سیرت نبوی کا لازوال درس-طائف کا سفر

خرم مرادؒ

کارِ دعوت و نبوت کا دسواں سال ہے، دس سال کی محنت کے بعد بھی مکہ کے سردار اور عوام اس بات کے لیے تیار نہ ہوئے، کہ اللہ وحدہٗ لاشریک لہٗ کی بندگی اختیار کریں، اس کے رسول کی اطاعت قبول کریں، اور مکہ کو دعوت الٰہی کا مرکز بنادیں، بلکہ اب تو وہ داعیِ حق ہی کو ختم کردینے کا پروگرام بنا رہے ہیں۔ شفیق چچا ابوطالب کا سہارا تھا، وہ رخصت ہوچکے ہیں، پچیس سالہ رفاقت حضرت خدیجہؓ سے تھی، وہ بھی ختم ہوچکی ہیں، اب کدھر کا رخ کریں؟ نبی کریم ﷺ سوچتے ہیں اور طائف کا رخ کرتے ہیں۔ مکہ سے قریب یہی شہر ہے، زمین زرخیز، پانی وافر، باغات سے مالا مال، شاید کہ وہاں کے سردار اور امراء اس دعوت کو قبول کرلیں۔

طائف پہنچ کر حضور ﷺ بنو ثقیف کے تین سرداروں: عبد یا لیل، مسعود اور حبیب کے پاس جاتے ہیں اور ان کے سامنے اپنی دعوت پیش کرتے ہیں، دس سال مکہ میں ٹھکرائے جانے کے بعد جو امیدیں طائف سے ہوسکتی تھیں، وہ چکنا چور ہوجاتی ہیں، جب امارت و دولت اور اقتدار کے نشے میں یہ تینوں سردار بھی اس دعوت کو ٹھکرادیتے ہیں، ان کے جواب سننے کے لائق ہیں، ٹوٹے ہوئے دل کے لیے پہلا تیر یہ تھا: ’’کیا اللہ کو تمہارے سوا رسول بنانے کے لیے اور کوئی نہیں ملا، کہ جسے سواری کے لیے گدھا تک میسر نہیں۔‘‘ دوسرے نے اپنا سیاسی نظریہ پیش کیا :’’کعبہ کے پردے تار تار ہوجائیں گے اگر اللہ نے تمہیں اپنا رسول بنایا ہے۔‘‘ تیسرے نے منطق چھانٹی: ’’میں تم سے ہرگز بات نہیں کروں گا، کیونکہ اگر تم واقعی اللہ کے رسول ہو، تو میں اس کا مستحق نہیں کہ تم سے بات کروں اور اگر نہیں ہو تو میری ذلت ہے کہ کسی جھوٹے سے بات کروں۔‘‘

زخمی دل کے ساتھ سرداروں کی محفل سے نکل کر آپ باہر آتے ہیں تو طائف کے سردار شہر کے لچے لفنگے لوگوں کو آپ ﷺ کے پیچھے لگادیتے ہیں، یہ اوباش آپ ﷺ پر پتھروں کی بارش کردیتے ہیں ، تاک تاک کر آپ کے ٹخنوں اور ایڑیوں پر پتھر مارتے ہیں، جب چوٹوں کی تکلیف سے مجبور ہوکر آپ بیٹھ جاتے ہیں تو آپ کو پکڑ کر کھڑا کردیتے ہیں، دو میل کے راستے پر اسی طرح سنگ باری کے نتیجے میں آپ زخموں سے چور اورلہولہان ہوجاتے ہیں اور بالآخر طائف کی بستی سے نکل کر ایک باغ میں پناہ لیتے ہیں۔ ذرا یہ منظر دیکھئے! کس کا دل ہے کہ شق نہ ہوجائے…! زخموں سے گھٹنے چور ہوگئے…!! پنڈلیاں گھاؤ ہوگئیں…!! کپڑے لال ہوگئے…!!! نو عمر رفیق (زیدؓ) نے سڑک سے بیہوشی کی حالت میں جس طرح بن پڑا اٹھایا،پانی کے کسی گڑھے کے کنارے لاکر کھڑا کیا، جوتیاں اتارنی چاہیں تو خون کے گوندسے وہ تلوے کے ساتھ اس طرح چپک گئی تھیں کہ ان کا چھڑانا دشوار تھا۔ (النبی الخاتم: ۵۸)

