شوہر سےشکوہ شکایت

ولیہ رحمان

کوئی انسان ایسا نہیں جسے پریشانیوں، الجھنوں اور دشواریوں کا سامنا نہ کرنا پڑے ہر شخص کی یہ خواہش ہوتی ہے کہ اس کا کوئی غم خوار اور محرم راز ہو جس سے وہ اپنی پریشانیوں کو بیان کرے اور وہ اس سے اظہارِ ہمدردی کرے اور اس کا غم غلط کرے۔ لیکن ہر بات کا ایک موقع ومحل ہوتا ہے۔ درد دل بیان کرنے کے لیے بھی مناسب موقعے کا لحاظ رکھنا چاہیے۔ ہر جگہ ہر وقت اور ہر حالت میں شکایتیں شروع نہیں کردینی چاہئیں۔ وہ عورتیں جو نادان اور خود غرض ہوتی ہیں اور شوہرداری کے آداب اور معاشرت کے رموز سے ناواقف ہوتی ہیں ان میں اتنا بھی صبر و ضبط نہیں ہوتا کہ وہ اپنی پریشانیوں کو برداشت کریں اور دردِ دل کو مناسب وقت کے لیے اٹھا رکھیں۔ جیسے ہی بے چارہ شوہر تھکا ماندہ گھر میں داخل ہوتا ہے، ذرادم بھی نہیں لینے پاتا کہ اسی وقت اس کی نادان بیوی شکایتوں کے دفتر کھول دیتی ہے، جو گھر سے بیزار بنادینے کے لیے کافی ہے۔

’’خود تو چلے جاتے ہو اور مجھے ان کم بخت بچوں میں سرکھپانے کے لیے چھوڑ جاتے ہو۔ احمد نے کمرے کے دروازے کا شیشہ توڑ دیا، منیرہ اور پروین میں خوب لڑائی ہوئی، ان بچوں کے اودھم نے مجھے دیوانہ کردیا۔ افوہ! بہرام ذرا بھی سبق نہیں پڑھتا۔ آج اسکول سے اس کی رپورٹ آئی ہے۔ بہت خراب نمبر ہیں۔ میں بیکار ہی ان سب کے لیے زحمت اٹھاتی ہوں، صبح سے اب تک اس قدرکام کیے ہیں کہ حالت خراب ہوگئی۔ کسی کو میری پرواہ نہیں، یہ بچے ذرا بھی کسی کام میں ہاتھ نہیں لگاتے۔ کاش بے اولاد ہوتی۔ ہاں آج تمہاری بہنیں آئی تھیں، معلوم نہیں کیوں مجھ سے خارکھاتی ہیں، جیسے میں اس کے باپ کا ہی تو کھاتی ہوں اور تمہاری ماں، خدا کی پناہ! ادھر ادھر میری برائیاں کرتی ہیں۔ میں ان سب سے تنگ آگئی ہوں، لعنت ہو مجھ پر کہ ایسے خاندان سے پالا پڑا ہے۔ میرے ہاتھ دیکھو، کھانا پکارہی تھی چھری سے میرا ہاتھ کٹ گیا۔ ہاں کل سہراب کے یہاں شادی میں گئی تھی کاش نہ گئی ہوتی وہاں جاکر عزت مٹی میں مل گئی۔ حسن کی بیوی بھی آئی تھی۔ کیا میک اپ تھا اور کیا لباس تھا۔ خدا ایسی قسمت سب کی بنائے۔ لوگ اپنی بیویوں کا کس قدر خیال رکھتے ہیں، کیسے اچھے اچھے لباس ان کے لیے خریدتے ہیں۔ اس کو کہتے ہیں شوہر۔ جب وہ محفل میں آئی تو سب نے اس کا احترام کیا۔ جی ہاں لوگ صرف کپڑے دیکھتے ہیں۔ آخر میں اس سے کس بات میں کم ہوں کہ اس کی اتنی شان ہے۔ ہاں قسمت والی ہے، اس کا شوہر اس کا خیال رکھتا ہے تمہاری طرح نہیں ہے۔ اب میں اس منحوس گھر میں تمہارے اور تمہارے بچوں کے لیے جان نہیں کھپاسکتی، جو چاہے کرو وغیرہ وغیرہ۔

شوہر داری، کا یہ طریقہ نہیں ہے۔ کیا آپ سمجھتی ہیں کہ آپ کا شوہر تفریح اور سیر سپاٹے کے لیے گھر سے باہر جاتا ہے۔ روزی کمانے، ضروریاتِ زندگی مہیا کرنے اور پیسے کمانے کی غرض سے باہر جاتا ہے۔ صبح سے اب تک اس کو نہ جانے کن کن پریشانیوں کا سامنا کرنا پڑا ہو کہ جن میں سے ایک کی بھی آپ متحمل نہ ہوسکیں گی۔ آفس یا بازار کی مشکلات کی آپ کو خبر نہیں ہے۔ کیسے کیسے لوگوں سے پالا پڑتا ہے، اور کیسی کیسی ذہنی پریشانیاں آجاتی ہیں۔ آپ کو اپنے شوہر کی پژمردہ روح اور تھکے ماندے اعصاب کی کوئی فکر نہیں۔ اب جبکہ وہ باہر کی پریشانیوں سے جان چھڑا کر گھر میں پناہ لینے آیا ہے کہ ذرا دیر آرام کرے تو بجائے اس کہ آپ اس کا غم غلط کریں، شکایتوں کے دفتر اس کے سامنے کھول کے بیٹھ جاتی ہیں۔ آخر اس بے چارے نے مرد ہوکر کیا گناہ کیا ہے کہ گھر سے باہر طرح طرح کی پریشانیوں میں گرفتار رہتا ہے اور گھر آتے ہی اسے آپ کے شکوے شکایت کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ ذرا انصاف سے کام لیجیے، تھوڑا سا اس کے بارے میں بھی سوچئے۔ اس کے پاس بھی سوائے اس کے اور کوئی چارہ نہیں کہ چیخے چلائے تاکہ آپ کی بے جا شکایاتوں اور بدزبانیوں سے نجات حاصل کرے یا اس گھر سے فرار اختیار کرکے کسی ہوٹل یا سنیما یا کسی دوسری جگہ جاکر پناہ لے یا سڑکوں پر آوارہ گھومتا رہے۔

