زندگی دکھ سکھ کا سنگم ہے۔ یہاں خوشیاں اور غم آنکھ مچولی کھیلتے ہی رہتے ہیں۔ کبھی مسائل اور پریشانیوں کی تپش زندگی کو خون کی تپتی ویران دوپہروں جیسا بنا دیتی ہے تو کبھی خوشی کی تتلی من آنگن میں جب اپنے حسین پر پھیلاتی ہے تو سارے موسم، سارے منظر، سارے رنگ، دلکش، دلربا اور خوبصورت لگنے لگتے ہیں لیکن کیسی حیرت کی بات ہے، ہم تتلی کے دلکش رنگوں جیسے تمام خوشگوار لمحوں کو بھول جاتے ہیں۔ ہمیں خوشی کی تتلی مْٹھی میں کرنے کا ہْنر نہیں آتا۔ ہمیں تو بس ایک ہی فن آتا ہے… اپنی افسردگی کو اشتہار بنا لینے کا فن، اپنے دْکھوں کی پبلسٹی کرنے کا فن۔ اپنی محرومیوں پر شکوہ کْناں رہنے کا ہْنر۔
ہم اپنے ساتھ ہمیشہ ایک چھوٹا سا تھیلا رکھتے ہیں۔ جس میں ہم یاد سے، احتیاط سے، اپنے دکھوں، تکلیفوں، محرومیوں اور مسائل کو ایک ایک کرکے جمع کرتے رہتے اور پھر گاہے گاہے اس تھیلے میں سے کسی محرومی، کسی تکلیف یا کسی دْکھ کو نکالتے ہیں۔ جی بھر کر خود کو اور دوسروں کو آزردہ کرتے ہیں۔ ہم اپنے ذہن کے کمپیوٹر میں ایک فولڈر بنا لیتے ہیں اور اس کا نام رکھتے ہیں، شکایات۔ اس فولڈر کے اندر موجود ساری فائلز اْن شکوے، شکایات اور گِلوں سے بھری ہوتی ہیں جو ہمیں لوگوں سے، اپنے آپ سے، حالات سے ، معاشرے سے ، اللہ تعالیٰ سے اور تقدیر سے ہوتے ہیں۔ عجیب بات یہ ہے کہ ہم اس فولڈر کو کبھی ختم نہیں کرتے۔ کبھی ریسیکل بن میں نہیں بھیجتے بلکہ اسے ڈیسکٹوپ پر رکھتے ہیں۔ پھر لفظوں کی صورت زبان پر سجا لیتے اور کہتے ہیں ’’آخر میرے ساتھ ہی ایسا کیوں ہوتا ہے؟‘‘
سب کو خوشیاں مل جاتی ہیں، میرا حصہ کھو جاتا ہے۔ ہماری زندگی میں اس قدر ناشکراپن، گلہ شکوہ اور تقاضا کیوں ہے؟ کیا آپ نے کبھی اس پر غور کیا ؟ سوچا؟
آئیے دیکھتے ہیں کہ اس ناشکرگزاری کے پس منظر میں کون سی وجوہ کارفرما ہوتی ہیں۔ معاشی ناآسودگی، خواہشات کا اَدھورا رہ جانا، قناعت پسندی کا نہ ہونا۔ توکل کی کمی، سادہ اور فطری اندازِ زندگی سے دوری۔ آپ دیکھ لیجیے کہ دیہات میں لوگ آپ کو زیادہ مطمئن نظر آئیں گے۔ کم وسائل اور زیادہ مسائل کے باوجود ان کی زبان پر گلے شکوے کے الفاظ نسبتاً کم ہوں گے۔ آج کا انسان اپنے موجودہ سٹیٹس سے مطمئن نہیں۔ ، وہ اوپر سے اوپر جانے کی خواہش میں جائز ، ناجائز ذرائع استعمال کرتا ہے اور جب اس کوشش میں حسبِ خواہش کامیاب نہیں ہو پاتا تو ناشکری کرتا ہے۔
