سیرتِ نبوی کی روشن تصویر

سید سلیمان ندوی

بڑی سے بڑی انسانیت اور پاک سے پاک زندگی کا جو تخیل ایک انسان کے ذہن میں آسکتا تھا، محمد رسول اللہ ﷺ کی زندگی اس سے بھی بدرجہا بالاتر اور ارفع تھی۔ مشرکین عرب کو نظر آتا تھا کہ گو مدعی نبوی بظاہر جامہ بشریت میں ہے لیکن اپنی معنوی زندگی، اپنے معجزانہ اخلاق، اپنے مافوق الفطرت علم و معرفت اور اپنے ربانی کرشموں کی بنا پر بشریت سے کوئی بالا تر مخلوق ہے۔ ماہذا بشرا ان ہذا الا ملک کریم (یہ بشر نہیں، یہ تو ایک معزز فرشتہ ہے)۔
قرآنِ مجید نے آنحضرت ﷺ کے صدق نبوت پر اسی مقدس اور معصوم زندگی سے استدلال کیا ہے: ’’اے قریش! نبوت سے پہلے بھی میں نے تم میں ایک مدت دراز تک زندگی بسر کی ہے، کیا تم نہیں سمجھتے؟‘‘ (یونس:۲)
زندگی کا یہی اعجاز تھا جس کے ذریعے ظہور نبوت سے پہلے ہی امین کا خطاب آپ نے حاصل کرلیا تھا۔ بیوی کے برابر انسان کے اصلی حالات و اخلاق کا واقف کار کوئی اور نہیں ہوسکتا۔ نبوت محمدی کا معتقد اولین دنیا میں کون تھا، ام المومنین خدیجہؓ بنت خویلد… لیکن ان کی اس زود اعتقادی کا راز کیا تھا، چالیس برس کے معجزانہ اخلاق اور مافوق الفطرت اوصاف و حالات کا تجزیہ! وہ خود پیغمبر کو خطاب کرکے نبوت کی تسکین ان الفاظ میں دیتی ہیں: ’’محمدؐ! اللہ کبھی تمہیں رسوا نہ کرے گا، تم رشتہ داروں کے ساتھ احسان کرتے ہو، ناداروں کی طرف سے قرض ادا کرتے ہو، محتاجوں کی خبر لیتے ہو، مہمانوں کے ساتھ مدارات سے پیش آتے ہو، جو لوگ حقیقت میں مبتلائے آلام ہیں، ان کی اعانت کرتے ہو۔‘‘
عرب میں آپ کی نبوت کا جب چرچا پھیلا تو ابوذر غفاریؓ نے اپنے بھائی انیسؓ کو تحقیق حال کے لیے بھیجا۔ انھوں نے واپس آکر پیکر نبوت کا نقشہ ان الفاظ میں کھینچا: ’’میں ایک ایسے شخص کو دیکھ کر آیا ہوں جو بھلائیوں کا حکم دیتا ہے اور برائیوں سے روکتا ہے۔‘‘
نبوت کے بعد قریش نے ذات نبوی کے ساتھ گو عداوت اور کینہ پروری کا کوئی پہلو اٹھا نہیں رکھا، تاہم کوئی ادنیٰ اخلاقی جرم بھی آپؐ کی طرف منسوب نہ کرسکے۔ اسلام کے سب سے اول اعلان دعوت کے موقعے پر جب آپؐ نے ایک پہاڑ پر کھڑے ہوکر قریش کے مجمع کو مخاطب کیا اور پوچھا کہ اگر میں یہ کہوں کہ اس پہاڑ کی پشت پر ایک فوج گراں تم پر حملہ آور ہونے کو تیار ہے، تو کیا سچ مانوگے؟ سب نے بیک آواز کہا: ’’محمدؐ! تیری بات آج تک ہم نے جھوٹ نہ پائی۔