عید کا چاند نظر آنے کی خبر جیسے ہی شہر میں پہنچی۔ شہر کے سارے مسلمان دو جماعتوں میں تقسیم ہوگئے۔ ایک خبر پر یقین کرنے والے، دوسرے خبر کی خبر لینے والے۔
ہوا یہ کہ دو جماعتوں کے ذی حیثیت لوگ اپنے اپنے مفتی صاحبان کے پاس پہنچے۔ خبر پر یقین کرنے والی جماعت کے مفتی صاحب نے فرمایا: ’’آس پاس کے بہت سارے علاقوں میں چاند نظر آنے کی تصدیق ہوچکی ہے۔ اس لیے آج تراویح نہیں ہوگی۔ کل روزہ رکھنا حرام ہے—! کل عید ہوگی — عید!‘‘
مفتی صاحب کا فیصلہ سنتے ہی روزہ دار تو خوش ہوئے ہی، ان لوگوں نے بھی مسرت کا اظہار فرمایا جنھوںنے ایک بھی روزہ نہ رکھا تھا اور نہ کبھی تروایح پڑھی تھی۔
خبر کی خبر لینے والی جماعت کے باحیثیت افراد اپنے مفتی صاحب کے پاس گئے۔ مفتی صاحب بھرے بیٹھے تھے کسی نے ان تک یہ خبر پہنچادی تھی کہ فلاں مفتی صاحب نے عید کے چاند کی خبر پر اپنی تصدیق کی مہرلگادی ہے۔ کل بہت سارے مسلمان عید منانے کے لیے تیار بیٹھے ہیں۔
’’ہوں — !‘‘ مفتی صاحب نے خبر سن کر ہنکار بھری اور پھر خبر دینے والے سے بولے: ’’ہم بھی دیکھتے ہیں شہر میں سکہ کس کا چلتا ہے!‘‘
’’مفتی صاحب ! جس کی حکومت اس کا سکہ‘‘ اس نے آگ پر تیل ڈالنے کا کام انجام دیا۔
’’شہر کی مسلم اکثریت پر ہماری حکومت ہے۔ عیدگاہ پر قبضہ ہمارا ہے اس لیے ہم بھی دیکھیں گے کہ کل عید ہوگی کیسے !‘‘ مفتی صاحب نے خبر لانے والے کو اپنے تیور دکھائے۔
اسی وقت چند افراد اُن کی خدمت میں پہنچ گئے، فرشی سلام کیا، ان کے ہاتھ کو چوما، آنکھوں سے لگایا اور پھر ایک شخص نے لب کشائی کی :’’مفتی صاحب! عید کا چاند نظر آنے کی خبر شہر میں گردش کررہی ہے۔‘‘
’’خبر سن کر تم لوگ تو گردش میں نہیں آئے نا!‘‘ مفتی صاحب نے ان کی نیت کو جانچا۔
’’نہیں، نہیں مفتی صاحب — نہیں،ہم خبر سن کر سیدھے آپ کی خدمتِ اقدس میں آئے ہیں — آپ کا حکم سر آنکھوں پر!‘‘
مفتی صاحب کا چہرہ پر اعتماد خوشی سے کھل اٹھا۔ چہکے: ’’بھئی حکم ہمارا نہیں، شریعت کا!‘‘
’’ہمیں تو شریعت کا علم نہیں، آپ کا حکم ہی ہمارے لیے شریعت ہے۔‘‘
’’ہوں —‘‘ مفتی صاحب گیس بھرے غبارے کی طرح پھول گئے۔
’’مفتی صاحب! میرے بھائی کو عید کا چاند نظر آیا ہے!‘‘ ایک شخص نے لب کشائی کی۔
’’تو کرلو عید —! کس نے روکا؟‘‘ مفتی صاحب کے تیور بدل گئے۔
’’نہیں مفتی صاحب! میرے کہنے کا مطلب یہ نہیں تھا۔ میرا بھائی فلاں شہر میں رہتا ہے۔ اس نے مجھے موبائل فون سے خبر دی تھی۔‘‘
’’تمہارا بھائی شریعت کا پابند ہے؟!‘‘ مفتی صاحب نے سخت لہجے میں پوچھا۔
’’ہاں — ، پنچ وقتہ نمازی ہے، تہجد بھی پڑھتا ہے۔‘‘
’’ماہ رمضان میں تراویح کتنی رکعتیں پڑھتا ہے، آٹھ یا بیس؟‘‘ مفتی صاحب کا دوسرا سوال تھا۔
’’بیس رکعت مفتی صاحب!‘‘
’’چہرے پر داڑھی ہے؟‘‘ مفتی صاحب کا تیسرا سوال!
