ماہرین نفسیات کے مطابق شادی شدہ جوڑوں میں اکثر تنقید سے بچنے کیلئے خاموشی کا راستہ اختیار کیا جاتا ہے۔ یہ جذباتی رویہ لاتعلقی کہلاتا ہے۔ اور وہ کہتے ہیں کہ ازدواجی زندگی کے چھوٹے موٹے جھگڑوں میں کسی ایک کی خاموشی کسی بڑے جھگڑے کو تو ٹال سکتی ہے۔ لیکن مسلسل ایک ساتھی کی خاموشی سے ازدواجی زندگی میں دراڑیں بھی پڑنی شروع ہوجاتی ہیں۔
تنقید اگرچہ کسی کو بھی اچھی نہیں لگتی لیکن شادی شدہ زندگی پر اس کا کچھ زیادہ ہی خراب اثر پڑتا ہے۔ چناں چہ شادی شدہ جوڑوں کا تنہائی میں ایک دوسرے پر نکتہ چینی کرنا ان کے ازدواجی رشتے کو خراب کر سکتا ہے۔ ماہرین نفسیات کے مطابق شادی شدہ جوڑوں میں اکثر تنقید سے بچنے کے لئے خاموشی کا راستہ اختیار کیا جاتا ہے۔ یہ جذباتی رویہ لاتعلقی کہلاتا ہے اور یہ لاتعلقی ازدواجی بندھن اور اپنے جیون ساتھی کے لئے دل میں ناپسندیدگی یا پھر نفرت کے جذبات پیدا کرتا ہے۔
ماہرین کا کہنا ہے کہ تنہائی میں شریک حیات کی تنقید کو جھیلنے والوں میں دوسری طرح کے لوگ وہ ہوتے ہیں جو ہر طرح کی تنقید کو خاموشی سے برداشت کر لیتے ہیں اور ساتھی سے توقع رکھتے ہیں کہ شکایت نہ کرنے کے باوجودان کا ساتھی خودہی ان کے تکلیف وجذبات کا احساس کرے گا۔ لہٰذا اکثر ایسی صورتحال میں مزاحمت کرنے کا جذبہ باقی نہیں رہتا ہے اور جذبہ انہیں غیر مطمئن بناتا ہے اور چھوٹے موٹے جھگڑوں کے بعد صلح صفائی سے روکتا ہے۔
کالج آف آرٹس اینڈسائنس ٹیکساس سے تعلق رکھنے والی ماہر نفسیات پروفیسر کیتھ سین فورڈنے کہا کہ شادی شدہ جوڑوں میں لاتعلقی کا رویہ سب سے زیادہ پریشان کن مسئلہ ہے۔ جرنل آف امریکن سائیکلوجیکل ایسوسی ایشن میں شائع ہونے والی تحقیق میں ماہرین نے متنبہ کیا ہے کہ ساتھی کی طرف سے معمول کی تنقید سے بچنے کے لئے مئوخرالذ کر حربہ بھی تقریباََ لاتعلقی اپنانے جتنا ہی برا ہے۔
ماہرنفسیات داکٹر کیتھ سین فورڈنے کہا کہ خاموشی ایک طرح سے دفاعی حربہ ہے جولوگ اس وقت استعمال کرتے ہیں جب وہ سمجھتے ہیں کہ ان کی ذات پر حملہ کیا جارہا ہے۔ تحقیق کے نتائج بتاتے ہیں کہ میاں بیوی کی لاتعلقی اور غیر مطمئن رویے کا ان کے ازدواجی رشتے کے ساتھ براہ راست تعلق ہے۔
ڈاکٹر سین فورڈ کا کہنا تھا کہ ساتھی کا تنقید یا شکایت سے دستبردار ہونا بڑے نقصان سے گریز کا ایک طریقہ تو ہے مگر یہ ایک فرد کے دکھی ہونے کو ظاہر کرتا ہے۔ اکثر معمولی تنقید بڑھتے بڑھتے جھگڑے کی صورت اختیار کر لیتی ہے لہٰذا ایک ساتھی خاموشی سے دستبردار ہوجاتا ہے جبکہ دوسرا مطالبے پر ڈٹا رہتا ہے۔ جتنا زیادہ دوسرا شخص خاموشی اختیار کرتا ہے اتنا ہی لاتعلق بنتا چلا جاتا ہے۔
بقول ڈاکٹر کیتھ سین فورڈاگرچہ اس رشتے میں شریک حیات کو تنقید کا نشانہ بننا کوئی نئی بات نہیں ہے لیکن ہم دیکھتے ہیں کہ زیادہ ترایسے رشتے سے وابستہ جوڑے پریشان ہیں۔ ان میں خود مختاری، کنٹرول اور فاصلے کو برقرار رکھنے کی خواہش ہوتی ہے۔
دوسری جانب وہ لوگ جنہیں توقع ہوتی ہے کہ ان کا ساتھی اپنی غلطی کا احساس کر لے گا وہ بے چین تھے اور محسوس کر رہے تھے کہ ان کو نظرانداز کیا جارہا ہے۔ایسے لوگ اس لئے بھی فکر مندرہتے ہیں کہ ان کا ساتھی محبت کرتا بھی ہے یا نہیں ‘ نظرانداز ہونے کااحساس ان کے اندردکھ اور تکلیف کے جذبات پیدا کرتا ہے۔
ماہرین نے اپنی تحقیق تین حصوں میں تقسیم کی ہے۔ پہلے حصے میںشادی شدہ جوڑوں سے ایک سوالنامہ فل کروایا گیا جس میں ان سے سوال کیا گیا کہ ازدواجی زندگی میں تکرارکی صورت میں وہ کون سی حکمت عملی اختیار کرتے ہیں ؟ مثلاََ کیا وہ خاموش ہوجاتے ہیں یا ساتھی کی طرف سے توقع کرتے ہیں کہ وہ ان کے جذبات کا خودہی احساس کرے۔ دوسرے مرحلے میں 223بالغان جورومانوی رشتے سے منسلک تھے ان کے رشتے کی کامیابی اور معمولی اختلافات میں ان کی حکمت عملی کا جائزہ لیا گیا۔ تیسرے مرحلے میں5 13انڈر گریجویٹس طلبہ سے میاں بیوی کے باہمی تنازعہ اور صورتحال سے بچنے کیلئے دفاعی طریقہ اختیار کرنے پر مضمون لکھنے کو کہا گیا۔
نتیجے سے ظاہر ہوا کہ جو لوگ دکھی تھے یا ساتھی سے اْمید کرتے تھے کہ وہ ان خیالات کو پڑھنے کی کوشش کرے گا۔ ایسے لوگوں کے اپنے ازدواجی رشتہ میں ناخوش رہنے کے حوالے سے مضبوط شواہد ملے۔ محققین نے تحقیق سے نتیجہ اخذکرتے ہوئے کہا کہ اکثر میاں بیوی ایک دوسرے کی تنقید سے بچنے کیلئے خاموشی کا طریقہ استعمال کرتے ہیں۔آگے چل کر ان میں بات چیت کم ہوجاتی ہے اور یہی بات بلآخر ازدواجی رشتہ کی خوشیوں کو ختم کر دیتی ہے۔ جو بات واجح طور پر سامنے آتی ہے وہ یہ ہے کہ ایک دوسرے کو تنقید کا نشانہ بنانے کے بجائے باہم گفتگو رہے اور ایک دوسرے کی اچھائیوں کو سراہا جائے۔ یہی کامیاب ازدواجی زندگی کا گر ہے۔lll