‘‘ ابوسفیان ہجرت کے آٹھویں سال تک اسلام کے سخت ترین دشمن تھے۔ ۶ہجری میں ہرقل قیصر روم کے دربار میں کفار قریش کی ایک جماعت کے ساتھ محمد رسول اللہ ﷺ کے اخلاق و اوصاف کے متعلق اپنی شہادتیں پیش کررہے تھے، تاہم وہ ایک حرف بھی صداقت کے خلاف پیش نہ کرسکے۔ انھوں نے شہادت دی کہ ’’محمدؐ کبھی جھوٹ نہیں بولتے، انھوں نے کبھی بدعہدی نہیں کی۔ شرک سے روکتے ہیں۔ توحید کی تعلیم دیتے ہیں۔ عبادت، صدق، عفت اور صلہ رحمی کی تاکید کرتے ہیں۔‘‘ ہرقل ہر فقرے پر کہتا جاتا تھا کہ نبوت کے یہی آثار و دلائل ہیں۔ یہ سب سے پہلا دن تھا کہ ابوسفیان کے دل نے آنحضرت ﷺ کی کامیابی کا یقین کیا۔
آپؐ کے تمام محاسن اخلاق یعنی رفق، ملاطفت، حسن معاملت، جودو سخا، عدم تشدد، عفو ودرگذر وغیرہ پر ایک اجمالی نگاہ ڈالنے سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ درحقیقت آنحضرت ﷺ کا ایک معجزۂ تھا اور یہ معجزۂ تسخیر قلوب ہی کے لیے عطا ہوا تھا۔ قرآن مجید یہ نکتہ خود بتاتا ہے: ’’اور اے محمد!اگر تم درشت خو اور سخت دل ہوتے تو لوگ تمہارے پاس سے چل دیتے۔‘‘ (آل عمران: ۱۷)
آپؐ کی یہی معجزانہ کشش تھی جو لوگوں کو کھینچ کھینچ کر دائرہ اسلام میں داخل کرتی تھی اور کفار کے جاہلانہ شکوک و اوہام دم کے دم میں مٹا دیتی تھی۔ صحیح مسلم میں ہے کہ ایک شخص نے آپؐ سے بہت سی بکریاں مانگیں، آپؐ نے دے دیں۔ اس پر آپ ؐ کی فیاضی کا اس قدر اثر پڑا کہ اپنے قبیلے میں جاکر اس نے کہا: ’’لوگو! مسلمان ہوجاؤ کیونکہ محمدؐ اس قدر دیتے ہیں کہ ان کو خود اپنے تنگ دست ہونے کا مطلق خوف نہیں ہوتا۔‘‘
فتح مکہ کے وقت صفوان ابن امیہ مجبوراً اسلام لایا تو آنحضرت ﷺ نے اس کو تین سو اونٹ دے دیے۔ خود صفوان کا بیان ہے کہ حضور ﷺ نے مجھے اس قدر دیا کہ آپؐ پہلے میرے نزدیک مبغوض ترین خلق تھے، لیکن اس فیاضی سے محبوب ترین شخص بن گئے۔ ہند، خاندان نبوت کی قدیم ترین دشمن تھی۔ جنگ احد میں قوت بازوئے اسلام، حضرت حمزہؓ کا شکم اسی نے چاک کیا تھا۔ اسی نے ان کا جگر نکال کر چبایا تھا، جس کو نگل نہ سکی اور پھر اگل دیا تھا، اور اسی نے بعض شہیدوں کے ناک کان کاٹ کر گلے کا ہار بنایا تھا۔ وہ فتح مکہ کے موقع پر بھیس بدل کر آپؐ کی خدمت میں اسلام لانے کے لیے حاضر ہوئی اور اب بھی گستاخی سے باز نہیں آئی، لیکن دربار رسالت میں پہنچ کر آپؐ کے حسن خلق سے اس قدر متاثر ہوئی کہ بے اختیار بول اٹھی: ’’یا رسول اللہ ! پہلے سطح زمین پر آپؐ کے گھرانے سے زیادہ کوئی گھرانہ مجھے مبغوض نہ تھا، لیکن آج آپ کے گھرانے سے زیادہ کوئی گھرانہ محبوب نہیں۔‘‘ آپؐ نے یہ سن کر فرمایا: ’’اللہ کی قسم! ہمارا بھی یہی حال تھا۔‘‘
