لمبوترا چہرہ — پچکے ہوئے گال،اپنے گڈھوں میں دھنسی ہوئی آنکھیں جن میں درد اور ویرانی کے گہرے سائے تھے، آنکھوں کے گرد پڑی ہوئی جھریاں اور سیاہ حلقے، پُرشکن پیشانی اور لبوں پر نہایت پھیکی مسکراہٹ کی ٹیپ چپکی ہوئی۔ یہ میرے اس چہرے کی لفظی تصویر ہے جو عرصہ پہلے میری بیوی نے البم میں لگادی تھی، میری نوجوانی کی تصویر کے بازو۔
جب میرا بیٹا کم سن تھا تب اس نے میری دونوں تصویریں دیکھ کر مجھ سے پوچھا تھا: ’’ابو! یہ کس کی تصویر ہے؟‘‘
’’میری!‘‘
’’نہیں — ، نہیں، یہ !‘‘ وہ میری اس تصویر سے جس میں میں وقت سے پہلے ہی بوڑھا نظر آرہا تھا اپنی شہادت کی انگلی ہٹا کر میرے گزرے ہوئے کل کی تصویر پر رکھ کر کہنے لگا تھا : ’’یہ — !‘‘
’’یہ بھی میری ہی تصویر ہے بیٹا!‘‘
’’مگر یہ تصویر تو آپ کی لگتی ہی نہیں!‘‘ میرا بیٹا تصویر کو بہ غور دیکھتے ہوئے کہنے لگا تھا۔
’’پہلے لگتی تھی بیٹا — ، لیکن اب نہیں لگتی!‘‘
’’بدل گئی تصویر!؟‘‘ بیٹے کی پیشانی پر شکنیں آگئی تھیں۔
’’نہیں بیٹا — !‘‘ میں مسکرا کر بولا :’’تصویریں نہیں بدلتیں چہرے بدل جاتے ہیں۔‘‘
’’کیسے بدلتے ہیں چہرے؟!‘‘ میرے بیٹے کی آنکھوں میں حیرت تھی اور لہجے میں معصومیت۔
’’بالکل آہستہ آہستہ، پتہ ہی نہیں چلتا کہ چہرہ بدل رہا ہے اور چہرہ بدل جاتا ہے۔‘‘ میں نے اپنے بیٹے کو سمجھایا تھا۔
میری بات سن کر وہ مجھے ایسے دیکھنے لگا تھا جیسے میں نے نہایت حیرت انگیز بات کہہ دی ہو اور وہ اسے سمجھنے اور یقین کرنے پر آمادہ نہ ہو۔
بیٹے کی حیرت سے پھٹی پھٹی آنکھوں میں سے معصومیت چھلک رہی تھی جسے دیکھ کر میں سوچنے لگا تھا ’کل یہ ساری معصومیت رفتہ رفتہ ختم ہوجائے گی۔ اسے پتہ بھی نہیں چلے گا اور اس کی معصومیت لاپتہ ہوجائے گی — ‘ پھر کیا سما جائے گا اس کی آنکھوں میں، اس کے دل میں، اس کے ذہن میں — ! کیا وہی سب کچھ جو آنکھوں کے رستے اور کانوں کے سوراخوں سے میرے اندرپہنچا ہے؟!
