شرک

عمیر محمد خان، کھام گاؤں

شرک گناہِ عظیم ہے جس کی معافی نہیں۔ شاید اس لیے بھی کہ اس گناہ سے نہ صرف مذہبی بلکہ سیاسی، سماجی، معاشرتی، خاندانی، ملکی و ملّی اور شخصی خرابیاں جنم لیتی ہیں۔ اور زندگی کے تمام شعبوں میں فساد برپا ہوجاتا ہے۔ افراد کے مسائل بڑھ جاتے ہیں اور جب مسائل بڑھتے ہیں تو پورا نظام درہم برہم ہوجاتا ہے۔

عام طور سے پتھروں کی پرستش کو ہی شرک سمجھا جاتا ہے۔ حالانکہ کسی بھی بت کی (خواہ کسی بھی شکل میں ہو) اللہ وحدہٗ لا شریک کے ساتھ پرستش کی جائے شرک ہے۔ اس پر اعتماد و بھروسہ کیا جائے شرک ہے۔ اس پر اپنی آسانیوں اورکام کا کامل یقین کیا جائے شرک ہے۔ اس کو اپنا مامن و ملجا سمجھا جائے شرک ہے۔ اس کو اپنے غم کا مداوا سمجھا جائے شرک ہے۔ غرض ملائکہ پرستی، جنات پرستی، آبا پرستی، کوکب پرستی، خود پرستی اور ریا کاری تمام شرک ہی کی اقسام ہیں۔ اور جو بھی اس میں مبتلا ہے وہ کسی حد تک شرک میں مبتلا ہے۔ اور شرک بدترین گناہ ہے۔

مسلم معاشرہ سے پتھروں کو پوجنا تو ختم ہوچکا ہے مگر ایسے بتوں نے اس معاشرے میں جنم لیا ہے کہ دیکھ کر اور سن کر گھن آتی ہے۔ پتھروں کے بت تو پاش پاش ہوچکے ہیں، مگر پتھروں کے علاوہ دیگر بتوں کی پوجا اور پرستش آج بھی جاری ہے۔ خدا اس گناہِ عظیم سے ہماری حفاظت فرمائے۔ آمین!

کہیں تصاویر بت بناکر سینے سے لگائی جاتی ہیں، کہیں افراد آنکھوں پر بٹھا کر بت بنائے جاتے ہیں۔ کہیں رنگ و نسل کے بتوں کی پرستش کی جاتی ہے، کہیں گروہ اور جتھوں کی پوجا کی جاتی ہے، (چاہے وہ اسلام کے منافی کیوں نہ ہو) کہیں ملکی، علاقائی اور بستیوں کے بت ہیں، ایسے بتوں کے متعلق قرآن بھی تنبیہ کرتا ہے:

’’اور جن کو اللہ کے سوا پکارتے ہیں وہ کچھ پیدا نہیں کرتے بلکہ خود مخلوق ہیں۔ مردہ ہیں زندہ نہیں ہیں، انھیں کچھ خبر نہیں کہ کب اٹھیں گے۔‘‘ (النحل:۲۱)

’’اورجس دن ہم ان سب کو جمع کریں گے پھر جن لوگوں نے شریک ٹھہرایا ان سے کہیں گے ٹھیرو تم اور تمہارے شرکاء۔ پھر ان میں علیحدگی کردیں گے۔ اور ان کے شرکاء کہیں گے تم ہمیں نہیں پوجتے تھے۔ اللہ ہمارے اور تمہارے درمیان گواہی کے لیے کافی ہے کہ ہم تمہاری بندگی سے بالکل بے خبر ہیں۔‘‘

جب انہی بتوں سے تمام امیدیں وابستہ کرلی جاتی ہیں تو سوچئے کہ خدا کی مدد ہمیں کہاں سے آسکتی ہے! ہم انعام واکرام کے مستحق کہاں سے ہوسکتے ہیں جبکہ یہ بت ہمارے رگ و پے میں موجود ہوں؟ ہمارے سینے ان کی توقعات پر دھڑک رہے ہوں تو اُس الٰہ کی سکینت ہم پر کیوں نازل ہوسکتی ہے؟

جب ہمارے کام و کاروبار، معاشرت و معیشت ان کے بھروسے پھیل و پھل رہے ہوں تو اس کی برکتیں اور نوازشیں ہمارا مقدر کیوں کر بن سکتی ہیں؟ کیا خدا کے علاوہ کسی کے سامنے غیر محسوس طور سے ہاتھ پھیلانے والے غنی ہوسکتے ہیں؟سوچئے اور خوب سوچئے کہ کیا ہمارے یہ بت زندہ نہیں؟ کیا ہم اس الٰہ کی پرستش کرتے ہیں جس کا کوئی شریک نہیں؟ چودہ سو سال پہلے کفار و مشرکین اللہ کو الٰہ تو مانتے تھے مگر واحد پرستش کے لائق نہیں سمجھتے تھے۔ (نعوذ باللہ) اُن کے بھی قبیلوں کے بت تھے، نسلوں اور خاندانوں کے بت تھے۔ گرو ہوں و ٹولوں کے بت تھے۔ غرض ہر طرح کے بت تھے۔ غور کیجیے کہ کیا ہم بھی ایسے بتوں کے پجاری ہیں یا اللہ وحدہٗ لا شریک کے پجاری ہیں؟

مزید

حالیہ شمارے

ماہنامہ حجاب اسلامی ستمبر 2024

شمارہ پڑھیں

ماہنامہ حجاب اسلامی شمارہ ستمبر 2023

شمارہ پڑھیں