سیٹ پر بیٹھ کر عادل نے اپنا سر پیچھے ٹکالیا اور آنکھیں بند کرلیں۔ بس دھیمی رفتار سے آگے بڑھنے لگی۔ اور اس کے ذہن کے پردے پر ماضی کی یادیں اجاگر ہونے لگیں۔
تختی پر لکھی ہوئی عبارت کو مٹایا جاسکتا ہے لیکن روح میں شامل یادیں کس طرح مٹ سکتی ہیں۔ غزالہ کی یاد اس کی زندگی کا ایک حصہ بن گئی تھی۔
غزالہ سے اس کی پہلی ملاقات کالج کے قریب ایک ریسٹورینٹ میں ہوئی تھی۔ دونوں کے درمیان اَنا کے ٹکراؤ سے شروع ہوئی کہانی دھیرے دھیرے دوستی کا روپ اختیار کرتی چلی گئی۔
اُسے یاد تھا کہ اُس دن ریسٹورینٹ میں میزیں خالی تھیں اور وہ چائے پی رہا تھا، ایک سروقد لڑکی اپنے لانبے بالوں کو لہراتی ہوئی آئی اور اس کے سامنے خالی کرسی کھینچ کر بیٹھ گئی اور اس کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر بڑے بے باک انداز میں پوچھا ’’آخر تم اپنے آپ کو سمجھتے کیا ہو! اور یہ کیا کہانی کالج میں پھیلا رکھی ہے۔‘‘
یہ جملہ سن کروہ کسی قسم کی جھنجھلاہٹ کا ثبوت پیش کیے بنا خاموشی کے ساتھ چائے پینے میں مصروف رہا۔
غزالہ کی سانسیں اوپر نیچے ہورہی تھیں۔ اس نے اپنے آپ کو قابو میں کیا اور غصہ بھری نگاہوں سے عادل کی طرف دیکھنے لگی۔
’’مجھے لڑکیوں کا غرور پسند نہیں ہے۔‘‘ یہ کہتے ہوئے عادل نے آہستہ سے کپ میز پر رکھ دیا۔
نہ جانے کیوں غزالہ کے لبوں پر ایک تیکھی سی مگر دلکش مسکراہٹ پھیل گئی۔ یہ دیکھ کر وہ سلگ اٹھا اور اس کے جی میں آیا کہ بہت کچھ کہہ دے، لیکن وہ کچھ سوچ کر صرف اپنے ہونٹ چبا کر رہ گیا۔
غزالہ اس کے چہرے کی بدلتی ہوئی رنگت اور کیفیت سے کافی محظوظ ہورہی تھی۔
’’لوگ باتوں کا بتنگڑ بنادیتے ہیں۔‘‘ وہ ایک لمحہ کے لیے رکی، پھر گویاہوئی۔
’’مجھے آپ کے بارے میں بہت کچھ معلوم ہے، میرے لیے آپ ایک دلچسپ انسان ہیں، ویسے آپ سے مل کر بہت خوشی ہوئی۔‘‘ غزالہ نے اپنی آنکھوں کو عجیب انداز میں جنبش دے کر کہا۔
اس طرح غزالہ کا عادل کے ساتھ پیش آنا اور اپنے سر کو دلکش انداز میں جھٹکا دینا، اس کے دل میں ہلچل پیدا کرگیا تھا۔ اور وہ سمجھنے سے قاصر تھا کہ یہ کس قسم کی ملاقات ہے۔
ایک جھٹکا لگنے کی وجہ سے وہ اپنے خیالات سے واپس آگیا تھا۔
شاید بس نے ٹرن لیا تھا۔
کالج کی یادیں بہت پیچھے رہ گئی تھیں، لیکن ان گزری ہوئی یادوں کی کسک اب بھی باقی تھی، شاید اس دنیا میں ہر انسان کے ساتھ ایک کہانی وابستہ رہتی ہے جو اس کے ساتھ چلتی رہتی ہے۔ انسان چاہتا کچھ ہے اور ہوتا ہے کچھ، شاید دردِ دل ہی زندگی ہے۔
وہ سوچنے لگا، کاش غزالہ سے اس کی ملاقات نہ ہوئی ہوتی اور زندگی بھر کا روگ نہ لگتا۔ نہ اس میں اس کا کوئی قصور تھا اور نہ ہی غزالہ کچھ کرسکتی تھی۔ ان دونوں کی چاہت کا قصہ کالج بھر میں مشہور ہوگیا تھا۔
ایک دن غزالہ نے کہا : ’’عادل! ہمارے بارے میں جو رائے پھیلی ہوئی ہے، وہ ٹھیک نہیں ہے۔‘‘
’’کیوں کیا ہواغزالہ!‘‘ اس نے پوچھا