طائف کا سفر… !ٹوٹا ہوا دل…!! زخموں سے چور جسم…!!! زندگی کا سب سے زیادہ سخت دن…!!! یہ سارے مناظر نگاہوں میں رکھئے اور اب یہ بھی دیکھئے کہ زبان پر کیا الفاظ ہیں؟ ’’الٰہی اپنی بے زوری اور بے سروسامانی کا شکوہ تجھ سے ہی کرتا ہوں۔ اے سارے مہربانوں میں سب سے زیادہ مہربان مالک! میری سن، درماندہ اور بیکسوں کا رب تو ہی ہے، تو ہی میرا مالک ہے، مجھے تو کن کے سپرد کرتا ہے، کیا اس حریف بیگانہ کے جو مجھ سے ترش روئی روا رکھتا ہے۔ یا تو نے مجھ کو، میرے سارے معاملات کو دشمنوں کے قابو میں دے دیا ہے؟ پھر بھی اگر تو مجھ سے ناراض نہیں، تومجھے ان باتوں کی کیا پروا، کچھ بھی ہو میری سمائی تیری عافیت کی گود میں ہی ہے، اور تیرے چہرہ کی وہ جگمگاہٹ جس سے اندھیریاں روشنی بن جاتی ہیں، میں اس نور کی پناہ میں آتا ہوں، کہ اس سے دنیا و آخرت کا سدھار ہے۔ مجھ پر تیرا غصہ بھڑکے، اس سے تیری پناہ مانگتا ہوں۔ مجھ پر تیرا غضب ٹوٹے، اس سے تیرے سایہ میں آتا ہوں، منانا ہے، منانا ہے اس وقت تک منانا ہے جب تک تو راضی نہ ہو، نہ قابو ہے، نہ زور ہے مگر اعلیٰ و عظیم اللہ ہے۔‘‘

دل کی اس کیفیت کو آپ نے دیکھ لیا، دعوت کی لگن اور اس کی خاطر طائف کا یہ سفر … اپنے رب پر بھروسہ اوراس کی رضا کی تلاش، یہ رنگ تو ظاہر ہیں ہی۔ اب وہ رنگ اور ہیں جو دراصل آپ کو دکھانے مقصود ہیں۔ حضور ﷺ باغ میں بیٹھتے ہیں، آپ ﷺ کے یہ الفاظ سن کر نوجوان ساتھی حضرت زید بن حارثہ رضی اللہ عنہ عرض کرتے ہیں: ’’یا رسول اللہ! ان ظالموں کے لیے بددعا کیجیے۔‘‘ رحمتِ مجسم نے فرمایا: ’’میں ان لوگوں کے لیے کیوں بددعا کروں، اگر یہ لوگ خدا کے اوپر ایمان نہیں لائے تو مجھے امید ہے کہ ان کی نسلیں ضرور خدائے واحد کی پرستار ہوں گی۔‘‘

باغ سے نکل کر مکہ کی راہ لیتے ہیں، اور اس مقام تک پہنچتے ہیں، جہاں سے احرام باندھا جاتا ہے، یہا ںجبریل امین تشریف لاتے ہیں، اور عرض کرتے ہیں: اللہ نے وہ سب کچھ سن لیا، جو آپ کی قوم نے آپ سے کہا، اور آپ کی دعوت کا جو جواب دیا۔ اے محمد! اللہ نے آپ کے پاس یہ پہاڑوں کا فرشتہ بھیجا ہے، جو چاہیں اسے حکم دیں۔ پہاڑوں کا فرشتہ سلام عرض کرتا ہے، اور اجازت طلب کرتا ہے۔ اے محمد ﷺ ! آپ کو پورا اختیار ہے، ارشاد ہو تو ان دونوں پہاڑوں کو اٹھا کر جن میں طائف محصور ہے اس شہر کو پیس کر رکھ دوں۔