تفکرات، پریشانیاں جو بگڑے ہوئے اس بے ڈھنگے سماج سے ملی ہیں، جس میں میں جی رہا ہوں اور بہت سارے دکھ جو مجھے اپنوں نے دیے ہیں اور ان دکھوں سے ملا غم جس کی پرورش میں نے اپنا خون پلا کر کی ہے، جنھیں میں نے اپنے پیارے جذبات کا گلا گھونٹ کر زندگی دی ہے۔ اپنی خوش گوار، پرکیف آرزوؤں کا قتل کرکے اپنے غم کو پالا ہے، کیا میرا لختِ جگر بھی ایسا ہی کرے گا؟ مگر یہ ضروری نہیں، غم اور دکھ تو وہی سہتا ہے جو دوسروں کے دلوں کو کانچ کا نازک برتن سمجھتا ہے۔
’’کیا میں اس کے لیے دوسرا ہوں؟‘‘
’’نہیں — ، دوسرا تو نہیں ہوں — لیکن میری سوچ ہے کہ میں دوسرا ہوں۔ اس کا اپنا جسم ہے، اس کی روح ہے۔ اس کے اپنے جذبات ہیں، احساسات ہیں، خیالات ہیں، پھر میں یہ کیسے کہوں کہ وہ مکمل طور پر میرا اپنا ہے۔ میرا لختِ جگر کسی بھی وقت دوسرا بن سکتا ہے۔‘‘
تاہم مسلسل سوچنے کے باوجود بھی میں خود اپنے خیالات کی نفی کررہا تھا ’’کتنا میرا اپنا لگتا ہے میرا لختِ جگر، نقوش بالکل میرے جیسے ہیں۔‘‘ میں اکثر سوچا کرتا تھا۔ جب وہ بالکل ننھا سا تھا تو میں کس طرح اسے ہوا میں اچھالتا تھا۔ کیسے اپنے سینے سے چمٹاتا تھا۔ کبھی ہاتھوں میں اٹھا کر گویا کمرے میں رقص کرتا تھا۔ جب وہ پنگھوڑے میں سوتا رہتا تو میں اس پر دیر تک جھکا اسے تکتا رہتا تھا۔ اس دوران اپنی سانسوں پر بھی قابو رکھتا تاکہ میری سانسوں کی آوازسے اس کی نیند میں خلل نہ پڑجائے۔
کتنے اچھے تھے وہ دن!
نہیں — نہیں، وہ دن بھی اچھے نہیں تھے، ان دنوں میں بھی فکریں اور پریشانیاں ناگ کی طرح ڈسا کرتی تھیں۔ بھائیوں کی تعلیم کی فکر — بہنوں کی شادی کی پریشانیاں کیوں کہ بے ڈھنگے سماج نے نکاح کو مہنگا کردیا تھا۔ ان فکروں اور پریشانیوں سے چھٹکارا پانے کی کوشش میں مجھے کتنی اذیت سہنی پڑتی تھی، میرے پاس بیان کے لیے الفاظ نہیں ہیں۔ لغات میں جذبات کی مکمل عکاسی کرنے والے الفاظ ہیں؟! ہوں گے تو میں نہیں جانتا۔
مجھے اپنی بہنوں کا جہیز جمع کرنے کے لیے اپنی اور اپنی بیوی کی ایک ایک ضرورت ختم کرکے ہر چیز خریدنی پڑی تھی۔ بھائیوں کو امتحانات میں کامیابی دلانے کے لیے ٹیوشن لگانی پڑتی تھی۔ ٹیوشن کی رقم کی ادائیگی کے لیے میں بڑے بابو کے سامنے ہاتھ جوڑ کر خوشامد کرتا تھا، تاکہ وہ مجھے اوورٹائم دے اور میں کسی طرح اپنے بھائیوں کے ٹیوشن کی رقم ادا کرسکوں۔
اب میرے سب بھائی اچھے عہدوں پر فائز ہیں۔ میری بہنوںکی اعلیٰ گھرانوں میں شادیاں ہوچکی ہیں۔ سب اپنی اپنی زندگیوں میں مست ہیں اور میں —! میں خوشی کی جستجو میں اپنے بیتے ہوئے دنوں میں بھٹک رہا ہوں —
