہ تاریخِ اسلام میں ہی پہلی مرتبہ۔ اللہ کے رسول ﷺ نے تو اپنی دعوت ہی ایسے شدید مخالفت کے ماحول میں شروع کی تھی اور وہ اس پیغام کو غالب آنے سے نہ روک سکی۔ کیونکہ اس کی پشت پر اللہ کی تائید اور اس کی نصرت تھی۔ کیونکہ اللہ تعالیٰ نے اعلان کردیا تھا:لاغلبن انا و رسلی (میں اور میرا رسول ہی یقینا غالب ہوں گے)۔ اور واضح کردیا تھا کہ :
ہو الذی ارسل رسولہ بالہدی ودین الحق لیظہرہ علی الدین کلہ و لوکرہ المشرکون۔
’’ وہ اللہ ہی ہے جس نے اپنے رسول کو ہدایت اور دینِ حق کے ساتھ بھیجا تاکہ وہ تمام ادیان پر اسے غالب کردے خواہ مشرکین کو یہ کتنا ہی ناگوار کیوں نہ ہو۔‘‘
اور بالآخر اللہ کے رسول ﷺ نے ۲۳ سال کی قلیل مدت میں اس دین کو اس مقام تک پہنچادیا کہ یہ انسانیت کے دلوں کی آواز بن گیا اور مشرق و مغرب اور شمال و جنوب میں دور تک ایسا پھیلتا گیا کہ اس کی مخالفت کرنے والی طاقتیں گھٹنے ٹیکتی چلی گئیں۔
آج پھر اسلام اور اہلِ اسلام اسی طرح اجنبی اور اسی طرح مغلوب و مظلوم ہیں جس طرح ابتدائے اسلام میں تھے۔ اب جبکہ ہم سیرت رسول کے مہینہ ربیع الاول میں داخل ہورہے ہیں، سیرت نبوی کے ان پہلوؤں پر غوروفکر کرنے کی ضرورت ہے۔ جن کے سبب آپؐ کو کامیابی ملی اور اللہ کی مدد و نصرت شامل حال ہوئی۔
کنتم خیر امۃ اخرجت للناس ’’بہترین امت جو ’لوگوں کے لیے‘ برپا کی گئی‘‘ کی اصل تصویر کو سمجھنے کی ضروری ہے کہ لوگوں کے لیے برپا کی جانے والی امت ’لوگوں‘ سے دور ہٹ کر’ اپنے خول‘ میں نہ سمٹے۔ اپنے ملک اور اپنی ملت کے مفاد سے بلند ہوکر انسانیت کے مفاد کے لیے اسی طرح جس طرح اللہ کے رسول نے مکہ کی سرزمین پر مثال قائم کی تھی۔ آج بنیادی انسانی اور اخلاقی قدریں جس طرح ناپید ہوتی جارہی ہیں اللہ کے رسول کے زمانے میں بھی یہی صورتحال تھی۔ مگر آپ نے اعلیٰ اخلاقی قدروں اور انسانی خدمت کے ذریعے لوگوں کے دلوں میں ایسی جگہ بنائی کہ دشمن دوست بنتے چلے گئے۔ کوڑا پھینکنے والی یہودی عورت کی تیمار داری، نئے دین کی دعوت کے اثر سے خوف زدہ ہوکر مکہ چھوڑ کر جانے والی عورت کا سامان اٹھا کر کئی میل تک پیدل چلتے جانا، یتیم کی شکایت پرابوجہل کو پاس جاکر اس کا مال واپس کرنے کو کہنا وہ اور ایسی ہزاروں بلند مرتبہ مثالیں ہیں جو اللہ کے رسول ﷺ نے مکہ کی اس سرزمین پر قائم کیں جو آپ اور آپ کی دعوت کے لیے مسلسل تنگ ہوتی جارہی تھی۔
سیرت پاک اس کے علاوہ کچھ نہیں کہ وہ ہمیں عملی زندگی کو اس کے مطابق گزارنے کا درس دیتی ہے کہ جو اللہ کے رسول نے کیا وہی ہم بھی کریں اور جو چیز سے منع فرمایا ہم بھی اس سے رک جائیں۔ کفر و شرک کی مخالفت کی صورت میں جو جدوجہد اور جس اسٹریٹجی آپ نے اختیار کی اسی کو ہم بھی نقشِ راہ بنائیں۔ گویا سیرت نبوی کا تذکرہ آپ کی ذات سے عملی اسپرٹ اور عملی زندگی کے لیے نقوش راہ تلاش کرنا ہے۔ یہی آپ سے محبت کا بھی تقاضا ہے اور یہی آپ کے امتی ہونے کا مطلب بھی اور اگر ہم سیرت کے جلسوں اور کانفرنسوں سے یہ پیغام حاصل کرنے میں ناکام رہتے ہیں تو زبانی جمع خرچ سے زیادہ کچھ حاصل نہ ہوگا۔
توہین رسالت کے مجرمین کی خواہش اور کوشش یہی ہے کہ وہ اللہ کے رسول کی روشن اور تابندہ زندگی غلاظتوں کے دھندلکے چڑھا کر اس کی کشش اور جاذبیت کو ماند کردیں۔ ان کی کوششوں کا بہترین جواب ہم اسی صورت میں دے سکتے ہیں جب مسلم معاشرہ کو سیرت نبوی کے رنگ میں رنگ دیں اور آپ کے بلند اخلاق کریمانہ کی عملی تصویر بن جائیں۔
موجودہ دور میں ذات رسول اور سیرت اقدس کو خاص طور پر موجودہ دور کی جہالت کے تناظر میں پیش کرنے کی ضرورت ہے تاکہ لوگ جان سکیں آج کے دور میں بھی آپ کی ذات واقعی اسوہ کامل اور ’نمونہ حیات‘ بن سکتی ہے۔