ایک مسلمان مرد و عورت کے لیے ہر دن اور ہر رات اہمیت کی حامل ہے۔ اس کی نظر میں ایسا کوئی دن نہیں ہے جس کے بارے میں وہ یہ خیال رکھتا ہے کہ اس دن وہ اپنے رب کے لیے کچھ نہیں کرسکتا یا کوئی مخصوص دن ہی ہے جس میں وہ اپنے رب کو یاد کرسکتا ہے۔ اس حقیقت کے باوجود اللہ تبارک و تعالیٰ نے اپنے بندوں کے لیے کچھ خصوصی دن اور ماہ بنائے ہیں جس میں وہ اپنے دینی و تربیتی اعمال کو زیادہ یکسوئی کے ساتھ انجام دے سکتے ہیں۔ انہیں دن اور مہینے میں رمضان المبارک کا مہینہ اور اسی مہینہ کی ایک رات شب قدر (لیلۃ القدر) ہے۔
رمضان وہ مہینہ ہے جس میں قرآن کریم جیسی بیش بہا کتاب کے اس دنیا میں نازل ہونے کی شروعات ہوئی اور یہ سلسلہ ۲۳ سال تک چلتا رہا۔ اس اہمیت کی وجہ سے اس ماہ کی عبادت کو خصوصی مقام دیا گیا۔ نفل عبادات کے ثواب کو فرض عبادت کے برابر اور ایک فرضی عبادت کے ثواب کو ۷۰ گنا بڑھا کر دینے کا وعدہ کیا گیا نیز اسے یہ خوشخبری دی گئی کہ اگر وہ ایمان اور احتساب کے ساتھ ماہ رمضان کے تقاضوں کو پورا کرلے تو اس کے وہ سارے گناہ بخش دیے جائیں گے جو حقوق اللہ کی ادائیگی میں لاپرواہی کی وجہ سے نامہ اعمال میں درج کردیے گئے تھے۔
قرآن کریم میں رمضان کے فرض ہونے کی حکمت یہ بتلائی گئی ہے کہ شاید اس ماہ کی وجہ سے لاپرواہ مرد و عورت غفلت کی نیند سے بیدار ہوجائیں اور اپنے اس اللہ کی طرف متوجہ ہوں جس نے ہر مرد و عورت کو اپنی عبادت کی غرض سے زندگی عطا کی۔ اس مہینے میں اللہ تعالیٰ نے جو خصوصی کشش رکھی ہے اس کے نتیجے میں انسان لامحالہ اس کا احترام کرنے پر مجبور ہوتا ہے اور اگر اس کی یہ مجبوری اس کے مزاج کو بدل دے اور وہ اپنے رب کی طرف پلٹ آئے تو یہ اس کے لیے بہت بڑی نعمت ہوگی۔ اسی نعمت کو اپنے بندوں تک منتقل کرنے کے لیے اس ماہ کا خصوصی تحفہ عنایت کیا گیا۔ اب اگر اس ماہ سے کوئی مرد و عورت محروم رہ جائے تو سوائے ماتم کرنے کے اور کیا کیا جاسکتا ہے۔
شب قدر رمضان المبارک کے مہینے کی وہ ایک رات ہے جس میں قرآن کا نزول شروع ہوا۔ وہ رات کون سی ہے اس کا تعین حتمی طور پر کہیں نہیں ملتا البتہ احادیث نبویؐ میں اس کا اشارہ کردیا گیا ہے کہ یہ رمضان کے آخری دس دنوں میں کوئی ایک طاق رات ہے اور وہ طاق رات ۲۱؍۲۳؍۲۵؍۲۷ یا ۲۹؍ویں رات میں سے ایک ہوسکتی ہے۔ چونکہ یہ پورا مہینہ اس بات کا تقاضا کرتا ہے کہ اس میں خوب خوب عبادت کی جائے اس لیے کسی رات کو مخصوص کردینا مصلحت سے خالی ہوجاتا اور لوگ اس ایک رات کے انتظار میں راتیں گنتے اور غیر شعوری طور پر وہ سارے فائدے اسی رات میں حاصل کرنا چاہتے جو پورے رمضان کا خاصہ ہوتا۔
قرآن مجید کے مطالعہ سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ اس ایک رات کی عبادت کا ثواب ہزار مہینوں کی عبادت کے ثواب سے زیادہ ہے۔ ارشاد باری ہے:
انا انزلناہ فی لیلۃ القدرo وما ادرٰک لیلۃ القدرoلیلۃ القدر خیر من الف شہر (سورہ: القدر)
’’ہم نے اسے لیلۃ القدر میں نازل کیا۔ اور تم کیا جانو کہ لیلۃ القدر کیا ہے۔ لیلۃ القدر ہزار مہینوں سے زیادہ بہتر رات ہے۔‘‘
