ماہا نے گھر میں آفت مچا رکھی تھی۔ موصوفہ پر ماڈلنگ کا بھوت سوار تھا۔ ویسے وہ تھی بہت پیاری! بلند قامت، گوری رنگت، بڑی بڑی آنکھیں، نازک اندام اور اٹھارہ بیس سال عمر، ماڈلنگ کےلیے اور بھلا کیا چاہیے؟ مگر اس کے دل میں شاید یہ خیال کبھی جنم نہ لیتا کیونکہ اس کی تربیت ہی اس انداز سے ہوئی کہ وہ غلط اور صحیح میں خود فرق کرسکتی تھی۔ اس کی ماں سمجھ دار اور تعلیم یافتہ تھی جس نے بچوں کو دوست بناکر زندگی کی اونچ نیچ سکھائی۔
دراصل اس کی سہیلی فائزہ نے اسے ورغلایا۔ پہلے تو ماہا نے انکار کیا لیکن جب وہ اس کے حسن کی تعریفیں کرتی اور کہتی رہی کہ تم بہت خوبصورت اور باصلاحیت ہو، تمہیں ضرور ماڈلنگ کرنی چاہیے، تو وہ بہک گئی۔ فائزہ نے یہ بھی کہا ’’کسی دن میرے ہاں آنا، میرا بھائی ایک اشتہاری ایجنسی میں ملازم ہے۔ وہ تمھیں موقع دلواسکتا ہے۔ تم جیسے حسین خدوخال کی مالک ہو، راتوں رات چھا جاؤگی۔‘‘ دراصل وہ ماہا کو کالج کے فینسی ڈریس شو میں ماڈلنگ کرتے دیکھ چکی تھی، اسی لیے اُس کے پیچھے پڑگئی۔ ماہا کالج سے آکر ماں کی منت سماجت کرنے لگی کہ اسے ماڈلنگ کرنے کی اجازت مل جائے لیکن اس کا ایک ہی جواب تھا ’’یہ نہیں ہوسکتا۔‘‘
’’کیوں امی؟ ہزاروں لڑکیاں اس شعبے میں آچکی ہیں، اگر میں تعلیم مکمل کرکے کہیں ملازمت کرنا چاہوں، تو کیا تب بھی آپ مجھے روکیں گی؟ ماڈلنگ بھی تو میں ایک پیشے کے طور پر اپنانا چاہتی ہوں۔‘‘ لیکن ماں اسے سمجھاتی کہ جہاں اپنی دینی اخلاقیات اور اقدار کا سودا کرنا پڑے، وہاں قطعاً ملازمت نہیں کرنی چاہیے۔
’’تو کیا میں گھر بیٹھ کر اپنی صلاحیتوں کو زنگ آلود کرلوں؟‘‘ ماہا نے کہا۔
امی کہنے لگیں: ’’اپنی صلاحیتیں منوانے کے لیے کیا تمہارے پاس کوئی اور راستہ نہیں؟ کیا چوراہوں پر بڑی بڑی تصویریں آویزاں کروا کر اور دوسروں کے ہاتھوں میں کٹھ پتلی بن کر ہی اپنی صلاحیتوں کا اظہار ممکن ہے؟‘‘
ماہا بولی: ’’میں تو صرف ایک رسالے کے لیے کپڑوں کی نمائش کرنا چاہتی ہوں اور بس۔‘‘ لیکن اس کی ماں نہ مانی۔
اسی شام پھر فائزہ کا فون آیا، پوچھنے لگی: ’’کیا تم نے امی کو منالیا؟ ایک ڈیزائنر تم سے ملنا چاہ رہا ہے۔‘‘
ماہا نے مایوسی سے بتایا: ’’امی قطعاً راضی نہیں۔ لیکن تم اسے منع نہ کرنا، میں انہیں منالوں گی۔‘‘
’’ہاں ہاں منانا کوئی مشکل ہے! منانے کے سو طریقے ہوتے ہیں۔‘‘ فائزہ، ماہا کو کچھ کر گزرنے پر اکساتے ہوئے بولی۔ امی اپنے کمرے میں بیٹھی تھیں، اسے اندازہ ہوگیا کہ فائزہ کا فون آیا ہے۔ وہ انجان بن کر ماہا کو آوازیں دینے لگیں، وہ نہیں چاہتی تھیں کہ بیٹی اس سے زیادہ بات کرے۔ فائزہ کہنے لگی ’’اچھا کل تک مجھے بتادینا، میں نے بھائی کو روکا ہوا ہے، ایک اور لڑکی تو بہت بے چین ہے۔‘‘
