سی ڈی پلیئر

مسعود اختر ، میرٹھ

صوفہ میں دھنساہوا ڈاکٹر غیاث الدین شاہ میز پر رکھے ہوئے بل آف لیڈنگ اور اپنی بیٹی کے خط کو ٹکٹکی باندھے دیکھ رہا تھا۔ غم و غصہ کی ملی جلی کیفیت نے اس کے چہرے کے زاویے بدل دیے تھے۔ پیشانی پر فکر و ترددکی بے شمار لکیریں نمودار ہوگئی تھیں۔ نفرت کے شعلے اس کی آنکھوںسے ہویدا تھے۔

ابھی چند دن پہلے ہی کی بات تو ہے کہ وہ کتنا خوش تھا جب خادم نے اسے یہ اطلاع دی تھی کہ ائیر کنڈیشنر، قالین اور واشنگ مشین بمبئی پورٹ کے لیے بحفاظت بغیر کسی اڑچن کے بک ہوچکے ہیں۔ اس کی مسرت کا کوئی ٹھکانا نہ تھا۔ اس کے وجود سے خوشی پھوٹی پڑرہی تھی۔ بمبئی سے میرٹھ پہنچنے پر ڈرائنگ روم میں ائیر کنڈیشنر فٹ ہوگا اور فرش پر جب ایرانی قالین بچھیں گے تو اس کے بچے نہال ہوجائیں گے۔ واشنگ مشین دیکھ کر تو اس کی بیوی کھل اٹھے گی اور جب اس کے بھائی، بھابیاں اور اُن کے بیٹے اپنی دلہنوں کے ساتھ ڈرائنگ روم میں بیٹھیںگے تو حسد کی آگ اُن کے تن بدن کو جلا کر راکھ کردے گی اور پھر ۔ اور پھر اُس کے دل میںپیداہوگا طمانیت کا وہ احساس جو اس کے چہرے پر پھیلادے گا فتح مندی کا نور۔ اس کے بڑے بھائی یہ سمجھ رہے تھے کہ اپنی چالاکیوں اور دغا بازیوں کے ذریعے اس کے حصہ کی جائداد اور باپ کی جمع کی ہوئی رقم ہڑپ کرکے انھوں نے کوئی عظیم کارنامہ انجام دیا ہے۔ یہ درست تھا کہ وہ لاکھوں میں کھیل رہے تھے۔ ان کا ایکسپورٹ کا بڑا بزنس تھا۔ اُن کے بیٹے غیر ممالک کے سفر کررہے تھے۔ اُن کا ایک پیر زمین پر تھا اور ایک ہوائی جہاز میں۔ لیکن آج سے پانچ سال پہلے جب سعودی عرب کے ایک ہسپتال میں سرجن کے طور پر اس کا تقر رہوا تو شاید پہلی بار اس کے بھائیوں اور بھتیجوں کو اس کے وجود کا احساس ہوا اور وہ اس عزم کے ساتھ سعودی عرب فلائی کرگیا کہ اپنی بیوی اور بچوں کو وہ تمام سہولتیں اور آسائشیں فراہم کرے گا جو اس کے خاندان کے دیگر افراد کے پاس تھیں۔