اتنی اہم رات اگر کسی بھی مردیا عورت سے ضائع ہوجائے اس کا تصور نہیں کیا جاسکتا۔ یہ اللہ کی طرف سے ایک بڑی نعمت ہے اور اس نعمت سے محرومی اسی کا مقدر ہوسکتا ہے جو خیر سے بالکل دور کردیا گیا ہو۔
اس ایک رات اور پورے ماہ کی اہمیت کے پیشِ نظر ہر مرد و عورت کو مندرجہ ذیل خصوصی اہتمام کرنا چاہیے تاکہ اس کی جو برکتیں ہیں وہ حاصل ہوں اور دنیا و آخرت میں کامیابی سے ہمکنار ہوں۔
(۱) ایمان واحتساب:
ایک مشہور حدیث کا یہ جملہ ’’من صام رمضانا ایمانا و احتسابا غفر لہ ما تقدم من ذنبہ۔‘‘ اس عنوان کی طرف اشارہ کرتا ہے۔ اس سے مراد یہ کہ ایک مومن اگر رمضان اور اس کی افادیت پر مکمل یقین کرتے ہوئے روزہ رکھے اور اپنے ہر ہر دن پر گہری نگاہ رکھے کہ کیا کمی رہ گئی، کیا غلطی ہوگئی وغیرہ تو اس کا جو اجر متعین ہے وہ ملے گا ہی اور ساتھ ساتھ اس کے وہ تمام گناہ بخش دیے جائیں گے۔ جو نادانستہ دیگر ماہ میں اس سے ہوتے رہے ہیں۔ یہاں یہ بات سامنے رہنی چاہیے کہ یہ خوشخبری ان لوگوں کے لیے ہے جنھوں نے پورے سال اللہ کی مرضی کا خیال رکھا، نہ کہ ان لوگوں کے لیے جن کا پورا سال لاپرواہی میں گزرا بلکہ ان کے لیے یہ ضروری ہے کہ وہ اپنے رب سے خصوصی توبہ و استغفار کریں اور آئندہ اس سے پرہیز کرنے کا عہد کریں۔
(۲) تلاوت و تدبر قرآن:
قرآن مجید کا مقصد نزول رہنمائی ہے یعنی اس کتاب سے انسان یہ معلوم کرے کہ اس کو دنیا میں کیوں بھیجا گیا، اللہ کی مرضی کیا ہے۔ یہ چیز جاننے کے لیے ضروری ہے کہ آدمی قرآن کے مطلب اور معنی پر توجہ دے۔ چونکہ اس ماہ میں قرآن کا نزول شروع ہوا تو اس ماہ کو قرآن کا مہینہ سمجھتے ہوئے خصوصی توجہ دی جائے جب اس کا یہ تقاضا پورا ہوگا تو اس کتاب سے حاصل ہونے والے ضمنی فائدے خوب حاصل ہوں گے۔ صرف تلاوت کرنے پر ہر حرف پر دس دس نیکیاں ملیں گی۔
(۳) توبہ و استغفار
رمضان میں راتوں کی کیفیت عام راتوں سے مختلف ہوجاتی ہے۔ اس تبدیلی کا فائدہ اٹھاتے ہوئے راتوں میں تراویح اور تہجد کے خصوصی اہتمام کے ساتھ اللہ کے حضور گڑگڑا کر اپنی پاکیزگی کی دعا کرنی چاہیے۔ عورتیں جو عموماً غفلت کا شکار رہتی ہیں کو اس کو اہتمام لازما کرنا چاہیے۔
(۴) صدقہ و خیرات
ثواب کے ساتھ ساتھ یہ عمل بہت ساری پریشانیوں اور مصیبتوں کو دور کرنے میں مدد گار ہوتا ہے۔ رمضان میں اس کے مواقع بھی خوب فراہم ہوتے ہیں۔ اس عمل سے دل میں رقّت پیدا ہوتی ہے جو آئندہ کے لیے کافی مفید ثابت ہوگی۔
(۵) شب بیداری
طاق رات کی تلاش ہی میں صرف شب بیداری کرنا اور بقیہ راتوں کو کوئی اہتمام نہ کرنا کسی طرح مناسب نہیں ہے۔ بقول مولانا ابوالکلام آزاد اگر آدمی شعوری طور پر عبادات کا اہتمام کرے تو اس کے لیے ہر دن عید اور ہر رات شب قدر کے مانند ہے۔ رمضان کے دنوں میں عموماً سونا عام ہے تو اس کی تلافی اور خشوع و خضوع کے ساتھ اپنے رب سے ملاقات کے لیے رات کا وقت نہایت عمدہ ہے۔ ہماری خواتین کو اس سے غفلت نہیں برتنی چاہیے۔