ماہا نے فون بند کیا اور اپنے کمرے میں چلی گئی۔ وہ ناراض لگ رہی تھی۔ کھانے کا وقت ہوا، تو امی ماہا کو بلاتی رہیں لیکن وہ ٹس سے مس نہ ہوئی۔ وہ خود اٹھ کر اسے بلانے پہنچیں تو ماہا پھر وہی قصہ لے کر بیٹھ گئی۔ ماں نے بیٹی کو روٹھے دیکھا، تو بولی’’میری جان! تم میری سب سے قیمتی شے ہو۔ میں کیسے اپنی متاع عزیز کو یوں نمائش کے لیے رکھ دوں؟‘‘
یہ سن کر ماہا گستاخی پر اترآئی۔ ’’ویسے تو آپ بہت روشن خیال بنتی ہیں کہ میں نے اپنے بچوں پر کبھی کوئی پابندی نہیں لگائی۔ اور اب؟ وہ تو ہم ہی اچھے ہیں جو آپ کی ہر بات مان لیتے ہیں۔‘‘ اس نے جو منہ میں آیا، بے دھڑک کہہ دیا۔
’’ماہا!‘‘ امی نے اسے ڈانٹا۔ ’’روشن خیالی کا یہ مطلب نہیں کہ تم اپنا آپ عیاں کرکے جو مرضی کرتی پھرو۔ اللہ جانے اس فائزہ کی بچی نے کیا پٹی پڑھا دی کہ تمہیں اچھے برے کی تمیز ہی نہیں رہی۔ چلو اٹھو کھانا کھالو، یہ بعد کی باتیں ہیں۔‘‘
ماہا ناراضی سے کہنے لگی ’’مجھے بھوک نہیں ہے۔ ویسے بھی میں اسی وقت کھانا کھاؤںگی، جب آپ مجھے ماڈلنگ کرنے کی اجازت دے دیں گی۔‘‘
’’نہ کھاؤ لیکن وہ ہرگز نہیں ہوگا جو تم چاہ رہی ہو۔‘‘ ماں نے فیصلہ کن انداز میں کہا اور واپس چلی آئی۔ دو گھنٹے بعد وہ پھر گئی اور اسے کھانا کھانے پر راضی کرنے لگی لیکن جتنا وہ بیٹی کو مناتی، وہ اتنا ہی سر چڑھتی گئی۔ آخر ماں کھانا وہیں چھوڑ کر آگئی کہ جب بھوک سے مچلے گی، تو خود ہی کھالے گی، لیکن ماہا بھی ضد کی پکی تھی، اس نے کھانے کو چھونا تو درکنار دیکھا تک نہیں۔ ادھر ماں سے برداشت نہیں ہورہا تھا کہ اس کی لاڈلی بھوکی بیٹھی رہے۔ اس نے ملازم کے ہاتھ بازار سے آئس کریم منگوائی اور پھر اس کے پاس پہنچی لیکن ماہا اپنی ضد پر اڑی رہی۔ اس کا کہنا تھا کہ فائزہ نے ہی اپنے بھائی کو روکا ہوا ہے ورنہ ایک اور لڑکی تو بار بار فون کرکے کہہ رہی ہے کہ اس سے ماڈلنگ کروالو۔
’’ماہا! تم باز نہیں آئی تو میں تمہارے ابو کو بتادوں گی، وہ خود تمہیں ٹھیک کرلیں گے۔ ابھی تک میںنے انہیں کچھ نہیں بتایا۔‘‘
مگر ماہا کا بھی فیصلہ اٹل تھا کہ وہ ماڈل بن کر رہے گی۔ تنگ آکر ماں کہنے لگی ’’تمہارے ابو کو ہر جگہ عزت و احترام کی نظر سے دیکھا جاتا ہے، تم کیوں ہمیں شرفا کی فہرست سے نکلوانا چاہتی ہو؟‘‘
’’ہونہہ! انیسویں صدی کی دقیانوسی سوچ! یوں چھپ کر سات پردوں میں بیٹھ رہنے کا یہ کوئی زمانہ ہے۔‘‘
بیٹی کے منہ سے یہ سن کر ماں نے کوئی جواب نہ دیا اور واپس آگئی۔ بے بسی سے اس کی آنکھوں میں پھر آنسو آگئے۔
