’’میں کہتی ہوں آخر شمع کو کب تک یوں ہی سر پر بٹھائے رکھو گے؟ پہاڑ جیسی لڑکی کیا ساری عمر ہمارے سر پر سوار رہے گی؟ ‘‘ نوراںؔ نے کچھ گرم لہجے میں شوہر سے کہا۔
’’تو میں کیا کروں؟ روز تم اسی بات پر مجھ سے جھگڑا کرتی ہو۔ میرا تو جینا حرام ہوگیا ہے۔ بیٹی بدنصیب ہے تو اس میں میرا کیا قصور؟ کہو تو اسے زہر دے دوں… یا پھر میں خود ہی کچھ کھا کر سو رہوں۔‘‘ جاوید میاں جھنجھلا اٹھے اور پھر اخبار پڑھنے میں مصروف ہوگئے۔ گویا صرف یہ کہہ کر انھوں نے اپنے فرض سے نجات پالی۔
’’اس طرح ہاتھ پر ہاتھ رکھ کر بیٹھنے سے کام نہیں چلے گا۔ مگر تم…‘‘
’’کہہ دیا دماغ مت چاٹو۔‘‘ جاوید میاں نے غصے سے اخبار میز پر رکھتے ہوئے کہا: ’’کیا کروں؟ کہو تو شمع کو زہر دے دوں اور ساری مشکلیں حل ہوجائیں۔‘‘
زہر دو یا آبِ حیات… لیکن یہ میرا آخری فیصلہ ہے اگر شمع کے لیے اب کوئی اچھا لڑکا نہیں ملا تو میں کسی اندھے یا لنگڑے سے بھی اس کی شادی کرنے میں نہیں جھجکوں گی۔‘‘ نوراں پان منھ میں رکھتے ہوئے بولی۔
’’تم اپنی بیٹی کے لیے ایسی باتیں کررہی ہو شمع کی ماں… کیا وہ اندھے اور لنگڑے کے قابل ہے؟ کیا برائی ہے اس میں؟ خوبصورت ہے پڑھی لکھی ہے۔ خدا کے فضل سے کوئی عیب نہیں… اور تم کہتی ہوکہ …‘‘
’’مانتی ہوں کہ یہ ساری اچھائیاں اس میں موجود ہیں، مگر پھر بھی وہ ہماری جان کے لیے عذاب بنی بیٹھی ہے۔‘‘ نوراں بات کاٹ کر بولی۔
’’لیکن ہم کر بھی کیا سکتے ہیں؟ یہ دنیا لڑکی کی خوبیوں کو نہ دیکھتے ہوئے صرف پیسہ دیکھتی ہے۔ اپنی حیثیت کو دیکھتے ہوئے ہم سوچ بھی نہیں سکتے کہ شمع کو کوئی اچھا لڑکا ملے گا۔‘‘ جاوید میاں نے بے بسی سے گردن ہلادی۔ ’’کچھ سمجھ میں نہیں آتا کیا کروں؟ یہ لڑکی ہے یا ہماری جان کی دشمن؟‘‘
شمع دوسرے کمرے سے اپنے والدین کی یہ گفتگو خاموشی سے سن رہی تھی۔ اس کی آنکھوں سے آنسوؤں کی بارش شروع ہوگئی۔ وہ اپنے آنچل کو منھ میں بھر کر چھت پر بھاگ گئی۔ یہ کام اب اس کی زندگی کا ایک لازمی کام بن گیا تھا۔ وہ ہر روز اپنے والدین کی اسی طرح کی گفتگو سنتی اور اپنی قسمت پر آنسو بہاتی، مگر پھر بھی خاموش رہتی، آہیں بھرتی مگر اف نہ کرتی۔ وہ سوچنے لگی۔ اس سے بڑھ کر اب اور کیا بدقسمتی ہوسکتی ہے کہ ماں باپ اسے اپنا دشمن سمجھنے لگیں۔ عذاب سمجھنے لگیں۔ اس کی وجہ سے روز اس کے والدین کے درمیان تلخیاں پیدا ہوتی ہیں۔ تو کیا وہ اسی لیے پیدا ہوئی ہے کہ ماں باپ کی زندگی میں زہر گھول دے۔ ان کی ہنستی مسکراتی زندگی میں آگ لگادے۔ ان کے ہونٹوں سے تبسم چھین لے۔ ان خیالوں میں کچھ دیر گرفتار رہنے کے بعد شمع کی آنکھ لگ گئی۔
