شوق کی قیمت

رخسانہ نازنین

’’دادی جان! اٹھیے، آپ کا پسندیدہ سیریل شروع ہوچکا ہے۔‘‘ ۱۱؍سالہ حنا کہ جھنجھوڑنے پر خدیجہ بیگم ہڑبڑاکر اٹھ بیٹھیں ’’ارے بیٹی کچھ دیر پہلے جگا دیتی۔ نہ جانے بیٹھے بیٹھے کیسے آنکھ لگ گئی۔ ہاں بتا تو ذرا شروع سے کیا دکھایا گیا آج؟‘‘ انھوں نے اشتیاق سے پوچھا تو حنا بھی سیریل کی کہانی بتانے لگی۔

خدیجہ بیگم کا یہ روز مرہ کا معمول تھا۔ وہ جنون کی حد تک ٹی وی سیریل کی شوقین تھیں۔ جب بھی سیریل آتا پابندی سے دیکھتیں اور پھر دوسری قسط کا بے چینی سے انتظار شروع کردیتیں۔ ان کے شوہر مجید خاں بھی اس سلسلے میں ان کے ہم خیا ل تھے۔ وہ پنشن یافتہ تھے اور بچوں کی شادیوں کی ذمہ داری سے سبکدوش ہوکر اپنے بڑے بیٹے حامد کے گھر میں قیام پذیر تھے۔ حامد خاں بینک میں اکاؤنٹینٹ تھے اور ان کی بیوی آسیہ ٹیچر تھیں۔ اگرچہ دونوں صوم و صلوٰۃ کے پابند تھے مگر اپنے باقیماندہ اوقات کو ٹی وی کی نذر کرنے میں انہیں کوئی افسوس نہ ہوتا۔

حامد خان کے دو بچے تھے۔ ۱۳؍سالہ اسد اور ۱۱؍سالہ حنا۔ دونوں ایک کانوینٹ اسکول کے طالب علم تھے۔ دونوں ہی کا معمول تھا کہ اسکول سے واپسی پر ہوم ورک نمٹانے کے بعد اپنے دادا، دادی کے ساتھ بیٹھ کر ٹی وی دیکھنے میں لگ جاتے۔ تمام چینلوں کے پروگراموں کی تفصیل کا انہیں بخوبی علم تھا۔ ریموٹ کے بٹن دباتے ہوئے وہ مختلف پروگراموں سے لطف اندوز ہوتے رہتے۔آخر جب ان کے بزرگ ہی ٹی وی کے گرویدہ تھے تو وہ کیوں پیچھے رہتے؟

رات میں حامد صاحب اور آسیہ بھی فرصت پاکر ٹی وی سے ہی دل بہلاتے۔ وہ سب مل کر محبت میں گرفتار لڑکے لڑکیوں کو دیکھتے اور شراب کے نشہ میں مست ہیرو ہروئنوں کو لڑکھڑاتے قدموں سے چلتے ہوئے بھی۔ قتل و خون اور لوٹ مار کے سین سے بھی وہ نہ صرف لطف اندوز ہوتے بلکہ بھر پور تبصرہ بھی کرتے۔ آسیہ اپنی سہیلیوں سے ٹی وی کے فیشن پر بحث کرتیں اور پھر اسی کے مطابق شاپنگ ہوتی۔ ادھر اسد اور حنا بھی جیسے جیسے بڑے ہوتے رہے ان کی عملی زندگی میں ٹی وی کے اثرات کا رنگ گہرا ہوتا گیا۔

وقت پر لگا کر اڑنے لگا۔ اسد بارہویں میں اور حنا گیارہویں کے طالب علم تھے۔ والدین سمجھ رہے تھے کہ بچے محنت سے پڑھ رہے ہیں اور سب کچھ ٹھیک ہے۔تبھی اچانک ایک روز حامد صاحب کے ایک قریبی دوست ان سے ملنے آئے اور ان کے بیٹے اسد کے بارے میں تشویش کا اظہار کرنے لگے۔یہ سن کر حامد صاحب بھی سکتے میں آگئے۔ کل رات جب وہ تراویح کے لیے نکلے تو انھوں نے اسد کے کچھ دوستوں کے ساتھ ان کے محلے کی مسجد کے قریب سگریٹ پیتے ہوئے دیکھا تھا۔ اگلے روز انہیں اسد کے اسکول سے ایک خط ملا جس میں اس کی مسلسل ایک ہفتہ کی غیر حاضری کا سبب پوچھا گیاتھا۔ اس کے والدین کے پیروں تلے سے زمین کھسک گئی کیونکہ بیٹے کے لیے دیکھے ہوئے ان کے خواب چکنا چور ہوچکے تھے۔

