شبِ قدر اور قرآن پاک

سید ابوالاعلیٰ مودودی

اِنَّا اَنْزَلْنَاہُ فِیْ لَیْلَۃِ الْقَدْرِ۔ وَمَااَدْرَاکَ مَا لَیْلَۃُ الْقَدْرِ ۔لَیْلَۃُ الْقَدْرِ خَیْرٌ مِّنْ اَلْفِ شَہْرٍ۔تَنَزَّلُ الْمَلَائِکَۃُ وَالرُّوْحُ فِیْہَا بِاِذْنِ رَبِّہِمْ مِّنْ کُلِّ اَمْرٍ۔ سَلٰمٌ ہِیَ حَتّٰی مَطْلَعِ الْفَجْرِ۔

’’ہم نے اس قرآن کو شب قدر میں نازل کیا ہے۔ اور تم کیا جانو کہ شب قدر کیا ہے۔ شب قدر ہزار مہینوں سے زیادہ بہتر ہے۔ فرشتے اور روح اس میں اپنے رب کے اذن سے ہر حکم لے کر اترتے ہیں۔ وہ رات سراسر سلامتی ہے طلوع فجر تک۔‘‘

یہاں فرمایا گیا ہے کہ ہم نے قرآن کو شب قدر میں نازل کیا ہے اور سورہ بقرہ میں ارشاد ہوا ہے:

شَہْرُ رَمَضَانَ الَّذِیْ اُنْزِلَ فِیْہِ الْقُرْآنِ (البقرہ:۱۸۵)

’’رمضان وہ مہینہ ہے جس میں قرآن نازل کیا گیا۔‘‘

اس سے معلوم ہوا کہ وہ رات جس میں پہلی مرتبہ خدا کا فرشتہ غارِ حرا میں نبی ﷺ کے پاس وحی لے کر آیا تھا، وہ رمضان کی ایک رات تھی۔ اس رات کو یہاں شبِ قدر کہا گیا ہے اور سورئہ دخان میں اسی کو مبارک رات فرمایا گیا ہے:

اِنَّا اَنْزَلْنَاہُ فِیْ لَیْلَۃٍ مُّبَارَکَۃٍ۔ (الدخان: ۳)

’’ہم نے اسے ایک برکت والی رات میں نازل کیا ہے۔‘‘

اس رات میں قرآن نازل کرنے کے دو مطلب ہوسکتے ہیں۔ ایک یہ کہ اس رات پورا قرآن حامل وحی فرشتوں کے حوالے کردیا گیا اور پھر واقعات و حالات کے مطابق وقتاً فوقتاً ۲۳ سال کے دوران میں جبرئیل علیہ السلام اللہ تعالیٰ کے حکم سے اس کی آیات اور سورتیں رسول اللہ ﷺ پر نازل کرتے رہے۔ یہ مطلب ابن عباس نے بیان کیا ہے (ابن جریر، ابن المنذر، ابن ابی حاتم، حاکم، ابن ودیہ، بیہقی) دوسرا مطلب یہ ہے کہ قرآن کے نزول کی ابتدا اس رات سے ہوئی۔ یہ امام شعبی کا قول ہے۔ اگرچہ ان سے بھی دوسرا قول وہی منقول ہے جو ابن عباس کا اوپر گزرا ہے (ابن جریر) بہر حال دونوں صورتوں میں بات ایک ہی رہتی ہے کہ رسول اللہ ﷺ پر قرآن کے نزول کا سلسلہ اسی رات کو شروع ہوا اور یہی رات تھی جس میں سورہ علق کی ابتدائی پانچ آیات نازل کی گئیں۔ تاہم یہ بات اپنی جگہ ایک حقیقت ہے کہ قرآن کی آیات اور سورتیں اللہ تعالیٰ اسی وقت تصنیف نہیں فرماتا تھا جب رسول اللہ ﷺ اور آپ کی دعوت اسلامی کو کسی واقعہ یا معاملے میں ہدایت ضرورت پیش آتی تھی بلکہ کائنات کی تخلیق سے بھی پہلے ازل میں اللہ تعالیٰ کے ہاں زمین پر نوع انسان کی پیدائش، اس میں انبیاء کی بعثت، انبیاء پر نازل کی جانے والی کتابوں اور تمام انبیاء کے بعد آخر میں محمد ﷺ کو مبعوث فرمانے اور آپ پر قرآن نازل کرنے کا منصوبہ موجود تھا۔ شبِ قدر میں صرف یہ کام ہوا کہ اس منصوبہ کے آخری حصے پر عمل درآمد شروع ہوگیا۔ اس وقت اگر پورا قرآن حاملین وحی کے حوالے کردیا گیا ہو تو کوئی قابل تعجب امر نہیں ہے۔

