مشرق ہو یا مغرب… شادی کا ادارہ ہر جگہ بحران کا شکار ہے۔ البتہ مغرب میں شادی کے ادارے کا بحران انتہا کو چھو رہا ہے۔ امریکہ اور یورپ ہی میں نہیں، جاپان جیسے مشرقی ملک میں بھی اکثر نوجوان شادی کو ٹالتے ہیں، اور شادیاں ہوتی ہیں توکامیاب نہیں ہوتیں۔ امریکہ اور یورپ میں طلاق کی شرح اتنی بڑھ گئی ہے کہ شادی طلاق حاصل کرنے کا ایک ذریعہ بن کر رہ گئی ہے۔ مشرق، یہاں تک کہ اسلامی ملکوں میں بھی شادی کا ادارہ بحران کی زد میں ہے۔ ایک وقت تھا کہ مسلم ملکوں میں طلاق کا لفظ بہت کم سننے کو ملتا تھا، لیکن اب مسلم ملکوںمیں بھی طلاق اور خلع کے واقعات عام ہورہے ہیں۔ بدقسمتی سے طلاق اور خلع کے واقعات میں اتنی تکالیف، بدصورتی اور بھونڈا پن ہوتا ہے کہ شادی محبت کے بجائے دشمنی کا تجربہ بن کر سامنے آتی ہے، یعنی ایسا محسوس ہوتا ہے کہ شادی محبت کرنے کے لیے نہیں ایک دوسرے کو اذیت دینے اور ذلیل و خوار کرنے کے لیے کی گئی تھی۔
ایک زمانہ تھا کہ محبت یا پسند کی شادی کو شادی کی کامیابی اور خوبصورتی کی ضمانت سمجھا جاتا تھا، لیکن اب بڑوں کی طے کی ہوئی شادیاں جتنی ناکام ہوتی ہیں، محبت کی شادیاں اس سے زیادہ نہیں تو اتنی ہی ناکام ضرور ہورہی ہیں۔ نتیجہ یہ کہ ’’گھریلو‘‘ اور ’’پسند‘‘ کی شادیاں ’’کھوٹے سکے‘‘ کے دو رخ بن کر رہ گئی ہیں۔ سوال یہ ہے کہ اس صورتِ حال کے اسباب کیا ہیں؟
ایک وقت تھا کہ شادی کرتے ہوئے چار چیزیں ضرور دیکھی جاتی تھیں: (۱) لڑکے کی شرافت (۲) خاندان (۳) تعلیمی پس منظر (۴) روزگار
اس طرح شادی کی بنیاد ہمہ جہت بھی ہوتی تھی اور اس پر برتراقدار کا سایہ بھی ہوتا تھا۔ لڑکی کو دیکھتے ہوئے روزگار تو نہیں دیکھا جاتا، البتہ یہ ضرور دیکھا جاتا ہے کہ وہ امورِ خانہ داری میں کتنی ماہر ہے۔ لیکن اب شادی کرتے ہوئے بالعموم صرف ایک چیز دیکھی جاتی ہے اور وہ یہ کہ ہونے والے ’’دولہا‘‘ کی ’’مالی حالت‘‘ کیسی ہے؟
مطلب یہ ہے کہ اب اکثر شادیاں دولت کی اقدار کے سائے میں ہوتی ہیں۔ ان کے انعقاد میں شرافت و نجابت اور محبت کو یا تو دخل ہی نہیں ہوتا، یاہوتا بھی ہے تو ان چیزوں کی اہمیت ’’میک اپ‘‘ کی ہوتی ہے۔ اور میک اپ کا مسئلہ یہ ہے کہ وہ ذرا سی گرمی سے اتر جاتا ہے۔ چنانچہ شادی کے بعد تعلق میں جیسے ہی کوئی مشکل آتی ہے لوگوں کو شرافت ونجابت اور الفت و محبت میں سے کچھ یاد نہیں رہتا۔
کسی زمانے میں کہا جاتا تھا کہ شادی لڑکے اور لڑکی کے درمیان نہیں بلکہ دو خاندانوں کے درمیان ہوتی ہے، اور یہ بات ٹھیک تھی۔ لیکن اب اکثر گھریلو شادیاں صرف لڑکے اور لڑکی کا معاملہ بن کر رہ جاتی ہیں اور خاندان شادی کے ساتھ ہی پس منظر میں چلے جاتے ہیں۔
ایک زمانہ تھا کہ بڑے خاندانوں کا تجربہ عام تھا اور عام طور پر لڑکیاں ایک بڑے خاندان سے نکل کر دوسرے بڑے خاندان میں چلی جاتی تھیں۔ لیکن اب معاشی دباؤ، خاندان کے ادارے کے عدم استحکام اور شہری زندگی کی وجہ سے شہروں بالخصوص بڑے شہروں میں بڑے خاندانوں کا تجربہ عام نہیں ہے۔ چنانچہ بڑوں کی طے کی گئی شادیوںمیں اکثر لڑکیاں چھوٹے خاندان سے نکل کر نسبتاً بڑے خاندان میں جاتی ہیں، جس سے دو مسائل جنم لیتے ہیں۔ ایک یہ کہ لڑکی کو خاندان کاحصہ بننے میں مشکل ہوتی ہے۔ اس کا ذہنی، جذباتی اور نفسیاتی سانچہ محدود ہوتا ہے اور نئی صورتِ حال کے لیے کفایت نہیں کرتا۔ دوسری مشکل بالادست شخصیت یا گھرکی مرکزی اتھارٹی کے حوالے سے پیش آتی ہے۔ عام طور پر یہ اتھارٹی نہ لڑکی خود ہوتی ہے، نہ اس کا شوہر، بلکہ یہ اتھارٹی اس کا سسر، ساس یا جیٹھ وغیرہ ہوتے ہیں، جن سے معاملات کرنا آسان نہیں ہوتا۔ چنانچہ لڑکی طویل عرصے تک خاندان میں جذب نہیں ہوپاتی۔ یہ صورتِ حال شوہر کے ساتھ اس کے تعلق پر اثر انداز ہوتی ہے اور شادی کے تجربے کو بحران میں مبتلا کردیتی ہے۔
