شُو میکر

انور کمال

جماعت روڈ کو کسی زمانے میں ٹھنڈی سڑک کہا جاتا تھا، کیونکہ اس سڑک کے دونوں کناروں پر بڑے بڑے درخت ہوا کرتے تھے جن کی شاخیں آپس میں مل کر پوری سڑک پر سایہ کیے ہوئے تھیں۔

نوید، جماعت روڈ سے ہوتے ہوئے مشرق کی جانب ٹرنک روڈ پر مڑ گیا۔ جو پدور ریلوے گیٹ کے قریب سے اقبال روڈ میں داخل ہوکر ندی کے کنارے تک چلی جاتی تھی۔

نوید کو اقبال روڈ پر واقع جدید مسجد پہنچنا تھا ، اس لیے کہ وہاں کے ایک حاجی صاحب سے مل کر مسجد کے متولی کے خلاف عدالتی کارروائی کرنے سے باز رکھنا تھا۔ حاجی صاحب نے ایک ہنگامہ کھڑا کردیا تھا۔ اور ذمہ دارانِ مسجد کا ناک میں دم کردیا تھا۔ مقصد صرف انا کی تسکین تھی۔ بعض لوگ ظاہر میں تو بزرگ لگتے ہیں، جبکہ نفس پرستی کا غلبہ ان پر اس طرح چھایا ہوتا ہے کہ وہ انسانیت سے بھی گرے ہوئے ہوتے ہیں۔

نوید چلتے چلتے رک گیا تھا۔ اس کے جوتے میں کوئی خرابی پیدا ہوگئی تھی۔ دھوپ کی تمازت بڑھ گئی تھی۔ ٹرنک روڈ پر کوئی سایہ نہیں تھا۔

نوید نے دیکھا کہ جوتے کی سلائی کھل گئی ہے۔ اب اس کو چلنے میں دشواری پیش آرہی تھی۔ اس نے داڑھی پر ہاتھ پھیر کر سوچا کہ کیا کیا جائے۔ ایک طرف گرمی اور دوسری طرف جوتے ساتھ نہیں دے رہے تھے۔ وہ دھیرے دھیرے اپنے قدم اٹھا رہا تھا۔

سامنے ریل کی پٹری کے قریب چند دکانیں نظر آئیں، ان میں ایک دکان پر ایک تختی نظر آئی جس پر لکھا تھا ’’ضامن شو میکر‘‘ ۔ وہ اس طرف بڑھ گیا۔

وہ دکان کے قریب پہنچا تو دیکھا کہ اندر ایک میز رکھی ہوئی ہے اس کے سامنے دو اسٹول تھے اور قریب ہی ایک لکڑی کی بنی الماری رکھی ہوئی تھی، جس میں چند جوتے رکھے ہوئے تھے۔ الماری کے پیچھے دو کاریگر کام کررہے تھے ان میں سے ایک کاریگر نے نوید کی طرف دیکھا اور کہا: ’’ضامن صاحب! تھوڑی دیر میں آنے والے ہیں، آپ اسٹول پر تشریف رکھئے۔‘‘

نوید اسٹول کھسکا کر اس پر بیٹھ گیا۔ چھت پر پرانے طرز کا ایک پنکھا چل رہا تھا۔

دراصل نوید ایک حلوائی تھا۔ شہر میں ان کے والد کی مٹھائی کی ایک دکان تھی۔ بچہ بچہ، ’’حامد مٹھائی گھر‘‘ کے نام سے واقف تھا۔

حاجی صاحب خاص کر حامد بھائی کے لڈو کے عاشق تھے۔ وہ جب بھی اپنی کار حامد بھائی کی دکان کے سامنے روک کر ان کی دکان کی طرف لکڑی ٹیکتے ہوئے آگے بڑھتے تو حامد بھائی جھٹ سے ایک پلیٹ میں چند لڈو اور گرم گرم جلیبیاں پیش کردیتے تھے۔ حاجی صاحب کے ایک پیر میں لنگ تھا اور وہ لڑکھڑا کر چلتے تھے۔