ہم دوسروں کے لیے جیسا بھی سوچیں لیکن لوگ ہمارے لیے گڑھا کھودیں تو ہم برداشت نہیں کرپاتے اور جھگڑا کرتے ہیں۔ منفی اندازِ فکر بھی زندگی کو گِلے اور شکوے سے بھر دیتا ہے۔ کچھ لوگ نقطے کو لکیر بنا لیتے ہیں۔ کسی محرومی کے چھوٹے سے دھبے کو پھیلا کر ساری زندگی کو سیاہ بنا لیتے ہیں۔ تلخ واقعات کو کیلنڈراور تصاویر کی صورت دیوار پر چسپاں کر دیتے ہیں۔ آہیں بھرتے اور جلتے کڑھتے ہیں۔ عموماً نو سٹلجیا کا شکار لوگوں کا رویہ یہ ہوتا ہے۔زندگی میں ناشکرگزاری کی ایک بڑی وجہ بے جا خواہشات کی کثرت ہے۔ حضرت علی? کا قول ہے’’ خواہشوں کو قلیل رکھو گے تو راحت پائو گے۔‘‘ دیکھا جائے تو زندگی میں انتشار کا ایک بڑا سبب یہ خواہشات ہی ہیں۔
کہیں اعلیٰ رتبے کی خواہش، بلند معیارِزندگی کی تمنا، کہیں جاہ و حشمت اور حکمرانی کی خواہش، لوئر کلاس کی مڈل اور مڈل کلاس کی اپر کلاس میں شامل ہونے کی خواہش۔ زندگی کے ہر میدان میں سب کچھ پا لینے، حاصل کرلینے کی آرزو، کچھ کر دکھانے، آگے سے آگے بڑھنے کی آرزو، کہیں ضروریاتِ زندگی کی تکمیل کی تمنا تو کہیں سہولیات اور آسایشات و تعیشات کی خواہش، دوسروں کو گِرا کر آگے نکل جانے کی خواہش، اچھی ملازمت، بچوں کو اچھے سے اچھے سکول، کالج میں داخل کروانے کی خواہش، غرض ہماری اکثر و بیشتر خواہشات دنیا اور حصولِ دنیا کے گرد گھومتی ہیں۔ (باطن کے بجائے ظاہر کو بہتر بنانے کی ایک دوڑ لگی ہوئی ہے۔) اور جب یہ خواہشیں پوری نہیں ہوتیں تو ہم فرسٹیٹ ہو جاتے اور نتیجتاً شکوے شکایت پر اتر آتے ہیں۔ ناشکری کرتے ہیں۔ قرآن پاک میں فرمایا گیا ’’انسان ہے ہی ناشکرا اور جلد باز۔
سو ہمیں معلوم نہیں کہ ویٹ اینڈ سی کیا ہوتا ہے۔ ہم اپنی اینپوٹ کی فوری اوٹپوٹ چاہتے ہیں لیکن جب ہمیں انتظار کی کیفیت سے گزرنا پڑتا ہے تو ہم مایوسی اور بے صبری کا مظاہرہ کرکے شکایات کا دفتر کھول لیتے ہیں۔ کسی بھی واقعے کا جو فوری نتیجہ سامنے آتا ہے، اس کی بنیاد پر ہم اپنی خوش قسمتی یا بدقسمتی کا تعین کرتے ہیں۔ جب نتیجہ ہماری حسبِ منشا نہیں نکلتا تو ہمیں کہا جاتا ہے اس میں بہتری ہوگی۔ لیکن ہمیں اپنی جلدبازی اور کم فہمی کے باعث جب وہ بہتری کہیں نظر نہیں آتی تو ہم ناشکری پر اْتر آتے ہیں۔ ہمیں جب کامیابی ملتی ہے، تب سارا کریڈٹ ہم خود لینا چاہتے ہیں۔ اس کامیابی کو اپنی محنتوں اور کاوشوں کا ثمر قرار دیتے ہیں۔ اپنی صلاحیتوں پر فخر کرتے اور اکثر مغرور بھی ہو جاتے ہیں۔ تب ہم کبھی نہیں کہتے کہ میں ہی کیوں
لیکن کیسی عجیب بات ہے جب ناکامی ہمارے حصے میں آتی ہے، جب کچھ دے کر ہم سے واپس لیا جا رہا ہوتا ہے تو ہم بوکھلا اور پریشان ہو جاتے ہیں۔ چِلّا اٹھتے اور کہتے ہیں ’’میں ہی کیوں؟‘‘
