شادی اور شرط کے ساتھ… توبہ توبہ…!

محمد دائود

منشی اکرام الدین کے یوں تو پانچ لڑکے تھے مگر لڑکی ایک ہی تھی کیونکہ کاروبار بہت پھیلاہواتھا۔ اس لئے سب بچے کاروبار ہی میں لگ گئے تھے البتہ نیلوفر کو تعلیم سے بڑا لگاؤ تھا۔ گزشتہ سال اس نے بی اے فرسٹ ڈویزن سے پاس کیا اور اب ایم- اے انگریزی کی طالبہ تھی۔ گھر پر تمام سہولتیںہونے کی وجہ سے کمپیوٹر میںبھی بڑی مہارت حاصل کرلی تھی۔ کاروبار میں جہاں بھی انگریزی کی ضرورت ہوتی وہ باپ کاہاتھ بٹاتی۔ کھاتا پیتا گھر، تعلیم اور اس پر خوبصورتی۔ ان تمام چیزوں کی بنا پر برادری اور عزیزداری ہی کیا ملنے جلنے والوں میںبھی نیلوفر کا کافی چرچاتھا۔ پیغامات بھی آرہے تھے مگر منشی جی کو کسی بھی رشتہ پر شرح صدر نصیب نہیں ہورہاتھا پھر یہ کہ بیٹی سے پیار بھی بے حد تھا وہ اسی فکر میں گھلتے رہتے تھے کہ بیٹی پرائے گھر کی ہوجائے گی تو میں کیسے زندہ رہ سکوںگا۔ کوئی سبیل ایسی ہوکہ بیٹی کامعقول رشتہ بھی مل جائے اور بیٹی بھی اپنے ہی یہاں رہے۔ روزگار کا کوئی مسئلہ ہی نہیں تھا۔ دو فلور مل تھے۔ ایک اسپیئر پارٹ کاشوروم تھا۔ تیسرے ایک ورکشاپ بھی جس میں دن رات کام ہوتارہتاتھا۔ اس کے علاوہ قریب کے گائوں میں ایک اگریکلچر فارم بھی تھا جس سے خاصی یافت ہوتی تھی۔ ان تمام کاروبار میں ایک داماد کو کھپالینا کوئی مسئلہ نہیں تھا۔ مسئلہ تھاتو بس یہ کہ معقول بَر مل جائے۔
رشتہ داری ہی نہیں دور قریب کی تعلق داری سے بھی کئی رشتے آئے مگر منشی جی سب کو منع ہی کرتے رہے لیکن اب جو طاہر کا رشتہ آیا وہ اس کو کسی صورت منع نہیںکرسکے۔ طاہر میں اتنی خوبیاں ایک ہی جگہ جمع ہوگئی تھیں کہ منشی جی چاہتے تھے کہ بس آج ہی نیلوفر کے ہاتھ پیلے کردوں۔ طاہر خوب رو، تعلیم یافتہ، بیدار مغز، اپنے وسائل پر قانع، اخلاق و عادات میں یکتائے روزگار، چھوٹاسا مکان مگر صاف ستھرا مزید یہ کہ چھوٹوں بڑوں سب کی عزت واحترام کرنے والا۔ اپنے ساتھیوں میں بہت مقبول۔ کسی موضوع پر زبان کھولتا یا قلم اٹھاتا سننے اور پڑھنے والے ایک ہی بات کہتے بھائی طاہر نے واقعی موضوع کا حق ادا کردیا۔ شادی کا وہ بھی متلاشی تھا مگر اس کے پیچھے کوئی لالچ نہیں تھا۔ وہ ایک سادہ اور پڑھی لکھی شریکِ حیات چاہتا تھا اور بس۔
طاہر کی بات منشی جی کے کانوں تک بھی پہنچ چکی تھی اور وہ بڑی للچائی ہوئی نظر سے اس کی طرف دیکھتے تھے۔ لیکن مشکل یہ تھی کہ نہ تو کبھی طاہر نے ایسا اشارہ کیا اور نہ اس کے ماں باپ ہی نے رجوع کیا اور اب تو تعلیم پوری کرکے طاہر کو اپنے گائوں گئے ہوئے کئی ماہ ہوگئے تھے۔