وہ اپنے خیالوں میں گم سنہرے اور شاندار مستقبل اور اپنے بچوں کی ترقی کے خاکے بنا رہا تھا کہ خادم نے اس کی بیٹی کاخط لاکر اسے دیا۔ وہ مسکرا اٹھا۔ اُس کی آنکھوں میں چمک کوند گئی۔ وہ جانتا تھا کہ اس کے بچے اس کا انتظار کررہے ہوں گے۔ بیوی آنکھیں بچھائے بیٹھی ہوگی۔ جوانی کی دہلیز پر قدم رکھتی ہوئی بیٹی۔ ڈاکٹر نے مسرت کے جذبات سے مغلوب ہوکر آنکھیں بند کرلیں۔ ’’جاتے ہی بیٹی کے لیے کوئی اچھا رشتہ تلاش کرے گا۔‘‘ اس نے سوچا۔ ضرور اس کی بیٹی نے اس خط میں کوئی فرمائش کی ہوگی۔ ڈاکٹر کا ٹکٹ اور سیٹ آج رات کی فلائٹ سے او کے ہوچکی تھی۔ وہ دو ماہ کی چھٹی پر ہندوستان لوٹ رہا تھا۔ ہسپتال کے ماحول سے دور، اپنے وطن میں اور اپنے بچوں کے درمیان وہ جلد از جلد پہنچ جانا چاہتا تھا۔ لیکن وقت تو اپنی رفتار سے ہی گزرتا ہے بلکہ انتظار تو اور زیادہ طویل اور شدید ہوجاتا ہے اور جہاز تو اپنے وقت پر ہی اڑتے ہیں نا۔اُس نے دھڑکتے ہوئے دل سے بیٹی کاخط کھولا۔

’’پاپا! ائیرکنڈیشنر مت لائیے گا۔ واشنگ مشین مت لائیے گا، اگر لائیے گا تو صرف اور صرف سی ڈی پلیئر لے کر آئیے گا۔ آپ جاننا چاہتے ہیں کہ میں نے ایسا کیوں لکھا؟ تو سنئے کل ہم بڑے تایا کہ یہاں گئے تھے۔ خلیل بھائی فارن کے ٹور سے لوٹے ہیں نا۔ پلیئر پر لگی فلم دیکھ رہے تھے۔ہم بھی وہیں جابیٹھے لیکن ابھی تھوڑی دیر ہی گزری تھی کہ نہ جانے کیوں خلیل بھائی اٹھ کھڑے ہوئے۔ اُن کے بعد اُن کی دلہن اٹھی اور سی ڈی پلیئر بند کرکے اپنے کمرے میں اٹھا لے گئیں۔ سب خاموشی کے ساتھ انھیں مڑ مڑ کر دیکھتے رہے۔ ہم نے کچھ کہنا چاہا تو تائی اماں نے ہمیں ڈانٹ دیا۔ ڈانٹا ہی نہیں بلکہ طعنہ دیا۔ ’’لاڈو تیرا باوا تو سعودی عرب میں ہے منگوالے نا اس سے سی ڈی پلیئر۔‘‘

ڈاکٹر غیاث الدین شاہ کا خون کھول اٹھا۔ غصہ سے کانپتے ہوئے اس نے اپنی مٹھیاں بھینچ لیں۔ ’’بھابی اچھا ہوا جو تم نے بچوں کو بھی اپنی ذات بتادی۔ میں اپنی بیٹی کے لیے سی ڈی پلیئر ضرور خریدوں گا اور تم جل کر خاک ہوجاؤ اس لیے ایک دن اسی سی ڈی پلیئر پر تمہارے سارے خاندان کو فلم دیکھنے کی دعوت دوں گا۔‘‘

وہ صوفہ سے اٹھ کھڑا ہوا۔ اس نے بل آف لیڈنگ اور بیٹی کاخط اپنی جیب میں رکھا اور کچن کی طرف بڑھ گیا۔ اس نے گیس اسٹوو پر کافی بنانے کے لیے پانی رکھ دیا۔ اس اثناء میں اپنے ایک پاکستانی انجینئر دوست سے فون پر رابطہ قائم کیا اور معلوم کیا کہ کون سا سی ڈی پلیئر اس وقت بازار میں موجود ہے اور کس رینج کا ہے اور یہ کہ اسے کون سا سی ڈی پلیئر خریدنا چاہیے۔ کافی تیار ہوچکی تھی۔ اس نے ایک پیالی میں کافی انڈیلی، ضرورت کے مطابق دودھ ملایا اوربغیر چینی ملائے اسے سپ کرنے لگا۔ اسی اثناء میں خادم اندر آیا اور اس نے کسی کے آنے کی اطلاع دی۔

