گزشتہ مہینہ اکتوبر میں ملک کی سپریم کورٹ نے تیسری بار ریاستوں کو یہ حکم صادر کیا ہے کہ ملک میں شادی کا رجسٹریشن لازمی طور پر ہونا چاہیے۔ ملک کی سپریم کورٹ گزشتہ سال فروری سے اس سال اکتوبر تک تین مرتبہ ریاستی سرکاروں کو اس طرح کی ہدایت دے چکی ہے۔
ماہ اکتوبر میں دیے گئے عدالت کے حکم پر مسلم علماء ، مسلم پرسنل لا بورڈ اور مسلم قائدین کی جانب سے جو ردعمل سامنے آیا ہے اسے کسی بھی طرح نہ تو دانشمندانہ کہا جاسکتا ہے اور نہ ہی حقیقت پسندانہ۔ اس کے برخلاف یہ ردعمل ہمارے علماء و مفتیان کی اس ذہنیت کی غمازی کرتا ہے جو خوف کی نفسیات کے سبب بنتی ہے۔
شادی کے رجسٹریشن کے فیصلہ کو ملک کی عام صورت حال کے پیش نظر تمام مذاہب اور فرقوں کے لیے واجب العمل قرار دیا گیا ہے۔ اسے ’’شرعی و عائلی قوانین کی روح کے منافی، مسلم پرسنل لا میں مداخلت، چور دروازے سے مسلم پرسنل لا میں مداخلت کی کوشش، مسلم پرسنل لا میں عدالتوں کی بے جا مداخلت، بلا استحقاق مداخلت اور ناقابل برداشت‘‘ قرار دینا فہم کی سطحیت، تنگ نظری اور عدم تحفظ کی سوچ کی عکاسی ہے۔ اور اس کا اس فیصلہ کی رو سے کوئی جواز پیش نہیں کیا جاسکتا۔
دراصل عدالت کا یہ فیصلہ ایک عمومی نوعیت کا فیصلہ ہے اور یہ ہدایت ملک کے تمام شہریوں کے لیے بلا تفریق مذہب و فِرقہ دی گئی ہے جس میں اس بات کا کہیں شائبہ نظر نہیں آتا کہ اس حکم کے ذریعے ملک کی مسلم اقلیت کو ہدف بنانا مقصود ہے یا اس کے ذریعہ مسلمانوں کے پرسنل لا میں کسی بھی قسم کی مداخلت کا امکان ہے۔
ہندوستان ہی میں نہیں دنیا کے تمام ممالک میں پیدائش اور موت کا ریکارڈ اور رجسٹریشن اخلاقی اور سماجی فریضہ تصور کیا جاتا ہے اور ملک کے تمام ہی لوگ اس پر عمل کرتے ہیں۔ مسلمان بھی موت و ولادت کا اندراج متعلقہ اداروں میں کراتے ہیں اور ان کے ذہن میں کوئی شک و شبہ پیدا نہیں ہوتا اس لیے کہ ملک کی آبادی کاریکارڈ اسی پر منحصر ہوتا ہے۔
شادی بھی ایک سماجی اور معاشرتی عمل ہے اور اس کے سماج و معاشرے پر گہرے اثرات مرتب ہوتے ہیں تو موت و ولادت کی طرح اگر شادی کا اندراج بھی اندراج بھی لازمی کردیا جائے تو ڈرنے اور خفا ہونے یا مسلمانوں کے پرسنل لا میں مداخلت کا سوال کہاں سے پیدا ہوتا ہے۔ جبکہ اس کے پیچھے جو اہم سبب ہے وہ یہ ہے کہ ملک میں معدودے چند کو چھوڑ کر تمام ہی شادیاں مذہبی رسوم کے مطابق انجام پاتی ہیں اور عدالت کا مشاہدہ یہ ہے کہ مذہبی شادیوں کا رجسٹریشن نہیں ہوپاتا یا اس کو میکانزم موجود نہیں ہے۔ ایسے میں عدالت کا یہ احساس بجا ہے کہ ملک میں شادیوں کارجسٹریشن ہونا چاہیے۔ اور یہ بات بھی واضح ہے کہ یہ رجسٹریشن ’’سول میرج‘‘ کے رجسٹریشن کے لیے نہیں ہے۔ بلکہ یہ بات عدالت کے فیصلے سے واضح بھی ہے کہ نہ تو اس رجسٹریشن سے کسی بھی مذہبی شادی کی نوعیت بدلے گی اور نہ ہی رجسٹریشن نہ ہونے کی صورت میں کسی شادی کا قانونی جواز متاثر ہوگا۔