’’کچھ بھی ہوجائے میں ہار ماننے والی نہیں، فائزہ کتنی اچھی سہیلی ہے، میرے لیے اتنا کچھ کررہی ہے ورنہ اسے کیا، کوئی بھی لڑکی میری جگہ لے سکتی ہے لیکن وہ مجھے بطور مشہور ماڈل دیکھنا چاہتی ہے۔‘‘
عمر کے اس جذباتی دور میں کبھی کبھی دوستی خون کے رشتے پر حاوی ہوجاتی ہے اور ماہا بھی کچھ ایسی ہی حالت سے دوچار تھی۔ جیسے تیسے رات گزرگئی، ماہا سوتی جاگتی رہی۔ جب بھی آنکھ لگتی، وہ خواب میں خود کو ایک مشہور ماڈل کے روپ میں دیکھنے لگتی۔ صبح اٹھی، تو بھوک کی وجہ سے اسے شدید غصہ اور بے چینی محسوس ہونے لگی۔ اس کے کانوں میں فائزہ کی بات گونج رہی تھی، ’’منانے کے سو طریقے ہوتے ہیں۔‘‘ سواس نے انجام کا سوچے بغیر اپنی بات منوانے اور ماں باپ کو سزا دینے کے لیے نیند کی گولیاں کھالیں۔ پھر ایک دم اسے خیال آیا کہ اگر وہ سچ مچ مرگئی تو……؟
یہ سوچ کر ماہا کی سٹی گم ہوگئی۔ اس نے زوردار چیخ ماری اور بستر سے نکل کر ماں کی طرف بھاگی۔ ماں نے بیٹی کی چیخ سنی، تو اس کے پیروں تلے زمین نکل گئی۔ ’’یا اللہ خیر! جس خوف سے میں رات بھر جاگتی رہی ہوں شاید، اس نے وہی کردکھایا۔‘‘ وہ ماہا کے کمرے کی طرف بھاگی، دیکھا بیٹی دروازے کے پاس کھڑی چیخ رہی تھی ’’امی، امی، مجھے بچالیں۔‘‘ وہ پھر ماں کے ساتھ چمٹ کر زور زور سے رونے لگی اور بولی ’’امی! میں نے نیند کی گولیاں کھالی ہیں مگر میں مرنا نہیں چاہتی! امی مجھے بچالیں۔‘‘
گھر میں کوئی نہیں تھا۔ بھائی اسکول کالج اور ابودفتر جاچکے تھے۔ اس کے ہاتھ پاؤں ٹھنڈے ہوگئے لیکن پھر ماں نے حواس پر قابوپاتے ہوئے پہلے بیٹی کے گلے میںانگلیاں ڈال کر قے کروائی اور پھر گاڑی میں ڈال کر قریبی ہسپتال لے گئی۔ راستے میں وہ اسے ہلاتی جلاتی رہی کہ بے ہوش نہ ہوجائے۔ مگر ہسپتال کے قریب پہنچ کر ماہا نیم بے ہوش ہوگئی۔
جیسے تیسے ماہا کو ڈاکٹروں کے سامنے لے جایا گیا اور وہ فوراً اس کا معدہ صاف کرنے لگے۔ ماں نے اس کے ابو کو فون کیا، لیکن یہ نہ بتایا کہ معاملہ کیا ہے، بس یہ کہا کہ ماہا کی طبعیت بہت خراب ہے، آپ فوراً اسپتال پہنچ جائیں۔ وہ حیران کے صبح تو بیٹی کو اچھا بھلا چھوڑ کر آئے تھے، اب ایک دم کیا ہوگیا۔ جب ہسپتال پہنچے اور انہیں سارا ماجرا معلوم ہوا، تو وہ بھی ہکا بکا رہ گئے۔ کہنے لگے’’تم نے مجھ سے چھپا کر غلطی کی، میں اسے سمجھا دیتا، تو نوبت یہاں تک نہ پہنچتی۔‘‘
