’’نورو بابا، نورو بابا!‘‘
بنجر پہاڑوں کی وسعتوں میں ایک آواز گونجی اور سنگلاخ چٹانوں سے ٹکراتی ہوئی اس کی بازگشت یوں سنائی دینے لگی جیسے ہزاروں انسان مل کر پکار رہے ہوں:
’’نورو بابا، نوروبابا!‘‘
وہ ایک چھجے دار چٹان کے نیچے بیٹھا مکئی کی روٹی اچار کے ساتھ کھا رہا تھا، چونک کر تیزی سے اٹھ بیٹھا۔وہ اپنے پوتے بشیر کی آواز پہچان چکا تھا۔ اس نے نیچے جھک کر چھاگل اٹھائی اور پانی کے دو تین گھونٹ لے کر خشک نوالہ حلق سے نیچے دھکیل دیا۔ پھر وہ تقریباً بھاگتا ہوا سامنے والی ٹیکری پر چڑھ گیا اور اپنے منہ کے گرد دونوں ہاتھوں کا ہالہ بناکر زور سے پکارا:
’’بشیرے، او بشیرے!‘‘ دوسرے ہی لمحے یہ آواز چاروں طرف گونج اٹھی۔
’’بابا، او بابا! بھوری کہیں کھوگئی ہے۔‘‘ دائیں طرف واقع چراگاہ کے سرے پر کھڑے بشیر نے پکارا تو وہ تیزی سے ٹیکری سے نیچے اترا اور اپنی چھاگل اور چھڑی اٹھا کر جنگل کی طرف جانے والی پگڈنڈی پر تیز تیز قدموں سے چلنے لگا۔
سہ پہر کے چار بج چکے تھے۔ درختوں اور چٹانوں کے سائے لمبے ہونے شروع ہوگئے تھے۔ مغرب کی سمت سورج بادلوں میں گھرا ہوا تھا۔ پہاڑوں کے کسی حصے پر سنہری خوشگوار دھوپ پڑ رہی تھی تو دوسرا حصہ سائے سے ڈھکا ہوا نظر آرہا تھا۔ پہاڑوں کی عقبی سمت بلند چٹانوں سے لپٹی ہوئی نمکین پانی کی جھیل کبھی تیز سرخ روشنی میں نہا جاتی اور کبھی نیلے شفاف پانیوں پر ہلکی سی تاریکی چھا جاتی۔ نورو بابا موسم کے ان تیوروں سے اچھی طرح واقف تھا کہ یہاں بادل پل بھر میں غضبناک ہوکر چنگھاڑنے لگتے ہیں اور پھر جب بارش ہوتی تو تند و تیز پہاڑی ندی نالے اپنے سامنے آنے والی ہر رکاوٹ کو خس و خاشاک کے مانند بہاکر لے جاتے۔ اگر کبھی کبھار اولے پڑنا شروع ہوتے تو سر چھپانا مشکل ہوجاتا، یہ سب کچھ سوچ کر اس کے قدموں میں مزید تیزی آگئی۔
شاید میں اب بوڑھا ہوگیا ہوں! اس نے چلتے چلتے سوچا۔ سارا کام تو بشیرا کرتا ہے، اگر وہ نہ ہو تو ان سیکڑوں بکریوں کو کون سنبھالے؟ کون بحفاظت گھروں تک پہنچائے؟
ابھی چند ماہ پہلے کی بات تھی کہ بشیرا بخار کی وجہ سے اس کے ساتھ نہ آسکا تھا اور اسی روز مدتوں سے روٹھے ہوئے بادل جمع ہوئے، پھر وہ بارش ہوئی کہ پل بھر میں جل تھل ہوگیا۔ بجلی کی خوفناک کڑک سے بکریاں جو ڈر کے بھاگیں تو کوئی پانی میں بہتی ہوئی جھیل تک جاپہنچی، کوئی چٹانوں پر سے پھسلی تو نیچے گوشت کے بے جان لوتھڑے کی شکل میں گری، کوئی نوکیلی جھاڑیوں میں ایسی پھنسی کہ اس کی روح ہی وہاں سے آزاد ہوسکی۔ اس دن وہ بہت بھاگا تھا، دیوانوں کی طرح۔ اور اسی دن اسے معلوم ہوگیا کہ اب وہ بوڑھا ہوچکا ہے اور بائیس سال سے بکریوں کے پیچھے دوڑتی بھاگتی جھریوں بھری ٹانگوں میں اتنی جان نہیں رہی کہ وہ پتھریلی چٹانوں اور گھنے چھدرے جنگل میں اچھلتی کودتی بکریوں پر قابو پاسکے، چنانچہ اس روز جب وہ سرجھکائے کیچڑ میں لت پت گاؤں میں داخل ہوا تو پہلی بار گاؤں کے باسیوں نے دیکھا کہ بکریوں کی تعداد میں بہت کمی واقع ہوچکی ہے، لیکن سب مہربہ لب تھے اور جانتے تھے کہ پچھلے بائیس برسوں میں پہلی مرتبہ ان کی امانت ان تک واپس نہیں پہنچی تھی!