’’ہم اوپر سے لاکھ آزاد خیال سہی اندر سے قدامت پسند ہیں، ہماری جڑیں جس تہذیب سے جڑی ہوئی ہیں وہاں لڑکی اور لڑکے کا میل جول پسند نہیں کیا جاتا، اس کی مخالفت ہوگی اور ہماری ہی شکست ہوگی۔‘‘ وہ بولی۔
’’دنیا بہت آگے بڑھ گئی ہے، آخر ہم کب تک پیچھے مڑ کر دیکھتے رہیں گے، غزالہ؟‘‘ اس نے احتجاج کیا۔
’’ہم اپنے معاشرے سے جدا ہوکر چین سے جی نہیں سکتے، بہت سارے اصول خواہ پسند ہوں یا نہ ہوں۔ اپنانے ہی ہوں گے، عادل!‘‘ وہ بولی
پھر چند ثانئے بعد اس نے کہا: ’’اکثر لوگ حقیقت کے برعکس خوابوں کے پیچھے دوڑتے ہیں۔ زندگی سے فرار یا خوابوں کی وقتی ٹھنڈک تھوڑی دیر کے لیے بہلنے کا موقع ضرور دیتی ہے، لیکن حقیقت کی دنیا اور خوابوں کی دنیا کا کوئی رشتہ نہیں ہوتا، تصورات کی دنیا میں کھوئے رہنے والے زندگی کی تلخ حقیقت برداشت نہیں کرسکتے، جبکہ …‘‘ وہ اتنا ہی بول پائی تھی کہ نڈھال ہوکر عادل نے کہا:
’’چاہت ان سب باتوں سے اعلیٰ وارفع ہے، غزالہ‘‘
’’اسی لیے میں چاہتی ہوں کہ ہماری چاہت صرف دوستی کی حد تک ہی رہے۔‘‘ وہ بولی۔
’’کیا ایسا نہیں ہوسکتا کہ ہم ہمیشہ کے لیے ایک ہوجائیں۔‘‘
’’میں اپنی زندگی کا فیصلہ خود نہیں کرسکتی، میرے والدین اس کو پسند نہیں کریں گے۔‘‘ اتنا کہہ کر وہ خاموش ہوگئی۔
٭٭
ریلوے کراسنگ کے پاس بس ایک جھٹکے کے ساتھ رک گئی۔ اور وہ چونک گیا۔ تنہائی میں اکثر ماضی کی یادیں اس کو گھیر لیتی تھیں، اور وہ اطراف و اکناف سے بے خبر ہوجاتا تھا۔ اکثر لوگ ماضی کی یادوں کے سہارے جیتے رہتے ہیں لیکن وقت دبے پاؤں ان کے قدموں تلے سے گزرجاتا ہے۔
کالج کے دن کس طرح بیت گئے کچھ پتہ نہ چل سکا، وہ ریسٹورینٹ میں بیٹھے ہوئے تھے۔ غزالہ کی آنکھوں میں سوچ کے سائے لہرا رہے تھے، کافی دیر تک خاموش رہنے کے بعد اس نے اچانک کہا۔
’’عادل! یہ ہماری آخری ملاقات ہے!‘‘
’’ایسا کیوں ہوتا ہے، غزالہ…‘‘ عادل کی آواز میں کرب تھا۔
غزالہ نے اس کی طرف دیکھا، اس کی نگاہیں ایسی لگ رہی تھیں جیسے کہیں ویرانے میں کھوگئی ہوں، غم کی شدت کی وجہ سے اس کی آواز بھاری ہوگئی تھی، وہ آہستہ سے کہنے لگی:
’’کل جب تمہاری والدہ صاحبہ رشتہ مانگنے کے لیے ہمارے ہاں آئی ہوئی تھیں تو ہمارے ابّا نے صاف کہہ دیا تھا کہ ہم رشتہ، برادری سے باہر کرنے کے لیے ہرگز تیار نہیں ہیں…‘‘ اتنا کہہ کر وہ سانس لینے کے لیے رکی اور پھر کہنا شروع کیا’’جب تمہاری والدہ صاحبہ مایوس ہوکر لوٹ گئیں تو میرے اطراف زنجیروں کے حلقے تنگ ہوتے چلے گئے۔‘‘
ٹیبل پر دونوں کہنیاں ٹیک کر ہتھیلیوں پر چہرہ رکھ کر غزالہ کی طرف خالی خالی نظروں سے وہ دیکھنے لگا۔
وہ کہنے لگی: ’’گھر کو ہمیشہ کے لیے چھوڑ کر بھاگ آنا مناسب نہیں ہے، اس میں ہماری اور سب کی سبکی ہوگی، ہم دونوں عقلمند ہیں، لہٰذا زہر بھی اس کا علاج نہیں ہے، عادل۔‘‘
’’لیکن غزالہ! انسان آزاد پیدا ہوا ہے، اس کو آزاد جینا چاہیے۔‘‘ وہ صرف اتنا ہی کہہ سکا۔
