شادی اور والدین کی ذمہ داری

ڈاکٹر یحییٰ عثمان ترجمہ: تنویر آفاقی

میری عمر ۲۵ برس ہے۔ تقریبا ۱۹ ماہ پہلے میری شادی ہوئی تھی۔ ہم دونوں کے درمیان صرف ایک سال کا فرق ہے۔ یعنی میرے شوہر مجھ سے ایک سال بڑے ہیں۔میرا مسئلہ مختصر نکات کی شکل میں اس طرح ہے:
۱- میرے شوہر کوئی کام نہیں کرتے۔ ان کا کہنا ہے کہ انھیں کوئی کرنے کی اس لیے ضرورت نہیں ہے کیوں کہ ان کے والد، یعنی میرے خسر، ہمارا پورا خرچ برداشت کرتے ہیں۔
۲- میرے شوہر انتہائی متغیر المزاج ہیں جس کی وجہ سے ان کا مزاج بات بات پر بدلتا رہتا ہے جس کا کوئی سبب بھی نہیں معلوم ہوپاتا۔
۳- وہ چاہتے ہیں کہ انھیں ہر چیز حاصل ہوجائے۔ انھیں بچوں کی خواہش بھی اس لیے ہے کیوں کہ لوگوں کے پاس بچے ہیں جب کہ ہمارے پاں کوئی اولاد نہیں ہے۔
۴- کسی کے ساتھ بھی عزت سے پیش نہیں آتے حتی کہ اپنے اہل خانہ سے بھی نہیں۔
۵- میرے ساتھ بھی، تنہا ہو ں یا کسی کے سامنے، عزت سے پیش نہیں آتے۔
۶- یہ بات مجھے شادی کے بعد معلوم ہوئی کہ وہ نفسیاتی مریض رہے ہیں جس کی وجہ یہ تھی کہ
۷- اور آخری بات یہ کہ میرے شوہر جنسی اعتبار سے کمزور ہیں ، اس کے باوجود وہ یہ سمجھتے ہیں کہ تعلقات میں ناکامی کی وجہ میں ہوں اور خود اپنے علاج کی کوئی پروا نہیں کرتے۔
اب وہ مجھ پر یہ دبائو ڈال رہے ہیںکہ میں مصنوعی حمل کے لیے راضی ہو جائوں ۔ یعنی پہلے ہمیں ایک اولاد حاصل ہوجائے تو اس کے بعد وہ اپنا علاج کرائیں گے۔
اس سے بھی بڑی پریشانی یہ ہے کہ میرے والد میرے شوہر کو ہی بر حق سمجھتے ہیں۔ان کا خیال ہے کہ ’’سارے مرد ایسے ہی ہوتے ہیں۔‘‘
مجھے اس خیال سے اتفاق نہیں ہے۔ کیوں کہ میرا خیال ہے کہ ہماری اس گھریلو زندگی میں کامیابی کے کوئی آثار نہیں ہیں۔میں اپنے شوہر کے ساتھ گزارا کروں تو کیسے؟
محترم! معذرت کے ساتھ ایک بات اور عرض کروں حالانکہ اسے بیان کرتے ہوئے مجھے شرم آرہی ہے لیکن شاید اسے بیان کردینا بھی ضروری ہے۔ وہ یہ کہ ہمارے درمیان صرف ایک بار کے علاوہ کبھی بھی خاص تعلق قائم نہیں ہوا۔بلکہ یہ سمجھیے کہ میں ابھی بھی کنواری ہی ہوں۔وہ اپنی اس مشکل کا اعتراف بھی کرنا نہیں چاہتے بلکہ مجھے ہی لعنت ملامت کرتے ہیں۔ اس کی وجہ سے میری صحت بہت خراب ہوگی ہے۔ سر کے بال گرنے لگے ہیں۔ ڈاکٹروں نے یہاں تک کہہ دیا ہے کہ میں سخت ڈپریشن کا شکار ہوسکتی ہوں۔میں نے جب اس کے بارے میں اپنے شوہر کو بتایا تو انھوں نے کہا: ’’اس کی وجہ شاید یہ ہے کہ ہمارے کوئی اولاد نہیں ہے ۔ اس لیے ہمیں مصنوعی حمل کا سہارا لے لینا چاہیے۔‘‘ جنسی امراض کے ڈاکٹر سے انھوں نے حقیقت کے برعکس جھوٹ بولتے ہوئے کہا کہ وہ جنسی اعتبار سے صحت مند ہیںاور ہمارے درمیان شوہر وبیوی کے مخصوص تعلقات قائم ہوتے ہیں۔حالانکہ ڈاکٹر نے بتایا کہ ایکسرے اور ڈاکٹری جانچ سے جو بات سامنے آئی ہے وہ میرے شوہر کی بات کے برعکس ہے۔