نورو بابا بھی جانتا تھا کہ وہ کچھ نہیں بولیں گے، لیکن ان کی نگاہوں کی تپش اسے کئی روز تک انگاروں پر لوٹاتی رہی تھی۔ امیر علی جس کی چھ بکریاں بارش کی نذر ہوگئی تھیں، سکتے کے عالم میں اسے یوں گھورتا رہا جیسے اسے یقین ہی نہ آرہا ہو کہ ایسا بھی ممکن ہے! چنانچہ جب وہ بولا تو اس کا لہجہ زہر میں ڈوبا ہوا تھا: ’’بابا نور محمد، یہ کام اب بشیرے ہی کو سونپ دو، وقت بہت بدل چکا ہے۔ ویسے بھی غافل چرواہا اور چوکیدار صرف نقصان ہی کی خبر سناسکتے ہیں!‘‘ اور نورو بابا اس کا اشارہ سمجھ گیا، وقت تو وہیں کا وہیں تھا البتہ اس کے بالوںمیں سفیدی نے ضرور ڈیرے جمالیے تھے۔ چنانچہ چند روزبعد نور محمد چرواہا گاؤں بھر کا نورو بابا بن چکا تھا۔
بشیرا جنگل کے سرے پر واقع پتھروں کی ٹوٹی پھوٹی دیوار پر بیٹھا اسی کی طرف دیکھ رہا تھا۔ جب وہ اس کے قریب پہنچا تو وہ دھیمی مگر جھنجھلائی ہوئی آواز میں بولا: ’’بابا، میاں صاحب کی بکری آج پھر ریوڑ سے غائب ہے۔‘‘
’’صبر سے بیٹا، صبر سے، حیوان مال ہے، بے چاری یہیں کہیں کسی جھاڑی میں دبکی بیٹھی ہوگی۔ لگتا ہے آج پھر تو نے اس کی مرمت کی ہے۔‘‘ نورو بابا نے شرمندہ شرمندہ بیٹھے بشیر کی طرف غور سے دیکھا اور پھر مسکراتے ہوئے بولا: ’’غصہ دکھاؤگے تو ایسا ہی ہوگا۔ غصے سے آج تک ہمیشہ بگاڑ ہی پیدا ہوا ہے بیٹے! اور جانور تو ویسے بھی پیار کا بھوکا ہوتا ہے، اس سے پیار بھرا سلوک کرو گے تو وہ تم پر جان نچھاور کردے گا۔‘‘
’’نرمی! پیار! نہیں بابا، مجھ میں تیری طرح اتنی ہمت نہیں ہے۔ نہ میں ان ڈھلانوں پر دوڑ لگاسکتا ہوں۔ میرا بس چلے تو اس کمبخت کے ملتے ہی اس کی ٹانگیں توڑدوں۔‘‘ بشیر بری طرح بھڑک اٹھا۔
’’ہاہاہا‘‘ نورو بابا اپنے مخصوص انداز میں ہنسا، ’’بیٹے سب کو اکٹھا رکھنے کے لیے ضبط سے کام لینا پڑتا ہے ورنہ ریوڑ ٹوٹ کر بکھر جاتا ہے۔ اور یہ جو تجھے پہاڑوں پر دوڑنا بوجھ معلوم ہوتا ہے، اس کی وجہ یہ ہے کہ تو نے ان پہاڑوں سے دوستی نہیں کی۔ کچھ عرصے کے بعد جب یہ پہاڑ تیرے راز داں بن جائیں گے، تیرے دکھ سکھ، تیرے گیت سننے شروع کردیں گے تو پھر تو ان سے بچھڑ کر پل بھر کے لیے بھی نہیں رہ سکے گا۔ یہی بنجر پتھر تیرا سرمایہ بن جائیں گے اور ہاں…‘‘ وہ ہاتھ اٹھا کر بولا: ’’جب تو ان پہاڑوں سے آشنا ہوجائے گا تو یہ اپنا تمام تر خزانہ تیرے سامنے اگل دیں گے۔ مخبری کریں گے کہ فلاں بکری، فلاں گائے کون سی جگہ چھپی ہوئی ہے!‘‘ اس کے لہجے میں بائیس برس کے تجربے کا غرور تھا۔
’’ٹھیک ہے، ٹھیک ہے بابا!‘‘ بشیر اس کی فلسفیانہ باتوں سے اکتا گیا ۔ ’’اب اصل مسئلہ یہ ہے کہ میں اس بھوری بلا کو کہاں سے ڈھونڈ کر لاؤں جس نے میری جان عذاب میں ڈال رکھی ہے؟‘‘
’’میں ابھی اسے نکال لاتا ہوں، بلکہ وہ جہاں کہیں بھی ہے، خود آجائے گی۔‘‘ نورو بابا نے پراعتماد لہجے میں کہا اور پھر تیزی سے قدم اٹھاتا ہوا بڑے پتھر پر کھڑا ہوگیا۔
’’چہ چہ، ہو ہو، بھوری!‘‘ وہ اپنی مخصوص آواز میں بڑے والہانہ انداز میں پکارا، بالکل اسی طرح جیسے کوئی باپ پیار سے اپنی بیٹی کو بلارہا ہو۔ ابھی اس کی آواز کی گونج پہاڑوں میں باقی تھی کہ میاں صاحب کی موٹے موٹے سینگوں والی بھوری بکری پھلاہی کے درختوں کے جھنڈ میں سے نکلی اور کودتی پھلانگتی نورو کے پاس پہنچ کر اس کی ٹانگوں سے اپنا جسم رگڑنے لگی۔ نورو بابا نے فاتحانہ نظروں سے بشیر کی طرف دیکھا جو اس سے آنکھیں چرا رہا تھا۔
’’دیکھا بیٹے! پیار، انسان ہو یا جانور، سب کو اپنی طرف کھینچ لاتا ہے۔‘‘ وہ بڑی شفقت سے بکری کی گردن پر ہاتھ پھیرتے ہوئے بولا: ’’لو اب اسے سنبھالو! میں گاؤں تک چلتا ہوں۔ عصر کی نماز کا وقت ہونے ہی والا ہے۔‘‘