’’مگر ماہا کسی کے کہنے سننے میں کہاں آتی ہے؟‘‘ ماں نے کہا اور پھر روتے ہوئے ہاتھ اٹھا کر بیٹی کی سلامتی کی دعائیں مانگنے لگی۔ چار پانچ گھنٹے بعد اسے انتہائی نگہداشت کے وارڈ سے باہر لایا گیا۔ جب ماہا کو ہوش آیا ماں اسے دیوانہ وار چومنے لگی۔ آنسو اس کا چہرہ بھگورہے تھے۔ ابو قریب کھڑے اس کے سر پر ہاتھ پھیرنے لگے۔
شام کو جب وہ کھانا کھا رہی تھی تو ماں نے بتایا ’’فائزہ کا فون آیا تھا، میں نے کہہ دیا کہ تمہاری طبیعت ٹھیک نہیں، اس لیے نہیں آسکوگی۔ دو تین دن میںجب طبیعت سنبھل جائے، تو چلی جانا۔‘‘
ماہا کچھ نہ بولی،ہولے ہوئے کھچڑی کھاتی رہی۔ وہ اپنے کیے پر نادم تھی اورجذبات سے مغلوب بھی۔ اسے پچھلے ہی دن ہسپتال سے چھٹی ملی تھی۔ تین دن میں اس کی رنگت پیلی زرد پڑگئی تھی۔ اب وہ بجھی بجھی اور شرمندہ سی رہتی۔
ایک دن فائزہ اپنی سہیلی سے ملنے چلی آئی۔ آتے ہی پیار بھرے انداز میں اس کے گال پر چٹکی بھر کر کہنے لگی :’’تم نے بہت انتظار کروایا حالانکہ ڈیزائنر اتنا انتظار نہیں کرتے۔ چلو اب جلدی سے تیار ہوجاؤ، بھائی گاڑی میں انتظار کررہے ہیں۔‘‘ اس حادثے کے بعد امی ابو نے بیٹی پر دباؤ ڈالنا چھوڑ دیا تھا۔ انہیں یقین تھا کہ بیٹی ٹھوکر کھانے پر خود ہی سنبھل جائے گی۔ماہا جانے سے قبل امی کو بتانے ان کے کمرے میں گئی، تو وہ خاموش اور اداس بیٹھی تھی۔ ماہا کہنے لگی:’’امی! میں فائزہ کے ساتھ جارہی ہوں۔ واپسی پر وہی مجھے چھوڑ جائے گی، آپ فکر نہ کیجیے گا۔‘‘
انھوں نے ماہا کو یوں گلے سے لگایا جیسے کوئی اسے چھین رہا ہو۔ پھر کہنے لگی: ’’بیٹی! جب کوئی چیز حد سے نکل جائے، تو اس کا اثر منفی ہوجاتا ہے۔ جہاں تم جارہی ہو وہاں عورت کی عزت ہو ہی نہیں سکتی، بلکہ تکریم کے پردے میں توہین ہوتی ہے۔ جب تمہیں لگے کہ تمہاری توہین ہورہی ہے، تو واپس آجانا۔‘‘
فائزہ کے بھائی نے ڈیزائنر کے ساتھ اس کی ملاقات کروائی۔ معاہدہ ہوا، اس کے چہرے کی خوبصورتی جانچی گئی اور وہ دو گھنٹے میں واپس آگئی۔ جب سے وہ ہسپتال سے آئی تھی اسے گھر کی فضا میں بے نام سی خاموشی محسوس ہورہی تھی۔ وہ کبھی اپنی ماں سے لاتعلق نہیں ہوئی تھی، کوئی نئی بات ہوتی فوراً پہلے ماں کو بتاتی لیکن اب وہ اس سے کھنچی کھنچی رہنے لگی۔
دوسرے دن جب ماہا تصویریں بنوانے گئی تو پہلے اسے مشق کروائی گئی کہ کیسے دوپٹہ اوڑھنا ہے، کیسے آستین کی نمائش کرنی ہے اور کیونکر گلے کے نمونے دکھانے ہیں۔ اسے ایسے زاوئیے سے بٹھایا گیا کہ کپڑوں کی نمائش کم اور جسم کی زیادہ ہورہی تھی۔ وہ گھبرائی ہوئی ہر بات پر عمل کرتی رہی۔ اسے تیار کرنے ایک کمرے میںلے جایا گیا۔ ایک لڑکا اس کا سنگھار کرنے لگا، دوسرا مختلف قسم کے جوڑے لے کر آیا جن کی نمائش کرنا تھی۔ ماہا نے کپڑے دیکھے، تو حیران رہ گئی۔ کوئی بہت باریک، کوئی مختصر اور کوئی بہت تنگ اور چست۔