ان مسلم ’’علماء‘‘ اور ’’قائدین ملت‘‘ کو جو ہر چھوٹے بڑے معاملے میں غیر محتاط بیان بازی کے عادی سے ہوگئے ہیں، سوچنا چاہیے کہ ان کے اس قسم کے بیانات سے اور وہ بھی ملک کی سپریم کورٹ کے عام سے فیصلے پر غیر معقول اور غیر محتاط بیان سے آخر ہندوستان میں مسلمانوں کی کیا شبیہ بنے گی؟ اس طرح کے بیانات سے تو ان عناصر کو ضرور تقویت ملے گی جو ہندوستان کے مسلمانوں پر فرقہ پرستی اور ’’ان کے نام نہاد‘‘ قومی دھارے میں نہ چلنے کا الزام لگاتے ہیں۔
سپریم کورٹ کے اس حکم سے مسلمانوں کو تو یوں بھی ڈرنے اور خوف زدہ ہونے کی کوئی ضرورت نہیں کہ ان کے یہاں جو شرعی شادیاں ہوتی ہیں ان کے اندراج اور رجسٹریشن کا ایک میکانزم غالباً صدیوں سے چلا آرہا ہے۔ ہمارے یہاں نکاح خواں و قاضی حضرات کے پاس باقاعدہ ایک رجسٹر موجود ہوتا ہے جس میں عام طور پر اردو اور مقامی زبان میں نکاح سے متعلق جملہ تفصیلات ہوتی ہیں اور ضرورت پڑنے پر ان تفصیلات کو حاصل بھی کیا جاسکتا ہے۔ مسلمانوں کے یہاں شادیوں کے اندراج کے لیے رائج الوقت نکاح نامہ اس قدر جامع اور کامل ہے کہ عام حالات میں اس کا تصور ملک کے عام شہریوں کے لیے دشوار ہے۔ اس میں دولہا دلہن کے نام و پتے، ولی، گواہ اور وکیل حضرات کے نام و پتے کے علاوہ مہر کی مقدار اور اس کی نوعیت واضح الفاظ میں درج کی جاتی ہے اور نکاح خواں کی مہر اور تفصیلات بھی اس رجسٹر میں موجود ہوتی ہیں۔
اگر کورٹ کے اس فیصلہ سے کسی کو تشویش ہوسکتی ہے تو وہ لوگ ہوسکتے ہیں جن کے یہاں شادیوں کے اندراج اور رجسٹریشن کا سرے سے کوئی میکانزم موجود ہی نہیں۔ ہم مسلمانوں کو اس سے تشویش میں مبتلا ہونے کی ہرگز کوئی ضرورت نہیں ہے۔
ہمارے پاس کیونکہ پہلے سے ایک معروف طریقہ موجود ہے اس لیے ہم یہ بہ آسانی کہہ سکتے ہیں کہ ہمارے یہاں تو ہر وہ شادی جو شرعی طریقے پر ہوتی ہے رجسٹر کی جاتی ہے۔ اب اگر کورٹ یا انتظامیہ رجسٹریشن کا کوئی نیا نظام وضع کرتی ہے تو ہمیں اس کا استقبال کرنا چاہیے کیونکہ جو بھی نظام بنے گا وہ ملک کے تمام شہریوں کے لیے ہوگا نہ کہ صرف مسلمانوں کے لیے اور ہم مسلمان رجسٹریشن کے اس نظام کو قبول کریں گے اگر وہ ہماری شرعی شادی کی بنیادی اور شریعت کی اخلاقی روایات سے براہِ راست نہ ٹکراتا ہو۔ موجودہ صورت حال میں اس بات کا اندیشہ کم ہے کہ حکومت کی جانب سے شادی کے رجسٹریشن کا کوئی ایسا نظام وضع کیا جائے جو ملک کے عام شہریوں کے لیے دشوار یاناقابلِ قبول ہو۔ اگر وہ نظام ملک کے عام شہریوں کے لیے دشوار یا ناقابلِ قبول ہوگا تو مسلمانوں کے لیے بھی دشوار اور ناقابلِ قبول ہوگا، اس لیے کہ وہ بھی اسی ہندوستانی سماج کا حصہ ہیں۔
ضرورت اس بات کی ہے کہ مسلمان مسلم پرسنل لا اور شریعت کے متعلق غیر معقول خوف اور تردد سے نکل کر حقیقت شناس بنیں اور اس ملک اور سماج کے تمام مسائل کو اپنا مسئلہ سمجھتے ہوئے اس کے لیے بہتر حل سجھانے کی فکر کریں اور اگر کوئی بہتر شکل سامنے آتی ہے تو کھلے دل سے اس کااستقبال کرنے کی سوچ اپنے اندر پیدا کریں۔ اگر ایسا نہیں ہوتا تو عام سماج میںان کی ایک منفی شبیہ بنے گی، جو کسی بھی طرح امت مسلمہ کے مفاد میں نہ ہوگی۔
شمشاد حسین فلاحی