بشیر نے بکری کو کچھ دور چرتے ہوئے ریوڑ کی جانب ہانک دیا جبکہ نورو بابا لمبے لمبے قدم اٹھاتا چراگاہ سے نکلا اور مکئی کے ہرے بھرے کھیتوں والی پگڈنڈی پر چلنے لگا۔
کھیتوں کے اختتام پر پکی سڑک شروع ہوجاتی تھی۔ جس کے دائیں طرف میٹھا پانی فراہم کرنے والا گاؤں کا واحد کنواں تھا۔ سہ پہر ہوتے ہی گاؤں بھر کے مرد و زن گدھوں پر گھڑے لادے یا سر پر اٹھائے کنویں کا رخ کرتے۔ وہاں اکثر اوقات جمگھٹا سا لگا رہتا تھا، لیکن آج تو وہاں پورا مجمع موجود تھا، لوگوں کے چیخنے اور رونے کی آوازوں نے نورو بابا کو بھی اپنی جانب متوجہ کرلیا۔ اس نے پیشانی پر ہاتھ رکھ کر چندھیائی ہوئی آنکھوں سے کنویں کی جانب دیکھا تو اس کا دل پہلو میں دھڑکنے لگا۔ یا الٰہی خیر! کہیں آج کوئی اور تو کنویں کی نذر نہیں ہوگیا۔ اس کے دل میں وسوسے جاگ اٹھے۔ کنویں پر منڈیر اور چرخیاں نہ ہونے کی وجہ سے اکثر کوئی نہ کوئی پھسل کر کنویں میں جاگرتا تھا اور ہمیشہ کی نیند سوجاتا تھا۔ گاؤں کا نمبردار لوگوں کے بار بار مطالبے کے باوجود منڈیر نہیں بنواتا تھا بلکہ حکومت سے ملنے والا تمام تر پیسہ ڈکار مارے بغیر ہضم کرجاتا۔ گاؤں کے غریب لوگوں کی اتنی استطاعت نہیں تھی کہ وہ اس ظلم کے خلاف کوئی آواز بلند کریں یا منڈیر خود بنواسکیں۔ ان تمام وجوہ نے مل کر کنویں کو گاؤں والو ںکے لیے پھانسی گھاٹ بنادیا جہاں وہ ہر روز اپنی مرضی اور خوشی سے تختے پر جاکھڑے ہوتے تھے۔ نورو بابا لرزتے ہوئے قدموں سے بھاگا۔
’’محمد بخش، کیا بات ہوئی؟ اتنے لوگ کیوں جمع ہیں؟ ‘‘ اس نے گاؤں کے کمہار سے پوچھا جو ایک جانب الگ سرجھکائے کھڑا تھا اور جب وہ بولا تو اس کے بدترین اندیشوں کی تصدیق ہوگئی۔
’’بابا نور محمد، ممتاز کنویں میں گرگیا ہے۔ اس کی لاش نکالی جارہی ہے۔‘‘ محمد بخش آنسوؤں کو داہنے ہاتھ کی پشت سے صاف کرتے ہوئے بھرائی ہوئی آواز میں بولا۔
’’کیا؟‘‘ نورو بابا کے سر پر جیسے کسی نے منوں وزنی پتھر دے مارا ہو، وہ سکتے کے عالم میں کھڑا ہوگیا۔ ممتاز ڈوب گیا تھا۔ شریفاں بی بی کا اکلوتا بیٹا اور آخری سہارا۔ گاؤں کا واحد جوان جو کالج میں پڑھ رہا تھا اور جس کے لیے افسر بننے کی دعائیں کئی بار خود اس نے مانگی تھیں۔ اس کا دل کسی نے مٹھی میں جکڑ کر مسلنا شروع کردیا اور آنکھوں کے سامنے تارے ناچنے لگے۔ اسے چیخوں کے طوفان میں شریفاں بی بی کی بلبلاتی ہوئی آواز صاف سنائی دے رہی تھی جو پچھاڑیں کھا کھا کر دلدوز آواز میں بین کررہی تھی اور جسے کئی عورتوں نے جکڑ کر کنویں سے دور کررکھا تھا۔ نورو بابا اپنے ارد گرد کے ماحول سے بیگانہ ہوگیا۔ خود فراموشی کی یہ کیفیت نہ جانے کتنی دیر اس پر طاری رہی۔ جب وہ ہوش میں آیا تو مجمع چھٹ چکا تھا اور لوگ لاش نکال کر جاچکے تھے۔ اس نے اپنی دکھتی ہوئی آنکھوں کو میلی قمیص سے صاف کیا اور بوجھل قدموں کے ساتھ گاؤں کی طرف بڑھنے لگا۔
انگہ وسیع رقبے پر بکھرا ہوا گاؤں تھا جس میں مکانات سیڑھی در سیڑھی پہاڑی پر چڑھتے چلے جاتے تھے۔ نشیب سے پہلی نگاہ مسجد کے بلند و بالا میناروں پر پڑتی تھی جو اس چٹانی وادی میں سرتانے کھڑے تھے۔ نورو بابا نے ایک لحظہ تھم کر پیشانی پر ہاتھ کا چھجا بناکر سورج کا اندازہ کیا اور مضبوط قدموں سے مسجد کی جانب ہولیا۔
مسجد کے صحن میں جہا ںبیری کے سوسالہ پرانے جناتی حجم کے درخت نے سایہ کررکھا تھا، خاصے لوگ جمع تھے۔ ایک شخص موڑھے پر جبکہ پچیس تیس لوگ دریوں پر بیٹھے تھے۔ مسجد میں داخل ہوتے ہی نورو بابا کی نگاہ ان پر پڑی۔ موڑھے پر بیٹھے شخص کو پہچان کر اس کے چہرے پر حیرت کا کھنچاؤ درآیا۔