ناشکرگزاری سے کیسے بچا جا سکتا ہے؟
: واصف علی واصف? فرماتے ہیں
’’تکلیف کو تکلیف سمجھ کر راضی رہنا آدھا شکر ہے۔ پورا شکر یہ ہے کہ ہم تکلیف کو تکلیف نہ سمجھیں۔ تسلیم و رضا کی خْو اپنا لیں۔‘‘ کسی چیز کا شکر ادا کرنے کے لیے ضروری ہے کہ جو چیز آپ کو دی گئی ہے آپ کو اس کی اہمیت کا ادراک ہو، احساس ہو کیونکہ کسی نعمت کا ادراک اور پھر اعتراف ہی شکرگزاری ہے۔
خواہشات کو قلیل اور زندگی کو سادہ بنالیں۔
قناعت پسندی اور توکل کی روش اپنالیں۔
ناشکرگزاری سے بچنے کے لیے ضروری ہے کہ ہر روز صبح کہیں اللہ تیرا شکر ! کہ تو نے مجھے میری اوقات سے کہیں بڑھ کر نوازا ہے۔ دنیا میں سب کچھ تو نہیں مل جاتا۔ جو نہیں ملا، اْس کا ملال کرنے سے بہتر کیا یہ نہیں کہ ہمارے پاس جو موجود ہے، اس کا شکر ادا کرنا سیکھ لیں؟ ’’وہ جو مل گیا اْسے یاد رکھ، جو نہیں ملا اْسے بھول جا۔‘‘ خودکو سمجھائیے کہ بہت کچھ نہ ہونے کے باوجود بھی ہمارے پاس بہت کچھ ہے، اتنی ڈھیر ساری نعمتیں ہیں، ہاتھ، پائوں آنکھیں سلامت ہیں، حوصلہ قائم ہے۔ بہت سی محبتیں اور شفقتیں ہمارے پاس ہیں جن سے دیگر بہت سے لوگ محروم ہونے کے باوجود شکرگزار رہتے ہیں مثلاً ہیلن کیلر کا نام آپ نے سْنا ہوگا جسے مارک ٹوئن نے اکیسویں صدی کی سب سے دلچسپ شخصیت قرار دیا تھا۔
ہیلن کیلر نہ دیکھ سکتی، نہ بول سکتی اور نہ سْن سکتی تھی۔ محض لمس محسوس کر سکتی تھی لیکن اس کے اندر کچھ کر دکھانے کی طلب نے اْسے اس مقام پر لاکھڑا کیا کہ وہ اتنی محرومیوں کے باوجود نامور خاتون بن گئی۔ اپنی آٹو بائیوگرافی میں ہیلن کیلر نے ایک کمال کی بات لکھی کہ دیکھو میں بہت خوش ہوں کہ میرے خدا نے میرے اوپر بڑا کرم کیا ہے۔ اگر یہ ساری چیزیں، ساری نعمتیں… اندھے ہونا، بہرے ہونا، گونگے ہونا مجھے نہ ملی ہوتیں تو میں دنیا کی ایک نامور عورت نہ ہوتی بلکہ ایک معمولی سی گھریلو عورت ہوتی۔
شیخ سعدی? کے پائوں میں جوتا نہ تھا اور یہی بات اندر ہی اندر اْنھیں ملول کر رہی تھی۔ جنگل میں چلتے جا رہے تھے کہ ایک اپاہج کو دیکھا جو بیساکھی کے سہارے چل رہا تھا۔ پائوں ہی نہ تھے لیکن پھر بھی شکرگزار تھا۔ سو شکرگزاری سیکھنے کا بہترین طریقہ یہ بھی ہے کہ سر اْٹھا کر دیکھنے کے بجائے کبھی کبھی سر جھکا کر بھی دیکھ لیا جائے۔ ممکن ہے، وہ لوگ نظر آجائیں جو مال و دولت، مرتبے، تعلیم میں آپ سے کم ہیں لیکن شکرگزاری میں آپ سے کہیں بڑھ کر ہیں۔ ایک مقولہ مشہور ہے ’’جولوگوں کا شکرگزار نہیں ہوتا، وہ خدا کا شکرگزار کیسے ہو سکتا ہے؟
