ماں: بیٹی! اٹھو، جاؤدودھ میں پانی ملادو۔
بیٹی: نا بابا … مجھ سے تو یہ نہ ہوگا۔
ماں: کیوں نہ ہوگا؟ یہ کون سا بڑا مشکل کام ہے۔
بیٹی: کیا آپ نے کل امیر المومنین کا اعلان نہیں سنا کہ کوئی دودھ میں پانی ملا کر نہ بیچے۔
ماں: اچھا یہ بات ہے! مگر بیٹی! کیا خلیفہ یہاں کھڑے دیکھ رہے ہیں۔ تم جاؤ پانی ملا دو۔
بیٹی: یہ تو ٹھیک ہے کہ امیر المومنین یہاں نہیں ہیں مگر جس اللہ کا حکم انھوں نے سنایا ہے وہ تو ہم سب سے غائب نہیں ہے، وہ تو ہمیں ہر وقت دیکھ رہا ہے، آخر ہم قیامت میں اسے کیا جواب دیں گے۔
——————O——————
اجنبی عورت: بہن السلام علیکم، کیا مجھے اندر آنے کی اجازت ہے؟
گھر کی مالکہ:وعلیکم السلام و رحمۃ اللہ، خوش آمدید، بہن آؤ، بیٹھ جاؤ۔ کہو کہاں سے آنا ہوا۔
عورت: میں اسی شہر میں رہتی ہوں اور امیر المومنین کی رشتہ دار ہوں۔
مالکہ: (سہمے ہوئے انداز میں) کیا امیر المومنین نے مجھے بلایا ہے؟
عورت: یہ بات نہیں ہے، بلکہ مجھے تو آپ کی خوش قسمتی پر رشک آرہا ہے۔
مالکہ: وہ کس بات پر۔
عورت: آپ کی بیٹی کی ایمانداری اور خدا ترسی نے امیر المومنین کا دل موہ لیا ہے۔ اور انھوں نے اپنے بیٹے سے نکاح کے لیے پیغام بھیجا ہے۔
مالکہ: سبحان اللہ، مجھے اس پیغام سے نہایت مسرت ہوئی، اللہ میری بیٹی کو خوش رکھے۔
عورت: میں آپ کو مبارکباد دیتی ہوں کہ اللہ نے آپ کو دین داری اور خدا ترسی کو ترجیح دینے کی توفیق دی۔ اچھا اب مجھے اجازت دیں۔
مالکہ: تھوڑی دیر اور تشریف رکھیں، (بیٹی کو پکارتی ہے) بیٹی ذرا مہمان کو شربت پلاؤ۔
(بیٹی شربت لے کر حاضر ہوتی ہے اور گلاس میں انڈیل کر مہمان کو پیش کردیتی ہے۔ مہمان شربت پیتی ہے، جزاک اللہ کہتی ہے اور اجازت لے کر چلی جاتی ہے۔)
——————O——————
عورت: امیر المؤمنین! اللہ مبارک کرے، آپ کاپیغام قبول کرلیا گیا ہے۔
امیر المومنین: تم نے کیا محسوس کیا، کسی دباؤ میں آکر تو انھوں نے اجازت نہیں دی۔ ان کو خوشی تھی؟
عورت: نہیں امیر المومنین، آپ کانام سن کر وہ سہم گئی تھی۔ مگر جب میں نے اسے خوش خبری سنائی تو اس کا چہرہ دمکنے لگا اور نہایت خوشی کا اظہار کیا۔
امیر المومنین: بس پھر ٹھیک ہے۔ انشاء اللہ کل ہی یہ مبارک کام انجام پا جائے گا۔ صبح میں انہیں اطلاع کردیتا ہوں۔
عورت: اللہ حافظ۔ (عورت جانے لگتی ہے۔)
امیر المومنین: جزاک اللہ۔
——————O——————
(مدینہ کے گورنر عبدالعزیز کے گھر پر کچھ رشتہ دار جمع ہیں۔ ان کے بیٹے عمر کے نکاح کے متعلق بحث و مباحثہ جاری ہے چند جھلکیاں۔)
عمر کے ماموں:(عبدالعزیز سے) بھائی صاحب! عمر کے لیے تو بہت سے اچھے رشتے موجود ہیں۔ خود اس کی ماموں زاد بہنیں ہیں۔ پھر آپ دور کا رشتہ اور وہ بھی ایک معمولی آمدنی والے شخص کی لڑکی کو کیوں ترجیح دے رہے ہیں۔
عبدالعزیز: دیکھو! تم نے تجربے کیے ہیں، میں نے اس میں ٹانگ نہیں اڑائی ہے، اب میری اپنی مرضی ہے۔ میرا اپنا دل ہے، میں تو اپنی پسند کی لڑکی سے ہی اپنے بیٹے کا نکاح کروں گا۔
عمر کے چچا: عبدالعزیز! یہ تو درست ہے مگر آدمی آخر عزیزوں کی خواہش کا بھی تو احترام کرتا ہے۔ آخر آپ کے عزیزوں کی لڑکیوں میں کیا خرابی ہے؟ وہ حسین و جمیل بھی ہیں، عالی نسب امیر زادیاں ہیں، بہترین لباس اور قیمتی زیورات سے آراستہ خادمائیں ان کے ناز اٹھاتی ہیں۔
عبدالعزیز: جی ہاں! آپ لوگوں کے دلوں کو یہی چیزیں بھاتی ہیں۔ آپ کی نگاہوں میں قیمت انہی چیزوں کی ہے۔ میں خود آسودہ حال ہوں میری نظر میں ان سب سے قیمتی اور قابل قدر چیز پاکیزہ اخلاق و اطورا ہیں۔ علم و آداب کے زیور ہی زیادہ پائیدار و چمکدار ہیں۔ اور عاصم بن عمر کی لڑکی اس خوبی میں ممتاز ہے۔
اعزّہ: انھوں نے اپنے سے دوری اختیار کرنے کا فیصلہ کرلیا ہے۔ خطاب کی آل ان کے دل میں کھب گئی ہے۔