تیونس سے ایک سال قبل شروع ہونے والی عرب بیداری کی تحریک کئی ملکوں کے جابر حکمرانوں کے تاج روندتی ہوئی اب سیریا میں آکر مقیم ہے۔ اس دوران اس تحریک نے زین العابدین کے ظلم سے تیونسیا کو نجات دی، حسنی مبارک کی آمریت سے مصری قوم کو نکالا، علی عبداللہ صالح کے فوجی نظام کا یمن سے خاتمہ کیا اور آخر کار لیبیا کے ڈکٹیٹر کرنل قذافی کا بھی خاتمہ کردیا۔ اس پورے ایک سال کی مدت میں اس تحریک نے بڑی آزمائشوں کا مقابلہ اور ہزاروں انسانوں کی قربانی پیش کی۔ اس پوری انقلابی رو میں سب سے زیادہ جانی نقصان لیبیا میں ہوا، جہاں قذافی نے اپنے ملک کے عوام پر اپنی فوجوں کو بھوکے کتوں کی طرح چھوڑ دیا۔ بالآخر فوج خود ہی اپنے ظلم و ستم سے تنگ آکر بٹنی اور چھٹنی شروع ہوگئی۔ فوج کے ایک حصے نے بغاوت کرکے عوامی تحریک میں شمولیت اختیا رکرلی اور پورے لیبیا کو قبرستان بناڈالنے کا عزم رکھنے والے قذافی کے اقتدار کا خاتمہ ہوگیا۔ قذافی کے اقتدار کا خاتمہ اور اس کی موت سے ظالم حکمرانوں کو عبرت حاصل کرنی چاہیے تھی مگر افسوس کہ ایسا نہیں ہورہا ہے اور سیریا کے بشار الاسد نے اپنے ہی ملک کے عوام پر اندھا دھند بمباری کرتے ہوئے ہوائی اور زمینی حملوں کا سلسلہ مدت سے جاری کررکھا ہے۔ پوری مشرقی اور مغربی دنیا بشار کے اس ظلم و ستم کی خاموش تماشائی بنی ہوئی ہے۔
لیبیا میںناٹو کی افواج نے قذافی کے اقتدار کے خاتمے کے لیے عوام کا ساتھ دیا۔ اور کئی شہروں کو قذافی کے فضائی اور زمینی حملوں سے شیلڈ فراہم کی، اس طرح کئی شہر مکمل تباہی سے محفوظ رہ سکے۔ اس وقت جب بشار کی حکومت سیریا میں ظلم و ستم کی تمام معروف او رمعلوم حدیں توڑ چکی ہے عوام چیخ رہے ہیں اور پوری دنیا کا میڈیا سیریا کے عوام پر بشار کے مظالم کی حقیقی داستان سنا رہا ہے، کسی کے کانوں پر جوں رینگتی نظر نہیں آتی۔ ایک طرف سیریا کے نہتے اور غیر مسلح عوام ہیں اور دوسری طرف بشار الاسد کی مضبوط فوجی قوت جو ہر قیمت پر عوام کا سر کچلنے پر کمربستہ ہے۔ بشار الاسد کا رویہ بتاتا ہے کہ اسے ہر قیمت پر سیریا کا اقتدار چاہیے، خواہ حکومت کرنے کے لیے عوام زندہ وباقی رہیں یا نہ رہیں۔ عوام پراس کے مظالم کا تو کہنا کیا، اس نے پچھلے عرب انقلابات سے بھی غلط سبق حاصل کیا اور اس خوف سے کہ فوج میں بغاوت نہ ہو اور فوجی عہدے دار حکومت کو چھوڑ کر عوام سے نہ جاکر مل جائیں، اس نے عجیب و غریب ظالمانہ رویہ اختیار کیا۔ اس نے فوج کے اعلیٰ عہدے داروں کے اہلِ خانہ کو ایک طرح سے یرغمال بنا رکھا ہے کہ ان کے لیے اس کی دانست میں عوام سے جاملنے کے امکانات باقی نہ رہیں۔ اس طرح ایک طرف بشار اپنے ملک کے عوام پر ظلم کا پہاڑ ڈھا رہاہے دوسری طرف اپنی فوجوں کے سلسلے میں بھی ایک قسم کے خوف کا شکار ہے۔
ناٹو، اقوامِ متحدہ اور عرب لیگ جیسے تمام عالمی ادارے خاموش تماشائی بنے ہیں اور مذمتی قراردادوں سے آگے بڑھ کر کسی عملی اقدام کی جرأت نہیں کرپارہے ہیں۔ اقوامِ متحدہ کے خصوصی ایلچی اور اس کے سابق سربراہ کوفی عنان کے بشار الاسد سے مذاکرات ناکام ہوچکے ہیں اور بشار کسی بات کے لیے آمادہ نہیں ہیں۔ ایسے میں ناٹو اور اقوامِ متحدہ کا مداخلت نہ کرنا اہل فکر و نظر کو کچھ الگ سوچنے پر آمادہ کرتا ہے۔۔ صدام کے استبداد سے عراقی عوام کو اور طالبان کے ’مذہبی جنون‘ سے افغانستان کو نجات دلانے والی طاقتیں آخر سیریا کے عوام کو بشار الاسد کے ظلم و ستم سے نجات دلانے کے لیے کیوں آگے آنے کے لیے تیار نہیں اور سیریا میں ناٹو کی فوجی مداخلت کو کیوں مختلف حیلوں بہانوں سے ویٹو کیا جارہا ہے۔ یہ بات صاف ہے۔
