حال ہی میں سوشل میڈیا پر ایک دلہن نکاح کے بعد بڑی بے باکی کے ساتھ اپنے دولہا کے ساتھ ’’سیلفی‘‘ بناتے دکھائی دی تو ایک دم سے خیال آیا کہ کیا سیلفی کب، کیسے، کس نے اور کہاں شروع کی۔ آپ کو یہ جان کر حیرت ہوگی کہ سیلفی کی تاریخ 175 سال پرانی ہے۔ دنیا کی سب سے پہلی سیلفی 175 سال قبل 1839 میں امریکی ریاست پنسلوینیا کے شہر فلاڈیلفیا میں 30 سالہ رابرٹ کار نیلیس نامی فوٹو گرافر نے لی تھی۔ رابرٹ نے اس وقت اپنے والد کی دکان میں خود ہی اپنے چہرے کا پورٹریٹ بنایا اور اس کام کے لیے لینٹرکیپ کا استعمال کیا۔ رابرٹ نے سب سے پہلے لینز کیپ کو علیحدہ کیا اور پھر دوڑتا ہوا فریم کے درمیان جا پہنچا جہاں وہ اگلے پانچ منٹ تک فریم میں بیٹھا رہا۔ پھر اس نے لینز کیپ کو اپنی جگہ لگا دیا۔ ڈچ خاندان سے تعلق رکھنے والا یہ نوجوان اس سیلفی تصویر میں کام یابی حاصل کرنے کے بعد اس نوعیت کے خصوصی پورٹریٹ بنانے والا باقاعدہ فوٹوگرافر بن گیا۔
آج کی دنیا میں سیلفی لینے کا شوق ایک جنون کی شکل اختیار کر گیا ہے، جس میں نوجوان نسل کے ساتھ ساتھ بچے، بوڑھے سب ہی شامل ہیں۔ تفریحی مقامات ہوں یا بازار، عوامی و نجی تقریبات ہوں یا تعلیمی ادارے، سبھی جگہوں پر لوگ سیلفی لیتے دکھائی دیتے ہیں۔ لوگوں کے لیے سیلفی لینا یقینا ایک خوش کن تفریح ہے، مگر یہ بھی حقیقت ہے کہ اب یہ شوق ایک جان لیوا عمل بھی بنتا جا رہا ہے۔ ایک ادارے کی حالیہ رپورٹ کے مطابق سیلفی کی وجہ سے ہلاکتوں کے اعداد و شمار بتاتے ہیں کہ اسمارٹ فونز کے ذریعے اپنی تصویر خود کھینچنے کی کوشش کرتے ہوئے سال رواں میں اب تک 12 سو سے زیادہ افراد جان سے ہاتھ دھو بیٹھے ہیں۔
سیلفی لینے سے جڑی زیادہ تر اموات لوگوں کے بلندی سے گرنے کی وجہ سے واقع ہوئی ہیں جیسے گزشتہ دنوں ایک 66سالہ جاپانی سیاح اور اس کا ساتھی تاج محل کی سیڑھیوں پر کھڑے ہوکر سیلفی لینے کی کوشش میں گر گئے اور چوٹ لگنے کے باعث لقمہ اجل بن گئے۔ سیلفی لینے کے دوران ہلاک ہونے کا دوسرا سب سے اہم سبب قریب سے گزرتی ہوئی گاڑی سے ٹکرا جانا ہے، جیسے پاکستان کے شہر راولپنڈی کے ایک طالب علم 22 سالہ جمشید نے سیلفی لینے کی کوشش کی تو وہ سامنے سے آتی ٹرین کے زد میں آگیا اور جان دے دی، جب کہ کالج کی پکنک پر جانے والی ایک لڑکی بھی سیلفی لینے کے دوران اونچائی سے نیچے گر کر جان سے ہاتھ دھو بیٹھی۔
نت نئے انداز میں سیلفی لینا نہ صرف اپنے بلکہ دوسروں کے لیے بھی ایک خطرناک عمل ہے۔ اس دوران اپنے گرد و پیش سے غافل ہوجانا اپنی اور دوسروں کی جان کو خطرے میں ڈال سکتا ہے۔ ایسا ایک واقعہ حال ہی میں پیش آیا تھا جب کہ سٹاریکا کے ساحل پر انڈے دینے کے لیے آنے والے ان گنت کچھوؤں کے پیش منظر میں کھڑے ہوکر سیلفی بنانے کے لیے سیاحوں کا ہجوم امڈآیا۔ محکمہ وائلڈ لاف کے اہل کاروں کے مطابق سیاحوں کی یلغار سے گھبرا کر کچھووں کی بڑی تعداد انڈے دیے بغیر ہی پانی میں واپس چلی گئی۔ اسی طرح امریکی ریاست آیوا کے شہر آیوا سٹی میں 20 سالہ گلبرٹ فلپ، جو سیلفی لینے کے بخار میں مبتلا ہے، سیلفی لینے کا کوئی موقع ہاتھ سے نہیں جانے دیتا۔‘‘ ایواسٹی کی پولیس نے گلبرٹ فلپ کو تیز رفتاری سے گاڑی چلانے پر روکا اور گرفتار کرلیا۔ اس وقت بھی گلبرٹ نے پولیس افسر سے درخواست کی کہ وہ اس کے ساتھ ایک سیلفی بنانا چاہتا ہے۔ اس کے بعد گلبرٹ نے یہ سیلفی اسنیپ چیٹ پر پوسٹ کر دی، جس کی وجہ سے اس کو بڑی شہرت ملی۔
ایسے عمل سے کسی کو شہرت مل جاتی ہے تو کوئی مشکل میں بھی پھنس جاتا ہے۔ ہمارے ہی ملک میں ایک آسٹریلوی سیاح اس وقت مصیبت میں پھنس گئی جب وہ اپنی سیلفی لیتے ہوئے اچانک کنویں میں جاگری۔ محترمہ کی چیخیں سن کر لوگوں نے انہیں کنویں سے نکال کر ان کی جان بچائی۔ اس قسم کے خطرناک عمل سے بہت سے لوگ خود موت کو دعوت دے کر اپنی زندگی کا چراغ گل کردیتے ہیں جو کہ سراسر پاگل پن ہے۔ آپ سیلفی ضرور لیں لیکن اپنی زندگی کو خطرے میں ڈالے بغیر۔
سیلفی سے جڑے حادثات میں اتنی تیزی سے اضافہ ہوا ہے کہ روس میں حکومت ’سیف سیلفی‘ مہم شروع کرنے پر مجبور ہوگئی ہے۔ ماہرین نفسیات کے مطابق دن میں تین بار سے زیادہ سیلفی لینے والا اس بیماری میں شدت سے مبتلا ہوتا ہے اور ڈاکٹر کے مطابق اس بیماری کا کوئی علاج نہیں ہے۔ اس بیماری کے جراثیم ہمارے ہاں بھی وافر مقدار میں پائے جاتے ہیں، سیلفی کے سبب اپنے ملک میں بھی تیزی سے بڑھتے حادثات کو دیکھ کر کہیں ایسا نہ ہو کہ ہماری حکومت کو بھی سیف سیلفی جیسی کوئی بیداری مہم چلانی پڑے۔lll