(۲)
منشی جی کی خاموشی اور سنجیدگی ان کے دوستوں کو اب بہت کھلنے لگی تھی۔ کہاں تو یہ کہ شام ہی سے دوست و احباب آنے شروع ہوجاتے اور رات گئے تک محفل زعفران زار بنی رہتی۔ کہاں اب یہ تبدیلی کہ مسکراہٹ کی نموبھی مشکل سے ہی دیکھنے میںآتی۔ وہ اپنی بات کسی سے کہتے بھی نہیں تھے ۔ ایک سعداللہ تھے جن سے اپنی ہر بات کہہ ڈالتے۔ سعداللہ نے ان کو بارہاسمجھایاکہ نیلوفر کا اب کوئی معقول رشتہ آئے تو اپنی شرائط مت رکھنا۔ پہلے رشتہ کو ٹکائو پھر کوئی بات کہو۔ پانی سے پہلے پُل باندھنا ٹھیک نہیں لیکن منشی جی جہاں رشتہ میں کوئی نقص نکالتے وہاں اپنی شرائط بھی رکھ دیتے۔ خیر۔ منشی جی نے سعداللہ کی جہاں بات مان لی وہیں طاہر کا بھی ذکرکیاکہ بھئی طاہر مجھے بہت پسند ہے مگر وہ اپنے ہی گائوں میں ایک اسکول چلارہا ہے۔ بڑا اچھا نوجوان ہے مجھے بڑا پسند ہے جب وہ چھوٹاتھا اور کبھی کبھی اپنے باپ کے ساتھ ہمارے یہاںآتا تھا تب ہی سے مجھے بڑا اچھالگتاتھا۔ اب تو خیر جوان ہوگیا ہے اور اپنااسکول چلارہاہے۔ اگر اس سے بات بن جائے تو بہت اچھا ہو۔
… اور پھر ایک دن یہ ہواکہ طاہر کارشتہ منشی جی کے آہی گیا۔ منشی جی پھر گل ِ گلزار ہوگئے۔ ان کے چہرے کی شگفتگی لوٹ آئی۔
بالکل اس طرح جیسے پت جھڑکے بعدموسم بہار آتاہے۔ عزیزواقارب، دوست واحباب کے مشورے سے شادی کی تاریخ طے ہوگئی۔ بارات گھر بھی بُک ہوگیا اور ٹینٹ ہائوس کا سامان بھی۔ روز ایک دن کم ہورہاتھا اورشادی کی تاریخ بہت تیزی سے آتی جارہی تھی۔ اس تمام ہنگامے میں ایک ہی خدشہ تھا کہ منشی جی کہیں اپنی زبان نہ کھول بیٹھیں۔ سعداللہ ان کو الگ سے بار بار سمجھاتے کہ جو کچھ کہنا ہے وقت پر کہیںگے پہلے کہنے کا تو ہم نے دیکھ لیاکیا نتیجہ نکلا۔ بھئی گھر بیٹھی ہے۔ ورنہ اب تک کئی بچوں کی ماں ہوتی۔ خدا خدا کرکے شادی کا وہ دن بھی آگیا اور اس دن میں و ہ ساعت بھی آگئی جب طاہر کا چاند سا مکھڑا بارات گھر کے دروازے پر تھا۔ دولہا کے قالین نشیں ہوتے ہی نکاح کی تیاری شروع ہوگئی اس لئے کہ بارات وقت پر آگئی تھی اور سب چاہتے تھے سب سے پہلے نکاح سے فارغ ہوجائیں۔کھانا پینا بعد میں ہوتا رہے گا۔ البتہ شربت کادور ضرور شروع کردیاگیاتھا۔ سب لوگ قرینے سے بیٹھ گئے۔ قاضی جی نے نکاح نامے کے خانے بھرنے کے بعد لڑکی کے والد منشی جی سے مہر کے بارے میں پوچھا کیا لکھوں۔ اس پرمنشی جی نے اپنے یارغار سعداللہ کی طرف بڑے سوالیہ انداز میں دیکھا۔ سعداللہ نے ایک ٹھونگا دیا۔ ہاں کہہ دو۔ اب ہے کہنے کا موقع ورنہ عمر بھر پچھتائوگے۔ منشی جی کی ہمت بڑھی… قاضی جی کوئی مہر نہیں بس ایک شرط ہوگی اور یہ شرط ہی لڑکی کامہر ہے… طاہر کو سسرال میں رہنا ہوگا۔ طاہر کے کان کھڑے ہوئے… کیا سسرال میں رہنا ہوگا… ہاں ہاں ہمارے یہاں رہناہوگا۔ منشی جی ذرا اپنی دولت اور کروفر کے زعم میں کچھ اونچی ہی آواز میں بولے۔ اُدھر سے طاہر کے ماموں عاقل بول اٹھے کیا کہا… سسرال میں رہنا ہوگا۔ بات میں ذرا ترشی کا اوراضافہ ہوا تو طاہر اٹھ کھڑا ہوا۔ شادی اور شرط کے ساتھ ایسا نہیںہوسکتا ہم واپس جارہے ہیں۔ ہمیں کوئی بھی شرط منظور نہیں۔ طاہر آگے بڑھا اور تخت سے نیچے اتر آیا۔ شادی اور شرط کے ساتھ۔ دیکھتے دیکھتے سارے باراتی نیچے اترآئے۔ سارے بارات گھر میں یہ بات آنا فاناً پھیل گئی۔ باراتی اٹھ گئے۔ دولہا اٹھ گیا۔ باراتیوں کی منت سماجت شروع ہوگئی۔ مگر حالات بگڑتے ہی چلے گئے۔ منشی جی جو اب تک کسی کو نظر ہی میں نہیں لاتے تھے بری طرح ہانپ رہے تھے۔ بار بار آواز لگارہے تھے او سعداللہ او سعداللہ… ابے کہاں مرگیا۔ ابے اس آندھی کو سنبھال۔ کمبخت یہ آگ تو نے ہی تو لگائی ہے۔ منشی جی پاگلوں کی طرح چیخ رہے تھے۔ انھوںنے دیکھاکہ سعداللہ بہت تیزی کے ساتھ دروازے کی طرف بھاگے جارہے ہیں۔ منشی بھی پوری تیزی کے ساتھ بھاگے اور پیچھے سے کالر پکڑکر زور سے جھٹکا دیا۔ ادھر سعداللہ بھی زور میں کم نہیں تھے۔ برسوں منشی جی کانمک کھایاتھا وہ بھی منشی جی کو لپٹ گئے۔ دونوں میں خوب گتھم گتھا شروع ہوگئی۔ کچھ بیچ بچائو میں لگ گئے اور زیادہ تر نے بارات گھر سے جلد سے جلد نکل جانے میں ہی عافیت سمجھی۔ سب کی زبان پر ایک ہی جملہ تھا… شادی اور شرط کے ساتھ… توبہ… توبہ!
——

مزید

حالیہ شمارے

ماہنامہ حجاب اسلامی ستمبر 2024

شمارہ پڑھیں

ماہنامہ حجاب اسلامی شمارہ ستمبر 2023

شمارہ پڑھیں

درج بالا کیو آر کوڈ کو کسی بھی یو پی آئی ایپ سے اسکین کرکے حجاب اسلامی کو عطیہ دیجیے۔ رسید حاصل کرنے کے لیے، ادائیگی کے بعد پیمنٹ کا اسکرین شاٹ نیچے دیے گئے  وہاٹس ایپ پر بھیجیے۔ خریدار حضرات بھی اسی طریقے کا استعمال کرتے ہوئے سالانہ زرِ تعاون مبلغ 600 روپے ادا کرسکتے ہیں۔ اس صورت میں پیمنٹ کا اسکرین شاٹ اور اپنا پورا پتہ انگریزی میں لکھ کر بذریعہ وہاٹس ایپ ہمیں بھیجیے۔

Whatsapp: 9810957146