میرے شوہر کا تعلق ایک انتہائی مال دار گھرانے سے ہے۔ان کے والد ہی ہمارا پورا خرچ اور کفالت کرتے ہیں۔ہمارا طرز ندگی بھی معیاری ہے۔ اسی لیے میرے شوہر اکثر مجھ سے یہ کہتے ہیں کہ ’’کیا تمھارے لیے اس معیار کی زندگی بسر کرنا ہی کافی نہیں ہے۔؟‘‘ حالانکہ اس معیاری زندگی کے ساتھ ساتھ وہ اکثر اپنے اہل خانہ اور دوسرے لوگوں کے سامنے میری بے عزتی کرتے رہتے ہیں۔
میرے والد صاحب میری ان تمام پریشانیوں سے واقف ہیں۔لیکن وہ اس مسئلے پر مجھ سے بات کرنے سے کتراتے ہیں۔اور طلاق کی بات کو تو یکسر ٹھکرا دیتے ہیں کیوں کہ میری ایک بہن پہلے ہی سے طلاق شدہ گھر میں بیٹھی ہے اور وہ مزید ایک اور کا اضافہ نہیں کرنا چاہتے ۔یہ کہہ کے بات ٹا ل دیتے ہیں کہ جنسی مسائل سے آج کل ہر شخص دوچار ہے اس لیے یہ کوئی بڑا مسئلہ نہیں ہے۔
آخر ی بات یہ کہ مصنوعی حمل یا ٹیسٹ ٹیوب بچے کے عمل میں مجھے تردد ہو رہا ہے کیوں کہ مجھے یہ ڈر ہے ک ہ نہ جانے بچوں کا مستقبل کیا ہو۔ اب آپ میری رہنمائی فرمائیں کہ میں کیا کروں؟
تجزیہ
شادی کے کچھ بنیادی اصول ہیں جو کم از کم شادی مقدس عمارت کو کھڑا رکھنے کے لیے ضروری ہیں۔اس کے بعد ان تمام چیزوں کا نمبر آتا ہے جو شوہر بیوی کی طرف سے اس عمارت کو مضبوط اور پختگی فراہم کرنے میں مدد کرتی ہیں تا کہ دونوں ایک دوسرے کو خوش رکھ سکیں۔موجودہ معاملے کے تعلق سے میری رائے تو یہ ہے —واللہ اعلم —کہ اس رشتے میں ایک بھی اصول موجود نہیں ہے۔بلکہ اگر صاف صاف کہوں تو یہ کہ لڑکی کے ولی نے اس رشتے کو منظوری کیسے دے دی؟!اللہ ہماری اور ان کی خطائوں کو معاف فرمائے۔ اس سلسلے میں چند قابل لحاظ باتیں درج ذیل ہیں:
اول
شادی کا عمل محض اس لیے نہیں ہوتا ہے کہ زندگی کی بعض صروریات پوری ہو جائیں۔بلکہ شادی انسان کے اندر نفسیاتی توازن قائم رکھنے اوراپنی شخصیت و ذات کی قدروقیمت کا احساس کرنے کے لیے بنیادی عنصر کی حیثیت رکھتی ہے۔اسی لیے اگر شوہر کے پاس اپنا ذاتی بہت سا مال بھی ہے تب بھی اس کے لیے یہ ضروری ہے کہ وہ کچھ نہ کچھ کام کرے۔ کام کے نتیجے میں جو مادی فائدہ حاصل ہوتا ہے اور اس کی جو اہمیت ہے، وہ اپنی جگہ، اس کے علاوہ بھی بہت سے فوائد ہیں جو مادی فائدے سے کسی طرح کم نہیں ہیں۔ مثلاً اس کے نفسیاتی فوائد ہیں جن کے اثرات لازمی طور پر نہ صرف اس کے نفس پر پڑتے ہیں بلکہ اس کی جسمانی صحت پر بھی اس کے مثبت اثرات ہوتے ہیں۔ بحیثیت مجموعی یہ چیز انسان کے نفسیاتی توازن کو برقرار رکھنے میں مدد کرتی ہے۔اور یہ چیز مرد وعورت دونوں کے لیے یکساں اہمیت رکھتی ہے۔