جاوید اور نزہت کی شادی کو چھ ماہ ہوچکے تھے۔ ایک روز جب جاوید گھر واپس آیا تو اس کے ہاتھ میں ایک نہایت خوبصورت اور خوش رنگ ڈبہ تھا۔ جاوید نے اسے لاکر سلیپنگ روم میں سنگھار میز پر رکھ دیا۔
’’ یہ ڈبہ—؟‘‘ نزہت چونک پڑی۔
’’ہاں یہ ڈبہ‘‘ جاوید مسکرایا۔
’’یہ تو میں بھی دیکھ رہی ہوں مگر اس کا ہوگا کیا۔‘‘ وہ کہتی ہوئی سنگھار میز کے سامنے اسٹول پر بیٹھ کر ڈبہ کو غور سے دیکھنے لگی۔
’’ہے تو بڑا خوبصورت، مگر اس کے ڈھکن میں دراز کس لیے ہے۔‘‘ وہ ڈبہ پر اپنی حنائی انگلیاں پھیرتے ہوئے ڈھکنے کو غور سے دیکھ کر یکبارگی مسکرا پڑی۔
’’اچھا، اچھا میں سمجھ گئی یہ شاید پیسے جمع کرنے کا ڈبہ ہے۔‘‘
’’ہاں یہ ہے تو ویسا ہی مگر میں اس میں پیسے جمع کرنے کے لیے نہیں لایا ہوں۔‘‘ جاوید نے اسے بتایا۔
’’یہ دراصل شکایتوں کا ڈبہ ہے۔‘‘
’’شکایتوں کا ڈبہ—؟‘‘ نزہت کی آنکھیں حیرت سے پھیل گئیں۔
’’ہاں شکایتوں کا ڈبہ۔‘‘ جاوید اسے سمجھانے لگا۔
’’کیا تمہیں وہ ڈبہ یاد نہیں جو اس ہوٹل میں رکھا ہوا تھا؟ اور مسافروں اور گاہکوں کو اجازت تھی کہ اگر انہیں ہوٹل میں کچھ تکلیف ہو یا کچھ شکایت ہو تو وہ بجائے ہوٹل کے ملازموں سے یا مالک سے لڑنے جھگڑنے کے ایک چٹھی میں لکھ کر اس ڈبہ میں ڈال دیا کریں تاکہ بغیر کسی لڑائی جھگڑے کے شکایت دور کردی جائے اور میں بھی اس کو اس لیے لایا ہوں کہ ہم میں سے جس کو شکایت ہو وہ چٹھی لکھ کر اس میں ڈال دے۔
’’لیکن…‘‘ وہ ہکلائی۔
’’مجھے بھلا تم سے کیا شکایت ہوسکتی ہے؟‘‘
اب جاوید کسی قدر پریشان ہوگیا کہ وہ کیا جواب دے۔ بات دراصل یہ تھی کہ نزہت سے اسے چند شکایتیں تھیں۔ جنہیں وہ دور کرنا چاہتا تھا۔ مگر وہ شکایتوں کا اظہار نہیں کرپا رہا تھا اسی لیے وہ کافی سوچ بچار کے بعد یہ ڈبہ خرید کر لایا تھا۔ اور اسے یہ یقین تھا کہ یہ ڈبہ اس کی شکایتیں بغیر کسی بدمزگی کے دور کرنے میں سود مند ثابت ہوگا اور نزہت کو بھی آنسو بہانے کی ضرورت نہ ہوگی۔
ضرورت اور جلدی کے وقت ایک ہی رنگ کے سوٹ میں دوسرے رنگ کے بٹن ٹوٹے ہوئے بٹنوں کی جگہ پر ٹانک دینا یا بغیر میل کی ٹائی نکال کر رکھ دینا اور خصوصاً اس کے کپڑوں کی استری اور صفائی کا خیال نہ رکھنا اسے بہت ناگوار گزرتا تھا۔ لیکن وہ نزہت کے آنسوؤں کے خوف سے جو ہر وقت پلکوں سے ڈھلک پڑنے کو بے تاب رہتے تھے۔ اپنی شکایتیں نزہت کے سامنے بیان کرنے کی ہمت نہ کرسکا۔