میری زندگی کے کون سے دن اچھے تھے؟! — ہاں، اب یاد آیا، مگر اف! مجھے اپنی خوشیوں کی تلاش میں بہت پیچھے جانا پڑا۔ کتنے برسوں کی اذیت ناک دھول میں دبے ہوئے ملے مجھے اپنے خوشیوں کے دن — میرے پیارے دن، دھند میں کیسے لپٹے ہوئے ہیں۔
مجھے خواب کا سا گمان ہورہا ہے اور یہ یقین کرنا دشوار لگ رہا ہے کہ سچ مچ میری زندگی کے دن ایسے تھے — ! ایسا تھا میں: نیلی نیکر اور سفید بوشرٹ میں ملبوس اپنی امی اور ابو کے درمیان بیٹھا کھانا کھا رہا ہوں۔ کھانے سے فارغ ہونے کے بعد اسکول جانے کی تیاری کررہا ہوں، پھر اپنے والدین کو سلام کرکے بازوؤں میں بستہ لٹکائے اسکول جارہا ہوں۔ اسکول سے آنے کے بعد اپنے ہم جولیوں کے ہمراہ املی کے گھنے پیڑ کے نیچے آنکھ مچولی کھیل رہا ہوں۔ ہنس رہا ہوں ، تالیاں بجا رہا ہوں۔ پیڑ پر پتھر مار کر املیاں گرا رہا ہوں، پھر میں اور میرے ساتھی گدری گدری، پکی پکی، کھٹی کھٹی املیاں چٹخارے لے لے کر کھا رہے ہیں۔پھر میں بستر پر پڑا ہوں، میرا بدن بخار میں تپ رہا ہے۔ پائنتی میرے ابو بیٹھے میرے پیر دبا رہے ہیں، سرہانے امی بیٹھی میرے سر کے بالوں میں انگلیاں چلا رہی ہیں۔ میں اپنے سر میں انگلیوں کا لمس محسوس کرتا ہوں۔ میرے بالوں میں ہولے ہولے آگے پیچھے سرکتی انگلیاں میرے بالوں میں سرسرائے جارہی ہیں۔ میری آنکھوں کے پٹ کھل جاتے ہیں — سرہانے میری شریکِ حیات بیٹھی تھیں۔
شریکِ حیات کی زلفیں جنھیں میں کبھی گھٹاؤں سے تشبیہ دیا کرتا تھا، بکھری ہوئی تھیں۔ بکھری زلفوں میں سفید بال ایسے لگ رہے تھے جیسے رات میں آسمان پر روئی کے گالوں کی طرح بکھرے ہوئے سفید بادلوں کے آوارہ ٹکڑے۔ چہرے پر رنج و غم کے تاثرات منجمد تھے۔ آنکھوں میں بے بسی تھی۔ درد تھا اور اکیلے پن کے گہرے، ڈراؤنے سائے منڈلا رہے تھے۔
بے اختیار میرا جی چاہا کہ کسی طرح میں اپنی بیوی کے چہرے کے سارے رنج و غم نوچ کر پھینک دوں۔ اُٹھ کر اس کی بکھری زلفیں سنواردوں، لیکن میں کتنا مجبور، بسے بس اور لاچار ہوگیا ہوں، اب تو اٹھ بھی نہیں سکتا۔
پھر میںنے اپنے لبوں پر مسکراہٹ کی ٹیپ چپکانے کی ناکام کوشش کی تاکہ میرے مسکراتے لب دیکھ کر جواباً بیوی لبوں پر بھی ہلکا سا ہی تبسم آجائے۔ مجھے فریب دینے کے لیے ہی سہی، اس پر ہی میں خوش ہوجاؤں گا جیسے ایک بار میں بیوی کی فرمائش پر مسکرایا تھا جب اس نے مجھ سے مسکراتی ہوئی تصویر نکالنے کی فرمائش کی تھی۔
کیمرے کے سامنے جبراً مسکراتے ہوئے مجھے ایسا لگ رہا تھا جیسے کوئی اندر ہی اندر کچوکے لگارہا ہے — نوچ رہا ہے — کتنی اذیت ہوتی ہے جبراً مسکرانے میں! سماج میں دو طرح سے جینے والے لوگ کیسے جیتے ہیں۔ منافق کہیں کے۔