چنانچہ اگر کسی عورت کے پاس گھریلو کام کرنے کے لیے نوکرانیاں اور خادمائیں ہیں اور اپنے تمام کاموں کے لیے وہ انھی پر انحصار کرتی ہے تو وہ عورت ایسے اضطراب و خلل سے دوچار ہوجاتی ہے جس کی وجہ سے وہ حقیر اور غیر اہم امور میں خود کو مشغول رکھنے پر مجبور کرتا ہے، یا وہ غمگین وافسردہ رہنے لگتی ہے ، زندگی سے ہی روگردانی کرنے لگتی ہے اور کبھی ایسا بھی ہوتا ہے کہ ان تمام چیزوں کا اثر اس کے عام رویے اور مزاج پر بھی ظاہر ہونے لگتا ہے۔مرد کے پاس مال ودولت کی افراط کے باوجود کام کی ضرورت اس کے لیے اس وجہ سے اور بھی ضروری ہو جاتی ہے کہ وہ نہ صرف یہ کہ اپنی بیوی کے سامنے اپنی قدروقیمت کو ثابت کرسکے بلکہ اس لیے بھی ضروری ہے کہ اس کا کام کرناگھر کے اندر اس کی قوامیت کی ایک وجہ محسوس ہو۔یعنی اپنے کام اور مصروفیت کی وجہ سے وہ گھر میں اپنی قوامیت کو ثابت کرسکے۔ایسا ہو تو وہ اپنی بیوی کے ساتھ فطری انداز میں سلوک کرے گا۔کیوں کہ اگر گھر کے اندر مرد کی قوامیت نہ ہو تو اس کے مزاج میں جھنجھلاہٹ اور غصہ آجاتا ہے ۔ نتیجتاً اپنی قوامیت اور برتری ثابت کرنے کے لیے بیوی کے سامنے چیختا چلاتا ہے، اس کی اہانت اور تحقیر کرنے لگتا ہے۔لہذا مرد کو اگر یہ احساس ہو کہ اس کی شخصیت بہت زیادہ قدر و منزلت کی حامل ہے اور وہ کسی بھی قسم کا صحیح، کام ضرور کررہاہے تو یہ چیز خود اس کے اندر اپنی قدر وقیمت کا احسا س پیدا کرے گی اور اپنی شخصیت کی تصویر اس پر بہتر انداز میں عیاں ہوسکے گی۔لیکن اگر وہ کسی قابل قدر کام میں مشغول نہ ہو تو اس سے اس کے لیے مشکلات پیدا ہوں گی اوراسے کسی طرح اپنی موجودگی کا احساس دلانے کے لیے جتن کرنے پڑیں گے۔
دوم
اللہ تعالی کتاب مبین میں فرماتا ہے: اَلرِّجَالُ قَوَّامُوْںَ عَلَی النِّسَائِ بِمَا فَضَّلَ اللّٰہُ عَلٰی بَعْضٍ وَّبِمَا اَنْفَقُوا مِنْ اَمْوَالِہِمْ (النساء: ۳۴) ’’مرد عورتوں پر قوام ہیں اس فضیلت کی وجہ سے جو اللہ نے ایک دو دوسرے پر بخشی ہے اوراپنے اس مال کی وجہ سے جو مرد(عورتوں پر ) خرچ کرتے ہیں۔‘‘
اس آیت سے یہ معلوم ہوا کہ بیوی کے معاملات میں شوہر اپنا مال خرچ کرکے اسے اس بات کا احسا س ہوتا ہے کہ وہ بیوی کے معاملات کا ذمہ دار ہے اور یہ خوش گوار احساس صرف بیوی کے ہی لیے نہیں ہے بلکہ اس سے خود شوہر کو بھی خوشی ہوتی ہے کہ وہ اپنی بیوی پر اپنا مال خرچ کررہا ہے۔میرا احساس یہ ہے کہ اگر شوہر کو اپنا مال اپنی بیوی پر خرچ کرنے سے خوشی ہو تو اس سے ازدواجی زندگی اور بھی زیادہ خوش گوار ہوجاتی ہے۔اور اس شعور واحساس کی ضرورت شوہر اور بیوی، دونوں، کو ہی ہے۔
