ربیع الاول کا مہینہ آتے ہی سیرت کے جلسوں کا موسم بہار آجاتا ہے۔ حضور اکرم ﷺ کی زندگی، آپ کے اخلاق و عادات، آپ کے معاملات، لباس و انداز گفتگو، آپ کا سراپا اور آپؐ کی پسند و ناپسند کے خوب تذکرے ہوتے ہیں۔ مقررین کے جوش عقیدت اور اندازِ خطابت پر سبحان اللہ، ماشاء اللہ اور نعرہ تکبیر کی صدائیں سنی جاتی ہیں۔ آپ سے عقیدت و محبت کا اظہار کیا جاتا ہے۔ بڑے بڑے جلسے، عظیم الشان سیرت کے جلوس اور جھانکیاں نکالی جاتی ہیں۔ عبادت گاہوں، مزاروں، مسجدوں اور مدرسوں ہی کو نہیں پورے پورے شہروں کو روشنیوں سے سجایا جاتا ہے۔ اس لیے کہ ہمیں آپ سے محبت ہے اور محبت کیوں ہے اس پر کم ہی غوروفکر کا موقع ملتا ہے۔ بس ایک موسم ہے جس میں یہ کیفیت نظر آتی ہے اور ایک رسم بن گئی ہے۔ زیادہ سے زیادہ شان کے ساتھ ادا کیا جاتا ہے۔
اللہ تعالیٰ نے فرمایا:
ان لکم فی رسول اللہ اسوۃ حسنۃ۔
’’بے شک تمہارے لیے رسول کی زندگی بہترین نمونہ ہے۔‘‘
نمونہ، مکمل نمونہ جس کو اختیار کرنے میں ہماری انفرادی اور اجتماعی فلاح ہے۔ اٹھتے بیٹھتے، سوتے جاگتے، کھاتے پیتے، سفر میں حضر میں، خوشی میں غم میں، دوستوں میں دشمنوں میں، صلح میں جنگ میں، گھر میں اور گھر کے باہر اور سیاست، معیشت، تجارت، محلے پڑوس غرض زندگی کے ہر گوشے میں آپ کے طرز زندگی کو اختیار کرنا ہر مسلمان سے مطلوب ہے۔ اور اگر کوئی اس بات سے انکار کرتا ہے تو اپنے ایمان کی خیر منائے۔
اللہ کے رسول کی زندگی کامل اور مکمل نمونہ ہے۔ ایسا نمونہ جس کو ہم گھر اور باہر، دین اور سیاست، دعوت اور عبادت میں تقسیم نہیں کرسکتے مگر امت مسلمہ کے ساتھ حادثہ یہ ہوا ہے کہ اس نے عملاً اللہ کے رسول کی زندگی کو حصوں میں تقسیم کردیا ہے جبکہ وہ ناقابل تقسیم تھی۔ ہم نے اپنی خواہشات کاتابع بنانے کی کوشش کی جبکہ ہماری خواہشات کو آپ کے اسوہ کے تابع ہونا چاہیے تھا۔
ہم اللہ کے رسول سے محبت صرف اور صرف اس لیے کرتے ہیں کہ وہ اللہ کے آخری رسول ہیں اور اس کے پیغامات کو جو انسانوں کو اللہ کی مرضی بتانے والے ہیں ہم تک پہنچایا ہے اور تمام باطل خداؤں سے کاٹ کر ہمارا رشتہ اللہ رب العزت سے جوڑ دیا ہے۔ آپ اللہ کے نمائندے، اس کے احکامات کے مفسر اور مبلغ اور انھیں عملاً لوگوں کو بتانے والے ہیں چنانچہ فرمایا گیا:
اطیعوا اللہ واطیعو الرسول۔