’’ہاں ہے نا!‘‘
’’کتنی ہے؟‘‘ مفتی صاحب کا تلخ لہجے میں چوتھا سوال۔
’’مشت بھر!‘‘
’’ہوں‘‘ مفتی صاحب نے جھٹکے سے ہوں کہا اور پھر کیا چوتھا سوال، ’’لباس کیسا ہے تمہارے بھائی کا؟‘‘
’’سفید لمبی قمیص اور سفید کلر کا ہی پاجامہ، وہ بھی ٹخنوں کے اوپر پہنتا ہے۔‘‘
’’ٹخنوں کے اوپر پاجامہ!‘‘ مفتی صاحب کی بھوئیں پیشانی پر چڑھ گئیں۔ نہایت تلخ لہجے میں بولے:
’’ٹخنوں سے اوپر پاجامہ پہننے والے ہماری جماعت سے نہیں ہیں! اس کی خبر پر بھروسہ نہیں کیا جاسکتا۔ اس نے اگر چاند دیکھا بھی ہوگا تو ہم نہیں مانیں گے — ہماری عید کا چاند توکل نظر آئے گا اور ہم پرسوں عید منائیں گے۔ اپنی جماعت کی مسجدوں سے اعلان کروا دو کہ کل کا روزہ ہے!‘‘ مفتی صاحب نے اپنا فیصلہ سنادیا اور پھر کچھ مسجدوں سے اعلان کا پروگرام شروع ہوگیا۔
’’کل عید نہیں منائی جائے گی، کل کا روزہ ہے۔ شہر کے سارے مسلمان کل روزہ رکھیں!‘‘
’’کل روزہ رکھنا حرام ہے، کل ہم عید منائیں گے۔ اپنی مسجدوں سے بھی اعلان کروادو۔‘‘
خبر پر یقین کرنے والے لوگ بھی جوش میں آگئے۔ انھوںنے بھی اپنی اپنی مسجدوں سے اعلان کروادیا۔ ’’کل عید منائی جائے گی، کل روزہ رکھنا حرام ہے۔‘‘
حلال، حرام کا شور مچ گیا۔ شہر کے کچھ عام مسلمان شش و پنج میں مبتلا ہوگئے، عید منائیں یا نہ منائیں۔ روزہ رکھیں کہ نہ رکھیں۔ انہیں کچھ سجھائی نہیں دے رہا تھا۔ جو روزہ نہیں رکھتے تھے وہ بے چارے عید کے مسئلہ میں الجھ گئے تھے۔ کیا کریں؟ کس کے پاس جائیں! کون اس مسئلہ کو حل کرے گا؟!
ایک عام مسلمان کے ذہن میں اس شخص کا خیال آیا جس کی حیثیت اندھوں میں کانا راجا کی سی تھی۔ ادب ہو یا سیاست، سماجی موضوع ہو یا سیاسی۔ نفسیاتی ہو یا طبی، سائنس ہو یا مذہبی ہر طرح کے موضوع پر اظہار خیال کرنا وہ اپنا حق سمجھتے تھے۔ موصوف شاعری سے بھی شغف رکھتے تھے۔ انھوں نے اپنا تخلص ’’فاضل‘‘ رکھا تھا لیکن ان کے دوست احباب کی کوالٹی ایسی تھی کہ وہ انھیں ’’پھاجل‘‘ کہا کرتے تھے جس پر فاضل صاحب نے کبھی اعتراض نہیں کیا تھا۔ آدمی اپنے حلقۂ احباب سے پہچانا جاتا ہے نا!