’’نمبردار ملک شریف‘‘ ۔ وہ منہ ہی منہ میں بڑبڑایا۔ اس کی حیرت بجا تھی کیونکہ ملک شریف کو آج تک کسی نے مسجد میں نماز پڑھتے نہیں دیکھا تھا، البتہ وہ سال میں ایک دفعہ ضرور مسجد آتا تھا۔ گاؤں کو ملنے والے ترقیاتی فنڈ، زکوٰۃ فنڈ اور اس طرح کی دیگر رقوم ہضم کرتے کرتے جب اس کے ضمیر کو’’چک‘‘ پڑجاتی تو وہ فوراً حج پر روانہ ہوجاتا۔ حج سے واپسی پر اس کے پاس کھجوروں کے ٹوکرے ہوتے اور آبِ زم زم سے بھرے ہوئے کین جو وہ گاؤں کی مسجد میں آکر ’’مستحقین‘‘ میں سرپرستانہ انداز میں تقسیم کرتا۔ اس موقع پر گاؤں کی مسجد کا مولوی محمد یعقوب طنزیہ انداز میں نورو بابا کے کانوں میں سرگوشی کرتا۔ ’’مدینہ پاک کی کھجوریں کھانے اور آبِ زم زم پینے سے انسان کے سارے گناہ معاف ہوجاتے ہیں خواہ ملک شریف کے گناہوں جتنے ہی کیوں نہ ہوں۔‘‘
تو گویا ایک اور حج۔ نورو بابا کے سینے میں اک ہوک سی اٹھی اور اس کی آنکھوں میں اترنے والے اچانک پانی نے اس کی نظروں کے سامنے جالا بن دیا۔ ’’میری باری میں کیوں اتنی دیر؟‘‘ اس نے ڈبڈبائی آنکھوں سے آسمان کی طرف دیکھا اور پھر دائیں طرف واقع حجرے کی طرف بڑھ گیا جہاں وضو کے لیے مٹی کے کوزے رکھے تھے۔
وضو سے فارغ ہوکر وہ صحن میں پہنچا۔ ملک شریف تبرک تقسیم کرنے کے بعد اب مسجد سے روانہ ہونے والا تھا۔ نورو بابا نے احتراماً جھکتے ہوئے اسے مبارکباد دی۔
’’نور محمد‘‘ ملک شریف زیر مونچھ مسکرایا۔ ’’تمہارے اور بشیرے کا حصہ عنایتا گھر پہنچادے گا۔‘‘
’’مہربانی ملک صاحب‘‘ نورو بابا ملتجیانہ انداز میں بولا: ’’ملک صاحب آج کل کیا خرچ ہے اللہ اور رسولؐ کے گھر جانے کا؟‘‘ دریوں پر بیٹھے دس پندرہ افراد نے گھور کر اس کی طرف دیکھا۔
’’پچاس ہزار نور محمد۔ پورا آدھا لاکھ روپیہ۔‘‘ ملک شریف نے قہقہہ لگایا جس میں تکبر کی گونج تھی۔
’’تمہیں کیا شوق چڑھا پیسے پوچھنے کا! کیا حج پر جانے کا ارادہ ہے؟‘‘ اس کے لہجے میں طنز کی کاٹ نمایاں تھی۔
’’ہماری طاقت اور ہمارے نصیب کہاں ملک صاحب!‘‘ نورو بابا نے شکستہ لہجے میں کہا اور کلف لگے کاٹن کے کرتے کے نیچے ملک شریف کا سینہ کچھ اور پھول گیا۔
نورو بابا کو یک لخت جیسے کچھ یاد آیا۔ ’’ملک صاحب ایک عرض کرنا تھی جی۔‘‘ وہ بھیگے بھیگے لہجے میں بولا۔
’’کیا بات ہے؟‘‘ ملک شریف کی فراخ پیشانی پر چار پانچ لکیریں ابھر آئیں۔
’’ملک صاحب! آج شریفاں بی بی کا اکلوتا بیٹا ممتاز بھی کنویں میں گرگیا ہے جی۔‘‘ اس کے الفاظ زخمی تھے۔
’’پھر؟‘‘ ملک صاحب کے ساتھ ان کے حواریوں کی پیشانیوں پر بھی جھنجھلاہٹ نے ہل چلا دیے۔ ’’پتہ ہے، اسی مسجد سے اس کے مرنے کا اعلان ہوا ہے۔‘‘
’’وہ جی کنویں کی منڈیر بن جائے۔ دو چرخیاں لگ جائیں تو ہماری مشکلیں آسان ہوجائیں ملک صاحب!‘‘ وہ سہما سہما بولا۔
’’نور محمد!‘‘ ملک شریف مونڈھے سے اٹھا اور اس نے اپنے کندھے پر رکھا صافہ پٹاخے کی آواز سے جھٹکا۔ ’’تم چرواہے ہو نور محمد! یہ کام تمہارے سوچنے کا نہیں۔ اپنی بکریوں کی فکر کرو۔ آج کل بارشیں بہت ہورہی ہیں۔ یہ کام بھی ہوجائے گا۔‘‘ فہمائشی انداز میں آخری الفاظ کہتے ہوئے اس نے صحن سے باہر کا راستہ لیا اور اس کے حواری بھی اس کے پیچھے لپکے۔ صحن میں موجود باقی افراد نور محمد کو کھوئی کھوئی نگاہوں سے تک رہے تھے جیسے وہ کسی ناقابلِ معافی جسارت کا مرتکب ہوا ہو۔ وہ خفت اور بے چارگی کے ملے جلے احساسات لیے اس وقت تک کھڑا رہا جب تک مولوی یعقوب اس کے کاندھے پر ہاتھ رکھ کر اسے مسجد کے اندر نہ لے گیا۔