ان کی تکلیف ناقابلِ بیان تھی۔ لیکن وہ کیا کرتے، سختی بھی لاحاصل تھی۔ اس کا جیب خرچ بند کردیا گیا تو چند دنوں بعد گھر سے قیمتی اشیاء غائب ہونے لگیں۔ ایک دن وہ ماں کے لاکٹ چراتا ہوا رنگے ہاتھوں پکڑا گیا۔ اسد کو دراصل نشے کی لت لگ گئی تھی جس کے لیے اسے روپیوں کی ضرورت تھی۔ اسی لیے اس نے چوری کا راستہ اپنایا تھا۔

حامد اور آسیہ ابھی بیٹے کی گمراہی کے دکھ سے ابھرے بھی نہ تھے کہ ایک اور انہونی ہوگئی۔ گیارہویں کی طالبہ حنا کا اپنے پڑوسی زبیر سے افئیر کے انکشاف نے انہیں حواس باختہ کردیا۔ ان کی اولاد کس راہ پر جا رہی تھی؟ آخر ان کی تربیت میں کہا ںکمی رہ گئی تھی جو انہیں یہ دن دیکھنے پڑ رہے تھے؟ اس کے والدین زبیر کو ناپسند کرتے تھے۔ انھوں نے حنا کو زبیر سے ملنے کے لیے منع کیا پھر بھی اس پر کوئی اثر نہ پڑا۔ حامد اور آسیہ نے سختی کی تو حنا نے کھانا پینا چھوڑ دیا اور کمرے میں قید ہوگئی۔ آخر کار انھوں نے یہ سوچ کر اسے اس کے حال پر چھوڑ دیا کہ ابھی وہ ناسمجھ ہے۔ کچھ دنوں بعد خود ہی سنبھل جائے گی۔ انہیں کیا پتہ تھا کہ اس کے ذہن میں کیسے باغیانہ خیالات پرورش پا رہے ہیں۔ بند کمرے میں ہی موبائیل کے ذریعہ اس نے سارے معاملات طے کرلیے۔ ایک رات جب سبھی محو خواب تھے اس نے خاموشی سے لاکر سے ہزاروں روپیے اور ممی کے زیورات نکالے اور زبیر کے ساتھ فرار ہوگئی!

سارے محلے میں یہ خبر جنگل کی آگ کی طرح پھیل گئی۔ توبہ کیا زمانہ آگیا ہے۔ بالشت بھر کی لڑکی اور اتنی دیدہ دلیری! ارے ماں باپ کی بھی غلطی ہے۔ اتنا ہی بیٹی کے سر پر عشق کا بھوت سوار تھا تو بیاہ کردیتے اسی لڑکے کے ساتھ۔ یہ دن تو نہ دیکھنا پڑتا۔ جتنے منہ اتنی باتیں۔ بیٹا تو ہاتھ سے نکل ہی گیا تھا لیکن بیٹی نے تو وہ کارنامہ انجام دیا کہ دنیا دیکھتی رہ گئی۔

انھوں نے اپنا دونوں ہاتھوں سے سر پکڑ لیا۔ کاش وہ ٹی وی کی لعنت گھر میں نہ لاتے اور وقت گزاری کے لیے کسی دوسرے مصرف کی تلاش کرتے۔ اولاد کی کارکردگی پر نظر رکھتے اور ان پر ابتدا سے ہی سختی کرتے توانہیں یہ دن نہ دیکھنا پڑتا۔ وقت گزرچکا تھا اور اب افسوس کرنے کے علاوہ ان کے پاس دوسرا راستہ بھی تو نہ تھا۔

مزید

حالیہ شمارے

ماہنامہ حجاب اسلامی ستمبر 2024

شمارہ پڑھیں

ماہنامہ حجاب اسلامی شمارہ ستمبر 2023

شمارہ پڑھیں

درج بالا کیو آر کوڈ کو کسی بھی یو پی آئی ایپ سے اسکین کرکے حجاب اسلامی کو عطیہ دیجیے۔ رسید حاصل کرنے کے لیے، ادائیگی کے بعد پیمنٹ کا اسکرین شاٹ نیچے دیے گئے  وہاٹس ایپ پر بھیجیے۔ خریدار حضرات بھی اسی طریقے کا استعمال کرتے ہوئے سالانہ زرِ تعاون مبلغ 600 روپے ادا کرسکتے ہیں۔ اس صورت میں پیمنٹ کا اسکرین شاٹ اور اپنا پورا پتہ انگریزی میں لکھ کر بذریعہ وہاٹس ایپ ہمیں بھیجیے۔

Whatsapp: 9810957146