’’جاؤ کہہ دو، میں آج چھٹی پر ہوں۔ اس لیے کسی سے نہیں مل سکتا۔‘‘

’’میں نے اُن سے یہی عرض کیا تھا، جناب! لیکن وہ آپ سے ملاقات کرنے پر مصر ہیں۔‘‘

’’دیکھو! میرا دماغ مت خراب کرو، میرے پاس وقت نہیں ہے۔ مجھے بہت ضروری شاپنگ کے لیے بازار جانا ہے اور ہاں کیا پیکنگ مکمل ہوگئی؟‘‘

’’جی ہاں پیکنگ تو ہوگئی لیکن اُن کا کیا کروں جو باہر کھڑے ہیں۔ کہتے ہیں بڑا ضروری کام ہے۔ اُن کے ساتھ ایک نوجوان خاتون بھی ہیں۔‘‘

’’کیا کوئی ہندوستانی ہیں؟‘‘ ڈاکٹر نے بے یقینی کی حالت میں خادم سے سوال کیا۔

’’نہیں جناب۔ مقامی ہیں۔ عرب ہیں۔‘‘

ڈاکٹر نے بقیہ کافی حلق میں انڈیلی اور بولا: ’’ٹھیک ہے انھیں ڈرائنگ روم میں بٹھاؤ۔‘‘

’’جی بہتر ہے۔‘‘ خادم چلا گیا۔ ڈاکٹر نے اپنے کپڑے تبدیل کیے اور نپے تلے قدموں کے ساتھ ڈرائنگ روم میں داخل ہوگیا۔ صوفہ پر ایک بوڑھا عرب شیخ اپنے روایتی لباس میں ملبوس بیٹھا تھا اور اس کے برابر والے صوفہ پر ایک نو عمر حسین لڑکی دراز تھی۔ عرب کے چہرے پر سوچ کی لکیریں تھیں اور آنکھوں سے فکر مندی کے آثار نمایاں تھے۔ لڑکی اتنی خوبصورت اور دلکش تھی کہ یک دم تو اُس کا ذہن اُ س کے حسن کی تعریف میں کوئی مناسب سی تشبیہ بھی نہ تراش سکا۔ البتہ اسے یہ احساس ضرور ہوا جیسے صادق حسین سردھنوی کے تاریخی ناولوں کے صفحات سے کوئی عرب شہزادی اس کے ڈرائنگ روم میں اتر آئی ہو۔

’’فرمائیے۔‘‘ علیک سلیک کے بعد وہ اس بوڑھے شیخ سے مخاطب ہوا۔

’’میں اس لڑکی کے علاج کے لیے تمہارے پاس آیا ہوں۔‘‘ عرب نے کمالِ سنجیدگی سے کہا۔

’’معاف کیجیے۔ میں ہسپتال سے چھٹی پر ہوں۔ اس لیے آپ کی کوئی خدمت نہ کرسکوں گا۔ ویسے بھی آپ کو انھیں ہسپتال کے زنانہ وارڈ میں متعین کسی لیڈی ڈاکٹر کو دکھانا چاہیے۔‘‘

’’تم ٹھیک کہتے ہو ڈاکٹر۔ میں یہی کرتا لیکن میں یہ بھی جانتا ہوں کہ عورت پیٹ کی اتنی ہلکی ہوتی ہے کہ کسی راز کو راز رکھنے کی اہلیت اس میں مفقود ہے۔‘‘

’’یا شیخ میں سمجھا نہیں۔‘‘

’’پہلے اپنے خادم کو بلا کر ہدایت دو کہ جب تک تم اسے نہ بلاؤ اندر نہ آئے۔‘‘

ڈاکٹر غیاث نے خادم کوبلا کر تاکید کردی اور سوالیہ نگاہوں سے بوڑھے عرب کو دیکھنے لگا۔

