شوہر کی رضا یا ماں کی پسند؟

ابوالفضل نور احمد

لڑکی جب تک ماں باپ کے گھر میں رہتی ہے اسے ان کی مرضی کے مطابق کام کرنا ہوتا ہے، لیکن جب اس کی شادی ہوجاتی ہے اور وہ شوہر کے گھر چلی جاتی ہے تو اس کے فرائض بدل جاتے ہیں۔
شادی کے بعد اسے چاہیے کہ شوہر کی دیکھ بھال کرے اور اس کی رضا مندی اور خوشنودی کو ہر چیز پر مقدم سمجھے حتیٰ کہ جہاں پر ماں باپ اور شوہر کی خواہش میں تصادم ہورہا ہو وہاں صلاح اسی میں ہے کہ شوہر کی اطاعت کرے اور اس کی مرضی کے مطابق عمل کرے۔ خواہ اس کے ماں باپ کی رنجیدگی اور ناراضگی کا سبب ہی کیوں نہ بنے۔ کیوں کہ شوہر کی خوشنودی حاصل کرنے سے، انس و محبت کا رشتہ جو کہ شادی شدہ زندگی کی بقا کا ضامن ہوتا ہے، مستحکم تر ہوجائے گا۔ لیکن اگر ماں کی خواہش و مرضی کو اولیت دی تو ممکن ہے اس کے مقدس عہدوپیمان میں تزلزل پیدا ہوجائے یا وہ ٹوٹ جائے۔ کیوں کہ بہت سی مائیں صحیح تربیت اور اعلیٰ فکر کی حامل نہیں ہوتیں۔ انھوں نے اب تک اس بات کو نہیں سمجھا ہوتا ہے کہ لڑکی اور داماد کو ان کے حال پر آزاد چھوڑ دینے ہی میں ان کی بہتری ہے تاکہ آپس میں ایک دوسرے سے مانوس ہوں اور مفاہمت پیدا کریں۔ اپنے حالات کے مطابق اپنی زندگی کے پروگرام کو تیار کرکے اس پر عمل کریں اور اگر کوئی مشکل پیش آجائے تو مشورے اور مفاہمت سے اسے حل کریں۔
صحیح تعلیم و تربیت سے عاری خواتین چونکہ اس حقیقت کو جو عین مصلحت کے مطابق ہے، سمجھ نہیں پاتیں اس لیے اس فکر میں رہتی ہیں کہ داماد کو اپنی مرضی کے مطابق چلائیں۔ اسی لیے براہِ راست اور بالواسطہ طور پر ان کے امور میں مداخلت کرتی ہیں اور اس مقصد کے تحت اپنی بیٹی سے جو کہ ابھی جوان اور ناتجربہ کار ہے اور اپنی بھلائی برائی سے پوری طرح آگاہ نہیں ہے، اس معاملے میں مدد لیتی ہیں۔ اس کو داماد پر اثر انداز ہونے کے لیے آلۂ کار کے طور پر استعمال کرتی ہیں۔ وہ حکم دیتی رہتی ہیں کہ اپنے شوہر سے کس طرح برتاؤ کرو، کیا کہو، کیا نہ کہو۔ سادہ لوح لڑکی چونکہ اپنی ماں کو اپنی خیرخواہ اور مصلحت اندیش سمجھتی ہے اس لیے اس کی اطاعت کرتی ہے اور اس کے کہنے پر عمل کرتی ہے۔
اگر داماد ان کی مرضی کے مطابق چلتا رہا تو کیا کہنے۔ لیکن اگر اس نے سرتابی کی تو لڑائی جھگڑا، رسہ کشی اور ضد کا سلسلہ شروع ہوجاتا ہے۔