ذرا دیکھئے! جس کے گھٹنے توڑے گئے، ٹخنے چور کیے گئے، اب اس کے قابو میں کیا نہیں ہے، اور جو اختیار دیا گیا ، کیا وہ پھر چھینا گیا؟ جسے پتھر کے ٹکڑوں سے پٹوایا گیا، اسی کو اختیار دیا گیا کہ وہ پہاڑوں سے اس کا جواب دے سکتا ہے اور بآسانی دے سکتا ہے… اب دیکھو جسے جبال ملے، ملک الجبال ملا، وہ اپنی قوت سے کیا کام لیتا ہے، جنھوں نے اس کو ہلکان کیا تھا، کیا ان پر ان کی زندگی کو وہ بھاری کرے گا، چاہتا تو یہ کرسکتا تھا اور اس کا حق تھا کہ جنھوں نے اس پر پتھراؤ کیا تھا ان کو سنگسار کرے۔‘‘ (النبی الخاتم: ۶۵-۶۷) لیکن وہی تاریخ جس نے قومِ نوح کے طوفان، قوم عاد کی آندھی، قوم ثمود کی چنگھاڑ اور کڑک، قوم لوط کی پتھروں کی بارش اور موسیٰ کے دریا کے واقعات کو ریکارڈ کیا ہے، اسی تاریخ نے محمد رسول اللہ ﷺ کا یہ جواب بھی محفوظ رکھا ہے، پہاڑوں کے فرشتے سے فرمایا جارہا ہے:’’میں مایوس نہیں ہوں کہ ان کی پشتوں سے اللہ تعالیٰ ایسے لوگ پیدا کرے جو اللہ وحدہٗ لاشریک لہٗ کی بندگی کریں اور اس کے ساتھ کسی کو شریک اور ساجھی نہ بنائیں۔‘‘

کتنی خوبصورت و دلربا ہے یہ تصویر! اس پر دل کیوں نہ آئے؟ محبت کا کیسا ابلتا ہوا چشمہ ہے، کیسی فراوانی ہے رحمت کی! کتنی شفقت ہے اپنے رب کے بندوں پر! امید کی کتنی محفوظ چٹان ہے، جس پر دعوت کی کشتی لنگر انداز ہے۔ اپنوں سے تو سب ہی محبت کرتے ہیں، دشمنوں سے کتنے محبت کرتے ہیں؟ اچھی بات کا تو سب ہی اچھا جواب دیتے ہیں، کتنے ہیں جو گالیوں اور پتھروں کا جواب دعاؤں سے دیتے ہیں؟ جذبۂ انتقام نہیں، نفرت نہیں، غیظ وغضب نہیں، غصہ نہیں، مایوسی نہیں، گالیاں نہیں، اپنے اوپرزعم اور غرہ نہیں، طاقت کا غلط استعمال نہیں، بلکہ دلسوزی ہے، ہمدردی ہے، شفقت ہے، رحمت ہے، زندگی کا پیغام ہے، طاقت کا اگر کہیں استعمال ہے تو کم سے کم ہے، بقدر ضرورت ہے، صرف اس لیے کہ اب طاقت کے استعمال کے بغیر فتنہ کا استیصال ممکن نہیں، نہ کہ اس لیے کہ فتنہ اور پھیل جائے، سب سے بڑھ کر فکر اگر کسی بات کی ہے، سوزوتڑپ، اگر کسی چیز کے لیے ہے، تو صرف اسی لیے ہے کہ دل مسخر ہوں، اپنے رب کے آگے جھک جائیں، ایسے لوگ پیدا ہوں جو دعوتِ حق پر لبیک کہیں، آج نہ ہوں تو کل ہوں۔

مزید

حالیہ شمارے

ماہنامہ حجاب اسلامی ستمبر 2024

شمارہ پڑھیں

ماہنامہ حجاب اسلامی شمارہ ستمبر 2023

شمارہ پڑھیں

درج بالا کیو آر کوڈ کو کسی بھی یو پی آئی ایپ سے اسکین کرکے حجاب اسلامی کو عطیہ دیجیے۔ رسید حاصل کرنے کے لیے، ادائیگی کے بعد پیمنٹ کا اسکرین شاٹ نیچے دیے گئے  وہاٹس ایپ پر بھیجیے۔ خریدار حضرات بھی اسی طریقے کا استعمال کرتے ہوئے سالانہ زرِ تعاون مبلغ 600 روپے ادا کرسکتے ہیں۔ اس صورت میں پیمنٹ کا اسکرین شاٹ اور اپنا پورا پتہ انگریزی میں لکھ کر بذریعہ وہاٹس ایپ ہمیں بھیجیے۔

Whatsapp: 9810957146