شوہر بیوی کے اختلافات —چند قیمتی مشورے

ڈاکٹر سمیر یونس ترجمہ : تنویر آفاقی

دو روز قبل ایک خاتون نے میرے پاس فون کیا۔اس نے بتایا کہ وہ ایک شادی شدہ عورت ہے۔ اللہ تعالی نے اسے ایک نیک شوہر سے نوازا ہے جو اس کا بہت خیال رکھتا ہے۔ اس کے بعد وہ کافی دیر تک اپنے شوہر کی تعریف کرتی رہی اور اس کے محاسن گناتی رہی۔پھراس نے کہا کہ البتہ ایک واقعہ ایسا پیش آگیا ہے جس سے مجھے ایسا محسوس ہوتا ہے کہ میرے شوہرنے میرے دل کو چوٹ پہنچائی اور مجھے نیچا دکھایا ہے۔ میرے اس احساس کے جواب میں بجائے اس کے کہ وہ میری دلجوئی کرتے انھوں نے اپنے رویے سے میرے غم اور غصے میں اور بھی اضافہ کردیا ہے ۔اور اب میں نے بھی سوچ لیاہے کہ میں بھی اینٹ کا جواب اینٹ ہی سے دوں گی۔

اسلام نے ازدواجی زندگی کو محبت اور حسن معاشرت کی بنیاد پر قائم کیا ہے۔ وعاشروہن بالمعروف۔ (النساء: ۱۹) ’’ان کے ساتھ بھلے طریقے سے زندگی بسر کرو۔‘‘

’’اور اس کی نشانیوں میں سے یہ ہے کہ اس نے تمھارے لیے تمھاری جنس سے بیویاں بنائیں تاکہ تم ان کے پاس سکون حاصل کرو اور تمھارے درمیان محبت اور رحمت پیدا کردی یقیناً اس میں بہت سی نشانیاں ہیں ان لوگوں کے لیے جو غور وفکر نہیں کرتے۔‘‘

لیکن دوسری طرف شیطان کو اس وقت تک چین نہیں آتا جب تک کہ وہ شوہر اور بیوی کے درمیان فساد کا بیج نہ بو دے۔شوہر بیوی کے درمیان تفریق اور جدائی ڈالنے کے لیے شیطان کے بس میں جتنی کوشش ہوتی ہے کر ڈالتا ہے۔ابلیس لعین کے نزدیک سب سے اعلی درجہ اسی شیطان کا ہوتا ہے اور اس کا سب سے مقرب بھی وہی شیطان ہوتا ہے جو شوہر اور بیوی کے درمیان جدائی ڈال دے یا ان کے درمیان نفرت اور فسادکا بیج بو دے۔اللہ کے رسولﷺ نے فرمایا: ’’ابلیس پانی کے اوپر اپنا تخت لگاتا ہے۔ پھر اپنے کارندوں کو مختلف مہمات پر روانہ کرتا ہے۔تو جو سب سے زیادہ فتنہ و فساد پیدا کرتا ہے وہی اس کے سب سے قریب ہوتا ہے۔چنانچہ ایک شیطان اس کے پاس آتا ہے اور کہتا ہے کہ میں نے یہ اور یہ کیا۔ ابلیس کہتا ہے کہ تو کوئی کارنامہ انجام دے کر نہیں آیا۔ پھر دوسرا شیطا ن آتا ہے اور کہتا ہے کہ میں نے ایک شادی شدہ جوڑے کو اس وقت تک چھوڑا ہی نہیں جب تک ان کے درمیان جدائی پیدا نہ کردی۔ ابلیس کہتا ہے کہ ہاں تو نے کارنامہ انجام دیا ہے۔اور یہ کہہ کر اسے اپنے سینے سے لگا لیتا ہے۔‘‘(مسلم)

