لندن، ۸؍مئی (ایجنسیاں): یوروپ میں خاندانی نظام زبوں حالی کا شکار ہے۔ شادی اور بچوں کی پیدائش کی شرح میں مسلسل کمی ہورہی ہے۔ تقریباً ہر ۳۰ سیکنڈ کے بعد حمل گرایا جاتا ہے۔ بوڑھے افراد کی تعداد نوجوانوں سے بڑھ گئی ہے اور اکیلے رہنے والے لوگوں کی تعداد بھی زیادہ ہے۔ ان حقائق کا انکشاف انسٹی ٹیوٹ فار فیملی پالیسی نے یوروپ کے ۲۷ ممالک میں لوگوں کے حالاتِ زندگی کا مطالعہ کرنے کے بعد اپنی رپورٹ میں کیا ہے۔ رپورٹ کے مطابق یورپ میں ایک اوسط شادی ۱۳ برس قائم رہتی ہے اورہر سال ۱۴۲ ملین حمل گرائے جاتے ہیں۔ حمل گرائے جانے کی یہ تعداد سلوینیا کی آبادی کے برابر ہے۔ یورپ میں حمل کا گرایا جانا، اموات کی سب سے بڑی وجہ بھی ہے۔ یوروپی پارلیمنٹ میں پیش کی جانے والی رپورٹ میں یورپی ممالک کی موجودہ شرح پیدائش کو قابلِ تشویش قرار دیا گیا ہے۔ یورپ کے ۲۷؍ممالک میں ۱۹۸۰ء کی بہ نسبت گذشتہ برس ۹۲۰۰۸۰ کم بچے پیدا ہوئے۔ ۶۵ برس سے زائدعمر کے افراد کی تعداد ۶ ملین سے زائد ہے۔ یورپ میں آبادی میں اضافہ کی وجہ باہر کے ممالک سے آنے والے لوگ ہیں۔ رپورٹ کے مطابق ہر ۳۰ سیکنڈ بعد ایک شادی ٹوٹتی ہے اور ۲۷ سیکنڈ بعد ایک حمل گرایا جاتا ہے۔ یورپ میں سالانہ دس لاکھ طلاقیں ہوتی ہیں اور ۱۲ لاکھ حمل گرائے جاتے ہیں۔ بلیجیم، لگژمبرگ اور اسپین میں طلاقوں کی شرح بہت بلند ہے۔ جہاں ہر ۳ میں سے دو شادیاں طلاق پر ختم ہوجاتی ہیں، جرمنی اور برطانیہ میں بھی یورپ کی نسبت طلاق کی شرح زائد ہے اور ہر۵ میں سے ایک حمل گرایا جاتا ہے۔ یورپ کے ہر ۳ میں سے دو گھروں میں کوئی بچہ نہیں۔ عورت ۲۹ اور مرد ۳۱ برس کی عمر میں فیملی کا آغاز کرتے ہیں جو کہ ۲۵ برس پہلے کی نسبت ۵ برس کی تاخیر ہے۔ یورپ میں ۵۴ ملین افراد اکیلے رہتے ہیں اور ۲۸ فیصد گھروں میں صرف دو افراد ہیں۔ یورپ کے ہر گھر میں آبادی کی شرح ۴ء۲ ہے۔ رپورٹ میں خاندانی نظام کی بقا کے لیے خاندان دوست پالیسیاں قومی اور یورپ کی سطح پر بنانے کی سفارش کی گئی ہے۔ یورپ میں خاندانی مسائل سے نمٹنے کے لیے کوئی مؤثر تنظیم بھی نہیں۔ رپورٹ میں سفارش کی گئی ہے کہ خاندانی مسائل کے حوالے سے وزارت قائم کی جائے جس کے لیے مالی بجٹ بھی مختص کیا جائے۔