سیرتِ پاک میں کئی ایسے واقعات آتے ہیں جن کو کبھی بھی غوروفکر اور تدبر کا موضوع نہیں بنایا جاتا۔ تاریخ انسانی کے یہ نہایت انوکھے واقعات ہیں۔ یہ معجزات نہیں کہ ان کے ذریعہ لوگوں کو عاجز کیا جائے۔ یہ قانونِ قدرت میں خرقِ عادت کے واقعات بھی نہیں ہیں، نہ ان کا تعلق مافوق الفطرت (super natural) معاملات سے ہے۔ نہ ہی یہ ایسے مشکل ترین و ناممکنات میں سے ہیں کہ ان پر عام انسان عمل پیرا نہ ہوسکیں۔ اور نہ ہی یہ من گھڑت حصے ہیں کہ ان پر یقین ہی نہ کیا جاسکے۔ اور یہ اس بات کا کھلا ثبوت ہیں کہ محمد عربیؐ اپنے ذاتی اخلاق و کردار کے اعتبار سے نوع انسانی کی تاریخ میں مستقل جماعت کی حیثیت رکھتے تھے اور ان اخلاق کے سبب بعد از بعثت ہی نہیں بلکہ قبل از بعثت بھی دنیا کے بلند وبرتر اور عظیم تر انسان ہیں، جس کی تاریخ میں کوئی مثال نہیں۔ یہی وجہ ہے کہ نبی کریمﷺ کی حیاتِ طیبہ سے لے کر اب تک آپؐ کے بدترین دشمن بھی آپؐ کے اخلاقِ حسنہ، محنت کشی اور سیرت و کردار کی شہادت دیتے ہیں۔
عام طور پر معجزات و کرامات کی بڑی دھوم ہوتی ہے۔ لوگ دین میں ان باتوں کو ضرورت سے زیادہ اہمیت دیتے ہیں۔ وقت و حالات کے پیشِ نظر معجزات کی اپنی اہمیت رہی ہے۔ مثلاً حضرت موسیٰؑ کا عصا، حضرت عیسیٰؑ کا پیدائشی نابیناؤں اور جذام کے مریضوں کو بھلا چنگا کردینا اور مردوں کو زندہ کردینا وغیرہ۔ یہ معجزے منجانب اللہ تھے اور وقت کی اہمیت و ضرورت کے پیشِ نظر عام انسانوں کو عاجز کردینے والی صلاحیتیں حضرت موسیٰؑ و حضرت عیسیٰؑ کے دنیا سے رخصت ہونے کے ساتھ ہی رخصت ہوگئیں۔
آج ہم فلاں بزرگوں کے حالاتِ زندگی میں پکے ہوئے مرغ کو زندہ کردینے ، پیر صاحب کا بغیر پروں کے ہوا میں اڑنے یا پتھر کو سونا بنادینے جیسی کرامات کے بارے میں پڑھ و سن کر مرعوب ہوجاتے ہیں۔ اور غور ہی نہیں کرتے کہ اللہ تعالیٰ سے ہمارے تعلق، دین و دنیا کی حقیقتوں سے ہماری لاعلمی، ہمارے عقل و دین سے کورے ہونے اور رسول اللہ ﷺ کی سیرت پاک سے ناواقفیت کی کیسی دلیل بن جاتے ہیں۔ اس کے علاوہ یہ بھی ہوسکتا ہے کہ ان معجزوں و کرامتوں کا بہ تکرار ذکر اہلِ ہند کے رشیوں اور ڈھونگی سادھوؤں کے من گھڑت چمتکار کے قصوں کے جواب میں احساسِ کمتری میں مبتلا لوگوں کی جانب سے ہوتا ہے۔
سیرت النبیﷺ کا مطالعہ کیجیے۔ صاف نظر آئے گا کہ آپؐ کوئی خیالی دیو مالائی کردار نہیں تھے ۔ بلکہ آپ حق پسند و حق گو تھے۔ اگر کچھ کرنا چاہتے تو اس کام کے گردا گرد کی کڑوی و ثقیل سچائیوں کی روشنی میں اس کام کی تیاری کرتے اور سخت محنت و مشقت و لگن و سمجھ بوجھ، دور رس نتائج کو مدنظر رکھ کرکام انجام دیتے پھر اسی کے ساتھ اللہ تعالیٰ کی مدد و نصرت کے طلبگار بھی ہوتے، صرف بیٹھ کر معجزات کے منتظر نہیں رہتے تھے۔
سیرت پاک میں ایفائے عہد کی بہترین مثال صلح حدیبیہ کے واقعہ سے ملتی ہے۔ جب قریش نے سہیل بن عمرو کو اپنا خطیب بناکر نبی اکرمؐ کی خدمت میں اس معاہدے کے لیے بھیجا تھا۔ معاہدہ طے پایا تو اُس کی پانچویں شرط یہ تھی کہ ’’کافروں یا مسلمانوں میں سے کوئی شخص اگر مدینہ جائے تو واپس کردیا جائے گا۔ لیکن اگر کوئی مسلمان کفر اختیار کرکے مکہ جائے تو واپس نہیں کیا جائے گا۔‘‘معاہدہ ابھی قلمبند کیا ہی جارہا تھا اتفاق سے عین اسی وقت سہیل کے صاحبزادے حضرت ابوجندلؓ جو اسلام پر ایمان لاچکے تھے اور مکہ میں کافروں نے ان کو قید کررکھا تھا اور طرح طرح کی اذیتیں دے رہے تھے۔ کسی طرح فرار ہوکر پاؤں میں بیڑیاں پہنے ہوئے آئے اور سب کے سامنے گرپڑے۔ آنحضرت ؐ نے سخت ناگواری اور خطرناک امتحان کی گھڑی میں حضرت ابوجندلؓ کو واپس مکہ بھیجنا منظور کیا اور ایفائے عہد کی ذمہ داری پوری کی۔ (بحوالہ سیرت النبی)