چند قیمتی مشورے

۱۔ ازدواجی زندگی کو خوش گوار اور پر امن ماحول فراہم کیا جائے۔ شوہر اور بیوی دونوں کا شعار یہ ہو کہ ’’اختلافات کیسے بھی ہوں ، ہمیں جدا نہیں کرسکتے۔‘‘ اس کے لیے ضروری ہے کہ دونوں ایک دوسرے کے جذبات کا پورا خیال رکھیں۔ بچوں کے سامنے لڑنے جھگڑنے ، بلند آواز سے بولنے اور ایک دوسرے کو تکلیف پہنچانے سے احتراز کریں۔اس اصول کو ہمیشہ اپنے سامنے رکھیں کہ ’’پرہیز علاج سے بہتر ہے۔‘‘اس اصول کا تقاضا یہ ہے کہ ایسے ہر معاملے سے بچا جائے جو باہمی اختلاف کا سبب بن سکتا ہو۔اسی کے ساتھ پرانے اختلافات کو کریدنے کی کوشش نہ کی جائے۔یہ اس لیے ضروری ہے کہ اس کا علاج شروع ہی میں ہوجائے تو آسان ہے لیکن اگر بات بہت بڑھ جائے اور معاملہ کسی بڑے مسئلے کی شکل اختیار کر جائے تو پھر اس کا علاج مشکل ہوجاتا ہے۔اس لیے فساد کے جڑ پکڑنے سے پہلے ہی اسے اکھاڑ کر پھینک دیا جائے تو بہتر ہے۔

ازدواجی اختلافات کو حل کرنے کی طرف توجہ نہ دی جائے تو میرے نزدیک وہ کینسر کے مرض کی طرح شوہر اور بیوی کی زندگی میں شامل ہوجاتے ہیں، جس سے ازدواجی زندگی کمزور اور بیمار ہو کر رہ جاتی ہے بلکہ کبھی کبھی یہ مرض، مرض ِ وفات کی شکل بھی اختیار کرلیتا ہے، اوراس کا نتیجہ ازدواجی زندگی کے خاتمے کی صورت میں سامنے آتا ہے۔

ازدواجی زندگی ایک پاکیزہ ہرے بھرے درخت کی مانند ہوتی ہے، اگر ہم اسے کھاد اور پانی نہیں دیں گے تو یقینی طور پر وہ سوکھ جائے گا او رسوکھ کر گھاس پھوس ہوجائے گا جسے ہوا جدھر چاہے گی اڑا لے جائے گی۔

۲۔ شیطان کے حیلوں سے ہوشیار رہا جائے۔ ایک پرسکون اور خوش حال ازدواجی زندگی کے لیے شیطان سب سے بڑا خطرہ ہے۔

۳۔ مسائل سے نپٹنے کے لیے شوہر اور بیوی دونوں کے درمیان کسی ایک طریقہ کار کو اختیار کرنے پر اتفاق ہو۔ خوش گوار اور پر امن ازدواجی زندگی کے لیے یہ ضروری ہے کہ شوہر اور بیوی دونوں گھریلو مسائل کے حل کے لیے کسی ایک طریقہ کار پر متفق ہوں نیز اس بات پر بھی اتفاق ہو کہ باہمی صلح کے لیے کس شخص کو ذمہ دار کی حیثیت سے قبول کیا جائے گا۔

بہتر تو یہی ہے کہ شوہر اور بیوی خود آپس میں مل کر مسائل کو حل کرلیں اور کسی تیسرے کو حکم بنانے کی ضرورت نہ پڑے ، الاّ یہ کہ معاملے کو کسی اور ذمہ دار شخص کے سپرد کرنا ناگزیر اور ضروری ہو جائے۔ایسی صورت میں ایسے شخص کے پاس اپنا مسئلہ لے کر جائیں جو واقعی ان کے درمیان صلح کرانا چاہتا ہو۔ اس کے لیے بھی بہتر یہ ہے کہ صلح کرانے والوں کا تعلق دونوں کے گھرانے سے ہو۔اللہ تعالی فرماتا ہے:

’’اور اگر تم لوگوں کو کہیں میاں اور بیوی کے تعلقات بگڑ جانے کا اندیشہ ہو تو ایک حکم مرد کے رشتہ داروں میں سے اور ایک حکم عورت کے رشتہ داروں میں سے مقرر کرو، وہ دونوں اصلاح کرنا چاہیں گے تو اللہ ان کے درمیان موافقت کی صورت نکال دے گا، اللہ سب کچھ جانتا اور باخبر ہے۔‘‘ (النساء: ۳۵)

یہ بھی مناسب ہے کہ شوہر اور بیوی شادی کے آغاز میں ہی اس بات پر اتفاق کر لیں کہ اختلاف کی صورت میں کون ان کے درمیان صلح کرائے گا۔