یہ نادان عورتیں ممکن ہے اس سلسلے میں اس قدر سختی اور ہٹ دھرمی سے کام لیں کہ اپنی بیٹی اور داماد کو اپنی ضد اور خود سری پر قربان کرکے ان کی زندگیاں تباہ کردیں۔ بجائے اس کے کہ لڑکی کو نصیحت کریں، ساتھ نبھانے کی ترغیب دلائیں، تسلی دیں، برابر اس کے شوہر کی برائیاں کرتی رہتی ہیں۔ مثلاً ہائے میری بچی کی قسمت پھوٹ گئی کیسا خراب شوہر اس کے پلے پڑا ہے؟ کیسے اچھے اچھے رشتے آئے تھے، فلاں کی زندگی کیسی اچھی گزر رہی ہے؟ میری بھانجی کو دیکھو اس کے کیا ٹھاٹ باٹ ہیں؟ فلاں اپنی بیوی کے لیے کیسے اچھے اچھے لباس لاتا ہے، میری لڑکی بھلا کسی سے کم ہے جو ایسی زندگی گزارے؟ ہائے میری بیٹی کے کیسے نصیب ہیں؟ اس قسم کی باتیں جو ہمدردی اور خیرخواہی کے طور پر ادا کی جاتی ہیں سادہ لوح لڑکی کو شوہر اور زندگی کی جانب سے بدظن اور سرد مہر بنادیتی ہیں اور بہانہ بازیوں اور باہمی رنجش کے اسباب فراہم کردیتی ہیں۔ لڑکی کے دل میں زہر آگیں خیالات سرایت کرجاتے ہیں اور وہ بہانے تلاش کرکے اپنے شوہر سے لڑتی جھگڑتی اور اسے اذیت میں مبتلا کرتی ہے۔ اس صورت حال میں سخت مرحلہ اس وقت آتا ہے، جب لڑکی کی ماں بھی اس کی حمایت میں کھڑی ہوجاتی ہے۔ اور زبانی و عملی طور پر اس کی تائید کرتی ہے اور کامیابی حاصل کرنے کے لیے کسی بھی چیز حتیٰ کے طلاق دلانے اور اپنی بیٹی کا گھر اجاڑنے سے بھی دریغ نہیں کرتی۔ ذیل کی داستان پر توجہ فرمائیے۔
ایک انتالیس سالہ مرد اپنی بیوی اور ساس کے ہاتھوں اتنا پریشان ہوا کہ اس نے خود کشی کرلی۔ اس نے جو خط چھوڑا اس میں لکھا تھا چونکہ میری بیوی، جس شہر میں، میں کام کرتا ہوں، آنے پر راضی نہیں ہوتی اور اپنے ناروا سلوک سے مجھے اس قدر اذیت پہنچاتی ہے کہ میں اس سے نجات حاصل کرنے کی غرض سے اپنی زندگی کا خاتمہ کررہا ہوں۔ میری موت کی ذمہ دار میری بیوی اور اس کی ماں ہے۔
ظاہر ہے اگر لڑکیاں اس قسم کی نادان اور خود غرض ماؤں کی اطاعت و فرمانبرداری کریں گی اور ان کے غلط خیالات کا اثر قبول کریں گی تو یقینا اپنے بسے بسائے گھر کو خود اپنے ہاتھوں تباہ کردیں گی۔
لہٰذا جو عورت خوش و خرم زندگی گزارنے اور اپنی شادی شدہ زندگی کو برقرار رکھنے کی خواہشمند ہے اسے چاہیے کہ بغیر سوچے سمجھے اپنی ماں کے افکار و خیالات کو قبول نہ کرے اور اسے سو فیصدی درست اور مصلحت کے مطابق تصور نہ کرلے۔ ایک عقلمند اور ہوشیار عورت ہمیشہ احتیاط اور ناعاقبت اندیشی سے کام لیتی ہے۔ اپنے ماں باپ کی گفتار اور تجاویز پر خوب غور کرتی ہے، اس کے انجام اور نتائج کے بارے میں سوچتی ہے اور اس کے وسیلے سے اپنی ماں کو پرکھتی ہے۔ اگر دیکھتی ہے کہ اس کی ماں تعاون کرنے اور ایک عاقلانہ روش اپنانے کی ترغیب دلاتی ہے تو جان لیتی ہے کہ وہ خیرخواہ، عقلمند اور مدبر خاتون ہے، اس صورت میں اس کے کہنے پر عمل کرنا چاہیے اور اس کی عاقلانہ ہدایتوں کو قبول کرنا چاہیے لیکن اگر دیکھے کہ اپنی جاہلانہ باتوں اور غیر عاقلانہ تجاویز کے ذریعہ اس کو اپنے شوہر سے بدظن کردیتی ہے، اور اس کی بدبختی کے اسباب فراہم کرتی ہے تو یقین کرلینا چاہیے کہ وہ نادان، بدسلیقہ اور بداخلاق ہے۔