لیکن اگر شوہر کے بجائے اس کا باپ اس کے اہل خانہ پر خرچ کرتا ہو، تو خواہ وہ کتنی فراخ دلی سے خرچ کرے، اہل خانہ میں ایک احساس کم تری ضرور پیدا ہوجاتا ہے۔جس کا سبب یہی ہے کہ شوہر کے بجائے اس کے والد ان کا نان نفقہ اٹھا رہے ہیں۔لیکن یہ مسئلہ اس وقت زیادہ سنگین ہوجاتا ہے جب شوہر کا نفس اس صورت حال کو بدلنے سے عاجز ہو جائے اور اسے کوئی بڑا مسئلہ نہ سمجھے۔کہنے کا مطلب یہ ہے کہ اگر شوہر اس بات پر رضا مند ہوجائے کہ اس کے اہل خانہ کا خرچ باپ کی طرف سے پورا ہو رہا اور اس پر اسے ذرا بھی تنگی یا حرج کا احساس نہ ہوتو یہ چیز ایک بڑا مسئلہ بن جاتی ہے۔کیوں کہ اس کا معنی یہ ہے کہ مرد نفسیاتی اعتبار سے کمزور ہے اور نفسیاتی اعتبار سے اس کی شخصیت دوسروں پر انحصار(interdependent)کے مرحلے پر آکر ٹک گئی ہے ۔ماہرین نفسیات کا کہنا ہے کہ بچے کی نشونما کا ایک مرحلہ وہ ہوتا ہے جس میں وہ دوسروں پر منحصر ہوتا ہے۔ اس مرحلے میں وہ اپنے معاملات کے سلسلے میں والدین پر انحصار کرتا ہے۔لیکن عمر کا یہ مرحلہ بالعموم دو سال کی عمر کے بعد ختم ہوجاتا ہے۔اور اس مرحلے سے گزرنے کے ساتھ ہی اسے اپنی شخصیت کا احساس ہونے لگتا ہے اور ہر چیز میں اپنے اوپر اعتماد کرنا شروع کردیتا ہے۔نیز اپنے والدین کی نقل کرنا شروع کردیتا ہے تاکہ اس کی اپنی شخصیت ختم نہ ہو جائے۔
اس مرحلے پر یہ بہت ضروری ہے کہ والدین اس کے ساتھ تعاون اس طرح کریںکہ اس کے اندر فطری طور پر جو خود اعتمادی پیدا ہورہی ہے اس میں اور اس کے نتیجے میں جونتائج بچہ محسوس کررہا ہے، ان کے درمیان موازنہ کرتے رہیں۔ یہ بھی ضروری ہے کہ بچے کو اس بات کامناسب موقع فراہم کیا جائے کہ وہ اپنی شخصیت کو ثابت کرسکے۔اس کے بچپن کا مرحلہ شروع ہوتے ہی بچے کو یہ ادراک ہوجاتا ہے کہ اپنے ماحول سے تعاون بھی ضروری ہے اور یہ کہ اس کے لیے تمام امور میں صرف اپنی ذات پر اعتماد کر لینا کافی نہیں ہے۔چنانچہ اجتماعی کھیلوں اور مشترکہ کاموں کے ذریعے وہ یہ سیکھتا ہے کہ دوسروں کے ساتھ کس طرح تعاون کیا جائے۔اسی لیے میری رائے ہے کہ مذکورہ بالا شوہر کی نفسیاتی نشونما بچپن سے بھی پہلے مرحلے، طفولیت، پر آکر ٹھہر آگئی جہاں اس نے یہ قبول کر لیا ہے کہ اس کے والد ہی اس کا خرچ برداشت کریں ۔
سوم
جذباتی اور جنسی ضروریات کی تکمیل شادی کا بنیادی مقصد ہے کیوں کہ ان ضروریات کی تکمیل ہونے پر شوہر وبیوی دونوں کو عزت وپاکیزگی کا احساس ہوتا ہے نیز زندگی میں تنگی کا احساس نہیں ہوتا۔یہاں دو الگ الگ صورت حال کے درمیان فرق کرنا ضروری ہے۔ایک یہ کہ شوہر و بیوی دونوں میں سے کوئی ایک ایسی صورت حال سے دوچار ہوجائے جس کی وجہ سے اپنے ازدواجی فرائض اور ذمہ داریوں کو ادا نہ کر پائے۔ اس پر دوسرا فریق صبر کرے اور اپنے ساتھی کے جذبات کو نہ تو مجروح ہونے دے اور نہ اس کے لیے مشکل پیدا کرے۔ایسی صورت میں وہ اجر کا مستحق ہوگا اور اگر اسے کسی فتنے میں مبتلا ہونے کا ڈر ہو تو اس کے لیے جائز ہے کہ وہ طلاق کا مطالبہ کرے۔دوسری یہ کہ مرد فرائضِ زوجیت کی ادائی پر ہی قادر نہ ہو ،پھر بھی شادی کے لیے خود کو پیش کردے تو یہ دھوکہ ہے۔کیوں کہ وہ مرد اپنے آپ کو اچھی طرح جانتا ہے لیکن اس کے باوجود حقیقت سے روگردانی کرتا ہے اور خود کے ساتھ ساتھ اپنی بیوی کو بھی ان مشکلات میں ڈال دیتا ہے جن سے اس بے چاری کوئی واسطہ نہیں ہے۔ اس لیے جو بھی اس آزمائش میں ڈال دیا جائے اس کو میرا مشورہ ہے کہ وہ اپنی شادی کے سلسلے میں گھر والوں کے اقدام کے آگے سر تسلیم خم کرنے کے بجائے اپنے حالات سے انھیں واضح طور پر آگاہ کردے۔ممکن ہے کہ شادی سے پہلے طبی رپوٹٹ آ جائے تو اس کے مرض کے علاج میں یہ چیز معاون ہو۔شادی سے پہلے اگر دونوں کی طبی جانچ ہو جانی بہت ضروری ہے بلکہ ہمارا تو یہ خیال ہے کہ نفسیاتی جانچ بھی ہوجانی چاہیے۔
چہارم
شادی کا ایک بنیادی مقصد یہ بھی ہے کہ دونوں کی طرف سے اچھے اخلاق کا مظاہرہ ہو، پاکیزہ زندگی بسر ہو اور دونوں ایک دوسرے کے احترام کا شعور رکھتے ہوں۔اس کے بغیر شادی شدہ زندگی کا راہ مستقیم پر رہنا ناممکن ہے۔آپ کے شوہر جس نفسیاتی خلل سے دوچار ہیں اور اپنے والد کے سامنے جو بیچارگی ان پر طاری ہے نیز جن پریشانیوں کی وجہ سے وہ اپنی ازدواجی فرائض کی ادائی سے قاصر ہیں ان کا فطری نتیجہ یوں سامنے آیا ہے کہ وہ بداخلاقی کے ذریعے سے اپنی ٹینشن کی بھڑاس نکالنے لگے ہیں اور فرائض کی ادائی میں جو ناکامی انھیں ہو رہی ہے اسے جواز کا لباس پہنانے کے لیے وہ آپ کو لعنت ملامت کرنے لگے ہیں۔
ماہرین کا کہنا ہے کہ شوہر بیوی کے درمیان مخصوص تعلقات قائم کرنے پر قادرہونا ، اور بچے پیدا کرنے کی قدرت ہونا، دونوں ایک دوسرے سے الگ ہیں۔کیوں کہ وہ صحیح طور پر تعلق نہ کرنے کے باوجود ان کے اندر یہ صلاحیت ہو سکتی ہے کہ ان کے ذریعے آپ کو اولاد حاصل ہو سکے۔لیکن یہ چیز مسئلے کا حل کبھی نہیں بن سکتی۔بلکہ ہو سکتا ہے کہ اس سے مزید پیچیدگی پیدا ہوجائے۔اس لیے مشکلات اور پریشانی کے اسباب مسلسل رہیں تو اس سے آپ کے شوہر کی حالت مزید خراب ہو سکتی ہے جس کے منفی اثرات کا اثر آپ پر ہی ہوگا۔
حــل
شاید بہتر ہو کہ میں باہمی زندگی کے سب اہم عنصر، یعنی حسن اخلاق ، سے بات شروع کروں۔اگر آپ یہ سمجھتی ہیں کہ آپ کے شوہر کی بد اخلاقی کسی نفسیاتی پریشانی یا خلل کا نتیجہ نہیں ہے بلکہ یہ ان کی عادت اور فطرت میں شامل ہے تو طلاق ہی اس کا لازمی حل ہے خواہ باقی دوسرے معاملات میں وہ بالکل ٹھیک ہی کیوں نہ ہو۔لیکن اگر وہ فطرتاً اچھے اخلاق کے مالک ہیں، لیکن اپنی نفسیاتی پریشانی کی وجہ سے کبھی کبھی بد خلقی کی کیفیت طاری ہوجاتی ہے توپھر اس کو نظر انداز کرکے باقی دوسرے عناصر ترکیبی کو مستحکم کرنے کی کوشش کرنی چاہیے۔