۴۔ شوہر اور بیوی کے درمیان جو بھی اختلافات پروان چڑھ رہے ہیں ، ان کو حل کرنے کے سلسلے میں اللہ کی شریعت کے حکم کو تسلیم کیا جائے اور شریعت جو حکم دے اسے نافذ کیاجائے۔یہ چیز جھگڑے کا فوری خاتمہ کردے گی اور انسان کے نفس کو غفلت اور ہوس کا شکار نہیں ہونے دے گی۔ابن قیم ؒ فرماتے ہیں: ’’غفلت اور خواہشات کی پیروی میں انسان کی تباہی کا سامان پوشیدہ ہے۔‘‘

۵۔ شوہر اور بیوی دونوں کی ذمہ داری ہے کہ وہ اپنے اس رشتے کی حفاظت کریں اور اس پاکیزہ رشتے کے راز اور اسرار کو دوسروں پر ظاہر کرنے سے پرہیز کریں۔اس رشتے کو جو خاص مقام ہے اسے مجروح کرنے کا دوسروں کو موقع نہ دیں،خواہ ایسا کرنے والوں سے کتنا ہی قریبی تعلق ہو۔ اگر دوسروں کو مسئلے کے حل کے لیے شامل کرنا لازمی ہو ہی جائے تو ایسے لوگوں کا انتخاب کیا جائے جن کا تعلق شوہر اور بیوی دونوں کے اہل خانہ سے ہو۔

۶۔ ایک دوسرے کو نصیحت اور حق اور صبر کی تلقین کا بھی اہتمام ہو، نرم گفتگو کا سہارا لیا جائے، کوئی غلطی ہوجائے تو فوراً ہی اس کا اعتراف کرلینے اور اس پر معذرت کرلینے کا رجحان دونوں میں پایا جائے۔غلطی کا اعتراف اور اس پر معذرت اخلاق حسنہ کی علامت ہے، کیوں کہ یہ سچائی کو تسلیم کرنے جیسا ہے۔ اس سے یہ بھی فائدہ ہوتا ہے کہ جو شخص غلطی پر نہیں ہوتا ، اعتراف اور معذرت کے طرز عمل سے اس کا غصہ زائل ہوجاتا ہے ۔

۷۔ جھگڑا ہو بھی جائے تو اسے طول نہ دیا جائے۔ میاں بیوی میںبہترین وہ ہے ، جیسا کہ اللہ کے رسول ﷺ نے ہمیں بتایا ہے ، جو سلام میں پہل کرکے ناراضگی اور جھگڑے کے اس سلسلے کا خاتمہ کردے اور اپنے شریک زندگی سے قطع تعلق یا قطع کلام کرنے سے ہرہیز کرے۔اللہ تعالی کے اس قول کو یاد رکھ لینا ہی کافی ہے:

’’دوڑ کر چلو اس راہ پر جو تمھارے رب کی بخشش اور اس جنت کی طرف جاتی ہے جس کی وسعت زمین اور آسمانوں جیسی ہے، اور وہ ان خدا ترس لوگوں کے لیے مہیا کی گئی ہے جو ہر حال میں اپنے مال خرچ کرتے ہیں، خواہ بدحال ہوں یا خوش حال، جو غصے کو پی جاتے ہیں اور دوسروں کے قصور معاف کردیتے ہیں۔ ایسے نیک لوگ اللہ کو بہت پسند ہیں۔‘‘

(آل عمران: ۱۳۳،۱۳۴)

۸۔ اختلاف رائے اور محبت دو مختلف چیزیں ہیں۔ دو لوگوں کے درمیان کسی معاملے میں رائے کا اختلاف ہوسکتا ہے لیکن محبت پھر بھی ان کے درمیان باقی رہتی ہے۔ اسی لیے کہا جاتا ہے کہ’’ اختلاف رائے سے محبت ختم نہیں ہوتی ہے۔‘‘

۹۔ اس بات سے پرہیز بھی ضروری ہے کہ شوہر اور بیوی کے درمیان باہمی اختلاف پیدا ہوجانے کی صورت میں کوئی ایک فریق اپنے فرائض اور اپنے ذمہ آنے والے کام کو انجام دینے سے انکار کرنے لگے۔شوہرکو اگر بیوی سے شکایت یا اختلاف ہو گیا ہے تو اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ وہ اس پر خرچ کرنا بند کردے یا اگر بیوی کو شوہر سے کسی بات پر اختلاف ہو گیا ہے تو اس کا مطلب یہ نہیں کہ وہ اپنے شوہر کی بات ماننا ہی بند کردے اور اس کی نافرمانی پر اتر آئے۔