غزالہ نے دوپٹہ اپنے چہرے کے گرد لپیٹا، اپنی نگاہیں اوپر اٹھائیں اور عادل کی طرف دیکھا، پھر پلکوں کو دھیرے دھیرے نیچے جھکایا، اس کی آنکھیں نم ہونے لگی تھیں، کچھ کہے بغیر اٹھی اور ریسٹورینٹ کے باہر چلی گئی۔ اور عادل کی حالت اُس جواری کے مانند ہوگئی تھی، جس نے اپنا سب کچھ داؤ پر لگادیا ہو پھر وہ کافی دیر تک گم صم بیٹھا رہا تھا۔
٭٭
’’صاحب اٹھئے! ٹرمینس آگیا ہے۔‘‘ کنڈیکٹر نے اس کے کندھے پر ہاتھ رکھ کر کہا۔ اور وہ چونک گیا۔
بس تمام کی تمام خالی ہوچکی تھی اور صرف وہ ہی اکیلا بیٹھا رہ گیا تھا۔
کنڈیکٹر سے معذرت چاہتے ہوئے وہ بس سے نیچے اتر آیا۔ اٹھائیس برس کے بعد وہ دوبارہ اس شہر میں آیا تھا۔ اور یہاں کی یادیں آج بھی اس کے ذہن کے پردے پر محفوظ تھیں۔ ٹرمینس سے تھوڑی دور آگے معذور بچوں کے لیے ایک اسکول تھا، جس کی جانچ کے لیے حکومت کی طرف سے وہ آیا تھا۔
منتظمہ کے کمرے کا دروازہ کھٹکھٹا کر جیسے ہی وہ اندر داخل ہوا، فوراً ٹھٹک کر رک گیا۔ ہلکی گلابی رنگت کی ساڑی میں ملبوس، آنکھوں پہ باریک فریم کا چشمہ لگائے ایک پروقار عورت میز کی دوسری جانب کرسی پر بیٹھی ہوئی تھی۔
دونوں کی نگاہیں ٹکرائیں، اور نگاہوں میں شناسائی کے دیپ چل اٹھے۔ عادل کو ایسا محسوس ہوا جیسے اس کا دل اچھل کر اس کے حلق میں آکر اٹک گیا ہے۔ وہ اپنی سانسیں درست کرنے لگا۔ اورمنتظمہ نے حیرت بھری خوشی کے ساتھ کہا :
’’عادل صاحب آپ!…‘‘
’’ہاں غزالہ صاحبہ! وقت کا چکر ایک بار پھر مجھے اس شہر میں لے آیا ہے۔ کرسی پر بیٹھتے ہوئے اس نے کہا اور اس کو اس کی ہی آواز اجنبی محسوس ہونے لگی۔ پھر وہ دونوں چند لمحوں تک ایک دوسرے کی طرف دیکھتے رہے۔
’’کہیے عادل صاحب!…‘‘ غزالہ نے خاموشی کو توڑا۔
’’یہ اسکول؟…‘‘ عادل کی زبان سے صرف اتنا ہی نکل سکا۔
’’ہاں یہ اسکول میری نگرانی میں چل رہا ہے، یہاں جتنے بھی اپاہج اور یتیم بچے ہیں، میں ان کے لیے ماں ہوں۔‘‘ ایک گہری سانس لینے کے بعد غزالہ نے کچھ کہنا چاہا، لیکن وہ بول نہ پائی۔ ایسا لگتا تھا جیسے اس کو کوئی بات یاد آگئی ہو، اور سوچ رہی ہو کہ اس کو ظاہر کرے یا نہ کرے، ماضی کی پرچھائیوں کا عکس اس کی آنکھوں سے جھلکنے لگا تھا۔
عادل، چپ چاپ اس کی طرف دیکھنے لگا تھا۔
غزالہ کے پیچھے ایک دریچہ تھا۔ وہاں سے باہر کا منظر صاف دکھائی دے رہا تھا۔
’’آپ کو یاد ہے عادل! آپ نے ایک بار کہا تھا کہ انسان آزاد پیدا ہوا ہے اور اس کو آزاد رہنا چاہیے…‘‘ تھوڑی دیر خاموش رہ کر غزالہ کہنے لگی۔ اب میں آزاد ہوں، اپنی زندگی کا فیصلہ خود کرسکتی ہوں، کیا آپ اپنا ہاتھ بڑھا سکتے ہیں۔اچانک وہ چپ ہوگئی، اس کے چہرے پر الجھن کے آثار نمایاں ہونے لگے تھے۔
کھڑکی کے باہر ایک درخت تھا۔ اس کی شاخوں پہ نہ پھل، نہ پھول اور نہ ہی پتے تھے، بلکہ سوکھی ٹہنیاں ابھری ہوئی تھیں۔
اس کی شاخ پہ گھونسلے میں ایک پرندہ بیٹھا، شاید گزری ہوئی جوانی، اور بہار کا انتظار کررہا تھا۔
اور —— عادل سوچنے لگا… کیا یہ پرندہ، شجر کے تنے سے لپٹے ہوئے سانپ کے زہر سے محفوظ رہ سکتا ہے۔ ——