معجزوں اور کرامتوں کا منتظر رہنا رہنا یا ان کے کلام یا ذکر میں مشغول رہنا سہل پسندی اور تن آسانی میں مبتلا لوگوں کی نشانی ہے، نبیوں، پیغمبروں کے معجزات اور پیروں، باباؤں کی جھوٹی سچی کرامتوں کے قصوں ہی میں دلچسپی و رغبت رکھنے والے لوگ جفاکش، محنتی نہیں ہوسکتے۔ آم کے پیڑ کے نیچے بیٹھ کر کسی کرامت یا چمتکار سے آم مل جانے کی تمنا رکھنے اور پیڑ پر چڑھ کر آم توڑ لانے میں بڑا فرق ہے۔ سہل پسندی اور تن آسانی میں مبتلا لوگ کیا غزوئہ خندق کے ان نادر روزگار واقعات کا ذکر سننا پسند فرمائیں گے۔ جب رسول اللہ ﷺ خود اپنے ہاتھ سے مٹی کھودتے اور پتھروں کو اپنے کاندھوں پررکھ کر اٹھاتے تھے۔ حضرت براؓ بن عاذب فرماتے ہیں کہ ’’رسول اللہﷺ خندق کے دن مٹی ڈھور ہے تھے یہاں تک کہ آپؐ کا شکم مبارک مٹی سے اَٹ گیا تھا اور جلد نظر نہ آتی تھی۔‘‘ (بخاری شریف)
عام طور پر ایک جلالی بزرگ کا قصہ بڑے شوق سے سنا اور سنایا جاتا ہے۔ جو کئی کئی دن مراقبہ میں رہتے اور مراقبہ سے جیسے ہی آنکھیں کھولتے جس چیز پر نظر پڑتی وہ چیز جل جاتی تھی۔ مرید بڑے فکر مند تھے آخر باہم مشورے سے مریدوں نے پیر صاحب کے سامنے ایک بڑا پتھر رکھ دیا۔ مراقبہ کے بعد پیر صاحب نے سرخ آنکھوں سے پتھر کو جو گھورا تو پتھر ریزہ ریزہ ہوگیا، اب غزوئہ خندق ہی کے اس منظر کی یاد تازہ کیجیے۔
جب نبی کریمﷺ کے پاس صحابہؓ نے آکر اطلاع دی کہ کھدائی کے دوران درمیان میں ایک چٹان آگئی ہے۔ رسول اللہ ﷺ تشریف لائے اور حضرت سلمان فارسیؓ سے تیشہ (کدال) لے کر چٹان پر زور سے ضرب لگائی تو اس کا ایک تہائی حصہ ٹوٹ گیا۔ پھر اس پر دوسری چوٹ لگائی پھر تیسری اس طرح وہ چٹان ٹکڑے ٹکڑے ہوکر ٹوٹی۔
رسولوں، نبیوں، بزرگانِ دین و صالحین کی سیرت و سوانح کی کتابوں سے معجزات و کرامات کے سچے قصے اس لیے پڑھے سنے جاتے ہیں کہ ان کے ذکر سے ایمان کی کیفیت میں اضافہ ہوتا ہے۔ تو پھر ایمان کی اس اضافی کیفیت کا ظہور ہونا چاہیے۔ اس لیے کہ ایمان کی حرارت و ٹھنڈک مخفی نہیں رہ سکتی۔ کیونکہ وہ برف ہرگز برف نہیں جو اپنے اطراف ٹھنڈک نہ پھیلائے اور وہ آگ ہرگز آگ نہیں جو اپنے اطراف تپش نہ پھیلائے۔
معجزات کے خوگر لوگ یہ حقیقت فراموش کردیتے ہیں کہ دیگر معجزات و کرامات تو اب ناپید ہیںلیکن اللہ تعالیٰ نے اپنے حبیبؐ کو قرآنِ کریم کی صورت میں زندہ و جاوید تا قیامت معجزہ عطا کیا ہے اور جس کی حفاظت کی ذمہ داری خود اللہ تعالیٰ نے لی ہے۔ ہمارے سامنے موجود ہے کہ ہم کو چاہیے کہ اس کو مضبوطی سے تھامیں، سمجھ کر پڑھیں یا پڑھ کر سمجھیں اور اس پر عمل پیرا ہوں۔ کیونکہ اس کتاب کی بدولت قرونِ اولیٰ اور دورِ سعید کے مسلمانوں نے نبی کریمﷺ کی قیادت میں وہ کارنامے انجام دیے ہیں جن کی نظیر پیش نہیں کی جاسکتی۔ ہمیں دورِ سعید کو واپس لانا ہے تو پھر اس زندہ جاوید معجزے (یعنی قرآن مجید) کے مطابق زندگی گزارنی ہوگی، قرونِ اولیٰ کے گم شدہ خزانہ کا نقشہ اس کتاب میں مخفی ہے۔