دوسرے دن شمع سوکر اٹھی اور نیچے اترنے کے لیے سیڑھیوں پر جیسے ہی پاؤں رکھے اچانک گھر میں پھر ایک ہنگامہ سن کر اس کے پاؤں وہیں ٹھٹک گئے، اسے اپنے والد کی تیز آواز سنائی دی: ’’ایک تو یہ منحوس لڑکی پہلے ہی ہماری جان کے لیے عذاب بنی ہوئی تھی اور اب تم مجھے چوبیس گھنٹے چلا چلا کر پاگل بنادوگی۔ زہر دے دو مجھے۔ اس زندگی سے تر مرجانا ہی بہتر ہے۔‘‘
’’زہرتو اب میں کھاؤں گی۔‘‘ نوراں زار وقطار رونے لگی۔
’’یا الٰہی! مجھے اسی دن کے لیے زندہ رکھا تھا؟ میری تو قسمت ہی پھوٹ گئی ہے۔‘‘
’’ارے نوراںؔ بہن! روتی کیوں ہو؟‘‘ دروازے سے داخل ہوتی ہوئی احمدیؔ نے سب کو چونکا دیا۔
’’روؤں نہ تو کیا کروں؟ پہاڑ جیسی لڑکی…‘‘
’’اس بے قصور اور بے زبان لڑکی کو کیوں کوستی ہو نوراںؔ…؟ خدا کے گھر دیر ہے اندھیر نہیں ہے… جلدی سے آنسو پونچھو اور ایک خوش خبری سنو!‘‘
اس کے بعد وہ نوراں کو ایک رشتے کے بارے میں بتانے لگی اور کہا کہ آج شام کو کچھ لوگ شمع کو دیکھنے آرہے ہیں۔
شمع یہ خبر سن کر بے حد خوش ہوئی۔ اسے خوشی اس بات کی ہوئی کہ اب اسے اپنے والدین کی نفرت بھری نگاہ، ڈانٹ پھٹکار اور طعنوں سے نجات مل جائے گی۔
شام کو چند لوگ شمع کو دیکھنے آئے اور اسے پسند بھی کرلیا۔ لیکن بات پکی کرنے سے پہلے انھوں نے جاوید میاں کے سامنے یہ شرط رکھی کہ لڑکے کو ’’چارپہیوں والی‘‘ بھی ملنی چاہیے۔ جاوید میاں نے اس وقت تو فوراً حامی بھرلی لیکن یہ شرط پوری کرنا ان کے امکان میں نہ تھا۔ وہ اسی الجھن میں گھرے نوراں سے گفتگو کررہے تھے اور شمع دوسرے کمرے سے ماں باپ کی گفتگو سن رہی تھی۔ اس کے دل پر گہری چوٹ لگی اور وہ بے اختیار تڑپ اٹھی۔ اس کا جی چاہا کہ وہ فوراً جاکر اپنے ابا حضور کے قدموں پر گر پڑے اور گڑگڑا کر ان سے التجا کرے کہ وہ اس کی شادی کسی اندھے، لولے، لنگڑے سے کردیں لیکن خدا کے لیے یہ نہ کریں… وہ اتنے پیسے کہاں سے لائیں گے؟ مگر وہ یہ بھی نہ کہہ سکی۔ شرم و حیا نے اس کے پیروں میں زنجیریں ڈال دیں۔ اس کے ہونٹ تھر تھرائے لیکن آواز نہ نکل سکی۔ آنکھوں کے موتی فرش پر گرنے لگے۔ اور وہ ایک بے بس شمع کی مانند جلتی رہی…! سچ مچ شمع کی مانند! جو جلتے جلتے ختم ہوجاتی ہے۔ مگر شکوہ گلہ نہیں کرتی۔
شادی کی تاریخ مقرر ہوگئی اور آخر وہ دن بھی آگیا جب شمع سرخ جوڑے میں ملبوس، شرماتی ہوئی اپنی سسرال پہنچی… مگر سسرال میں قدم رکھتے ہی طعنوں کی بوچھاڑ شروع ہوگئی … شب و روز اس کو ’’چار پہیوں والی‘‘ نہ ملنے اور جہیز کم ملنے کے طعنے ملتے۔ شمع ان کی باتیں سنتی، لیکن جواب میں لبوں کو جنبش تک نہ دیتی۔