’’تمیں اس لڑکی کا ابارش ش شن… کرنا ہوگا۔‘‘ بوڑھے نے معنی خیز انداز میں ایک ایک لفظ چباتے ہوئے کہا۔ ڈاکٹر اچھل پڑا۔ اسے لگا جیسے کسی یہودی توپ سے گولہ نکل کر اس کے بنگلے پر آن گرا ہو۔ جیسے ڈرائنگ روم کی چھت بھک سے اڑ گئی ہو۔ اس کا دماغ جھنجھنا اٹھا۔ وہ خوبصورت لڑکی جیسے ایک ڈائن میں تبدیل ہوگئی اور بوڑھا شیخ چنڈال کا روپ دھار کر بھیانک قہقہے لگا نے لگا۔

’’یہ کیا کہہ رہے ہیں آپ؟‘‘ اس نے بھرائی ہوئی آواز میں پوچھا۔

’’ہاں تمہیں یہ کرنا ہوگا۔‘‘

شیخ نے ایک بریف کیس میز پر رکھ کر کھولا۔ اس میں بھری ہوئی امریکی ڈالرز کی گڈیاں ڈاکٹر غیاث کی جانب دیکھ دیکھ کر مسکرا رہی تھیں۔ لیکن ان گڈیوں کے اوپر رکھاہوا ریوالور کچھ اور ہی کہانی سنا رہا تھا۔ مگر ڈاکٹر غیاث نے ہمت کی اور بولا:

’’کیا سعودی سرزمین میں یہ ممکن ہے؟‘‘

’’دنیا میں ایسا کون سا کام ہے جو ناممکن ہو۔‘‘

’’لیکن یہ زناکا کیس ہے۔ یہ ناجائز ہے اور سعودی قانون میں ناقابلِ معافی جرم۔‘‘ ڈاکٹر نے بپھرے ہوئے لہجہ میں کہا۔ ڈاکٹر کے اس رویہ سے وہ نازک اندام بھی سہم گئی۔ لیکن شیخ نے بریف کیس سے ریوالور نکال کر ڈاکٹر کی کنپٹی پر رکھ دیا اور بولا:

’’ڈاکٹر تم میرے مرتبہ سے واقف نہیں ہو۔ میرے سامنے اس لہجے میں بات کرنے کی کسی میں ہمت نہیں ہوتی۔ یہ میری مجبوری ہے جو مجھے تم تک لے آئی ہے۔ تم اور تمہارے بیوی بچے خوش نصیب ہیں ورنہ اتنی دیر میں تو تمہاری لاش ریت کے تودوں میں کہیں گم ہوچکی ہوتی۔‘‘

’’مگر یہ سب غلط ہے۔‘‘ڈاکٹر کی آواز کانپ رہی تھی۔ لڑکی سمٹی اور سہمی سہمی یہ سب دیکھ رہی تھی۔

’’مجھے تبلیغ کی ضرورت نہیں ہے، سمجھے، مجھے معلوم ہے کہ یہ سب غلط ہے اور یہ بھی جانتا ہوں کہ یہ راز اگر کھل گیا تو بیچ شاہراہ پر ہماری گردنیں اڑادی جائیں گی۔‘‘

’’ہاں آپ لوگوں کی گردنیں اڑادی جائیں گی، اور ساتھ میں میری بھی۔‘‘ ڈاکٹر نے تھوک نگلتے ہوئے کہا۔ اُس کی بے چارگی اور بے بسی اس وقت اپنے عروج پر تھی۔

بوڑھا شیخ اس کی اس حالتِ زار پر ہنس پڑا۔ بولا ’’لیکن میرے رفیق! جس تلوار سے ہماری گردنیں ماری جائیں گی اس کا دستہ سونے کا ہوگا اور یہ سعادت تمہیں کبھی نصیب نہیں ہوگی۔‘‘