حامد بھائی بڑے ہنس مکھ شخص تھے۔ پست قد کے آدمی تھے۔ یہ پتہ نہیں چلتا تھا کہ وہ کاؤنٹر کے پیچھے کھڑے ہوئے ہیں یا کرسی پر بیٹھے ہوئے ہیں۔ ہر گاہک کا خیال رکھتے تھے۔ لطیفہ گو شخص تھے۔ کوئی نہ کوئی لطیفہ سنا کر گاہک کے منہ کے ساتھ ساتھ دل بھی میٹھا کردیتے تھے۔ اگر کوئی کاہک کسی خاص مٹھائی کی فرمائش کردیتا تو جھٹ سے کہہ دیتے :

’’رمضان میں آئیے۔‘‘

اور اگر وہ پوچھتا: ’’وہ کیوں بھلا؟‘‘ تو جواب دیتے: ’’بعض مٹھائیاں خاص دنوں کے لیے ہوا کرتی ہیں۔ رمضان کی رمضان میں۔‘‘

اس طرح گاہک کو لاجواب کردیتے تھے۔

حاجی صاحب کو خوش آمدید کہتے ہوئے حامد بھائی کہتے: ’’آئیے، تشریف لائیے، حلوائی کی دکان میں شہد لگانے آئے ہیں۔‘‘

’’ارے یہ تو شیطان کا کام ہے۔‘‘ حاجی صاحب اپنی انڈے نما آنکھوں سے حامد بھائی کو گھورتے۔

’’کیوں ڈراتے ہو، شیطان کب سے لنگڑا ہوگیا۔‘‘ اپنی عینک کو درست کرتے ہوئے حامد بھائی کہہ دیتے اور پھر اس بات پر دونو ںمسکرادیتے تھے۔ بلکہ قہقہہ بھی لگادیتے تھے۔

کچھ آہٹ ہونے کی وجہ سے نوید نے شومیکر کی دکان سے باہر کی طر ف دیکھا۔ دکان کے سامنے ایک پرانے طرز کی موٹر سائیکل آکر رکی اور ضامن بھائی اندر چلے آئے۔ پچاس اور ساٹھ کے درمیان عمر، سر بال غائب، البتہ پشت کی جانب بالوں کا ایک گچھا تھا۔ چہرے پر فرنچ کٹ داڑھی، آنکھوں پر باریک فریم کا چشمہ، گوری رنگت، درمیانہ قد کے انسان تھے۔ نوید کی طرف دیکھ کر مسکرائے اور سلام کے لیے ہاتھ پیشانی تک لے گئے۔ باتونی قسم کے شخص تھے۔ جب شروع ہوجاتے تو سامنے والے کو منہ کھولنے کا موقع ہی نہیں دیتے، اگر وہ کوئی سوال پوچھ بھی لیتے تو جواب کی توقع نہیں رکھتے تھے۔ بس اپنی ہی سناتے رہتے تھے۔

’’اہاہا!… نوید صاحب یہاں کہاں؟ … کافی دنوں سے نظر نہیں آئے!… طبیعت کیسی ہے؟… ایک ہی سانس میں نوید کی طرف دیکھ کر انھوں نے دریافت کیا۔

’’یہ جوتے…‘‘ نوید نے کہنا چاہا، مگر ضامن صاحب نے تب تک ایک کاریگر کو اشارہ کردیا تھا کہ وہ اس کی مرمت کردے۔

ضامن صاحب سے ہاتھ ملاتے ہوئے نوید نے بات کا رخ موڑدیا اور کہا: ’’طبیعت کے بارے میں کیا کہوں یہ شکر…‘‘ بس وہ اتنا ہی کہہ پایا تھا کہ ضامن درمیان ہی میں بولے:

’’ذیابیطس کسی کو نہیں ہے، …پھر انھوں نے کہا: ’’سنا ہے دکان بھائی کے حوالے کرکے، آپ نے کسی اخبار کی رپورٹنگ شروع کردی ہے۔‘‘