ابھی اس کی شادی کو صرف ایک ہی مہینہ گزرا تھا۔ اس کی سسرال میں صرف تین افراد تھے۔ اس کی ساس، اس کی نند روشنی اور اس کا شوہر عمران۔ ایک دن پلان کے مطابق عمران کسی کام کے بہانے نینی تال چلا گیا۔ تیسرے دن وہاں سے ٹیلی گرام آیا جس میں عمران کے کسی کھائی میں گر کر ہلاک ہوجانے کی اطلاع تھی۔ اب کیا تھا… ساس اور نند نے رو روکر سارا گھر سر پر اٹھا لیا… شمع اپنی بدقسمتی پر آنسو بہانے کے سوا کر بھی کیا سکتی تھی۔ چند ہی دنوں میں وہ مہینوں کی مریض نظر آنے لگی۔ پھول سا چہرہ کمھلا کر رہ گیا۔ ساس اور نند نے اسے ’’منحوس‘‘ کا خطاب دے دیا۔
’’منحوس… چڑیل کھاگئی میرے بیٹے کو…؟‘‘ ساس نے دانت پیستے ہوئے کہا۔
’’تم نے اس گھر میں قدم رکھتے ہی اسے دوزخ بنادیا بھابھی؟ تم منحوس ہو… منحوس۔‘‘ نند نے روتے ہوئے کہا۔
’’نہیں… نہیں!! میں منحوس نہیں ہوں۔‘‘ شمع تڑپ اٹھی۔
’’ہائے ہائے! اب تو زبان بھی لڑاتی ہے۔‘‘ ساس نے آنکھیں دکھائیں۔ ’’لعنت ہے تیرے گھر والوں پر… جب بیٹی کا کہیں ٹھکانا نہ لگا تو دھوکا دے کر جھوٹا وعدہ کرکے اس منحوس کو ہمارے سر تھوپ دیا۔‘‘
’’ابا کی غلطیوں کی سزا مجھے مت دیجیے امی جان!‘‘ شمع کے لہجے میں التجا تھی۔
’’خبردار! اگر امی جان سے زبان درازی کی تو زبان کھینچ لوں گی… شرم نہیں آتی تمہیں۔ ایک تو جہیز نہیں لائیں۔ ہمارے بھیا کو کھا گئیں اور اس پر سے بڑھ چڑھ کر باتیں بناتی ہو۔‘‘ روشنی نے کہا۔
’’خدا کا خوف کھاؤ روشنی! ایک دن تمہیں بھی سسرال جانا ہے۔ میری طرح۔‘‘ شمع نے عاجزی سے کہا۔
’’کیا کہا؟ اب تو میری بیٹی کے برے کی بھی تمنا کرنے لگی۔‘‘ ساس ہاتھ ہلاتے ہوئے بولی۔
’’خدا نہ کرے امی جان! میں کسی کی برائی نہیں…‘‘
’’نکل جا… اب تیرا ٹھکانا اس گھر میں نہیں۔‘‘ ساس آپے سے باہر ہوتی ہوئی بولی۔
’’میں کبھی نہیں جاسکتی۔ یہ میرا گھر ہے۔ اب تو یہاں سے میرا جنازہ ہی جائے گا۔‘‘
ماں بیٹی کو شمع کی باتیں کسی زہریلے تیر کی طرح لگیں، اور وہ ایک ساتھ شمع پر پل پڑیں۔ شمع نے اب تک سب کچھ برداشت کیا تھا، لیکن مار پیٹ کی یہ ذلیل حرکت وہ برداشت نہ کرسکی، اس نے خواب میں بھی ایسا نہ سوچا تھا۔ اس نے سوچا وہ اپنے والدین کے پاس چلی جائے۔ اس کو دیکھ کر ماں اسے سینے سے لگالے گی۔ اس کا غم ہلکا ہوجائے گا۔
وہ سفید لباس میں لپٹی، غم و الم کی صورت بنی اپنے والدین کے گھر پہنچی۔ ماں باپ نے اس کی بدنصیبی پر دو چار آنسو بھی بہائے۔ چند روز اسی طرح گزر گئے۔ اب شمع نے خود کو کافی حد تک بدل ڈالا تھا۔ وہ پچھلی باتوں کو بالکل بھول جانا چاہتی تھی۔ ان باتوں کو اس نے اپنے دماغ سے نکال بھی دیا۔ لیکن پھر اچانک ایک دن اس نے اپنے والدین کے درمیان ایسی گفتگو سنی جس سے اس کے دل کو پھر گہری چوٹ لگی۔