آپؐ پر ایک یہودی عالم کا قرض آتا تھا، اس نے تقاضا کیا تو آپؐ نے فرمایا: ’’اس وقت میرے پاس کچھ نہیں۔‘‘ اس نے کہا کہ میں تو لے کے ہی ٹلوں گا۔ آپؐ نے کہا پھر میں تمہارے ساتھ بیٹھتا ہوں، چنانچہ آپؐ ظہر سے لے کر فجر کی نماز تک اس کے ساتھ بیٹھے رہے۔ صحابہؓ نے اس کی اس گستاخی پر ناراضگی ظاہر کی اور خدمت اقدس میں عرض کیا کہ یا رسول اللہ، آپ کو ایک یہودی نے روک رکھا ہے۔ آپ نے فرمایا: ’’ہاں، لیکن مجھے خدا نے اس سے منع کیا ہے کہ میں کسی ذمی یا اور کسی شخص پر ظلم کروں۔‘‘ دن چڑھا تو یہودی نے کلمہ پڑھا اور کہا: ’’میرا نصف مال خدا کی راہ میں صدقہ ہے۔ میں نے یہ گستاخی صرف اس لیے کی کہ توراۃ میں پیغمبر کے جو اوصاف مذکور ہیں ان کا تجربہ کروں۔‘‘
ثمامہ بن آثال، یمامہ کا ایک رئیس تھا، جو اسلام کا مجرم تھا۔ صحابہؓ کا ایک دستہ نجد کے اطراف میں بھیجا گیا تھا۔ اتفاق سے وہ راہ میں مل گیا، گرفتار ہوکر مدینہ آیا اور مسجد نبویؐ کے ایک ستون سے باندھ دیا گیا۔ آنحضرت ﷺ نماز کے لیے تشریف لائے تو اس پر نظر پڑی۔ آپؐ نے دریافت کیا کہ ثمامہ، تمہارے ساتھ کیا برتاؤ کیا جائے؟ اس نے کہا کہ اگر قتل کرنا چاہیں تو ایک خونی مجرم کو آپ قتل کریں گے، اور اگر عفو فرمائیں تو یہ احسان ایک احسان شناس کی گردن پر ہوگا، اگر مال کی خواہش ہے تو فرمائیے جو ارشاد ہوگا، حاضر کیا جائے گا۔ یہ سن کر آپ اسی حالت میں اس کو چھوڑ کر چلے گئے۔ دوسرے دن پھر اسی قسم کا سوال و جواب ہوا۔ تیسرے دن پھر یہی گفتگو کی۔ اب حضور ﷺ نے اپنے دست مبارک سے اس کے بند گرہ کھول دیے اور رہا کردیا۔ اس پر اس واقعے کا یہ اثر ہوا کہ مسجد سے نکل کر ایک کھجور کے درخت کی آڑ میں گیا اور وہاں غسل کیا، غسل کرکے مسجد میں آیا اور کلمہ توحید پڑھ کر آنحضرت ﷺ سے مخاطب ہوا: ’’محمد! زمین پر آپؐ کے چہرے سے زیادہ کوئی چیز مجھ کو مبغوض نہ تھی، لیکن آج وہ مجھے سب سے زیادہ محبوب ہے۔ مجھے آپ کے دین سے زیادہ کسی دین سے عداوت نہ تھی، لیکن وہ میرے لیے تمام مذاہب سے عزیز تر ہوگیا ہے۔ مجھے آپ کے شہر سے زیادہ کسی شہر سے دشمنی نہ تھی، لیکن آج وہ مجھ کو تمام شہروں سے زیادہ خوشنما نظر آتا ہے۔‘’