مصنوعی حمل
آپ اپنے والد کی موجودگی میں اپنے شوہر کو ماہر اور ایمان دار ڈاکٹر کے پاس لے جائیں۔ اگر وہ یہ کہہ دے کہ مرض ناقابل علاج ہے تو طلاق ضروری ہے۔اور اگر علاج ممکن ہے تو پھر شوہر کے کام نہ کرنے کے مسئلے کو زیر بحث لائیں۔ اگر وہ کام کرنے سے انکار کریں اور دلیل یہ دیں کہ ان کے والد آپ دونوں کی ضروریات پوری کررہے ہیں ، اور دونوں خوش حال زندگی گزار رہے ہیں تو اس مسئلے کا حل طلاق ہے۔اور اگر وہ کام کرنے پر راضی ہوجائیں تو پھر انھیں کوئی کام کرنے کے بارے میں سوچنا چاہیے۔مثال کے طور پر یہ ہوسکتا ہے کہ آپ کے شوہر کے والد ان کچھ رقم دے دیں تاکہ وہ کوئی جائز کام شروع کر سکیں اور انھیں اپنے پیروں پر کھڑا کرکے انھیں اپنی آزادانہ زندگی ؑزارنے کا موقع دیں یا پھر اپنے کام کو وسعت دے کر انھیں ان کی صلاحیت کے اعتبار سے اسی کام میں شریک کریں۔
آخر میں تمام سرپرستوں اور ولیوں سے میری گزارش ہے کہ وہ اپنی اولاد کے سلسلے میں اللہ کا تقوی اختیار کریں اوران کی تربیت اس انداز میں کریں کہ وہ اپنی ذمہ داریوں کو ادا کرنے کے اہل ہوجائیں ۔ نیز یہ بھی اچھی طرح دیکھ لیں کہ جو لڑکا آپ کی بیٹی سے نکاح کرنا چاہتا ہے وہ کفوء کی شرط پوری کر رہا ہے کہ نہیں۔کفوء کی ایک شرط یہ بھی ہے کہ وہ بچوں کی ذمہ داریاں پوری کرنے اور اپنے خاندان کی دیکھ بھال کرنے کی اہلیت وصلاحیت رکھتا ہو۔
ایک بات یہ بھی کہ بعض شدید قسم کے گھریلومسائل ایسے بھی ہوتے ہیں جن کے ہوتے ہوئے ساتھ رہنا ہی نہیں بلکہ زندگی گزارنا بھی ناممکن ہوجاتا ہے۔ ایسے مسائل کا بہترین حل طلاق ہی ہے۔اس لیے اپنی بیٹیوں کے معاملات طے کرتے ہوئے ہمیں اللہ کا خوف اور اس کا تقوی ہر حال میں پیش نظر رکھنا چاہیے ، ایسا نہ ہو کہ ہم انھیں تباہی کے گڈھے میں دھکیل دیں۔
tanveerafaqui@gmail.com

مزید

حالیہ شمارے

ماہنامہ حجاب اسلامی ستمبر 2024

شمارہ پڑھیں

ماہنامہ حجاب اسلامی شمارہ ستمبر 2023

شمارہ پڑھیں

درج بالا کیو آر کوڈ کو کسی بھی یو پی آئی ایپ سے اسکین کرکے حجاب اسلامی کو عطیہ دیجیے۔ رسید حاصل کرنے کے لیے، ادائیگی کے بعد پیمنٹ کا اسکرین شاٹ نیچے دیے گئے  وہاٹس ایپ پر بھیجیے۔ خریدار حضرات بھی اسی طریقے کا استعمال کرتے ہوئے سالانہ زرِ تعاون مبلغ 600 روپے ادا کرسکتے ہیں۔ اس صورت میں پیمنٹ کا اسکرین شاٹ اور اپنا پورا پتہ انگریزی میں لکھ کر بذریعہ وہاٹس ایپ ہمیں بھیجیے۔

Whatsapp: 9810957146