۱۰۔حرام اور غیر اسلامی طرز عمل اختیار کرنے سے ہر حال میں احتراز کیا جائے۔یہ بالکل درست نہیں ہے کہ آپسی ناچاقی کی صورت میں دونوںمیں سے کوئی ایک بھی ایساکام کرنے پر اتر آئے جو سراسر گناہ ہو ، یا اس کے ذریعے کسی حرام کام میں ملوث ہونے کا اندیشہ ہو۔ بیوی سے جھگڑا ہوجائے تو شوہر باہر کسی غیر عورت کو دوست بناتا نہ پھرنے لگے، یا عورت کسی مرد سے آشنائی نہ کرنے لگے۔کیوں کہ یہ چیز بالکل حرام ہے۔ کیوں کہ یہ وقتی علاج تو آپ نے تلاش کرلیا جو جلد ہی ختم بھی ہوجائے گا لیکن ختم ہونے کے بعد زندگی بھر کے لیے ندامت اوردرد آپ کی زندگی کو دے دے گا۔یہ بھی حرام ہے کہ شوہر بیوی آپس میں ایک دوسرے کو گالیاں دینا شروع کردیں، ایک دوسرے کی عیب جوئی شروع کردیں ، یا مار پٹائی کرنے لگیں، ایک دوسرے پر جھوٹے الزامات عائد کرنے لگیں اور آپس میں ایک دوسرے کے عیب تلاش کرکے انھیں بیان کرنا شروع کردیں۔

۱۱۔ اختلافات اور آپسی مسائل پر بحث و گفتگو کی آواز بچوں کے کان تک نہ پہنچنے دیں اور نہ ان کے سامنے اس قسم کے مسائل کا ذکر لے کر بیٹھیں۔حالانکہ بعض اوقات بچے ہی ماں باپ کے درمیان بہترین صلح کار کا کام کر جاتے ہیں، لیکن اس کے لیے بھی یہ شرط ہے کہ یا تو والدین باہم صلح کرنے میں ناکام ہوجائیں اور بچے سمجھ دار اور ہوشیار ہونے کے ساتھ ساتھ اس قسم کے معاملات سے پوری واقفیت اور مہارت رکھتے ہوں۔

۱۲۔ شوہراور بیوی دونوں کو اس بات کا یقین ہو جائے کہ اب وہ دونوں ایک دوسرے کے ساتھ نباہ نہیں کرسکتے اور موجودہ ازدواجی زندگی خود ان کے لیے بھی اور ان کے بچوں کے لیے بھی ایک سزا اور مصیبت بن کررہ جائے گی تو اگرچہ طلاق کو ابغض الحلال (حلال چیزوں میں سب سے زیادہ نا پسندیدہ ) کہا گیا لیکن اس کا علاج صرف یہی ہے ۔ممکن ہے اللہ تعالی اس طرح سے ان کے حالات میں بہتری لے آئے۔ اللہ تعالی فرماتا ہے:

’’اور اگر زوجین ایک دوسرے سے الگ ہو ہی جائیں تو اللہ اپنی وسیع قدرت سے ہر ایک کو دوسرے کی جحتاجی سے بے نیاز کردے گا۔اللہ کا دامن بہت کشادہ ہے اور وہ دانا و بینا ہے۔‘‘ ( النساء: ۱۳۰)

۱۳۔ شوہر بیوی اور ان کے عزیزوں اور رشتے داروں کے درمیان تعلقات کو بھی حد کے اندر اور کنٹرول میں رکھا جائے، کیوں کہ بعض اوقات شوہر کے اہل خانہ یا بیوی کے اہل خانہ بھی ازدواجی اختلافات پیدا کرنے کا سبب بن جاتے ہیں۔