عصر کی نماز نورو بابا نے ناقابلِ بیان کیفیت میں پڑھی۔ اس کے اندر رسنے والے آنسوؤں نے اس کی سوچ پر چادر تانے رکھی۔ رہ رہ کر ایک باز گشت اس کے من کے ویرانے میں گونجتی تھی۔ ’’میری باری میں کیوں اتنی دیر؟‘‘ وہ سوچتا رہا۔ ’’ملک صاحب ہر سال حج پر جاتے ہیں۔ میں گزشتہ پینتیس برسوں سے مٹکے میں سینت سینت کر پیسے رکھتا چلا جاتا ہوں جو بمشکل بیس ہزار ہوئے ہیں۔ یہ پچاس ہزار کب پورے ہوں گے؟ کیا پینتیس برس اور؟ کیا میرے نصیب میں اس جگہ جانا نہیں جہاں کی کھجور کو بھی میں تعویذ کے مانند گلے میں ڈالے پھرتا رہتا ہوں۔‘‘ وہ انہی کیفیات میں گم سم نماز کے بعد بھی بیٹھا رہا حتی کہ مولوی یعقوب نے اسے جھنجھوڑا۔
’’نور محمد!‘‘ وہ شفیق انداز میں مسکرایا۔ ’’یہ توفیق کی بات ہے نور محمد! زور زبردستی نہیں چلتی۔ یہ تو بلاوا آنے کی بات ہے بھئی۔‘‘ اس نے نورو بابا کے شانے پر دوستانہ تھپکی دی۔
نورو بابا نے خالی خالی نگاہوں سے اس کی طرف دیکھا۔ مولوی یعقوب اس کی کیفیت سمجھ گیا تھا اور کیوں نہ سمجھتا؟ گاؤں بھر میں وہ اس کا واحد راز دار تھا۔ مولوی یعقوب بھی حج پر جانے کے لیے پیسہ پیسہ جوڑ رہا تھا، اس لیے اس کے جذبات سے آگہی رکھتا تھا۔ اسے بھی نورو بابا کی طرح یقین تھا کہ ایک روز بلاوا ضرور آئے گا۔ تبھی اس کے لہجے میں قناعت اور ایقان کی ملی جلی مہک ہوتی تھی۔ نورو بابا کو اس نے سیکڑوں بار گڑگڑا کر ڈبڈباتی آنکھوں سے حاضری کی دعائیں مانگتے دیکھا۔ جب کبھی نعت پڑھی جاتی تو نورو بابا کی ٹھہری ہوئی آنکھوں سے پانی نکل کر اس کے سال خوردہ گالوں پر لکیریں بناتا ہوا داڑھی سے ٹپک ٹپک کر قمیص کے اندر جذب ہوتا رہتا اور مولوی یعقوب کو نہ جانے کیوں یقین ہونے لگا کہ نور محمد کا بلاوا آنے ہی والا ہے۔
’’دیکھو نور محمد ! یہ توفیق کی بات ہے۔ گھر والا اپنی مرضی کے بغیر تو کسی کو اندر نہیں آنے دے گا نا۔‘‘ مولوی یعقوب حوصلہ افزا انداز میں مسکرایا۔
’’توفیق، بلاوا۔‘‘ نورو بابا تھکے تھکے لہجے میں بولا: ’’یہ بلاوا آخر ہر دفعہ ملک صاحب ہی کو کیوں آجاتا ہے؟‘‘ اس نے پہلی دفعہ شکایت کی۔
’’نہیں نور محمد!‘‘ یہ توفیق یا بلاوا نہیں۔ ایسے لوگ تو زبردستی خدا و رسولؐ کے گھر میں جاگھستے ہیں اور پھر وہاں سے جو کچھ ہاتھ آئے، اسے حاضری کے ثبوت کے طور پر اٹھا لاتے ہیں۔ کھجوروں کے ٹوکرے، آبِ زم زم کے ڈبے۔ پر یہ حاضری نہیں نور محمد!‘‘ مولوی صاحب بھرائی آواز میں بولے۔
’’لیکن پچاس ہزار بہت زیادہ ہیں۔ کہاں بیس کہاں پچاس۔‘‘ نورو بابا کی آواز ٹوٹ گئی۔
’’نور محمد! کوشش کرنے والے کا کام سیڑھیاں چڑھنا ہوتا ہے سیڑھیاں گننا نہیں۔‘‘ مولوی یعقوب پر عزم لہجے میں بولا۔ ’’آؤ ممتاز کے جنازے کا وقت ہوگیا ہے۔‘‘
’’ممتاز!‘‘ نورو بابا پر جیسے کسی نے بالٹیوں بھر ٹھنڈا پانی انڈیل دیا ہو۔ ’’ہاں بے چاری شریفاں، کنواں خونی ہوگیا ہے یعقوب بھائی۔‘‘
’’کنواں خونی نہیں ہوا۔ اس کا پانی پینے والوں کاخون پانی ہوگیا ہے۔‘‘ مولوی یعقوب کا لہجہ تلخ ہوگیا۔’’یہ جو نمبردار ہوتا ہے نا، یہ قوم کا چرواہا ہوتا ہے۔ جب وہ اپنی بھیڑوں کو خود ہی بھیڑیے کے آگے ڈال دے تو کنووں سے پانی کے بجائے خون رستا ہے اور فصلوں کی جگہ سرکنڈے اگتے ہیں۔‘‘ مولوی یعقوب فوج کا پنشن یافتہ، آٹھ جماعتیں پڑھا لکھا تھا۔ ملک شریف کے ذکر پر اس کے لہجے میں بغاوت کی بو در آئی تھی اور وہ بھی اسے اپنی آنکھوں میں کھٹکنے والا کانٹا سمجھتا تھا۔
’’منڈیر کب بنے گی؟ لوگ کب مرنا بند ہوں گے؟‘‘ نورو بابا نے جیسے خود سے سوال کیا۔
’’ہم بحیثیت قوم ہر مشکل سے نجات کے لیے امام مہدی کے منتظر ہیں۔ لگتا ہے یہ مسئلہ بھی وہی حل کریں گے۔‘‘ مولوی کی اس بات پر نورو بابااسے گھورتا رہا۔ ’’امام مہدی کون؟‘‘ کبھی کبھی اسے مولوی یعقوب کی باتیں بالکل سمجھ میں نہیں آتی تھیں۔