اللہ کے بندوں کا شکرگزار ہونے کے لیے ضروری ہے کہ ہم اْن کی اْن بھلائیوں اور نیکیوں کو یاد رکھیں جو انہوں نے ہمارے ساتھ کیں۔ جب دوسروں میں کوتاہیاں اور خامیاں نظر آئیں تو اپنے گریبان میں جھانک لیا کریں۔ خوش قسمت ہوتے ہیں وہ لوگ جنھیں اپنی خامیاں، دوسروں کی خامیاں بیان کرنے سے باز رکھتی ہیں۔ جو لوگ اپنی کوتاہیوں پر نگاہ رکھتے ہیں، عموماً وہ دوسروں سے گِلہ شکوہ کم کرتے ہیں۔ کچھ لوگوں کو اپنے حالات، ماحول، خاندان، وسائل کی کمی کا شکوہ ہوتا ہے۔ وہ جب دوسروں کو خود سے سبقت لے جاتے ہوئے دیکھتے ہیں تو نامناسب حالات، محدود مواقع اور غیرفائدہ مند خاندانی پسِ منظر کا گِلہ کرتے ہیں۔ ایسے لوگوں کو یاد رکھنا چاہیے کہ دنیا میں بہت سی نامور اور عظیم شخصیات ایسی گزری ہیں جن کا تعلق انتہائی عام خاندانوں سے تھا اور جنھوں نے بہت غربت میں پرورش پائی۔ لہٰذا آگے بڑھنے کے لیے، ترقی کرنے کے لیے اپنی صلاحیتوں پر اعتماد اور اللہ پر پر کامل یقین ہی کامیابی کا اصل راز ہے۔ اکثر یہ الفاظ دہراتے رہا کریں ’’یااللہ! مجھے اپنی رضا میں راضی کرلے۔ مجھے ویسا بننے کی توفیق دے جیسا تو اپنے بندوں کو دیکھنا چاہتا ہے۔‘‘
یہ مشق تسلیم و رضا سیکھنے کے لیے بہترین ہے۔ ہمیں زندگی میں ۲ طرح کے لوگ نظر آتے ہیں۔ ایک تو وہ لوگ ہیں جنھیں ذرا سی تکلیف پہنچتی، ذرا سا دْکھ ملتا ہے تو گِلہ اْن کی زبان پر آجاتا ہے۔ ایک پِن بھی چبھ جائے تو ساری کائنات کے خلاف بولنا شروع ہو جاتے اور کہتے ہیں ’’میرے ساتھ ہمیشہ ایسا ہی ہوتا ہے۔‘‘ جب سے چاند ستارے بنے ہیں مجھے کوئی نہ کوئی تکلیف رہتی ہے۔ یہ وہی لوگ ہیں جن کی پْربہار زندگی میں اگر خزاں کا ایک پتا بھی آگِرے تو یہ ناشکری کرتے ہیں۔ پھولوں بھری زندگی میں ایک کانٹا بھی آجائے تو گِلہ کرتے ہیں۔
یہ وہی لوگ ہیں جو ہمیشہ برسنے والی رحمتوں کی، عنایات کی، عطائوں کی بارش تو بھول جاتے ہیں لیکن یاد رکھتے ہیں تو لْو کا وہ ایک تھپیڑا جس نے کبھی انھیں ہلکے سے چھوا تھا۔ یہ وہی لوگ ہیں جو جْوتا گم ہونے پر چلنا چھوڑ دیتے ہیں۔ محرومی کے چھوٹے سے نقطے کو پھیلا کر زندگی کے ایامِ بدر کو بھی اماوس بنا لیتے ہیں۔
یہ وہی لوگ ہیں جن کی نظریں شیشے پر چسپاں مری ہوئی مکھی پر جا کر ٹھہر جاتی ہیں لیکن شیشے کے اْس پار تاحدِّنگاہ پھیلا حسن و جمال محسوس نہیں ہوتا۔ یہ وہی لوگ ہیں جو خوشیوں کی پوٹلی میں سے چھانٹ چھانٹ کر دْکھ نکالتے اور پھر انہیں تعویز بنا کر گلے میں ڈال لیتے ہیں۔ یہ وہی لوگ ہیں جو زندگی کے ڈھیر سارے خوشگوار لمحوں میں سے کوئی ناخوشگوار لمحہ ڈھونڈ کر کیلنڈر کی صورت دیوار پر لٹکالیتے اور پھر ہمہ وقت اْسے یاد کرکے آہیں بھرتے ہیں۔