’’پتہ نہیں کیسی بد نصیب بیٹی خدا نے ہم کو دی ہے۔‘‘ جاوید میاں گردن ہلاتے ہوئے بولے۔
’’اس سے زیادہ تو ہم بدنصیب ہیں جو ہمیں ایسی بیٹی ملی۔ کسی نہ کسی طرح شادی بھی ہوئی تو پھر ہمارے سر پر آکر بیٹھ گئی۔ معلوم نہیں یہ چڑیل کب دم لینے دے گی۔‘‘ نوراں آنسو پی کر بولی۔
’’میں تو کہتا ہوں اس کم بخت سے صاف صاف کہہ دو کہ اس کی سسرال ہی اب اس کا گھر ہے۔ ہزار زیادتیاں اس کے ساتھ کی جائیں، لیکن اب اسے ہر حال میں سب کچھ برداشت کرنا چاہیے اور وہیں رہنا چاہیے۔‘‘جاوید میاں نے کہا۔
’’اگر حیا نام کی کوئی چیز اس میں ہوتی تو جوتیاں کھا کر بھی وہاں سے یہاں نہ آتی۔ اس ناسمجھ کے دماغ میں یہ بات نہیں آتی کہ لوگ کیا کہیں گے؟ سب طعنے دیں گے کہ میکے میں پڑی رہتی ہے۔ سسرال میں کوئی عزت نہیں۔‘‘
شمع نے والدین کی باتیں سنیں اور انھیں اس بات کا موقع نہیں دیا کہ وہ شمع سے چلے جانے کو کہیں بلکہ وہ خود ہی ان کی اجازت لے کر سسرال چلی گئی۔
وہاں پہنچ کر اس نے آہستہ سے دروازہ کھولا اور سہمی سہمی سی اندر دیکھنے لگی۔ لیکن اندر کا نظارہ دیکھتے ہی وہ اپنے آپ کو سنبھال نہ سکی اور دیوار کے سہارے چپک کر کھڑی ہوگئی۔
اس کا شوہر عمران سامنے بیٹھا زور زور سے ہنس رہا تھا۔
’’کیسا بے وقوف بنایا۔‘‘ وہ بولا۔
’’امی جان نے تو رونے کی اتنی اچھی ایکٹنگ کی بھائی جان! کہ بس کیا بتاؤں۔‘‘ روشنی چہکتے ہوئے بولی۔
’’چلو ایک بڑی مصیبت سے نجات مل گئی۔ آخر کار وہ اپنے گھر چلی گئی۔‘‘ امی جان نے ٹھنڈی سانس لی۔
’’لیکن اب زیادہ خوش بھی نہ ہوں۔ بس جلدی سے دہرہ دون چلنے کی تیاری کیجیے۔ ٹھیک سات بجے شام کو یہ گھر چھوڑ دینا ہے۔‘‘ عمران بولا
’’ہمیشہ کے لیے۔‘‘ نند نے قہقہے لگائے۔ ’’اور پھر دہرہ دون میں میری نئی بھابھی آئے گی، بہت سارا جہیز لے کر۔‘‘
’’ارے بے وقوفو! دروازہ تو بند کردو۔‘‘ امی جان آواز دباکر بولیں۔
روشنی جیسے ہی آگے بڑھی، شمع اندر چلی آئی۔ اسے دیکھ کر تینوں کے ہوش اڑگئے۔ چہرے سفید پڑگئے۔ ہونٹ خشک ہوگئے۔ شمع نے ایک بار سب کی طرف دیکھا اور پھر اپنے کمرے میں چلی گئی۔
’’اب کیاہوگا؟‘‘ امی جان گھبرا کر بولیں۔
’’اب بہتر یہی ہے کہ اس کو زہر دے دیں۔‘‘ عمران نے مشورہ دیا۔
’’لیکن بھائی جان! اس کے ماں باپ جب اس کے بارے میں پوچھیں گے تو ہم کیا جواب دیں گے؟‘‘ روشنی نے کہا۔
’’اس کے ماں باپ کو اس کی کب پروا رہتی ہے۔ جب ہم یہ شہر ہی چھوڑ دیں گے تو وہ ہمیں کیسے ڈھونڈیں گے؟ ہم لوگوں کو ڈھونڈنا ان کے لیے آسان نہیں۔‘‘ عمران نے جواب دیا۔