’’بات دراصل یہ ہے‘‘ جاوید نے ذرا سنبھل کر کہنا شروع کیا۔
’’اگر مجھ کو … میرا مطلب ہے کہ اگر ہم دونوں کو ایک دوسرے سے کبھی کسی قسم کی شکایت یا اختلاف ہو تو … اول تو میں یہ چاہتا نہیں کہ اس قسم کی شکایتیں یا معمولی اختلاف ہی ہماری پر مسرت زندگی میں داخل ہوں، سمجھ رہی ہو تم نا۔‘‘
’’ہاں… ہاں کہتے جاؤ…‘‘ نزہت نے جواب دیا۔
’’ہاں تو‘‘ جاوید نے کہنے لگا۔
’’اگر کبھی اس قسم کی شکایت یا اختلاف کا موقع آئے تو بجائے اسے بیان کرکے لڑنے اور جھگڑنے کے میں … یعنی کہ ہم لوگ ایک چٹھی میں لکھ کر اس ڈبہ میں ڈال دیا کردیں گے اور اس طرح ہم ایک دوسرے کی شکایتوں اور اختلاف کو خاموشی کے ساتھ بغیر ایک لفظ کہے دور کرسکیں گے اور اس طرح ہمارے پرسکون زندگی میں بدمزگی اور لڑائی جھگڑے کا کوئی امکان باقی نہ رہے گا۔‘‘ وہ چپ ہوگیا۔
اور نزہت جلدی سے ڈبہ کا ڈھکنا کھول کر دیکھنے لگی اس خیال سے کہ ممکن ہے جاوید نے شاید کوئی چٹھی ڈبہ میں ڈال دی ہو۔ لیکن اس نے دیکھا تو ڈبہ خالی تھا۔
اور پھر ایک مہینہ تک واقعات نہایت خوشگوار رہے بلکہ جاوید تو یہ بھی محسوس کرنے لگا کہ اس کی شکایتیں اگر بالکل نہیں توکسی حد تک ضرور رفع کردی گئی ہیں۔
لیکن اس ترکیب کا سب سے بڑا فائدہ پرسکون اور مسرت بھری زندگی تھا۔ جاوید اپنے اصولوں پر سختی کے ساتھ عمل کررہا تھا اور جب بھی اسے نزہت سے کسی قسم کی شکایت ہوتی تو وہ بغیر ایک لفظ کہے انہیں ایک پرزے پر لکھ کر ڈبہ کی دراز میں ڈال دیتا۔ اگر ایک مرتبہ لکھنے کا کوئی اثر نہ ہوتا تو بار بار لکھتا اور پھر یہاں تک کہ اسے یہ محسوس ہونے لگتا کہ معاملات ٹھیک راستہ اختیار کررہے ہیں۔
جاوید اور نزہت کو پھول بہت پسند تھے اور پسند کی بنا پر ان دونوں نے مل کر ایک ننھا سے چمن جو ان کی پر مسرت اور قابل رشک زندگی کی طرح خوبصورت تھا اپنے مکان کے سامنے بنایا تھا۔ اسی چمن میں ایک دن صبح کو جاوید کیاریوں کی دیکھ بھال کررہا تھا۔ اس وقت جاوید اچھے موڈ میں تھا اور ایک غزل گنگنارہا تھا۔