قدر کے معنی بعض مفسرین نے تقدیر کے لیے ہیں۔ یعنی یہ وہ رات ہے جس میں اللہ تعالیٰ تقدیر کے فیصلے نافذ کرنے کے لیے فرشتوں کے سپرد کردیتا ہے۔ اس کی تائید سورئہ دخان کی یہ آیت کرتی ہے۔ فِیْہَا یُفْرَقُ کُلُّ اَمْرٍ حَکِیْمٍ ’’اس رات میں ہر معاملہ کا حکیمانہ فیصلہ صادر کردیا جاتا ہے۔‘‘ بخلاف اس کے امام زہری کہتے ہیں کہ قدر کے معنی عظمت و شرف کے ہیں، یعنی وہ بڑی عظمت والی رات ہے۔ اس معنی کی تائید اسی سورہ کے ان الفاظ سے ہوتی ہے کہ ’’شب قدر ہزار مہینوں سے بہتر ہے۔‘‘

اب رہا یہ سوال کہ یہ کون سی رات تھی۔ تو اس میں اتنا اختلاف ہوا ہے کہ قریب قریب چالیس مختلف اقوال اس کے بارے میں ملتے ہیں، لیکن علماء امت کی بڑی اکثریت یہ رائے رکھتی ہے کہ رمضان کی آخری دس تاریخوں میں سے کوئی ایک طاق رات شب قدر کی ہے اور ان میں بھی زیادہ تر لوگوں کی رائے یہ ہے کہ ستائیسویں رات ہے۔ اس معاملہ میں جو معتبر احادیث منقول ہیں انھیں ہم ذیل میں درج کرتے ہیں۔

حضرت ابوہریرہؓ کی روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے لیلۃ القدر کے بارے میں فرمایا: وہ ستائیسویں یا انتیسویں رات ہے۔ (ابوداؤد طیالسی) دوسری روایت ابوہریرہ ہی سے یہ ہے کہ وہ رمضان کی آخری رات ہے۔( مسند احمد)

حضرت ابی بن کعب سے زربن جیش نے شب قدر کے متعلق پوچھا تو حلفاً کہااور استثنا نہ کیا کہ وہ ستائیسویں رات ہے۔ (احمد، مسلم، ابوداؤد، ترمذی، نسائی، ابن حبان)

حضرت ابو ذر سے اس بارے میں دریافت کیا گیا تو انھوں نے کہا کہ حضرت عمرؓ، حضرت حذیفہ اور اصحاب رسول اللہ ﷺ میں سے بہت سے لوگوں کو اس میں کوئی شک نہ تھا کہ وہ رمضان کی ستائیسویں رات ہے۔(ابن ابی شیبہ)

حضرت عبادہ بن صامت کی روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ شب قدر رمضان کی آخری دس راتوں میں سے طاق رات ہے۔ اکیسویں یا پچیسویں یا ستائیسویں یا انتیسویں یا آخری (مسند احمد)

حضرت عبداللہ ابن عباس کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: اسے رمضان کی آخری دس راتوں میں تلاش کرو جبکہ مہینہ ختم ہونے میں ۹ دن باقی ہوں یا سات دن باقی یا پانچ دن باقی (بخاری)

اکثر اہلِ علم نے اس کا مطلب یہ لیا ہے کہ حضورؐ کی مراد طاق راتوں سے تھی۔

حضرت ابوبکر کی روایت ہے کہ ۹ دن باقی ہوں یا سات دن یا پانچ دن یا تین دن یا آخری رات مراد ہ تھی کہ ان تاریخوں میں لیلۃ القدر کو تلاش کرو۔(ترمذی النسائی)

حضرت عائشہ کی روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ شب قدر کو رمضان کی آخری دس راتوں میں سے طاق راتوں میں تلاش کرو۔ (بخاری، مسلم، احمد، ترمذی)

