بغداد میں ایک بڑا نامی گرامی سودا گر رہتا تھا۔ اس کا تجارتی کاروبار بڑے پیمانے پر تھااور دوکان کی دور دور شہرت تھی۔ گاہکوں کی ایک بڑی تعداد اس کے یہاں سے سامان خریدتی تھی۔ کاروبار کے ساتھ ساتھ اس کی گھریلو زندگی بھی بڑی اچھی تھی۔ اس کی بیوی بڑی سلیقہ مند، ہوشیار اور نیک تھی۔ سودا گر کو اپنی بیوی سے بڑی ہی محبت والفت تھی۔ بیوی بھی میاں سے دلی محبت کرتی تھی۔ دونوں بڑے اطمینان اور میل محبت کے ساتھ زندگی بسر کررہے تھے۔
کبھی کبھی سودا گر اپنے کاروبار کے سلسلہ میں باہر بھی جاتا تھا۔ کبھی کبھی کئی کئی دن واپسی نہ ہوتی۔ اس سے زیادہ دن گزرجاتے۔ مدتوں بیوی کو اس بارے میں کوئی فکر نہیں ہوئی لیکن ناغے جب زیادہ اور جلد جلد ہونے لگے اور تھوڑے تھوڑے دنوں کے بعد سوداگر باہر جانے لگا تو بیوی کے دل میں شبہ پیدا ہونے لگا؟ اس نے اپنی ایک معتبر لونڈی سے اس شبہ کا ذکر کیا اور کہا کہ جی چاہتا ہے کہ پتہ لگایا جائے کہ سودا گر صاحب آئے دن کہاں جایا کرتے ہیں؟ لونڈی نے عرض کیا اگر حکم ہو تو میں پتہ چلاؤں؟ بیوی نے کہا میں بہت احسان مند ہوں گی اگر تم اس راز کو معلوم کرکے مجھے بتاؤ۔ اس حکم کے بعد لونڈی ٹوہ میں لگ گئی کہ سودا گر صاحب کہاں جاتے ہیں۔ ایک دن چھپ کر ان کے پیچھے لگ گئی تو معلوم ہوا کہ سودا گر کی ایک اور بیوی بھی ہے اور وہ پہلی بیوی سے چھپا کر کبھی کبھی اسی کے یہاں جایا کرتے ہیں۔ اس راز کو معلوم کرکے لونڈی واپس آئی اور ملکہ سے سارا واقعہ سنایا۔ بیوی کو یہ حال سن کر کچھ رنج ضرور ہوا مگر اس نے اس رنج کو دل ہی میں رکھا اور اشارے کنائے کسی طرح اس کا اظہار سودا گر کے سامنے نہ ہونے دیا۔ سودا گر صاحب جب گھر آتے تو اپنی (پہلی) بیوی سے بہت اچھی طرح ملتے اور اس سے ان کا برتاؤ، طور طریقہ اور میل محبت میں کوئی فرق نہ محسوس ہوتا۔ اس نے سوچا جب سودا گر صاحب کو میرا اتنا لحاظ ہے میری اس ناگواری کے خیال سے وہ اپنے اس فعل کو چھپاتے ہیں تو پھر مجھے بھی یہ چاہیے کہ ان کے لحاظ کا پاس کروں اور جب وہ میرے ساتھ اپنے برتاؤ میں کوئی کمی نہیں کرتے تو مجھے بھی ان کے ساتھ برتاؤ میں کوئی فرق نہیں کرنا چاہیے۔ بیوی کی اس احتیاط سے سوداگر صاحب کو یہ غلط فہمی رہی کہ وہ ان کے نئے نکاح سے ناواقف ہیں۔ ہنسی خوشی دونوں کی زندگی گزرتی رہی بالآخر بہت برسوں کے بعد سودا گر صاحب کا انتقال ہوگیا۔ چونکہ ان کی دوسری شادی خفیہ ہوئی تھی اس لیے اس کا حال کسی کو معلوم نہ تھا سب یہی سمجھتے تھے کہ بس سودا گر صاحب کی ایک ہی بیوی تھی۔ چنانچہ یہی سمجھ کر ان کی جائداد اور ترکہ کی تقسیم ہوئی۔ لیکن بیوی اس حقیقت سے واقف تھی اس لیے اس کی ایمانداری نے یہ گوارا نہ کیا کہ لوگوں کی ناواقفیت سے فائدہ اٹھائے اور اپنی دوسری شریک کو حصہ سے محروم کرے۔ اس لیے اس نے اپنے حصہ کی آدھی رقم ایک معتبر آدمی کو دے کر دوسری بیوی کے یہاں بھیجی اور انہیں اطلاع دی کہ سودا گر صاحب کا انتقال ہوگیا اور مجھے بیوی کی حیثیت سے ان کے ترکہ میں سے جو کچھ ملا ہے اس میں اللہ کے مقررہ قانون کے مطابق تم بھی برابر کی شریک ہو۔ اس لیے تمہارا حصہ تم کو بھیج رہی ہوں۔ تھوڑے عرصے کے بعد قاصد واپس آیا اور اپنے ساتھ جو رقم لے گیا تھا وہ بھی واپس لایا۔ سودا گر کی بیوی نے پوچھا کہ کیا ماجرا ہے؟ رقم واپس لے کر تم کیوں آئے۔ اس نے جیب سے ایک خط نکال کر دیا خط میں یہ تحریر تھا:
’’اچھی بہن!