لیکن پھر گلاب کے خطے میں بندھے ہوئے ہرن کے بچے کو دیکھ کر یکبارگی اس کی پیشانی پر کئی بل پڑ گئے۔ ہرن کے گلے کا خوبصورت پٹہ بے حد میلا ہورہا تھا۔ اور اس میلی چیز سے جاوید کو سخت نفرت تھی۔ بھلا جاوید یہ کس طرح گوارا کرسکتا تھا کہ اس کے پیارے ہرن کے گلے کا پٹہ اتنا میلا رہے یا غلیظ۔ اور اس لفظ سے جاوید کو نفرت تھی۔
وہ جھنجھلایا ہوا اپنے کمرے میں آیا اور میز پر رکھی ہوئی چھوٹی سی نوٹ بک میں سے ایک ورق پھاڑ کر جلدی جلدی لکھنے لگا۔
’’مجھے تم سے صرف اس بات کی شکایت ہے کہ بعض اوقات تم صفائی کا بالکل دھیان نہیں رکھتی ہو۔ ہرن کا پٹہ بدلنے کو میں کئی مرتبہ لکھ چکا ہوں لیکن تم نے کوئی پرواہ نہیں کی۔ اور مجھے تم سے اس بات کی بھی شکایت ہے کہ مجھے اکثر قمیصوں کے بٹن ٹوٹے ہوئے ملتے ہیں اور اس بات کے متعلق بھی میں تین مرتبہ لکھ چکا ہوں۔ تم کپڑے نکالتے وقت ہمیشہ میرے کپڑوں کی استری خراب کردیتی ہو اور اس کے متعلق بھی چار مرتبہ اس سے قبل لکھ چکا ہوں اور مجھے تم سے سب سے بڑی شکایت یہ ہے کہ تم سخت لا پرواہ ہو اور مجھے اس بات کا خوف ہے کہ تمہاری یہ لاپرواہی کہیں ہماری پرمسرت اور پرسکون زندگی میں خلل انداز نہ ہو۔ امید ہے کہ اس مرتبہ میں نے جو کچھ بھی لکھا ہے وہ بے اثر ثابت نہ ہوگا۔
جاوید نے اتنا لکھ کر قلم ہاتھ سے رکھ دیا اور نزہت کے متعلق سوچنے لگا جسے وہ سوتا ہوا چھوڑ آیا تھا پھرتھوڑی دیر کے بعد اپنی لکھی ہوئی شکایتوں کو ڈبہ میں ڈالنے کے لیے اٹھنے کا ارادہ کر ہی رہا تھا کہ اس کی نظر یکبارگی میز کی دراز پر پڑی جو کہ نصف کے قریب کھلی ہوئی تھی۔ اس میں نزہت کے خطوط اور کاغذات وغیرہ نہایت ہی لاپرواہی سے پڑے ہوئے تھے حالانکہ ایک ہی ہفتہ قبل جاوید نے خطوط، رسیدیں اور کاغذات وغیرہ رکھنے کے لیے ایک نہایت ہی خوبصورت فائل لاکر نزہت کو دی تھی۔
اس کی اس لاپرواہی کو دیکھ کر اس پر جھلاہٹ اور غصے کا ایک دم سے دور پڑا قلم ہاتھ میں لے کر اس لاپرواہی اور دوسری غلطیوں کے متعلق جو اس نے پہلے نظر انداز کردی تھیں۔ شکایتیں لکھ لکھ کر چھوٹی سی نوٹ بک کے کئی صفحے پھاڑ پھاڑ کر سیاہ کر ڈالے۔
اور پھر جب وہ کاغذات کو لے کر انہیں تہہ کرتا ہوا روم میں گیا تو نزہت اس وقت تک سو رہی تھی، اس کا ایک ہاتھ سر کے نیچے تھا اس کے سیاہ ریشمی بال بکھرے تھے۔ اور ایک معصوم تبسم اس کے ہونٹوں پر رقص کررہا تھا۔