خدا کی خوشنودی اور اپنے شوہر اور خاندان کی خاطر اس قسم کی بے جا شکایتوں اور ہنگاموں سے پرہیز کیجیے۔ عقل مندی اور ہوشیاری سے کام لیجیے۔ موقع شناسی کا ہنر سیکھئے۔ اگر آپ کو واقعی کوئی پریشانی لاحق ہے تو صبر کیجیے تاکہ آپ کا شوہر آرام کرلے، اس کی تھکن دور ہوجائے اس کے بعد موقعے کی مناسبت سے ضروری باتیں اس سے بیان کیجیے، لیکن اعتراض کی شکل میں نہیں بلکہ اس طرح گویا آپ اس سے مشورہ لے رہی ہیں اور اس کو حل کرنے کی فکر کیجیے۔ اگر آپ کے شوہر کو اپنے خان دان سے شدید لگاؤ ہے تو چھوٹی چھوٹی باتوں اور غیر ضروری واقعات کو اس سے بیان نہ کریں اور ہر وقت کی چپقلش سے اپنے شوہر کے اعصاب کو خستہ نہ کیجیے۔ اس کو اس کے حال پر چھوڑ دیجیے اس کو اور بھی پریشانیاں لاحق رہتی ہیں۔

رسول اللہ ﷺ فرماتے ہیں:

’’جو عورت اپنی زبان سے اپنے شوہر کو تکلیف پہنچاتی ہے، اس کی نمازیں اور دوسرے اعمال قبول نہیں ہوتے خواہ ہر روز روزہ رکھے اور راتوں کو عبادت اورتہجد کے لیے اٹھے، غلاموں کو آزاد کرے، اپنی دولت راہِ خدا میں خرچ کرے۔ ایسی عورت جو بدزبان ہو اور اپنی بدزبانی سے اپنے شوہر کو رنج پہنچائے وہ سب سے پہلے دوزخ میں داخل کی جائے گی۔‘‘

رسول اللہ ﷺ ایک اور موقع پر فرماتے ہیں:

’’جو عورت اپنے شوہر کو تکلیف پہنچاتی ہے حوریں اس سے کہتی ہیں، تجھ پر خدا کی مار، اپنے شوہر کو اذیت نہ پہنچا، یہ مرد تیرے لیے نہیں ہے۔ تو اس کے لائق نہیںوہ جلدی ہی تجھ سے جدا ہوکر ہماری طرف آجائے گا۔‘‘

کچھ خواتین اگر وہ چاہتی ہیں کہ اس طرح سے شوہر کی توجہ کو اپنی طرف مبذول کرالیں اور اپنے آپ کو اس کے سامنے محبوب، محنتی اور خیرخواہ ظاہر کریں تو اطمینان رکھیں کہ اس کا نتیجہ برعکس ہوگا، نہ صرف یہ کہ اس طریقے سے آپ اس کی محبت حاصل نہ کرسکیں گی بلکہ شوہر کے غیظ و غضب کا شکار ہوجائیں گی اور اگر اس طرزِ عمل سے آپ کا مقصد اپنے شوہر کے اعصاب کو خستہ کرنا ہے تاکہ کام اور زندگی سے اس کا دل بھرجائے اور وہ اعصابی امراض میں مبتلا ہوجائے اور گھر سے فرار اختیار کرے اور اعصاب کو بے حس بنادینے کے لیے خطرناک نشہ آور چیزوں کی عادت ڈال لے اور فتنہ وفساد کے مراکز کا رخ کرے اور آخر کار دق کا شکار ہوجائے تو اس صورت میں آپ کی کامیابی یقینی ہے۔

اگرآپ کو اپنے شوہر اور اپنی زندگی سے محبت ہے تو اس غیر عاقلانہ اور غلط روش کو چھوڑیے۔ کیا اس بات کا احتمال نہیں کہ آپ کی بے جا شکایتیں، قتل وغارت گری کا باعث بن جائیں یا آپ کی خاندانی زندگی کا شیرازہ بکھر جائے۔

مزید

حالیہ شمارے

ماہنامہ حجاب اسلامی شمارہ ستمبر 2023

شمارہ پڑھیں

ماہنامہ حجاب اسلامی شمارہ اگست 2023

شمارہ پڑھیں