اس کے بعد تینوں نے شمع سے معافی مانگی اور اسے یقین دلانے کی کوشش کی کہ اب اس کے ساتھ ایسا برتاؤ کبھی نہیں ہوگا۔ ان کی باتیں سن کر شمع زار و قطار رونے لگی اور روتی ہی چلی گئی۔ عمران نے موقع اچھا دیکھا اور امی جان کی طرف اشارہ کیا۔ امی جان نے فوراً اشارے کو پہچانا اور تھوڑی ہی دیر میں ایک پیالے میں دودھ لے کرشمع کے پاس گئیں اور اس کے سر پر ہاتھ رکھ کر بولیں:
’’رو مت بیٹی! ہم نے تم کو بہت دکھ پہنچایاہے۔ ہم سب تم سے معذرت خواہاہ ہیں۔ آنسو پوچھو اور یہ دودھ پی لو۔‘‘
شمع نے اس طرح ان کا چہرہ دیکھا گویا وہ یہ چال سمجھ گئی ہو۔ اور سچ مچ ایسا ہی تھا۔ وہ سمجھ گئی کہ اس دودھ میں زہر ہے۔ یہ جان کر شمع میں جیسے ایک نئی زندگی آگئی۔ اس نے مسکراتے ہوئے پیالہ ہاتھ میں لے لیا اور بولی:
’’امی جان! آج آپ اتنی محبت سے مجھے دودھ دے رہی ہیں۔ بھلا میں کیسے انکار کرسکتی ہوں۔‘‘ یہ کہہ کر جیسے ہی اس نے پیالہ ہونٹوں سے لگایا، نہ جانے کیوں امی جان کانپ گئیں اور انھوں نے چیخ کر کہا: ’’ٹھہرو شمع… یہ مت پیو۔‘‘ ان کی آنکھوں میں آنسو تیر رہے تھے۔ ’’میں کسی کی جان نہیں لے سکتی۔ میں قاتل نہیں ہوسکتی۔‘‘
’’قاتل…؟‘‘ سب کچھ جانتے ہوئے بھی شمع نے اس طرح پوچھا جیسے وہ کچھ نہیں جانتی۔
’ہاں بیٹی… اس میں زہر ہے۔ اسے مت پیو۔ آخر مجھے خدا کے گھر بھی جانا ہے۔ خدا نے مجھے بھی بیٹی دی ہے۔ ایک بیٹی کی ماں ہوتے ہوئے آج مجھے احساس ہورہا ہے کہ تو بھی کسی کی بیٹی ہے۔ بے گناہ… بے قصور۔‘‘ انھوں نے ڈبڈبائی آنکھوں سے روشنی کی طرف دیکھا اورپھر شمع کے آگے ہاتھ جوڑ دیے۔
’’جو کچھ ہوا اسے بھول جاؤ بیٹی۔ (روشنی کی طرف دیکھتے ہوئے) ایک دن یہ بھی تیری طرح اپنی سسرال جائے گی… اور پھر اس کو ان گناہوں کی سزا …‘‘ امی جان رونے لگیں۔
’’امی جان! حقیقت تو یہ ہے آپ کو اس وقت مجھ سے زیادہ روشنی کا خیال ہے۔‘‘ شمع آنسو پی کر بولی:’’نہیں بیٹی! ایسا مت کہو۔ لاؤ یہ پیالہ مجھے دے دو۔‘‘
شمع نے پیالہ اپنے ہونٹوں سے لگالیا۔
’’شمع…‘‘ امی جان گھبرا کر چیخیں۔
’’شمع کو مت روکیے امی جان! شمع کو تو ایک دن ختم ہونا ہی ہے۔ وہ جلتے جلتے پگھل کر ختم ہوجاتی ہے۔ مجھے خوشی ہے کہ میرے جل جانے کے بعد ایک ایسی سحر ہوگی جب سب کے دامن میں مسرت کے پھول بکھیر دے گی۔ آپ کے دامن میں … میرے والدین کے دامن میں۔ الوداع…‘‘ اس سے پہلے کہ پیالہ اس کے ہاتھ سے کوئی چھینتا اس نے ایک ہی سانس میں پورا پیالہ حلق سے اتار لیا اور کسی کٹے ہوئے درخت کی مانند فرش پر گر پڑی وہ موت کے منھ میں جاچکی تھی، لیکن اس کے ہونٹوں پر ایک پرسکون مسکراہٹ کھیل رہی تھی۔