ڈاکٹر کے منہ میں کڑواہٹ گھل گئی۔ یہ مکار و عیاش عرب! یہ اور اس جیسے نہ جانے کتنے ہیں جنھوں نے ہمارے حیدرآباد کو خراب کیا، بمبئی اور مرج کو تباہ کیا اور اب لہریا سرائے اور دربھنگہ کو برباد کررہے ہیں۔ اس نے نفرت بھری آنکھوں سے بوڑھے شیخ کو دیکھا۔ اس کے ہاتھ میں اگر تلوار ہوتی تو وہ بے تکلف اس ظالم عرب کو قتل کردیتا۔

’’دیکھو ڈاکٹر تمہیں ڈرنے کی قطعاً ضرورت نہیں ہے۔ ہم نے تمہارے بارے میں اچھی طرح چھان بین کرلی ہے۔ تم ہندوستانی ہو۔ پانچ سال سے سعودیہ میں ہو اور آج رات کی فلائٹ سے دو ماہ کی چھٹی پر وطن واپس جارہے ہو۔ اب تم ہی کہو۔ اس نازک اور اہم کام کے لیے تم سے بہتر کیا کوئی اور آدمی ہوسکتا ہے۔ تمہاری رحم دلی، ہمدردی اور تمہارے پیشے کی مشاقی میری بیٹی کو ذرا سی دیر میں اس جھنجھٹ سے نجات دلاسکتی ہے۔‘‘

’’بیٹی؟‘‘ ڈاکٹر کو جیسے بچھو نے ڈنک ماردیا ہو۔ اس نے اپنا سرتھام لیا۔ وہ دل ہی دل میں دہل گیا۔

’’یا اللہ! کیا رشتوں کا تقدس اب یوں پامال ہوگا؟‘‘

بوڑھے شیخ نے نہایت نرمی اور شفقت سے اپنا ہاتھ ڈاکٹر کے شانے پر رکھا اور بولا:’’ڈاکٹر !ہم موت سے نہیں ڈرتے لیکن اگر کوئی اس بات کی گارنٹی دے دے کہ ہماری موت کے بعد یہ بدنام کہانی ہمارے خاندان سے نہیں جوڑی جائے گی تو ہم ابھی مرنے کو تیار ہیں۔ ڈاکٹر میرے رفیق! کیا تمہاری کوئی بیٹی نہیں ہے؟‘‘

’’بیٹی؟‘‘ ڈاکٹر کا پورا جسم لرز اٹھا۔ غصہ سے اس کا منہ سرخ ہوگیا۔

’’بیٹی! بیٹی! بیٹی!! کیا اس پاکیزہ لفظ کو اپنی گندی زبان سے ادا کرنے کا تمہیں کوئی حق ہے؟‘‘ اس نے بوڑھے عرب کو گھورتے ہوئے تلخ لہجے میں کہا۔

’’ہاں ڈاکٹر سچ کہتے ہو۔ میں ہی اس کریہہ صورتِ حال کا ذمہ دار ہوں۔ ایک باپ اپنی بیٹی کے تقدس کو، اس کے دامن کی پاکیزگی کو برقرار رکھنے کے لیے کیا کیا جتن کرتا ہے۔ میں واقف ہوتے ہوئے بھی جیسے ناواقف تھا۔ مجھ سے بھول ہوگئی۔ ڈاکٹر تمہارے معاشرے میں کیا ہوتا ہے۔ میں نہیں جانتا لیکن میں جس معاشرے میں رہتا ہوں اور اس میںمیرا جو مرتبہ ہے اس کا تقاضا ہے کہ یہ بدنام اور بدصور ت راز میرے خاندان اور تمہارے درمیان یہیں دفن ہوجائے۔ کیا تم ایک مجبور باپ کی مدد نہیں کروگے؟‘‘

’’یہ میراگھر ہے کوئی ہسپتال نہیں ہے۔ یہاں نہ کوئی آپریشن تھیڑ ہے اور نہ میرے پاس ڈائلیٹر ہیں نہ کیورٹ۔ یہاں تک کہ دستانے بھی نہیں ہیں۔ اور پھر دوائیں…؟‘‘