ایک بار آپؐ کسی سفر میں تھے اور پانی ساتھ نہ تھا۔ صحابہؓ نے پیاس کی شکایت کی۔ آپؐ نے ایک صحابیؓ کے ساتھ حضرت علیؓ کو پانی کی جستجو میں روانہ فرمایا۔ راہ میں ایک عورت اونٹ پر پانی کی دو مشکیں بھری ہوئی لے جارہی تھی۔ دونوں صاحب اس کو آنحضرت ﷺ کی خدمت میں لے آئے۔ آپؐ نے برتن منگوائے اور مشکوں کے منھ کھول دیے۔ صحابہؓ نے باری باری پینا شروع کیا۔ وہ عورت کھڑی یہ تماشا دیکھتی رہی۔ فراغت کے بعد اس کی محنت کے صلے میں آنحضرت ﷺ نے کھجور کا آٹا اور ستو تھوڑے تھوڑے لوگوں سے جمع کرکے ایک کپڑے میں بندھوا کر اس کے اونٹ پر رکھوادیے۔ وہ گھر پہنچی تو لوگوں نے تاخیر کا سبب پوچھا، اس نے کہا: ’’راہ میں دو آدمی ملے اور وہ مجھے اس شخص کے پاس لے گئے جس کو لوگ بددین کہا کرتے ہیں۔ خدا کی قسم! وہ یا تو اس آسمان و زمین کے درمیان سب سے بڑا جادوگر ہے، یا واقعی خدا کا رسول ہے۔‘‘اسلام کا یہ اثر اسی کی ذات تک محدود نہ رہا، بلکہ تربیت یافتگان نبوت کے فیض سے اس کے تمام قبیلے تک وسیع ہوگیا۔
نبی کے امتیاز و شناخت کا ذریعہ اس کا اخلاق ہی نہیں، اس کی زبان کا ایک ایک حرف، اس کی معصوم شکل و صورت اور اس کی ایک ایک ادا اعجاز اور سرتاپا اعجاز ہوتی ہے۔
روئے و آواز پیمبر معجزہ است (رومیؒ)
آپؐ کی صداقت سے لبریز تقریر کا ایک ایک حرف دل میں اتر جاتا تھا اور نبوت کا اصلی معیار سامع کے سامنے روشن ہوجاتا تھا۔ جب آپؐ ہجرت کرکے مدینہ تشریف لائے تو سارے مدینے میں غل پڑگیا۔ حضرت عبداللہ ابن سلام جو مدینے کے مشہور یہودی عالم تھے، اپنے نخلستان میں کھجوریں توڑ رہے تھے۔ آمد آمد کی خبر ان کے کان میں پہنچی تو فوراً آپؐ کی خدمت میں حاضر ہوئے۔ آپؐ فرما رہے تھے:’’ایک دوسرے کو بکثرت سلام کیا کرو، کھانا کھلاؤ، صلہ رحمی کرو، رات کو نوافل پڑھو جب لوگ سو رہے ہوں، اس طرح تم سلامتی کے ساتھ جنت میں داخل ہوگے۔‘‘
عبداللہ ابن سلام واپس گئے تو اس قدر متاثر تھے کہ آنحضرت ﷺ اٹھ کر حضرت ابوایوب انصاریؓ کے مکان میں جونہی پہنچے حضرت عبداللہ بن سلام بھی آئے اور کہا کہ میں آپؐ کی رسالت کی گواہی دیتا ہوں اور نیز یہ شہادت دیتا ہوں کہ آپ ایک حق مذہب لے کر آئے ہیں۔
ضماد ایک شخص تھے جن کے ساتھ زمانہ جاہلیت میں آپؐ کے دوستانہ تعلقات رہ چکے تھے، وہ جنون کا علاج کرتے تھے۔ اتفاق سے وہ مکہ آئے تو کفار سے سنا کہ آپؐ (نعوذ باللہ) مجنوں ہوگئے ہیں۔ وہ آپؐ کے پاس پہنچے اور کہا: ’’محمد! میں جنون کا علاج کرتا ہوں۔‘‘ اس کے جواب میں آپ نے ایک تقریر کی اور اسے ان الفاظ سے شروع کیا:
الحمدللّٰہ نحمدہ و نستعینہ من یہدہ اللّٰہ فلا مضل لہ ومن یضللہ فلا ہادی لہ واشہد ان الا الہ الا اللّٰہ وحدہ لا شریک لہ واشہد ان محمداً عبدہ و رسولہٗ۔
’’تمام تعریفیں خدا کے لیے ہیں۔ میں اس کی حمد کرتا ہوں اور اس سے مدد چاہتا ہوں۔ اللہ جس کو ہدایت دیتا ہے اور اس کو کوئی شخص گمراہ نہیں کرسکتا اور جس کو گمراہ کرتا ہے اس کو کوئی ہدایت نہیں کرسکتا۔ میں گواہی دیتا ہوں کہ اللہ کے سوا کوئی خدا نہیں، وہ تنہا ہے اور اس کا کوئی شریک نہیں، اور میں گواہی دیتا ہوں کہ محمدؐ اس کا بندہ اور رسول ہے۔‘‘
ضماد پران فقروں کا یہ اثر پڑا کہ وہ مکرر سننے کے مشتاق ہوئے۔ آپ نے تین بار ان کلمات کا اعادہ فرمایا۔ انھوں نے کہا: میں نے کاہنوں، جادوگروں اور شاعروں کا کلام سنا ہے، لیکن آپؐ کے اس کلام کی طرح موثر کلام کبھی نہیں سنا، وہ سمندر تک پہنچ جائے گا۔ ہاتھ لائیے، میں اسلام پر بیعت کرتا ہوں۔
حضرت حلیمہؓ کے شوہر حارث یعنی آپ کے رضاعی باپ جب مکہ تشریف لائے تو قریش نے کہا: کچھ سنا ہے، تمہارا بیٹا کہتا ہے کہ لوگ مر کر پھر زندہ ہوں گے۔ انھوں نے آپؐ سے کہا: ’’بیٹا! یہ کیا کہتے ہو؟‘‘ آپؐ نے نہایت زوردار لہجے میں فرمایا: ’’ہاں، اگر وہ دن آیا آپ کا ہاتھ پکڑ کر بتادوں گا کہ جو کچھ میں کہتا تھا سچ تھا۔‘‘ ان پر اس کا یہ اثر پڑا کہ فوراً مسلمان ہوگئے، اور یہ اثر اس قدر دیرپا ہوا کہ وہ کہا کرتے تھے اگر میرا بٹیا ہاتھ پکڑے گا تو جنت میں پہنچا کر ہی چھوڑے گا۔
انسان کا چہرہ حقیقت کا آئینہ ہے۔ آپ کی ایک ایک ادا، صداقت اور معصومیت کا پیکر تھی۔ آپؐ کی شکل نہایت پر جلال تھی، چہرہ پُر نور تھا، آواز موقر اور پُررعب تھی، اور ان تمام چیزوں کا مجموعی اثر پیغمبرانہ اعجاز کے ساتھ دلوں کو اپنی طرف کھینچ لیتا تھا۔ حضرت عبداللہ بن سلام نومسلم یہودی عالم آپ کے چہرۂ مبارک کو دیکھ کر اسی اعجاز سے متاثر ہوئے اور بے اختیار بول اٹھے تھے:
وجہہ لیس بوجہ کذاب ’’جھوٹے آدمی کا یہ چہرہ نہیں ہوسکتا۔‘‘
اوریہی کشش تھی جس کا اظہار حجۃ الوداع میں اعراب بادیہ کی زبان سے ان الفاظ میں ہوا تھا:
ہذا وجہ مبارک۔ ’’یہ مبارک چہرہ ہے۔‘‘

مزید

حالیہ شمارے

ماہنامہ حجاب اسلامی ستمبر 2024

شمارہ پڑھیں

ماہنامہ حجاب اسلامی شمارہ ستمبر 2023

شمارہ پڑھیں