شر سے خیرپیدا ہوگا!

عارفہ محسنہ، ممبئی

ریاست کرناٹک کے اڑپی شہر سے ابھرے حجاب تنازعے نے مسلم امت کے سامنے کئی امکانات کے دروازے کھولے ہیں اور کئی قسم کے چیلنجز کھڑے کیے ہیں۔ ان چیلنجز کا مقابلہ کرنے کے لیے مسلم امت کی طرف سے ایک مضبوط لائحہ عمل کی ضرورت ہے۔ اگر ہم ان امکانات اور چیلنجز کو سمجھ کر ایک لائحہ عمل بنانے میں کامیاب ہوگئے تو اس شر کی کوکھ سے حیرت انگیز خیر پیدا ہوگا۔ ایسا حیرت انگیز خیر جس کا عام انسان تصور بھی نہیںکرسکتا۔

حجاب تنازعہ کا مثبت پہلویہ ہے کہ اسلام اور حجاب اب گھر گھر بہونچ گیاہے۔ غیر مسلم بھی حیا ء اور پردہ کا فیور(Favour) کرتے نظر آتے ہیں۔ جس طرح ابتدائے اسلام میںآپﷺ اور اسلام کو بدنام کرنے کی کوشش اسکے فروغ اور نیک نامی کا سبب بنی اسی طرح اسکو ل کالجزکا حجابی لڑکیوں کے لئے بند کرنا مسلمانوں کے حق میںخیر ثابت ہوا اور ہوگا انشا ء اللہ۔

حجاب تنازعہ مسلم امت کے سامنے ہندوستان میں کوئی نیا یا اکیلا اشو نہیں ہے۔ اس سے پہلے موقع موقع ایسے اشو چھوڑے جاتے رہے ہیں۔ یہ دراصل ہندوستان میں خاص نظریہ رکھنے والوں کی منصوبہ بند کوشش ہے اور یہ کوشش آئندہ بھی رہے گی۔

ہمارے سامنے ایک بڑا چیلنج یہ ہے کہ ہم ان کوششوں کو سمجھ کر اس طرح کی اشوز پر کس طرح کا ردِ عمل ظاہر کرتے ہیں۔ اگر ہم جذباتی ردِ عمل کرتے ہیں تو ان کا مقصد حاصل ہوجاتا ہے اور اگر ہم صبر و تحمل اور فہم و فراست کا مظاہرہ کرتے ہیں تو ان کا ناکامی ہوگی۔ اس طرح کے معاملات ان طاقتوں کے ایجنڈے کو ناکام کرنا بڑا چیلنج ہے۔

ایک اور چیلنج ہمیں خود اپنے اندر سے مل رہا ہے اور وہ یہ ہے کہ ہمارے اندر ہی کی کچھ طاقتیں جذباتی سیاست کا کھیل کھیل کر ہماری منفی امیج بلڈنگ کرنے پر لگی ہوئی ہیں اور کئی مرتبہ وہ ہمیں ان طاقتوں کے ٹریپ میں پھنسانے کا ذریعہ بن جاتی ہیں۔ ایسے میں ہم ان اندرونی طاقتوں سے اور بیرونی طاقتوں سے بطورِ احسن کیسے نمٹیں یہ بڑا چیلنج ہوگا۔

ہم نے دیکھا کہ بہت سے غیر مسلم والدین نے اپنی لڑکیوں کو حجاب پہنایا اور بہت سی لڑکیوں نے خود پہنا۔ یہ اگرچہ بہ طور یکجہتی(Soliderty) مگر حقیقت یہ ہے کہ بہت سے لوگ موجودہ حالات کے تناظر میں اس کی ضرورت اور اہمیت کو سمجھنے لگے ہیں۔ یہ بالکل ویسے ہی ہے جیسے یوروپ کے عریاں ماحول میں صالح طبیعت خواتین حجاب کے ذریعہ اسلام کی طرف آئیں۔

اس کا دوسرا فائدہ یہ ممکن ہے کہ مستقبل قریب میں مسلمان لڑکیوں کے لئے نئے نئے اسکول اور کالجز کھلیں گے انشا ء اللہ۔لڑکیا ںخود اعتماد، متحمل مزاج اور بہادر بنیں گی ، علم کی نئی راہیںاستوارہوںگی، دین کی تعلیمات پر عمل اور اسلامی شعائر کو اپناکر اپنی شناخت قائم رکھنے کی فکر کریں گی۔اسلامی تاریخ کا مطالعہ کریں گی صحابیا تؓ کی سیرت پڑھیں گی۔ انشاء اللہ۔

لائحہ عمل یہی ہو سکتاہے کہ ہم ٹک ٹک دیدم دم نا کشیدم کے بجائے اسلام کی ترویج ، اسلامی اقدارکی اپنی ذاتی اور اجتماعی زندگی پر تنفیذ میں لگ جائیں، حیاء کو فروغ دیں۔ اس طرح ہم اپنے آپ میں ایک مثالی سماج تشکیل دیں جو اسلامی تعلیمات کی عملی نمائندگی کرتا ہو۔