السلام علیکم ورحمۃاللہ
سودا گر صاحب کے انتقال کی اطلاع سے بڑا رنج ہوا اللہ تعالیٰ ان کی مغفرت فرمائے اور انہیں اپنی رحمتوں اور عنایتوں سے سرفراز فرمائے۔ آپ نے اپنی مہربانی سے مجھے ان کے ترکہ میں سے اپنے حصہ کی آدھی رقم بھیجی ہے۔ آپ کے برتاؤ نے مجھے بہت متاثر کیا حقیقت یہ ہے کہ اس راز سے کوئی واقف نہ تھا۔ میرا نکاح بہت ہی پوشیدہ طریقہ سے ہوا تھا مجھے یقین تھا کہ آپ بھی اسے نہیں جانتی ہوں گی اور میں کیا سودا گر صاحب بھی زندگی بھر یہی سمجھتے رہے کہ آپ کو ان کی دوسری شادی کی کوئی اطلاع نہیں ہے۔ لیکن اب معلوم ہوا کہ آپ اس راز سے واقف تھیں، سوتن سوکن کا جلن مشہور ہے آپ کو یقینا اس اطلاع سے صدمہ ہوا ہوگا۔ لیکن آپ نے جس غیر معمولی صبروضبط سے کام لیا اس کی نظیر مشکل سے مل سکتی ہے۔
اشارہ کنایہ میں بھی تو کبھی یہ پتہ نہیں چلنے پایا کہ آپ اس راز سے واقف ہیں۔ یہ صبروضبط حیرت انگیز ہے آپ کے اس کمال سے میں بیحد متاثر ہوں لیکن اس سے بھی زیادہ مجھ کو آپ کی ایمانداری نے متاثر کیا دولت کس کو کاٹتی ہے لوگ دولت کے لیے کیا کچھ نہیں کرتے لیکن آفرین ہے آپ کی ایمانداری کو کہ یہ جانتے ہوئے بھی کہ میرا نکاح راز میں ہے اور کوئی نہیں ہے جو میری وکالت کرسکے آپ نے میرا حق مارنا پسند نہیں کیا اور اپنے حصہ کی آدھی رقم مجھے بھیج دی اللہ کے حاضر و ناظر ہونے کا یقین ہو تو ایسا ہو اور حقوق العباد کے ادا کرنے کا جذبہ ہو تو ایسا ہو۔ بہن! اس ایمانداری و خلوص ایثار سے میرا دل بہت متاثر ہوا۔ لیکن بہن آپ کا حصہ آپ کو مبارک ہو میں اب اس حصہ کی مستحق نہیں رہی۔ سودا گر صاحب نے مجھ سے نکاح کیا تھا بہت دن ہم دونوں نے مسرت کی زندگی بسر کی لیکن آخر میں یہ سلسلہ قائم نہ رہ سکا کچھ عرصہ ہوا انھوں نے مجھے طلاق دے دی تھی۔ اس راز سے آپ واقف نہیں ہیں۔ آپ کی اطلاع و یقین کے لیے طلاق نامہ بھیج رہی ہوں۔ آخر میں آپ کی محبت عنات اور خلوص و ہمدردی کا پھر شکریہ ادا کرتی ہوں۔‘‘
سودا گر کی بیوی نے نہ یہ خط پڑھا تو بہت متاثر ہوئی اور اس عورت کی ایمانداری اور راست بازی نے ان کے دل میں گھر کرلیا اور دونوں کے درمیان خلوص و محبت کا مستقل رشتہ قائم ہوگیا۔ خدا سے دعا ہے ہم لوگ بھی اس سے سبق حاصل کریں اور اللہ کی خوشنودی حاصل کرکے جنت کے مستحق بنیں۔