باہمی ختلافات کے اہم اسباب

ا۔باہمی اختلاف کا سبب یہ بات بھی بن جاتی ہے کہ بیوی شوہر سے کہے بغیر یا اس کی اجازت کے بغیر اپنے میکے چلی جائے۔ اس لیے بیوی کو چاہیے کہ وہ اپنے گھر والوں سے ملنے جائے تو شوہر سے کہہ کر جائے اور شوہرکو بھی یہ سوچنا چاہیے کہ اس کا جانا اپنے اہل خانہ سے صلہ رحمی کا تقاضا ہے، اس لیے اس معاملے میں اس کے ساتھ تھوڑی رعایت سے کام لے۔ بلکہ بہتر تو یہ ہے کہ اگر موقع ہو تو خود بھی اپنی بیوی کے ساتھ اس کے گھر چلا جائے۔بیوی کے لیے ضروری یہ بھی ہے کہ اس کو معمول ہی نہ بنا لے اور بہت زیادہ میکے نہ جائے۔اسے یہ سمجھنا چاہیے کہ معاشرتی اعتبار سے اب اس کا مقام اور ذمہ داریاںبدل چکی ہیں۔ نئے گھر میں جہاں وہ بیوی کی حیثیت سے آئی ہے ، اس کے اوپر کچھ ذمہ داریاں ہیں ، ان ذمہ داریوں کو ادا کرنا اس پر لازمی ہے، ان کی ادائیگی میںکوتاہی نہ کرے اور نئے معاشرتی ماحول میں خود کو ایڈجسٹ کرنے کے لیے صبر اور قربانی سے کام لے۔

ب۔ باہمی اختلافات کا دوسرا بڑا سبب یہ ہوتا ہے کہ بیوی اس بات پر اعتراض ظاہر کرے کہ وہ اپنے گھر کے لوگوں پر کیوں خرچ کر رہا ہے۔بیوی کو یہ معلوم ہونا چاہیے کہ شوہر کے والدین کے اس کے شوہر پر عظیم احسانات ہیں۔نیکی اور وفاکا تقاضا ہے کہ وہ اپنے والدین کے ساتھ حسن سلوک کرے، ان کی ضروریات پر خرچ کرے۔ اس کا یہ خرچ کرنااپنے والدین اور بہن بھائیوں کے ساتھ صلہ رحمی کا درجہ رکھتا ہے خاص طور سے اگر ان میں سے کوئی صاحب استطاعت نہ ہو تو یہ صلہ رحمی شوہر کے لیے واجب ہوجاتی ہے، خواہ اس کے گھر والوں نے اس سے اپنا تعلق منقطع ہی کر لیا ہو۔ کیوں کہ اللہ کے رسولﷺ نے فرمایا: ’’رشتوں کو جوڑنے والا وہ نہیںجو بدلے میں وہی کرے جو اس کے ساتھ کیا گیا ہے بلکہ رشتوں کو جوڑنے والا وہ ہے کہ جس سے قطع تعلق کر لیا گیا ہو لیکن وہ اس تعلق کو قائم کرنے اور باقی رکھنے کی کوشش کرے۔‘‘(بخاری، ابودائود، ترمذی)

چنانچہ ایک شخص اللہ کے رسول ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوتا ہے اور عرض کرتا ہے کہ میرے کچھ رشتے دار ہیں ۔میں ان سے جڑنے کی کوشش کرتا ہوںاور وہ مجھ سے تعلق منقطع رکھنا چاہتے ہیں، میں ان کے ساتھ بھلائی سے پیش آتا ہوں لیکن وہ میرے ساتھ بدسلوکی کرتے ہیں،میں حلم و بردباری اورنرمی سے پیش آتا ہوں لیکن وہ غصے اور جہالت کا رویہ اختیار کیے رہتے ہیں۔ آپ ؐ نے فرمایا: ’’ اگر واقعی تمھارا طرز عمل ویسا ہی ہے جیسا تم بتا رہے ہو تو تم ان کے منہ میں گرم راکھ ڈال رہے ہو۔ اور جب تک تم ان کے ساتھ یہی سلوک اپنائے رہو گے اللہ کی طرف سے ایک مددگار تمھارے ساتھ رہے گا۔‘‘ (مسلم)

قطع رحمی کرنے والا (رشتوں کو توڑنے والا)شخص دنیا میں لعنت زدہ اور فساد پیدا کرنے والا ہوتا ہے۔اللہ تعالی فرماتا ہے:

’’اب کیا تم لوگوں سے اس کے سوا کچھ اور توقع کی جاسکتی ہے کہ اگر تم الٹے منہ پھر گئے تو زمین میں پھر فساد برپا کروگے اور آپس میں ایک دوسرے کے گلے کاٹو گے؟ یہ لوگ ہیں جن پر اللہ نے لعنت کی اور ان کو اندھا اور بہرا بنا دیا۔‘‘ (محمد: ۲۳۔۲۴)