وہ میری مسکراتی تصویر دیکھ کر کتنی خوش ہوگئی تھی جس میں میں وقت سے پہلے ہی بوڑھا نظر آرہا تھا۔
میں بیوی کے چہرے کو تکتے ہوئے سوچ رہا ہوں اس نے لب ایسے بھینچ لیے ہیں جیسے ہچکیوں کے زلزلہ کو ضبط کرنے کی کوشش کررہی ہو۔ اب میں اس سے مسکرانے کی فرمائش کیسے کروں— کیسے؟! وجود کو جھنجھوڑنے والے اس سوال نے مجھے تڑپا کر رکھ دیا— میں اپنی بیوی کے غمزدہ چہرے کو کچھ دیر تک خاموش تکتا رہا پھر ہولے سے تکیے پر سر گھما کر دائیں طرف دیکھا۔ کمرے کی دیوار سے لگے صوفے پر میرا بیٹا بیٹھا تھا اور اس کی بغل میں میرا پوتا، بہو کچن میں کیک تیار کررہی تھی، میرے پوتے کی سالگرہ ہے نا اس لیے۔
آج میری بہنیں اور بھائی آجاتے تو وہ بھی میرے پوتے کی سالگرہ میں شریک ہوجاتے۔ بیوی کہہ رہی تھیں کہ انہیں میرے مرض کی اطلاع دیے تقریباً ایک ماہ کا عرصہ ہوگیا ہے مگر آج تک کوئی نہیں آیا۔
کتنا اکیلا پن لگ رہا ہے مجھے۔ درد ناک سناٹا میرے اندر بھر گیا ہے۔ میرا بیٹا بھی تو اب میرے پاس گھڑی بھر نہیں بیٹھتا۔ بہو کی بات تو بہت دور کی ہے۔ اب پوتا بھی پاس نہیں پھٹکتا۔ کہیں بیٹے اور بہونے اسے منع تو نہیں کردیا؟!— ہشت! ایسا نہیں ہوسکتا۔ بچہ ہے، کھیل کود میں رہتا ہے۔ بیمار دادا کے پاس آکر کیا کرے گا، خیر! میں سوچ رہا ہوں اگر میری شریکِ حیات مجھ سے پہلے اس جہاں سے رخصت ہوجاتی تو میرے منہ میں پانی ڈالنے والا بھی کوئی نہیں رہتا — نہیں مجھے ایسا نہیں سوچنا چاہیے۔
میں اپنے بیٹے کی طرف دیکھ کر سوچ رہا ہوں کتنا میرے جیسا لگتا ہے میرا بیٹا—! لیکن وہ میرے جیسا نہیں ہے۔ یقین ہوجانے کے بعد بھی جانے کیوں بے اختیار میرا جی چاہ رہا ہے کہ میں اسے کسی طرح آواز دوں:’’ آؤ—، میرے پاس آکر بیٹھو میرے بیٹے! چند لمحات کے لیے ہی سہی، مجھے خوشی ہوگی— آؤ— آؤنا!‘‘ میری آواز حلق سے نہیں نکل رہی ہے سینے میں گھٹی جارہی ہے۔ حلق کا کینسر ہونے کی وجہ سے ہفتہ بھر سے میری یہ حالت ہوگئی ہے۔
میں اپنی سیلاب کی طرح امڈتی خواہش کو سینے میں دبائے اپنے بیٹے کی طرف دیکھ رہا ہوں، میرے لب بے آب مچھلی کے گلپھڑوں کی طرح کانپ کر خاموش ہوگئے ہیں۔ آنکھوں سے آنسو ایسے رسنے لگے ہیں جیسے تازہ زخم کے ٹانکے ٹوٹ جانے پر اس سے خون رستا ہے۔
میری شریکِ حیات اپنی ساری کے آنچل سے میرے رستے ہوئے آنسوؤں کو پونچھ رہی ہے۔ میرا بیٹا اپنے بیٹے کو البم دکھانے میں مگن ہے۔
’’یہ کون ہے ابو! ‘‘میرا پوتا پوچھ رہا ہے۔
’’بیٹا! یہ میری تصویر ہے!‘‘
’’مگر یہ تصویر تو آپ کی لگتی ہی نہیں!‘‘ میرا پوتا تصویر کو بغور دیکھ کر کہتا ہے۔
میں اپنی آنکھیں موند لیتا ہوں۔