تقدیر سے گِلہ اور ناشکری کرتے ہیں۔ دوسری قسم اْن لوگوں کی ہے جنھیں دھوپ میں کھڑا کیا جائے یا چھائوں میں، اْن کا پیمان? دل شکرگزاری اور احسان مندی کے جذبات سے لبالب رہتا ہے۔ جن کی خزاں زدہ زندگی میں بہار کا ایک معطر جھونکا بھی بہت معنی رکھتا ہے اور وہ اس جھونکے کو ساری زندگی یاد کرکے اپنی حبس زدہ زندگی کو مہکاتے رہتے ہیں۔ جو خوشی کا ایک لمحہ عطا ہونے پر بھی کہتے ہیں، یا اللہ تو ہمیشہ سے مجھ پر مہربان ہے۔ میں نے جب بھی تیری طرف ایک قدم بڑھایا تْو دس قدم ضرور میری طرف آیا ہے۔ یہ وہی لوگ ہیں جن کے پاس جْوتا تو درکنار پائوں بھی نہیں ہوتے لیکن پھر بھی زبان پر شکوہ نہیں لاتے۔
یہ وہی لوگ ہیں جو ہیلن کیلر کی طرح محرومیوں کو نعمت سمجھتے ہیں۔ یہ وہی لوگ ہیں جو ناخوشگوار لمحوں کو کارٹون سمجھ کر رنجیدہ ہونے کے بجائے ہنسنے کا ہنر سیکھ لیتے ہیں، جو آدھا خالی گلاس دیکھ کر پریشان ہونے کے بجائے آدھا بھرا ہوا گلاس دیکھ کر خوش ہوجاتے ہیں۔ جو وقت کے تاریک جنگل سے ملنے والے جگنو جیسے ایک پل کو مٹھی میں قید کرکے ساری زندگی کو روشن کرلیتے ہیں۔ جو زندگی کے تپتے صحرا میں اڑتی ریت کاذکر نہیں کرتے بلکہ سایہ فراہم کرتے اِکا دْکا درختوں کی بات کرتے ہیں۔ یہ وہی لوگ ہیں جو ہر کٹھن اور مشکل لمحے میں اپنے آپ سے بہت دھیرے سے، پْریقین انداز میں کہتے ہیں:
سب اللہ کی طرف سے کیا جاتا ہے اور ٹھیک کیا جاتا ھے
یہ وہی لوگ ہوتے ہیں جو ویل اوف نیچیر کے ساتھ ساتھ ڈیزایٰن اوف نیچر پر بھی یقین رکھتے ہیں۔ اسی لیے تو جب اْن کے سپنے بکھرتے اور ٹوٹے خوابوں کی کرچیاں دل میں چبھتی ہیں تو وہ چھید بھرے دل کے ساتھ بھی چہرے پر مسکراہٹ سجانے کا ہْنر سیکھ لیتے ہیں اور چپکے چپکے اللہ سے کہتے رہتے ہیں کہ اگر تو اس بات میں راضی ہے تو پھر میں بھی راضی ہوں۔
ہم یہ سب کچھ کب سیکھیں گے؟
پہلی قسم کے لوگوں سے نکل کر دوسری صف میں کھڑے لوگوں میں شامل ہونا ہمیں کب آئے گا؟
گِلے، شکوے، شکایات، ناشکری اور بے جا تقاضوں کے حصار سے نکل کر شکرگزاری اور تسلیم و رضا کے مرحلے میں ہم کب داخل ہوں گے؟ یہ وہ ڈھیر سارے سوالیہ نشان ہیں جن پر سوچنے کی اس لیے بھی ضرورت ہے تاکہ ہم اللہ کی عطاکردہ نعمتوں کا ادراک اور اعتراف کرسکیں۔ کیونکہ قرآن پاک میں ارشاد ہوتا ہے ’’اگر تم شکر کرو گے تو میں تمھارے لیے نعمتوں کو بڑھا دوں گا۔
——