ایسے حالات میں ماں یا دوسرے رشتہ داروں کی غیر منطقی تجاویز اور فضول باتوں سے قطع نظر کرکے اپنے شوہر کی دیکھ بھال میں لگ جائے اور اپنی ماں سے مناسب لہجے میں کہہ دے کہ میرے مقدر میں اسی مرد سے شادی ہونا لکھا تھا، لہٰذا اب میری بہتری اسی میں ہے کہ پوری تندہی اور سنجیدگی کے ساتھ اس مشترکہ زندگی کو خوشحال اور پرمسرت بنانے کی کوشش کروں اور اپنے اچھے اخلاق و کردار کے ذریعہ اپنے شوہر کو راضی اور خوش رکھوں، وہی مجھ کو خوش نصیب بناسکتا ہے ، وہی میرا شریکِ زندگی اور مونس و غمخوار ہے۔ میری نظر میں اس سے بہتر کوئی دوسرا نہیں۔ ہم لوگ مسائل کو خود حل کرلیں گے اور اگر کوئی مشکل آپڑی تو وہ حل ہوجائے گی۔ آپ کی مداخلتوں کے سبب ممکن ہے ہماری ازدواجی زندگی تباہ و برباد ہوجائے اگر آپ چاہتی ہیں کہ ہماری آمد ورفت اور تعلقات قائم رہیں تو ہماری نجی زندگی میں بالکل دخل اندازی نہ کیجیے اور میرے شوہر کی برائی نہ کیجیے ورنہ میں آپ سے قطع تعلق کرنے پر مجبور ہوجاؤں گی۔
اگر آپ کی ان باتوں اور نصیحتوں کا ان پر اثر ہوتا ہے اور وہ اپنے رویے میں تبدیلی پیدا کرلیتی ہیں تو آپ ان سے تعلقات قائم رکھیں لیکن اگر وہ اپنی اصلاح کرنے پر تیار نہیں تو آپ کی بہتری اسی میں ہے کہ ماں کے یہاں آنا جانا بہت کم کردیں اور اس طرح ایک بہت بڑے مسئلے یعنی خاندان کا شیرازہ درہم برہم ہونے کے خطرے سے نجات حاصل کرلیں اور اطمینان کے ساتھ زندگی گزاریں۔ اس صورت میں ممکن ہے رشتے داروں کی نظر میں آپ کی عزت و وقار کم ہوجائے لیکن اس کے بدلے میں آپ کے شوہر کی محبت وخوشنودی میں کئی گنا اضافہ ہوجائے گا اور اس کی نظروں میں آپ کی عزت و وقار بڑھ جائے گا۔
حضور ﷺ کا ارشاد گرامی ہے کہ ’’تم میں سے بہترین عورت وہ ہے جس کے زیادہ بچے ہوں، شوہر سے محبت کرنے والی، پاک دامن اور باحیا ہو، اپنے شوہر کی مطیع و فرمانبردار ہو، اپنے شوہر کے لیے آرائش کرے، خود کو غیروں سے محفوظ رکھے، اپنے شوہر کی بات سنے اور اس کی اطاعت کرے، جب دونوں تنہا ہوں تو اس کے ارادے پر عمل کرے، لیکن ہر حال میں شرم و حیا کا دامن ہاتھ سے نہ چھوڑے۔‘‘
——

مزید

حالیہ شمارے

ماہنامہ حجاب اسلامی شمارہ ستمبر 2023

شمارہ پڑھیں

ماہنامہ حجاب اسلامی شمارہ اگست 2023

شمارہ پڑھیں