پتہ نہیں وہ کون سا لمحہ تھا … شاید جب وہ مسجد سے جنازہ گاہ پہنچا تھا یا جب اس نے نمازِ جنازہ کی نیت کی تھی یا جب اس نے ممتاز کا پھولا ہوا مسخ چہرہ دیکھا تھا، ایسے ہی کسی لمحے میں اس پر کچھ منکشف ہوا تھا۔ نہ معلوم کیا؟ بس اسے یہ پتہ چلا کہ کوئی رمز ہے جس سے وہ اچانک آشنا ہوگیا ہے۔ مدتوں پہلے کسی کا سنایا ہوا واقعہ اس کے دماغ کی بھول بھلیوں میں گونجا تھا کہ کسی شخص نے حج پر جانے کی نیت سے پوری عمر دینار جمع کرنے میں گزار دی، لیکن جب وہ حج پر روانہ ہونے لگا تو اسے اپنے پڑوس میں ایک مفلوک الحال اور فاقہ مست خاندان کے بارے میں علم ہوا جس پر اس نے اپنی ساری رقم ان لوگوں میں تقسیم کردی۔ جب فرشتوں نے حج پر جانے والے ستر ہزار لوگوں کا قبولیت حج کے حوالے سے حساب کیا تو معلوم ہوا کہ تمام افراد کے برعکس اس شخص کا حج قبول ہوا، جو نیت کے باوجود نہ جاسکا تھا اور جس نے اپنی عزیز ترین متاعِ حیات، اپنی محبوب ترین خواہش خدا کے راستے میں قربان کردی تھی۔ پتہ نہیں اسے یہ واقعہ کیوں یاد آیا تھا اور یاد آتے ہی اس کے وجود میںایک جھماکا سا ہوا تھا جس نے اس کو اتھل پتھل کردیا۔ بس اس نے ایک ارادہ کرلیا اور ساتھ ہی وہ حیران بھی ہورہا تھا کہ اس نے کیا ارادہ کرلیا ہے۔
نمازِ جنازہ سے فارغ ہوکر وہ اپنے دو کمروں کے مکان میں پہنچا تو سورج غروب ہونے والا تھا اور دور پہاڑوں میں شفق کی سرخی چمک رہی تھی۔ نورو بابا نے وقت کا اندازہ لگایا اور پھر بڑبڑایا: ’’بشیرا آنے ہی والا ہوگا۔‘‘ پھر اپنے کمرے میں گھس کر اس نے لالٹین جلائی، دروازے کو اندر سے کنڈی لگائی اور بڑی احتیاط کے ساتھ مٹکے میں ہاتھ ڈال کر ایک گٹھڑی نکالی۔ اس کے اندر جو کچھ بھی تھا وہ تین تہوں میں لپیٹا ہوا تھا۔ اس نے باری باری تینوں چادریں کھولیں اور پھر ایک چادر کو پھیلاتے ہوئے سب سے نچلی تہہ میں موجود تمام رقم چادر پر پھیلادی۔
وہ ساکت نظروں سے لالٹین کی سہمی ہوئی روشنی میں چادر کو گھورتا رہا۔ اس کے سامنے پینتیس برس کی کمائی تھی۔ اکنیاں، چونیاں، اٹھنیاں، چاندی کے روپے اور پھر ایک، دو، پانچ، دس، پچاس، سو روپے کے نوٹ جو انتہائی نفاست سے الگ الگ تہہ کیے رکھے تھے۔ اس کے سامنے سکوں کا ایک ڈھیر تھا اور یہ جمع پونجی اس نے مولوی یعقوب کی مدد سے دو روز پہلے گنی تھی۔ چار سو کم بیس ہزار روپے۔ اس نے ہاتھ پھیلا کر رقم پر رکھا اور اس کی موجودگی کا یقین کیا۔ اس کا دماغ سن تھا اور سارے جذبات و احساسات نہ جانے کہاں منجمد ہوگئے تھے۔ اس نے بے تاثر آنکھوں کے ساتھ سارا منظر آنکھوں میں سمویا اور پھر بڑبڑایا:
’’یہ سارے پیسے میں ابھی مسجد میں دے دوں گا۔‘‘ وہ خود حیران ہوا کہ اس نے کیا کہہ دیا ہے۔
٭٭
مغرب کی نماز ختم ہوتے ہی نورو بابا جس تیزی سے گٹھڑی سنبھالے نمازیوں کے سامنے آیا، اس پر سب لوگ تو کیا خود مولوی یعقوب بھی ششدر رہ گیا۔ نورو بابا خالی خالی چہرہ لیے دور خلاؤں میں گھور رہا تھا اور اس کی آواز دور پار کسی کنویں کی گہرائی سے آرہی تھی۔
’’بھائیو! تکلیف کی معافی چاہتا ہوں۔‘‘ اس نے کپکپاتی ہوئی آواز میں کہا: ’’اس گٹھڑی میں وہ معاوضہ ہے جو آپ لوگوں کی بکریاں چَرانے کے عوض میں پینتیس برس تک لیتا رہا۔ چونیاں، اٹھنیاں، روپے جو کل بیس ہزار کے قریب رقم بنتی ہے۔ میں حج کے لیے جمع شدہ یہ رقم مولوی یعقوب کے حوالے کررہا ہوں تاکہ کنویں کی منڈیر بن جائے۔ چرخیاں لگ جائیں اور آئے دن کنویں میں نہ گرتے رہیں۔ بشیرے کے والد کی وفات کے بعد جب کوئی نیا شخص کنویں میں گرتا ہے تو مجھے ایسا لگتا ہے کہ الطاف، میرا بیٹا، آج پھر مرگیا ہے۔ میں نے پینتیس برس آپ لوگوں کا نمک کھایا ہے، میں باری باری کس طرح آپ لوگوں کو مرنے دوں!‘‘ اس کی آواز تیز آندھی میں گرے خشک پتے کے مانند لرزی۔ ’’میں نے خدا اور رسولؐ کے لیے رقم دی۔ خدا قبول فرمائے۔‘‘