حضرت عائشہ اور حضرت عبداللہ بن عمر کی یہ بھی روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے تازیست رمضان کی آخری دس راتوں میں اعتکاف فرمایا ہے۔

اس معاملے میں جو روایات حضرت معاویہ، حضرت ابن عمر، حضرت ابن عباس وغیرہ بزرگوں سے مروی ہیں، ان کی بنا پر علمائے سلف کی بڑی تعداد ستائیسویں رمضان ہی کو شب قدر سمجھتی ہے۔ غالباً کسی رات کا تعین اللہ اور اس کے رسولؐ کی طرف سے اس لیے نہیں کیا گیا کہ شب قدر کی فضیلت سے فیض اٹھانے کے شوق میں لوگ زیادہ سے زیادہ راتیں عبادت میں گزاریں اور کسی ایک رات پر اکتفا نہ کریں۔ یہاں یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ جس وقت مکہ معظمہ میں رات ہوتی ہے اس وقت دنیا کے ایک بہت بڑے حصے میں دن ہوتا ہے اس لیے ان علاقوں کے لوگ تو کبھی شب قدر کو پا ہی نہیں سکتے۔ اس کا جواب یہ ہے کہ عربی زبان میں اکثر رات کا لفظ دن اور رات کے مجموعے کے لیے بولا جاتا ہے۔ اس لیے رمضان کی ان تاریخوں میں سے جو تاریخ بھی دنیا کے کسی حصہ میں ہو، اس کے دن سے پہلے والی رات وہاں کے لیے شب قدر ہوسکتی ہے۔

مفسرین نے بالعموم اس کے معنی یہ بیان کیے ہیں کہ اس رات کا عمل خیر ہزار مہینوں کے عمل خیر سے افضل ہے جس میں شب قدر شمار نہ ہو۔ اس میں شک نہیں کہ یہ بات اپنی جگہ درست ہے اور رسول اللہ ﷺ نے اس رات کے عمل کی بڑی فضیلت بیان کی ہے۔ چنانچہ بخاری و مسلم میں ابوہریرہؓ کی روایت ہے کہ حضورؐ نے فرمایا:

مَنْ قَامَ لَیْلَۃَ الْقَدْرِ اِیْمَاناً وَ اِحْتِسَاباً غُفِرَلَہٗ مَا تَقَدَّمَ مِنْ ذَنْبِہٖ۔

’’جو شخص شب قدر میں ایمان کے ساتھ اور اللہ کے اجر کی خاطر عبادت کے لیے کھڑا رہا، اس کے تمام پچھلے گناہ معاف ہوگئے‘‘ اور مسند احمد میں حضرت عبادہ بن صامت کی روایت ہے کہ حضورؐ نے فرمایا: شب قدر رمضان کی آخری دس راتوں میں ہے۔ جو شخص ان کے اجر کی طلب میں عبادت کے لیے کھڑا رہا اللہ اس کے اگلے پچھلے گناہ معاف کردے گا لیکن آیت کے الفاظ یہ نہیں ہیں کہ

اَلْعَمَلُ فِیْ لَیْلَۃِ الْقَدْرِ خَیْرٌ مِّنَ الْعَمَلِ فِیْ اَلْفِ شَہْرٍ۔

’’شب قدر میں عمل کرنا ہزار مہینوں میں عمل کرنے سے بہتر ہے۔‘‘

بلکہ یہ فرمایا گیا ہے کہ ’’شب قدر ہزار مہینوں سے بہتر ہے۔‘‘

اور ہزار مہینوں سے مراد بھی ۸۳ سال چار مہینے نہیں ہیں بلکہ اہلِ عرب کا قاعدہ تھا کہ بڑی کثیر تعداد کا تصور دلانے کے لیے وہ ہزار کا لفظ بولتے تھے۔ اس لیے آیت کا مطلب یہ ہے کہ اس ایک رات میں خیر اور بھلائی کا اتنا بڑا کام ہوا کہ کبھی انسانی تاریخ کے کسی طویل زمانے میں بھی ایسا کام نہ ہوا تھا۔

مزید

حالیہ شمارے

ماہنامہ حجاب اسلامی شمارہ ستمبر 2023

شمارہ پڑھیں

ماہنامہ حجاب اسلامی شمارہ اگست 2023

شمارہ پڑھیں