بوڑھے شیخ نے ڈاکٹر غیاث کی بات پوری ہونے سے پہلے کاٹ دی۔ بولا:’’یہ تمہارا دردِ سر نہیں ہے۔ تم دواؤں اور اوزاروں کے نام لکھ دو۔ انھیں مہیا کرنا میرا کام ہے۔ اورہاں یہ بات غور سے سن لو ڈاکٹر۔ یہ کام کیسے بھی ہو تمہیں تنہا ہی انجام دینا ہوگا۔ تم اپنے ڈرائنگ روم کو آپریشن تھیٹر کے طور پر استعمال کرسکتے ہو۔‘‘

ڈاکٹر غیاث نے کھوئے کھوئے سے انداز میں اپنا سرہلایا اور ایک کاغذ پر ضرورت کی اشیاء کے نام اور دوائیں لکھنے کے لیے میز پر آبیٹھا اور چند لمحوں کے بعد بوڑھا شیخ دواؤں اور اوزاروں کی فراہمی کے لیے جانے لگا تو کچھ سوچ کر رکا اور ڈاکٹر سے بولا:’’کیا اب میں تم پر اعتماد کرسکتا ہوں؟‘‘ ڈاکٹر نے نم آلود آنکھوں سے اسے دیکھا اور اثبات میں سرہلادیا۔ بوڑھا چلا گیا۔

لڑکی سرجھکائے اپنے سینڈل سے قالین کو بے خیالی میں کریدنے کی کوشش کررہی تھی۔

’’آپ کا نام کیا ہے؟‘‘ ڈاکٹر نے گفتگو کا آغاز کرنے کے لیے تقریباً بے معنی سا سوال کیا۔

’’ایک جاہ و حشمت والے، بلند مرتبہ عرب کی بیٹی ہوں۔ کیا آپ کے لیے اتنا جان لینا کافی نہیں ہے؟‘‘ اس نے سر اٹھائے بغیر جواب دیا۔

ڈاکٹر ایک بار پھر بپھر گیا۔

’’کیا یہ اسی بلند مرتبہ باپ کا ذکر ہے جس نے اپنی گڑیا ایسی خوبصورت اور نازک اندام بیٹی کو تباہ کردیا۔‘‘

اس کے اس نوکیلے وار کو شاید وہ برداشت نہ کرسکی۔ وہ بلبلا اٹھی اور تقریباً چلاتے ہوئے بولی:

’’نہیں! خدا کے لیے ایسا پست الزام مت لگائیے۔ اپنے الفاظ واپس لیجیے ڈاکٹر۔ اپنے الفاظ واپس لے لیجیے، پلیز!‘‘

ڈاکٹر کو جیسے سانپ سونگھ گیا۔ وہ اب تک اسی نکتہ کو ذہن میں رکھ کر بوڑھے عرب سے گفتگو کرتا رہا تھا۔ تاسف اور ندامت کا ریلا سا آیا جو اس کے سارے وجود پر چھا گیا۔ اس نے اپنے بدن میں کپکپی محسوس کی۔ نہایت شرمندگی کے ساتھ بولا: ’’تو کیا یہ حرکت آپ کے والد کی نہیں ہے؟‘‘

’’نہیں ڈاکٹر، میرے باپ پر ایسا گھناؤنا الزام مت لگائیے۔‘‘

’’تو پھر کس نے کیا یہ سب؟‘‘

ڈرائنگ روم میں سناٹا اتر آیا لیکن اس سناٹے کی تہہ میں جو ہنگامہ چھپا تھا ڈاکٹر اس کی سطح تک پہنچنے کی کوشش کررہا تھا۔ لمحوں میں جیسے صدیاں بیت گئیں۔