’’آمین!‘‘ ایک بھنبھناہٹ سی اٹھی اور مسجد کے گنبد میں جاکر گونجنے لگی۔ اس کے سامنے موجود لوگوں کی آنکھیں ان کے آنسوؤں کے جوار بھاٹے میں بہہ رہی تھیں۔ کچھ نمازی چہروں پر بے اعتباری کاتاثر لیے اسے گھورتے رہے، لیکن وہ سن، جذبات سے عاری چہرہ لیے کھڑا رہا حتیٰ کہ جب مولوی یعقوب نے بھرائی آواز میں کہا: ’’نور محمد! تم بازی لے گئے نور محمد!‘‘ تو پھر بھی وہ خالی خالی آنکھوں سے سب کو دیکھتا رہا۔ اس کے کانوں میں سائیں سائیں ہوتی رہی۔ پھر غلام علی نے اٹھ کر اس کا دایاں ہاتھ اپنے کاندھے پر رکھا اور آنسوؤں سے بھیگی آواز میں نعت شرو ع کردی۔
نورو بابا کی آنکھیں خلاؤں میں جمی رہیں۔ اس کی محویت میں ذرہ برابر بھی کمی نہیں آئی تھی۔
وہ جب مسجد سے گھر پہنچا تو اسے ایسا لگا جیسے اس نے صدیوں کا سفر طے کیا ہو اور مشقت سے اس کے پاؤں میں آبلے پڑگئے ہوں، لیکن جسم تھکن سے چور ہونے کے باوجود اس کا ذہن مسلسل جمود کی حالت میں تھا۔ بشیرا اپنے کمرے میں چارپائی پر اوندھا پڑا سورہا تھا۔ اس نے اس کے ماتھے پر بوسا دیا اور پھر اپنے کمرے میں آکر دروازہ بند کرلیا۔ اسی ذہنی جمود کی حالت میں وہ بستر پر جھکا ہی تھا کہ لالٹین کی ملگجی روشنی میں ایک نیم چمکدار شے پر اس کی نگاہ پڑی۔ اس نے ہاتھ بڑھا کر وہ شے اٹھالی اور لالٹین کے قریب لاکر اس نے جو کچھ دیکھا اس نے اس کے احساسات پر جمی برف تڑاخ سے توڑ ڈالی۔
ملکہ وکٹوریہ کی تشبیہ … ۳۵ برس پرانا، انگریزوں کے زمانے کا سکہ… سب سے پہلا سکہ جو اس نے حج کی نیت سے جمع کیا تھا۔ اس کے سامنے ریزگاری کا ڈھیر سا آیا۔ گنتی کے ساتھ ساتھ وہ ماضی سے حال کی طرف محوِ پرواز رہا۔ ایک دو تین چار پانچ… پینتیس برس کی گنتی جس نے نور محمد کو نورو بابا بنادیا تھا۔ پینتیس سال کی گنتی، ریاضت اور مشقت اس کے اعضا میں سمارہی تھی۔ پھر اس کے کانوں میں مولوی یعقوب کی آواز آئی: ’’چار سو کم بیس ہزار۔‘‘ سکہ اس کے ہاتھ سے گر کر لڑھکتا چلا گیا اور تب اسے یاد آیا کہ اس نے کیا کردیا ہے۔
اس کے پیٹ میں ایک گولہ سا اٹھا اور رقت کے شدید احساس نے اس کا سانس جکڑ لیا۔ اس کے منہ سے پے در پے سسکاریاں نکلیں جنھوں نے ایک کراہ کی شکل اختیار کرلی۔ پھر وہ ہچکیاں لے لے کر رونے لگا۔ اس کی داڑھی آنسوؤں سے بھیگتی چلی گئی۔ میری بار میں کیوں اتنی دیر…
اب تو ہمیشہ کے لیے دیر ہوچکی تھی۔ اس کے کان میں نامعلوم کہاں سے پھڑپھڑاہٹ کی آواز پڑی اور عالمِ تخیل میں اس نے سفید نورانی پروں والے سیکڑوں کبوتروں کو گنبد خضرا کی سمت اڑتے دیکھا۔
بے بسی کے شدید احساس نے اسے اپاہج کردیا۔ یہ اسے کیا ہوگیا تھا؟ اس نے اپنا سارا زادِ راہ اپنے ہاتھوں سے لٹا ڈالا تھا۔ اسے محسوس ہوا کہ وہ ایک ایسے ملاح کی مانند ہے جس نے پوری عمر کی محنت سے منزل تک رسائی کے لیے کشتی بنائی اور پھر منزل کی جھلک پاتے ہی کشتی کو تختہ تختہ کرکے سمندر میں بہا دیا۔ اس کا سانس بند ہونے لگا۔
نامعلوم کتنی دیر اس کی آنکھیں آنسوؤں کے سیلاب میں تنکوں کے مانند بہتی رہیں حتیٰ کہ وہ چارپائی پر گر پڑا اور اس کی آنکھ لگ گئی، لیکن وہ مکمل طور پر شاید سو نہیں سکا تھا کہ ایک شفیق شکل والے اجنبی نے اسے جگادیا۔
نورو بابا کچھ دیر اسے گھورتا رہا۔ اجنبی کا چہرہ اور خدوخال نامعلوم کیسے تھے کہ ان کو بیان نہیں کیا جاسکتا تھا۔ بس شفقت کا تاثر اس کے پورے جسم سے پھوٹ رہا تھا۔ اس نے نورو بابا کا ہاتھ پکڑا اور زمین جیسے اس کے نیچے سے سرکتی چلی گئی۔ بے وزنی کی ایک عجیب سی کیفیت اس پر طاری ہوگئی۔ کیف و انبساط سے سرشار، ہوا میں تیرتا ہوا وہ نہ جانے کہاں جاپہنچا۔ اسے ایسالگا جیسے اس کا جسم روئی کے گالے کی طرح محوِ پرواز ہو۔ پھر اس کے پاؤں زمین پر لگے اور ساتھ ہی اس کی روح کی پیاسی سرزمین پر کسی نے آب حیات کے چھینٹے دیے۔ اس کے ارد گرد آوازیں تھیں… حمدو ثنا کی آوازیں۔