نوید کو بچپن ہی سے شعر و شاعری کا چسکا لگ چکا تھا۔ اکثر شعراء ان کے ہاں آجایا کرتے تھے اور لکھنے لکھانے کی طرف ان کامیلان بڑھ گیا تھا۔ چند برسوں تک بنگلور، حیدرآباد اور دلّی ہو آئے تھے، پھر صحافت سے جڑ گئے تھے۔

موضوع بدلنا کوئی سیکھے تو ضامن صاحب سے سیکھے، تھوڑی ہی دیر میں گفتگو کے ذریعے دنیا جہاں کی سیر کرادیتے تھے۔ اس شہر کے لوگ باتیں بہت کیا کرتے ہیں۔ لمبی چوڑی گفتگو کرنا ان کے لیے معمولی بات تھی۔

تھوڑی دیر کے لیے ضامن صاحب چپ ہوگئے تھے، ان کی خاموشی نوید کو عجیب لگی۔

ضامن ایک جوتے کو ہاتھ میں لے کر بڑے انہماک کے ساتھ دیکھتے رہے پھر اس پر ہاتھ پھیرنے لگے تھے جیسے کوئی باپ اپنے بچے کے سر پر شفقت سے ہاتھ پھیر رہا ہو۔

’’اچھا ہے…‘‘نوید نے کہا۔

’’ہاں نوید صاحب!‘‘ ضامن نے چونک کر اپنے سر کو اوپر اٹھایا اور نوید کی طرف مسرت بھری نگاہوں سے دیکھ کر کہنے لگے۔

’’جب کوئی ہمارے بنائے ہوئے جوتوں کی تعریف کرتا ہے تو ہمیں سکون ملتا ہے۔ جیسے کوئی ہماری اولاد کی تعریف کررہا ہو…‘‘ پھر وہ بولے:’’چمڑے کی تجارت کے لیے مشہور اس شہر میں کاریگری کی قدر ہونی چاہیے۔ پڑوس کے شہر کو ’’شو لیدر سٹی‘‘ کہا جاتا ہے، وہاں بڑے بڑے کارخانوں میں شو بنتے ہیں، پھر بھی کچھ خاص لوگ ہمار ی طرف آتے ہیں…‘‘ انھوں نے داد طلب نگاہوں سے نوید کی طرف دیکھا۔

ضامن بھائی گاہکوں کے پیروں کا ناپ خود ہی لیا کرتے تھے اور جوتے تیار کرکے خود ہی ان کے پیر پکڑ کر پہنادیا کرتے تھے۔ گاہک کے چہرے پر اطمینان کی کیفیت دیکھ کر بہت خوش ہوتے تھے۔ پیسوں کے پیچھے دوڑتے تو کیا سے کیا بن جاتے لیکن ایک حقیقی کاریگر اپنے فن کی تعمیر ہی کو سب کچھ سمجھتا ہے۔ اور اسی میں کھویا ہوا رہتا ہے۔ ہر فن کار دنیا کو کچھ دیتا ہے، دنیا سے کچھ نہیں لیتا۔

’’جس طرح ڈریس میکر اور ہیئر ڈریسر کو بدلا نہیں جاتا ویسے ہی شومیکر کو بھی تبدیل نہیں کیا جاسکتا۔‘‘ وہ دھیمی آواز میں گویا اپنے آپ سے کہنے لگے۔

’’جی، آپ نے کچھ کہا…‘‘ نوید نے پوچھا

چند لمحوں تک چپ چاپ وہ نوید کی طرف دیکھتے رہے۔ پھر جیسے انہیں کوئی بات یاد آگئی ہو، وہ بولے: ’’جی ہاں! آدمی کی کئی ضروریات ہوا کرتی ہیں، سر سے لے کر پیر تک…‘‘ایک وقفہ لے کر انھوں نے گفتگو جاری رکھی۔

’’جسمانی ضروریات میں سب سے آخری ضرورت جوتے ہی ہیں۔‘‘ پھر انھوں نے کہا:

’’ہاں ایک اور بات…‘‘اتنا کہہ کر وہ خاموش ہوگئے اور بات ادھوری ہی چھوڑ دی۔ ایسا لگتا تھا جیسے کچھ کہنے کا ارارہ کیا ہو پھر وہ بات بھول گئے ہوں۔

نوید، بنگلور سے شائع ہونے والے ایک اخبار کا نمائندہ تھا۔ وہ سوچنے لگا آج مسلمانوں کے درمیان بے چینی اور بدامنی پھیلی ہوئی ہے۔ مساجد بھی گروہ بندی کا شکار ہوتی جارہی تھیں، ایک گروہ دوسرے گروہ پر سبقت لے جانا چاہتا ہے۔ اور اپنے ہی گروہ کو سلام کرتا ہے، دوسروں کو خاطر میں نہیںلاتا۔ لوگوں میں بھائی چارگی کی جگہ نفس پرستی نے اپنی جگہ بنالی ہے۔

چند لمحوں کے بعد ضامن بھائی کی آواز سنائی دی: ’’ہاں، تو میں کہہ رہا تھا!…‘‘

’’فرمائیے!…‘‘ نوید ان کی طرف متوجہ ہوگیا۔ اور وہ کہنے لگے تھے:

’’لوگ خواہ مخواہ جوتے کو بدنام کرتے ہیں۔ بوٹ کلب قائم کرلیے ہیں اور جوتے کو ایک دوسرے پر اچھال کر شہرت حاصل کررہے ہیں۔‘‘ وہ اتنا ہی کہہ پائے تھے کہ کاریگر نے نوید کے مرمت شدہ جوتے اس کے قدموں کے پاس لاکر رکھ دیے۔

’’نوید صاحب!‘‘ ضامن نے نوید کو مخاطب کیا اور کہا: ’’آپ رپورٹر ہیں، میری آپ سے ایک گزار ش ہے… میرا ایک پیغام دنیا والوں تک پہنچادیجیے۔‘‘ اتنا کہہ کر وہ خاموش ہوگئے۔

’’کہیے!… وہ کیا ہے؟‘‘ نوید نے دریافت کیا۔

’’جوتے زمین کو چھوتے ہیں۔ اُن میں عاجزی اور انکساری پائی جاتی ہے۔ اگر انسان میں بھی عاجزی اور انکساری آجائے تو یہ دنیا گلزار بن جائے۔‘‘ ان کی آواز میں بردباری اور حلم جھلک رہا تھا۔

اور نوید نے سوچا:

ضامن بھائی ٹھیک ہی تو کہہ رہے ہیں، یہ آدمی ہی تو ہے جو زمین پر اکڑ کر چلتا ہے، اگر اس کے پاس نرمی اور صلہ رحمی آجائے تو دنیا کیا سے کیا بن جائے۔

بادلوں نے سورج کو ڈھانپ لیا تھا۔

گرمی کی شدت میں کمی آگئی تھی۔

مزید

حالیہ شمارے

ماہنامہ حجاب اسلامی ستمبر 2024

شمارہ پڑھیں

ماہنامہ حجاب اسلامی شمارہ ستمبر 2023

شمارہ پڑھیں

درج بالا کیو آر کوڈ کو کسی بھی یو پی آئی ایپ سے اسکین کرکے حجاب اسلامی کو عطیہ دیجیے۔ رسید حاصل کرنے کے لیے، ادائیگی کے بعد پیمنٹ کا اسکرین شاٹ نیچے دیے گئے  وہاٹس ایپ پر بھیجیے۔ خریدار حضرات بھی اسی طریقے کا استعمال کرتے ہوئے سالانہ زرِ تعاون مبلغ 600 روپے ادا کرسکتے ہیں۔ اس صورت میں پیمنٹ کا اسکرین شاٹ اور اپنا پورا پتہ انگریزی میں لکھ کر بذریعہ وہاٹس ایپ ہمیں بھیجیے۔

Whatsapp: 9810957146