محبت کی شادی کے مسائل قدرے مختلف ہیں۔ محبت کی شادیوں کی ناکامی کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ جس چیز کو عام طور پر محبت کہا جاتا ہے وہ محبت نہیں ہوتی، کچھ اور ہوتا ہے۔ یعنی ’’محبت کی نقل‘‘ ہوتی ہے۔ ہم فلم کے عہد میں سانس لے رہے ہیں، جس میں محبت مرکزی موضوع کی حیثیت رکھتی ہے۔ یہ ڈرامے اور فلمیں اتنی کثرت سے دیکھے جاتی ہیں کہ محبت ذہن پر طاری ہوجاتی ہے، چنانچہ ڈرامے اور فلمیں دیکھنے والے نوجوان فلموں کے کرداروں کی نقل کی جانب مائل ہوجاتے ہیں۔ نوجوانوں کی اکثریت ڈراموں اور فلموں کی محبت کو ’’اوڑھ‘‘ لیتی ہے۔ محبت کی یہ نقل ، طاری کیا گیا عشق، اوڑھی ہوئی الفت جب حقیقی زندگی سے دوچار ہوتی ہے تو اس کی تاب نہیں لاپاتی۔
اب ڈراموں اور بالخصوص فلموں میں محبت کا تجربہ آئس کریم کھانے، برگر نوش فرمانے، کوکا کولا پینے اور پکنک منانے کی طرح کا تجربہ ہے۔ اس تجربے میں کوئی عظمت نہیں، کوئی انقلابیت نہیں، کوئی قربانی نہیں، چنانچہ یہ تجربہ جیسا ہے اس کا اثر بھی ویسا ہی ہوتا ہے۔
عہدِ حاضر میں جس چیز کو محبت سمجھا جاتا ہے، دراصل وہ ’’انا کی پکار‘‘ اور اس سے پیدا ہونے والی ’’خودپسندی‘‘ ہوتی ہے۔ نوجوانی میں مرکز ِ نگاہ بننا اور اس خیال کا حامل ہونا انا کو بہت تسکین دیتا ہے کہ کوئی ہمیں پسند کرتا ہے اور ہمارے لیے بے قرار ہے۔ لیکن حقیقی محبت انانیت اور خودپسندی کی ضد ہے۔ محبت محبوب کو اہم بناتی ہے۔ محبت زیادہ دینا اورکم لینا سکھاتی ہے۔ لیکن خود پسندی سے پیدا ہونی والی محبت میں محبوب نہیں مُحِب مرکزی کردار بن جاتا ہے۔
محبت خواب دیکھنا سکھاتی ہے مگر حقیقی محبت کو حقیقت سے اس طرح آمیز کرتی ہے کہ حقیقت، حقیقت ہونے کے باوجود خوابناک ہوجاتی ہے۔ لیکن مصنوعی محبت خواب میں پیدا ہوتی ہے خواب میں زندہ رہتی ہے اور خواب سے نکلتے ہی مرجاتی ہے۔ بدقسمتی سے ہمارا جدید کلچر ایسی ہی محبت کی فصلیں کاشت کررہا ہے۔
مصنوعی محبت خواہشات کا ہمالہ تخلیق کرتی ہے لیکن عمل کی صلاحیتوں کو کمزور سے کمزور کرتی چلی جاتی ہے۔ چنانچہ محبت کی شادیاں دیکھتے ہی دیکھتے خواہشات کا قبرستان آباد کردیتی ہے۔ اس اعتبار سے دیکھا جائے تو جن شادیوں کو محبت کی شادیاں کہا جاتا ہے، دراصل محبت کی شادیاں نہیں ہوتیں، بلکہ وہ اوڑھی ہوئی محبت اور خود پسندی کی شادیاں ہوتی ہیں۔ چنانچہ اس بارے میں یہ کہنا غلط نہ ہوگا کہ ایسی شادیاں ناکامی کے اینٹ اور گارے سے تعمیر ہوتی ہیں۔
اسلام شادی کے ادارے کی عمارت کو محبت، اطاعت، خدمت اور قربانی کے ستونوں پر تعمیر کرتا ہے۔ محبت اطاعت، خدمت اور قربانی کو سہل بناتی ہے۔ اور اطاعت، خدمت اور قربانی سے اس امر کی شہادت فراہم ہوتی ہے کہ محبت فریب نظر اور خود پسندی نہیں بلکہ ایک ٹھوس حقیقت ہے۔ اسلام کے دائرے میں شادی پہلی نظر میں کم حسین و جمیل نظر آتی ہے مگر وہ پائیدار ہوتی ہے۔ اسلام کے دائرے میں شادی ایک کائناتی یا Cosmicسطح تک کا عمل ہے۔ اس عمل میں مرد اور عورت کا ملاپ دو افراد نہیں دو کائناتوں کا ملاپ ہے۔ اس ملاپ میں روح جسم بن جاتی ہے اور جسم روح میں ڈھل جاتا ہے۔ ان حقائق سے ایک ایسا جمالیاتی تجربہ وجود میں آتا ہے جو زندگی کی مراتھن کو ۱۰۰ میٹر کی دوڑ میں ڈھال دیتا ہے۔
——