لبیک اللّٰہم لبیک ان الحمد و النعمۃ لک والملک لا شریک لک… لبیک
اجنبی کا ہاتھ اس کے ہاتھ میں تھا۔ اور اس کے ارد گرد لاکھوں کی تعداد میں سفید احرام باندھے لوگ تھے۔ ذوق و شوق کا بھنور سب کو ایک جانب کھینچ رہا تھا۔ نورو بابا نے دیکھا اور حیران ہوا کہ اس کا لباس احرام میں بدل چکا ہے۔ بہت پیچھے سے کہیں مولوی یعقوب کی آواز ابھری:
’’زور زبردستی نہیں چلتی۔ یہ تو بلاوا آنے کی بات ہے بھئی۔ توفیق کی بات ہے۔‘‘
اس کی روح کی گہرائیوں سے کچھ الفاظ اٹھے اور مناجات کے ہجوم میں شامل ہوگئے۔
لیبک اللہم لبیک… پھر اس کے سامنے حجر اسود تھا جسے وہ چوم رہا تھا۔ خانہ کعبہ کی سطوت و عظمت اس کی ریڑھ کی ہڈی میں سرد لہریں جگا رہی تھی۔ وہ طواف کررہا تھا، کنکریاں مار رہا تھا، مقام ابراہیم پر نفل پڑھ رہا تھا۔ اجنبی کا رحمت بھرا ہاتھ اس کو اڑائے پھر رہا تھا، حتیٰ کے گنبدِ خضرا کی سنہری جالیوں کے سامنے آکر وہ تھم گیا۔ ایک دفعہ پھر اس کی چشم تخیل نے اسے ایک منظر دکھایا۔ سیکڑوں کبوتر پھڑ پھڑاتے ہوئے گنبدِ خضراء کے پیچھے غائب ہوگئے۔
وہ ہاتھ باندھے سنہری جالیوں کے سامنے کھڑا رہا۔ اس نے سلام پڑھنے کی کوشش کی لیکن قوتِ گویائی جیسے سلب ہوگئی۔ اسے ایسا لگا جیسے وہ ایک ذرہ ہو اور ایک انتہائی عظیم گرد باد نے اسے اپنے حلقہ اثر میں لے لیا ہو۔ اس کے آس پاس موجود ہر شے بلند تھی۔ ہر شے کی حد عرش کو چھو رہی تھی اور وہ بہت چھوٹا تھا۔ اس کی گردن جھکی رہی۔ دور کہیں سے غلام علی کی آواز ابھری:
چلا ہوں ایک مجرم کی طرح میں جانبِ طیبہ
اور اس کی زبان کی ساری بندشیں کھلتی چلی گئیں۔ وہ لہک لہک کر پورے سوز کے ساتھ سلام پڑھنے لگا۔۔ ۔ ایسے الفاظ جنہیں وہ جانتا بھی نہیں تھا۔ پھر کیا پتہ کتنا عرصہ گزرا۔ چند لمحات یا چند صدیاں زمان و مکان سے بے گانہ کھڑا رہا حتیٰ کہ اجنبی نے اس کے کاندھے پر ہاتھ رکھا۔
’’آؤ واپس چلیں۔‘‘ محبت میں بھیگے ہوئے الفاظ نے اسے شرابور کردیا۔ وہ گنبد خضرا کے باہر کھڑے ہوگئے اور اجنبی نے کہا:
’’حاضری کی نشانی نہیں لے کر چلو گے؟‘‘
’’ہاں، ہاں‘‘ اس نے سرہلایا۔ ’’مولوی یعقوب اور بشیرے کے لیے مدینہ پاک کی کھجوریں لے جاؤں گا۔‘‘ اجنبی نے مسکراتے ہوئے اس کے کاندھے پر ہاتھ رکھا۔ ایک دفعہ پھر زمین سرکی۔ وہ اجنبی کے ہمراہ روئی کے گالے کی طرح ہلکا، محوِ پرواز تھا۔ نامعلوم کتنے لمحات گزرے کہ اس نے اپنے آپ کو چارپائی پر محسوس کیا۔ اجنبی روشنی کی لہرمیں کہیں کھوگیا اور نوروبابا کو تسکین کے شدید احساس نے آلیا۔ اس کی پلکیں نیند سے بوجھل تھیں۔ تھوڑی سی دیر میں وہ گہری نیند سوگیا۔
اگلی صبح جب بشیر اور مولوی یعقوب دروازہ توڑ کر اندر داخل ہوئے تو ایک انتہائی معطر خوشبو نے ان کا استقبال کیا۔ نورو بابا چارپائی پر دراز تھا، اور اس کے چہرے پر نیند میں بھی انتہائی خوشگوار مسکراہٹ طاری تھی۔ مولوی یعقوب نے اس کا لباس دیکھ کر بے یقینی میں اپنی آنکھیں ملیں۔ نورو بابا سفید احرام میں ملبوس تھا اور اس کا داہنا ہاتھ بند مٹھی کی صورت میں اس کے سینے پر تھا۔ مولوی یعقوب نے ڈرتے ڈرتے اس کی نبض پر ہاتھ رکھا جو نہ جانے کب کی تھم چکی تھی۔
بشیرے نے نورو بابا کی بند مٹھی کو ہونٹوں سے لگایا اور پھر ہلکی سی سسکاری بھری۔ مولوی یعقوب نے چونک کر دیکھا۔ بند مٹھی میں دو کھجوریں دبی ہوئی تھیں۔
مرسلہ :اقبال احمد ریاض وانمباڑی
(اردو ڈائجسٹ سے ماخوذ)