’’یہ …… یہ میرے بھائی نے کیا ہے۔‘‘

سناٹا بول بڑا۔ زمین، آسمان بول پڑے۔ دیواریں، چھت، فرش، کھڑکیاں، دروازے اور اُن پر پڑے بھاری بھاری پردے چیخنے لگے۔ ’’بھائی! محافظ کے بجائے قاتل!!‘‘

یہ کہتے ہوئے اس کی لانبی اور خوبصورت پلکیں جھک گئیں۔ چہرے پر جیسے پورے جسم کا خون کھنچ کر جمع ہوگیا۔ وہ صوفے پر اپنے آپ میں اورسمٹ گئی۔ ڈاکٹر غیاث الدین شاہ اسے پھٹی پھٹی آنکھوں سے دیکھ رہا تھا۔

’’آپ نے اپنے بھائی کی اس جارحانہ حرکت کا دفاع نہیں کیا؟‘‘

’’میرے بھائی نے کوئی جارحانہ حرکت نہیں کی۔‘‘ اسنے برا سا منہ بناتے ہوئے جواب دیا۔

ڈاکٹر ایک بار پھر حیرت کے سمندر میں غوطہ زن ہوگیا۔

’’اوہ سمجھا، اس کا یہ مطلب ہوا کہ آپ کی مرضی بھی اس میں شامل تھی۔‘‘

’’آپ کیسی باتیں کررہے ہیں ڈاکٹر۔ میری مرضی کا تو کوئی سوال ہی نہیں پیدا ہوتا۔‘‘

ڈاکٹر غیاث الدین شاہ کو حیرت کے اتنے شاک زندگی میں شاید ہی کبھی لگے ہوں۔ وہ اتنی معصومیت سے یہ سب بتارہی تھی کہ جھوٹ کی آمیزش کا گمان بھی نہیں کیا جاسکتا تھا۔

’’آپ کی مرضی اس میں شامل نہیں تھی، آپ کے بھائی نے بھی آپ کے ساتھ کسی قسم کی جارحیت سے کام نہیں لیا تو پھر آخر یہ سب کیسے ہوگیا؟‘‘ ڈاکٹر نے بے یقینی کے عالم میں لیکن نرمی کے ساتھ یہ سوال کیا۔ لڑکی نے طویل سانس لی اور صوفہ کی پشت سے ٹک گئی۔ بولی:

’’ڈاکٹر ہمارے گھر میں دنیا کی بہترین سی ڈی لائبریری ہے۔ میرے باپ نے بین الاقوامی سطح کی اعلیٰ درجہ کی فلموں کا منتخب ذخیرہ جمع کررکھا ہے۔ لارنس آف عربیہ، وار اینڈ پیس، بین ہر، عمر مختار، مائی فیئر لیڈی، دی ڈے آفٹر، مکاناز گولڈ، گنز آف نیورن، چارلی چیپلن، نارمن وزڈم اور جیمز بانڈ کی مکمل سیریز یہاں تک کہ آپ کے ملک کی مغلِ اعظم، شعلے اور امراؤ جان تک محفوظ ہیں ہماری سی ڈی لائبریری میں۔ یہ تو آپ جانتے ہی ہیں کہ ویڈیو فلم تنہائی کا بہترین ساتھی ہے اور اس دن بھی ہمارے گھر میں تنہائی تھی۔ اس دن میں تھی اور میرا بھائی تھا۔ ڈاکٹر تنہائی میں وقت کاٹنا کتنا مشکل ہوتا ہے۔ وطن سے دور رہ کر شاید اس کا اندازہ آپ بخوبی لگاسکتے ہیں۔ دوپہر تک ہم دونوں گپ بازی کرتے رہے لیکن یہ بھی کب تک چلی۔ ہم جلدی بور ہوگئے۔ آخر کار میرے اصرار پر بھائی نے سی ڈی پلیئر پر ایک فلم لگادی۔