بہرحال عام مسلمان کے ذہن میں جیسے ہی فاضل صاحب کا خیال آیا وہ اپنے ساتھیوں سے بولا : ’’ارے بھائی! شہر کے دونوں مفتی صاحبان رنگ میں بھنگ کرنے پر تلے ہوئے ہیں۔ ’’پھاجل‘‘ صاحب کے پاس چلو وہی عید کا مسئلہ حل کریں گے۔‘‘
’’ہاں—، چلو!‘‘
عام مسلمان فاضل صاحب کے پاس پہنچے۔
فاضل صاحب ایک خستہ ہوٹل کے ٹوٹے ہوئے بینچ پر بیٹھے بیڑی دھونک رہے تھے۔
’’پھاجل ساب السلام علیکم!‘‘
’’وعلیکم السلام — فرمائیے؟!‘‘
’’عید کا مسئلہ لے کر آئے ہیں!‘‘
’’عید بھی مسئلوں کا شکار ہوگئی!‘‘ فاضل صاحب بیڑی کا دھواں چھوڑتے ہوئے بولے۔
’’ہاں—!‘‘ عام مسلمان نے دونوں مفتی صاحبان کے فیصلے فاضل صاحب کے سامنے رکھ دیے۔
فاضل صاحب نے جھٹکے سے بیڑی پھینکی، جیب سے دوسری بیڑی نکالی، سیاہ لبوں میں دبائی اور ماچس سے سلگا کر ایک لمبا کش لیا پھر دھواں چھوڑ کر بولے :
’’دونوں مفتی صاحبان اپنی اپنی جگہ درست ہیں!‘‘
’’کیسے درست ہیں؟!‘‘ عام مسلمان کے لہجے میں جھلاہٹ تھی۔ ’’آس پاس کے سارے علاقوں میں عید کا چاند نظر آگیا، ایک مفتی صاحب مان گئے، دوسرے کہتے ہیں ہمارا چاند کل نظر آئے گا اور ہماری عید پرسوں ہوگی! کیا آسمان پر دو، دو چاند ہیں کیا؟!‘‘
’’ہاں! میں یہ بھی ثابت کرسکتا ہوں کہ آسمان پر دو نہیں کئی چاند ہیں۔ ابھی پرسوں میں نے ایک سائنس داں کی کتاب پڑھی۔ اپنے گروپ والا ہے۔ شمس الرحمن فاروقی نام ہے ۔ انھوں نے اپنی کتاب میں ثابت کردیا ہے کہ آسمان پر کئی چاند ہیں — کتاب کا نام بھی سن لو ’’کئی چاند تھے سرِ آسماں‘‘ (شمس الرحمن فاروقی کا مشہور ناول)
’’ایسا — ؟!‘‘ عام مسلمان کے ساتھیوں کی آنکھیں حیرت سے پھٹ گئیں۔
’’ہاں —! اسی لیے میں کہتا ہوں دونوں مفتی صاحبان کی بات مان لو، دو عیدیں کرلو، ایسا موقع بار بار تھوڑی آتا ہے!‘‘
عام مسلمان فاضل صاحب کی بات سے متفق ہوگئے اور فاضل صاحب کے دوست ان کی پیٹھ تھپتھپانے لگے۔
’’واہ پھاجل ساب! واہ! کیا دماگ (دماغ) پایا آپ نے واہ!‘‘
مزید افسانے پڑھیں!
https://hijabislami.in/7098/
https://hijabislami.in/7165/
https://hijabislami.in/7019/