ج۔ تیسری وجہ آپسی عناد ہے۔عناد ایسی چیز ہے جو مرد کو عورت کے حقوق ادا کرنے سے اور عورت کو مرد کے حقوق ادا کرنے سے روک دیتی ہے۔ اس کی وجہ سے دونوں میں ہر ایک اپنی رائے اصرار کرنے لگتا ہے ۔ عناد کبر اور گھمنڈ کی طرح ہے، یعنی کسی کا حق معلوم ہوتے ہوئے بھی اسے نہ دینا۔ یہ سراسر شیطانی کام ہے اور اس کا مقصد شوہر اور بیوی کے درمیان تفریق پیدا کرنے کے علاوہ کچھ نہیں ہے۔

قرآن میں عناد کا لفظ چار بار آیا ہے اور ہر جگہ کفر اور اور حق کے انکار کے ضمن میں استعمال ہوا ہے۔سورہ ہود میں فرمایا: وعصوا رسلہ واتبعوا امر کل جبار عنید (۵۹) ’’اور اس کے رسولوں کی بات نہیں مانی اور ہر جبار دشمن حق کی پیروی کرتے رہے۔‘‘ سورۂ ابراہیم میں فرمایا: واستفتحوا وخاب کل جبار عنید (۱۵)’’اور انھوں نے فیصلہ چاہا تھا تو (یوں فیصلہ ہوا)اور ہر جبار دشمن حق نے منہ کی کھائی۔‘‘ سورۂ ق میں فرمایا: القیا في جہنم کل کفار عنید(۲۴)’’حکم دیاگیا پھینک دو جہنم میں ہر کٹّے کافر کو جو حق سے عناد رکھتا ہو۔‘‘ اور سورۂ مدّثّر میں فرمایا: کلاانہ کان لایاتنا عنیدا (۱۶) ’’ہر گز نہیں وہ ہماری آیات سے عناد رکھتا ہے۔‘‘

د۔ ایک اہم وجہ زبان درازی ہے۔شوہر اور بیوی دونوں کے لیے اس عیب سے پرہیز کرناضروری اور لازمی ہے۔کیوں کہ بہت زیادہ چلنے والی زبان دوسروں کو تکلیف ہی پہنچاتی ہے اور دوسروں کے جذبات کو ٹھیس ہی پہنچاتی ہے۔ اگر دونوں میں سے کوئی اس آزمائش میں مبتلاکردیا جائے تو اسے صبر سے کام لینا چاہیے اور نرمی اور حکمت کے ساتھ اپنے شریک کو سمجھانے اور نصیحت کرنے کی کوشش کرنی چاہیے۔ مسلمان کا شیوہ نہ طعنہ زنی کا ہوتا ہے اور نہ وہ دوسروں پر لعنت اور گالم گلوچ کرتا ہے اور نہ ہی زبان دراز ہوتا ہے۔

ہ۔ بالکل ہی خاموش رہنے یا بلا وجہ فضول باتیں کرتے رہنے سے بھی اختلافات پیدا ہوتے ہیں۔ کلام و گفتگو میں اعتدال اور میانہ روی سے انسان کی شخصیت میں چار چاند لگ جاتے ہیں۔سیدنا عمر بن خطاب ؓ فرماتے ہیں: ’’لا اھاب الرجل حتی یتکلم، فاذا یتکلم عرفتہ‘‘کبھی کبھی کوئی ایک فرد بالکل خاموشی اختیار کرلیتا ہے، بات چیت بالکل بند کردیتا ہے۔ اس کے اس رویے سے دوسرا فرد اکتا جاتا ہے اور یہ سمجھنے پر مجبور ہوجاتا ہے کہ وہ اس کے ساتھ کوئی معاملہ کرنے پر تیار نہیں ہے۔یا اس کے برعکس بولتا ہی چلا جاتا ہے اور اتنا بولتا ہے کہ دوسرے فرد کو بولنے کاموقع ہی نہیں دیتا۔ ایسے مواقع پر صبر اور خوش اسلوبی سے معاملے کوحل کرنے کی ضرورت ہوتی ہے تاکہ خاموشی کی صورت میں بات کرنے کا موقع پیدا ہو اور بہت زیادہ بولنے کی صورت میں دوسروں کو بھی بولنے کا موقع ملے۔

مزید

حالیہ شمارے

ماہنامہ حجاب اسلامی شمارہ ستمبر 2023

شمارہ پڑھیں

ماہنامہ حجاب اسلامی شمارہ اگست 2023

شمارہ پڑھیں