یقیناً ایک نئی صبح ہماری منتظر ہے۔اسی طرح ایک اہم بات یہ ہے کہ ہندوستان میں مسلمانوں کو ایک دعوتی منصوبہ بنانے اور اس پر تن دہی سے لگ جانے کی ضرورت ہے۔ آپ یہ کیوں سمجھتے ہیں کہ ہر آدمی جس کو دعوت دی جائے گی وہ آپ کی دعوت قبول کر ہی لے گا۔ کرلے تو اچھا ہے کہ اللہ کا بندہ بن جائے گا اور نہ کرے تو اس کا فائدہ یہ ہوگا کہ برادرانِ وطن کے اور ہمارے درمیان گفت و شنید یا ’سمواد‘ کی فضا بنے گی جو باہمی غلط فہمیوں کے ازالے کا ذریعہ ہوگی اور منافرت پر روک لگائے گی۔

لائحہ عمل کے ضمن میں ایک اہم پہلو یہ ہے کہ ہم اپنی اولاد کی اسلامی تعلیم و تربیت پر کتنی توجہ دیتے ہیں اور دیتے بھی ہیں یا نہیں ۔ اس کے لیے گھروں میں اسلامی لٹریچر کے فروغ دینے کی ضرورت ہے۔ اس محاذ پر سنجیدہ کوششوں اور مرکوز توجہ کی ضرورت ہے۔ گھر کے علاوہ اسکولوں میں بھی اعلیٰ اخلاقی قدروں پر مبنی ماحول بنانےاور اسلای آداب سیکھنے سکھانے کی ضرورت ہے۔

باطل ماحول میں قرآن و حدیث کو پڑھنا اور سمجھ نا ہی مشکل ہے نہ کہ نافذکرنا مگر یہ مدارس اور جامعات خاص کرلڑکیوں کے اسکول اس مشکل کو آسان کرسکتے ہیں، ایک اچھا اسلامی ماحول فراہم کرکے۔ اسلامی کلچڑکو اپنا نا اور مغربی (Western)کو ٹھکرانہ ہمارا لائحہ عمل ہونا چاہئے۔ اپنے اسکولوں اور کالجز میںحدیث،فقہ اور قرآن بیسڈلٹریچررکھنا چاہئے۔حجاب کواللہ کے حکم اور عورت کے لیے اعزاز کے طور پراپنانا چاہئے، فرض اور خداکی خوشنودی کے طورپر ناکہ صرف کلچر کے طور پر۔شعوری مسلمہ ہی معاشرے کوصالح بناسکتی ہے اورصحت مند بہادر نسل کی پرورش کرسکتی ہے۔

مردوں کے ہاتھ میں حال اور عورتوں کے ہاتھوں میں مستقبل ہوتا ہے۔اس کے لیے سربراہان قو م کو ان کی مدد کرنا ہوگی۔

وتعاونواعلی البروالتقوی ولاتعاونوا علی الاثم والعدوان۔

ترجمہ: ’’نیکی اور تقوی کے کاموں میں مدد کروگناہ اور زیادتی کے کاموں میں کسی کی مددنہ کرو۔‘‘

شاہین باغ میں عورتوں کو بھیج کر ان سے نعرے لگوانا مردانگی نہیں۔گھر عورت کا اساسی دائرہ کارہے وہاں اس کی مدد کرو اس کو عزم و حوصلہ دو، سپورٹ (Support) کرو اس کی دل جوئی اس کو سہولت دو اور اس کی تعلیم وتر بیت کا بہترین بندو بست ہونا چاہئے۔ اسکول کالج کا بہترین انتظام اور محفوظ جگہ پر محفوظ طریقہ سے تعلیم میں مدد کرنا نیگی ہے۔پردہ یقیناً اسلامی شعار اور حیاء کی علامت ہے عورت کو تحفظ عطا کرتا ہے مگر با پردہ مسلم عورت کی حفاظت باحیا ء مسلم مرد پر فرض ہے۔اسکی تعلیم وتربیت بھی خواہ وہ بہن ہو بیٹی ہو بیوی ہو ماں ہو۔اس کو اکیلا بھیڑ یوں نرغے میں چھوڑنا درست نہیں۔

مسلم مرد جاگ جائیں، تعلیم اور تعلیم گاہوں کو محفوظ انتظامیہ کے سپرد کریں۔ مسکان جیسی کو بہادری کے تمغے اور واہ واہی کی سند کے بدلے اسکی کامل تعلیم کا ذمہ اٹھائیں۔ ابھی تو نہ جانے کتنی مسکان غربت و افلاس کے سبب کالجز کی چہار دیواری بھی نہیں دیکھ سکیں۔ کتنی ہی ذہین بچیاں ہیں جو محض غربت کے سبب اعلیٰ تعلیم ہی نہیں بنیادی تعلیم سے محروم رہ جاتی ہیں۔ تعلیم کا مشن بہترین لائحہ عمل ہوتا ہے اور ہمارے لیے بھی ہوگا۔

مزید

حالیہ شمارے

ماہنامہ حجاب اسلامی ستمبر 2024

شمارہ پڑھیں

ماہنامہ حجاب اسلامی شمارہ ستمبر 2023

شمارہ پڑھیں