’’میں یہ کپڑے پہنوں گی؟‘‘اس نے حیرت سے پوچھا۔ ڈیزائنر کا پارہ چڑھ گیا، کہنے لگا : ’’بی بی! معاہدہ ہوچکا ہے اور تم پیشگی رقم بھی لے چکی ہو۔ اب سارا کام میری مرضی کا ہوگا۔‘‘
’’لیکن یہ تو بہت نامناسب کپڑے ہیں۔‘‘ ماہا نے کہا۔
’’محترمہ! میں یہ نہیں کہہ رہا کہ ہمیشہ ایسے ہی کپڑے پہنیے، گھر میں آپ جیسی مرضی رہیں۔ جب پوری رقم ہاتھ آئے گی، تو یہیں بیٹھے بیٹھے دوسرا معاہدہ کرجاؤگی۔ دولت کے آگے ہر چیز ہیچ نظر آتی ہے۔ اچانک بجلی چلی گئی، تو ملازم جنریٹر چلانے کو بھاگے لیکن ڈیزائنر کہنے لگا: ’’رہنے دو، اب کل کام کریں گے۔ سارا موڈ چوپٹ کردیا۔‘‘
ماہا بھی واپس چلی آئی،اس کے چہرے سے بے چینی اور پریشانی عیاں تھی۔ ڈیزائنر کی باتوںنے اس کا دل جلادیا تھا۔ وہ پچھتا رہی تھی کہ ضد اور گستاخی کے بعد کس قدر غلط رستہ اپنا بیٹھی۔ گھر میں بھی وہ کسی سے نظریں نہیں ملا پائی۔اسے اپنی بے بسی اور بیچارگی پر رونا آگیا۔
ادھر اس کی امی سوچ رہی تھی کہ ماہا ہم سے کٹ گئی ہے، اپنے کمرے میں بند نجانے کیا الٹی سیدھی باتیں سوچتی رہتی ہے۔ یہی سوچتے سوچتے وہ ماہا کے کمرے میں پہنچی، تو دیکھا کہ وہ اوندھی پڑی سسکیاں بھر رہی ہے۔ اس نے اسے کندھوں سے پکڑ کر اٹھایا، رو رو کر ماہا کی آنکھیں لال ہورہی تھیں۔ اس نے اسے سیدھا کرکے پوچھا:
’’ماہا! مجھے بتاؤ کیا ہوا ہے۔ کیوں رو رہی ہو میری جان؟‘‘
وہ روتے روتے کہنے لگی: ’’امی! میں بہت بری ہوں نا اور آپ پھر بھی ….!‘‘
وہ اس کی بات کاٹ کر بولی: ’’نہیں بیٹی! کوئی انسان برا نہیں ہوتا۔ ہاں برے رستوں پر چلنے والے برے ہوجاتے ہیں۔‘‘اسے یہ غم ستائے جارہا تھا کہ اس کی بیٹی راہِ بد پر چل نکلی ہے۔
’’اور جو کوئی برے راستے پر چلنا چھوڑ دے؟‘‘ ماہا نے سوالیہ نظروں سے ماں کی طرف دیکھا۔
’’وہ پہلے کی مانند اچھے ہوجاتے ہیں۔‘‘ وہ اس میں مثبت تبدیلی دیکھ کر خوش ہوئی اور اتنا کہہ کر باہر آگئی۔
صبح اٹھ کر وہ رقم واپس کرنے ڈیزائنر کے پاس گئی اور گھنٹے بھر میں واپس آکر ماں کے قدموں میں بیٹھ گئی۔ وہ نم ناک آنکھوں کے ساتھ اس کے گھٹنوں پر سر رکھ کر کہنے لگی: ’’امی! سیپ کا موتی نکل جائے تو وہ، کوڑی کی رہ جاتی ہے۔ عورت کا موتی حیا ہے، میں نے اپنے اس موتی کو کھونے نہیں دیا، میں نے اپنی قدر نہیں کوئی۔ امی! آپ میری نادانی کو ایک خواب سمجھ کر بھول جائیے۔‘‘
ماں ماہا کے سر پر پیار سے ہاتھ پھیرتے ہوئے سوچنے لگی کہ اگر صبح کا بھولا شام کو لوٹ آئے تو یقیناً اس کا استقبال خندہ پیشانی سے کرنا چاہیے۔l