اور ڈاکٹر! غور سے سنئے! دیکھئے تباہی کے لمحے شروع ہوچکے تھے۔ ٹی وی اسکرین روشن ہوگیا ہے۔ ہاں دیکھئے۔ … ذرا غور سے دیکھئے۔ یہ ایک بلیو فلم ہے۔

چند ثانیوں تک ہم دونوں بھائی بہن بے یقینی کے عالم میں پھٹی پھٹی آنکھوں سے اسکرین کو دیکھتے رہے۔ ہمارا یقین اور اعتماد بھاپ بن کر اُڑ گیا اور دماغ جیسے ماؤف ہوگیا۔ کنپٹیاں سلگ اٹھیں اور پورے جسم میں بجلی کی سی لہریں دوڑنے لگیں۔ اور پھر ہم دونوں وہی کررہے تھے جو اسکرین پر ہورہا تھا۔ اور بس … اور بس میں لٹ گئی۔‘‘ لڑکی پھوٹ پھوٹ کر رونے لگی۔ ڈاکٹر غیاث الدین نے بھی اپنی آنکھو ںکے بھیگے ہوئے کنارے اپنی آستین سے پونچھے۔

ہوائی جہاز خلاء میں پہنچ کر ٹھہر سا گیا ہے۔ ڈاکٹر غیاث الدین شاہ نے اپنی حفاظتی بیلٹ کھول دی ہے۔ ایک ان جانی سی بے چینی اور ذہنی خلفشار جو چند گھنٹوں پیشتر کسی مثبت فیصلہ پر پہنچنے کی راہ میں رکاوٹ بن رہا تھا اس کی قوتِ ارادی کے سبب ختم ہوگیا۔ اس نے عرب شیخ کی خواہش پوری کردی۔ اور دولت سے بھرا ہوا وہ بیگ بھی واپس کردیا جس سے وہ اپنی بیوی بچوں کے لیے دنیا جہان کی وہ آسائشیں اور آرام مہیا کرسکتا تھا، جس کا ایک عام آدمی تصور بھی نہیں کرسکتا۔ ہوائی جہاز جلد ہی اندرا گاندھی انٹرنیشنل ائیرپورٹ پر لینڈ کرے گا اور چند گھنٹوں میں ہی ٹیکسی اسے میرٹھ پہنچادے گی۔ وہ جیسے ہی گھر کی دہلیز پر قدم رکھے گا اس کے انتظار میں جاگتے ہوئے بچے دوڑ کر اس سے لپٹ جائیں گے۔ بیوی مسکرا کر اس کا استقبال کرے گی۔ اور اس کی بیٹی شاید… نہیں بلکہ یقینا اپناپہلا سوال سی ڈی پلیئر کے بارے میں کرے گی۔ اس نے سی ڈی پلیئر کیوں نہیں خریدا۔ وہ اسے کس طرح سمجھائے گا۔ وہ اسے کیا جواب دے گا۔ ڈاکٹر غیاث لفظوں کا انتخاب کرنے لگا۔ وہ عجیب مشکل میں تھا!!

مزید

حالیہ شمارے

ماہنامہ حجاب اسلامی ستمبر 2024

شمارہ پڑھیں

درج بالا کیو آر کوڈ کو کسی بھی یو پی آئی ایپ سے اسکین کرکے حجاب اسلامی کو عطیہ دیجیے۔ رسید حاصل کرنے کے لیے، ادائیگی کے بعد پیمنٹ کا اسکرین شاٹ نیچے دیے گئے  وہاٹس ایپ پر بھیجیے۔ خریدار حضرات بھی اسی طریقے کا استعمال کرتے ہوئے سالانہ زرِ تعاون مبلغ 600 روپے ادا کرسکتے ہیں۔ اس صورت میں پیمنٹ کا اسکرین شاٹ اور اپنا پورا پتہ انگریزی میں لکھ کر بذریعہ وہاٹس ایپ ہمیں بھیجیے۔

Whatsapp: 9810957146