اللہ کی اطاعت کرو، اور رسول کی اطاعت کرو۔ گویا رسول کی کامل اطاعت ہی اللہ کی اطاعت ہے۔ اور یہی ہماری محبت کی اصل بنیاد بھی ہے۔ ان چیزوں کو سامنے رکھتے ہوئے ہمیں رسول سے اپنی محبت کا جائزہ لینا چاہیے اور دیکھنا چاہیے کہ کیا محبت یہی ہے کہ اسٹیج پر کھڑے ہوکر آپ کے اخلاق و عادات کریمانہ کا ذکر کرکے عقیدت کے پھول نچھاور کردیے جائیں۔ زبان سے محبت کے دعوے کردئے جائیں۔ آپؐ کی عزت پر سرکٹانے کے عزم کا اظہار کردیا جائے؟ اور عملی زندگی میں اس محبت کا کوئی اثر نہ ہو۔ سنت رسول کی کوئی جھلک نہ ہو۔ اتباع رسولؐ کا کوئی جذبہ نہ ہو۔ محبوبؐ کی لائی ہوئی کتاب ہدایت کو طاقتوں کی زینت بناکر رکھ دیا جائے۔ آپؐ کے اسوئہ حسنہ سے منہ موڑ کر زمانے کے دستور کے مطابق چلنا باعث فخر سمجھا جائے۔ آپؐ کے لائے ہوئے نظام حیات کو فرسودہ اور اس کے مطابق زندگی گزارنا قدامت پسندی تصور کیا جائے۔ تہذیب نو کے مطابق زندگی گزارنے کو روشن خیالی اور کامیاب زندگی کی علامت سمجھا جائے۔ زندگی سنت رسولؐ سے کوسوں دور ہو، دل میں سنت رسولؐ کے مطابق زندگی گزارنے کا کوئی ارادہ، کوئی سوچ، کوئی تڑپ اور کوئی احساس نہ ہو۔ اگر یہی محبت ہے تو پھر توہین محبت کیا ہے؟
آج تک صرف الفاظ کے سہارے کوئی محبت زندہ نہیں رہی ہے اور نہ اپنے وجود کا ثبوت دے سکی ہے۔ روح عمل سے خالی الفاظ کی دنیا میں کوئی قدروقیمت کبھی نہ رہی ہے اور نہ ہوگی۔ محبت خون بن کر جسم میں دوڑے اور عمل کے پیکر میں ڈھلنے کا نام ہے۔ محبت عمل کا ثبوت مانگتی ہے۔ اگر ہم دعویٰ محبت میں سچے ہوں تو اس کا ثبوت اپنے عمل سے دینا ہوگا۔حضورؐ سے محبت کی کسوٹی اتباع رسولؐ ہے، اپنے آپ کو سنت کے سانچے میں ڈھالنا ہی آپ سے سچی محبت کرنا ہے۔ آپؐ کو معیار حق اور صداقت تسلیم کرکے تمام باطل نظریات کے خلاف علم بغاوت اٹھانا آپ کی محبت کا لازمی تقاضا ہے۔ آپؐ کے اخلاق حمیدہ اور اوصاف کریمانہ کو اپنی عملی زندگی میں اتارنا ہوگا۔ تب ہی ہمارے الفاظ اپنی صحیح قدروقیمت سے آشنا ہوسکیں گے۔ ورنہ کوئی فائدہ نہ ہماری ذات کو ہوگا اور نہ عام انسانوں کو۔ٹھیک اسی طرح جس طرح مسلمان ہزاروں لاکھوں جلسے کرکے مطمئن ہوجاتے ہیں اور ہمارے اور ہمارے معاشرے پر اللہ کے رسول کی سیرت پاک، آپ کے اخلاق کریمانہ اور آپ کے اوصاف حمیدہ کا کوئی عکس نہ ربیع الاول سے پہلے نظر آتا ہے اور نہ اس کے بعد۔
کاش کہ ہم مسلمان سیرت نبوی کے اس حقیقی پیغام کو سمجھ سکتے۔