سیریا میں عالمی اداروں کی عدم مداخلت کے پیچھے واضح طور پر جو خیال ہے وہ اسرائیل کا تحفظ ہے۔ کیونکہ حسنی مبارک کے اقتدار کے خاتمے کے بعد اسرائیل کی دفاعی لائن کمزور پڑگئی ہے اور اب سیریا میں موجودہ اقتدار کا خاتمہ اگر ہوا تو اسرائیل ان کے خیال میں قطعاً غیر محفوظ ہوجائے گا اور یہ عالمی قوتیں نہیں چاہتیں کہ اسرائیل کے سر سے تحفظ کی چھتری کھسک جائے۔ اس لیے نہ صرف یہ کہ وہ کسی بھی فوجی مداخلت سے جان بوجھ کر گریز کررہی ہیں بلکہ درپردہ اس کے اقتدار کی بقاء اور اس کے تحفظ کی متمنی ہیں۔
اقوامِ متحدہ اور دیگر عالمی اداروں کا معاملہ تو یہ ہے کہ وہ بڑی طاقتوں کے ہاتھوں کھلونا ہیں۔ اور وہ اسے اپنے مفاد کے لیے استعمال کرنے کی عادی ہوگئی ہیں اس لیے ان سے کسی خیر کی توقع کرنا تو محال ہی ہے، لیکن حیرت اور تعجب عالمِ اسلام اور عرب ممالک پر ہے جو اس ظلم و ستم کے مشاہدے کی طاقت جمع کرسکے ہیں۔ شاید ان کی سخت دلی اور سنگ دلی کا سبب یہ خوف ہو کہ کہیں یہ انقلاب کل ان کے دروازے پر نہ دستک دینے لگے۔
اس پورے تناظر میں حیرت اور افسوس ایران کے رول پر ہوتا ہے جو ایک طرف تو عالمِ اسلام کی حمایت حاصل کرنے کے لیے کوشاں ہے اور اس کے لیے ’اسلام‘ کا سہارا لیتا ہے، دوسری طرف وہ ظلم و ستم کے خلاف اور عدل و انصاف کے قیام کے لیے خود اپنے الگ پیمانے رکھتا ہے۔ بحرین میں انقلابیوں کی حمایت کرنے والا ایران سیریا میں چل رہے انقلاب کو ’القاعدہ‘ سے جوڑنے کی مذموم کوشش کررہا ہے، جس کا مطلب صاف ہے کہ وہ عالمِ اسلام کو ابھی تک شیعیت کی عینک لگا کر ہی دیکھ رہا ہے، حالانکہ اس سے اس بات کی توقع نہیں کی جاسکتی تھی۔کیونکہ آج پورا عالمِ اسلام جان رہا ہے کہ سیریا میں بشار کے اقتدار کے خاتمے کے لیے قربانیاں دینے والے کون لوگ ہیں، اور اسے یہ بھی معلوم ہے کہ ان لوگوں کو کسی بھی طرح القاعدہ جیسی واہیات چیزوں سے نہیں جوڑا جاسکتا۔
سیریا میں انقلاب کی لہر زبردست ظلم وستم کے نرغے میں ہے اور ہم جانتے ہیں کہ انقلاب ہمیشہ زبردست قربانیوں کے بعد ہی آتا ہے۔ہوسکتا ہے کہ سیریا کے عوام کے لیے اللہ تعالیٰ نے آزمائشوں کا طویل دور رکھا ہو۔ مگر اتنا طے ہے کہ اب نہ اسے دبایا جاسکتا ہے اور نہ لوٹایا جاسکتا ہے۔ اب یا تو بشار کا اقتدار ختم ہوگا یا سیریا کے عوام۔
اس سلسلے میں ایک بات اورسمجھنی چاہیے کہ اس وقت سیریا کے عوام کا واحد سہارا اللہ کی ذات ہے اور انھیں اسی سے مدد طلب کرنی چاہیے۔ اور ہمیں بھی یقین ہے کہ اللہ تعالیٰ ان کی مدد کرے گا اور غیب سے ان کے لیے راستے بنائے گا۔ اور جس طرح اس نے فرعون و نمرود جیسے سرکشوں کا خاتمہ کیا ہے اس صدی کے سرکشوں سے بھی مظلوموں کو نجات دے گا۔ ان شاء اللہ! ظلم ہر حال میں ظلم ہے اس کا ارتکاب کوئی بھی کرے، نتائج یکساں ہی حاصل ہوں گے۔
شمشاد حسین فلاحی