جاوید نے دیکھا اور اس کے چہرے پر مسکراہٹ پھیل گئی مگر پھر جب اس نے ہاتھ میں دبے ہوئے کاغذات کا خیال آیا تو اس کا منھ پھر سے بن گیا وہ جلدی سے کاغذات کو ڈبے کی درازمیں ڈالنے لگا۔ مگر باوجود کوشش کرنے کے وہ دراز میں نہ داخل ہوسکے کیونکہ وہ کئی تہہ ہونے کی وجہ سے کافی موٹا ہوگیا تھا۔
جس روز سے جاوید نے ڈبہ لاکر سلیپنگ روم میں رکھا تھا اس روز کے بعد آج پہلی مرتبہ جاوید نے ڈبہ کا ڈھکن کھولا اور وہ بھی اس لیے کہ اپنی چٹھی کو اندر ڈال سکے۔ کیونکہ وہ موٹا ہونے کی وجہ سے دراز میں سے نہیں جارہا تھا۔
ڈبہ کھولتے ہی جاوید کی آنکھیں حیرت سے پھیل گئیں۔ اس کی لکھی ہوئی تمام چٹھیاں جوں کی توں ڈبہ میں رکھی ہوئی تھیں ایسا معلوم ہوتاتھا کہ انہیں ہاتھ تک نہیں لگایا گیاہے۔ اس نے ڈبہ کو سنگار میز پر الٹ دیا۔ اور اسے یہ دیکھ کر اور بھی زیادہ حیرت ہوئی کہ اس کی لکھی ہوئی چٹھیوں کے علاوہ کچھ اور چٹھیاں بھی موجود تھیں۔
جاوید کو نزہت کی لکھائی پہچاننے میں زیادہ دقت نہیں ہوئی لیکن کبھی اسے خواب میں بھی یہ نہ سوچا تھا کہ نزہت کو بھی اس سے کچھ شکایت ہوسکتی ہے۔
وہ ایک چٹھی اٹھا کر پڑھنے لگا۔
’’اگر آئندہ سے ڈرائنگ روم سجادینے کے بعد تم چیزیں اور فرنیچر ادھر ادھر کروگے تو میں رونے لگوں گی۔‘‘
اس نے دوسرا خط اٹھایا۔
’’خدا کے واسطے تم ناشتہ کے وقت میز پر بیٹھ کر اخبار نہ پڑھا کرو، مجھے اس سے سخت نفرت ہے۔‘‘
تیسرا خط تھا
’’میرے رسالوںاور کتابوں کے ٹائٹیل پر لکھ کر اور اپنے دستخط بناکر خراب نہ کیا کرو۔ اس سے مجھے نفرت ہے۔‘‘
چوتھا خط تھا
’’میرے نماز پڑھتے وقت خدا کے واسطے تم ریڈیو مت…‘‘
’’ارے یہ تم کیا کررہے ہو۔‘‘ نزہت کی آواز آئی اور وہ چونک پڑا۔ اس نے دیکھا نزہت سو کر اٹھ چکی تھی اور وہ کہنی کا سہارا لیے ہوئے جاوید کو دیکھتی ہوئی آنکھیں مل رہے تھی۔
جاوید نے مسکرا کر نزہت کو دیکھا۔
’’اوہ—‘‘ وہ مسکرا کر اٹھی مگر پھر چونک پڑی
’’ارے مگر اتنی بہت سی چٹھیاں … اوہ تو کیا تم کو بھی مجھ سے کچھ شکایتیں ہیں۔‘‘ نزہت نے ایک چٹھی اٹھائی
’’میں تو سمجھتی تھی کہ تم کو مجھ سے کچھ شکایت ہی نہیں ہے۔‘‘ وہ پرچے کو کھولنے لگی۔
مگر جاوید نے جلدی سے نزہت سے وہ پرچہ چھین لیا اور دونوں نے ایک دوسرے کو دیکھ کر ایسا قہقہہ لگایا جیسے ان دونوں کی تمام شکایتیں ختم ہوگئی ہوں۔