کبھی آپ نے سوچا ہے کہ ’’شکریہ‘‘ کا لفظ کتنا چھوٹا مگر دل کو بڑا کر دینے والا ہے، جب کوئی آپ کے لیے کچھ کرتا ہے، کوئی تحفہ خرید کر لاتا ہے، آپ کو کسی دور درواز جگہ بیٹھ کر یاد کرتا ہے، فون کرتا ہے، ای میل لکھتا ہے تو اس بات کی کتنی اہمیت ہوتی ہے۔ لیکن کچھ خواتین ایسی ہیں کہ یہ ننھا سا لفظ ان کے حلق میں اٹک جاتا ہے، کوئی ان کے لیے بڑا تحفہ لائے یا چھوٹا، اپنا وقت دے یا پیسہ، انہیں احساس ہی نہیں ہوتا کہ دوسرے نے ان کے لیے کیا کیا ہے۔ زبان سے چھوٹا سا لفظ ’’شکریہ‘‘ ادا نہیں ہوتا۔ جانے یہ احسان فراموشی ہے کہ کیا؟ کسی دوست یا کزن کے گھر جاتے ہوئے اس کے بچوں کے لیے ٹافیاں، کھلونے وغیرہ لے کر جائیں اور ایک بار نہ لے کر جائیں، پھر دیکھیں لانے کا شکریہ نہیں، نہ لانے پر طنزیہ جملے ہزار سننے کو ملیں گے۔
ایک دن میری آپا کی دوست اپنے بچے کو یہ کہہ کر ہمارے گھر چھوڑ گئیں کہ کسی کے گھر تعزیت پر جانا ہے۔ ہم نے اس خاصے بدتمیز اور اچھے خاصے پیٹو بچے کی خاطر تواضع میں کوئی کسر نہ چھوڑی۔ گھر کی ٹوٹنے والی چیزوں پر فاتحہ پڑھنی پڑی، مگر محترمہ واپسی پر بچے کی انگلی پکڑ کے یوں چلتی بنیں، جیسے بچے کی دیکھ بھال کرنا ہمارا فرض تھا اور پھر اگلے دن فون پر کہا کہ ’’جب سے تمہارے گھر سے بچے کو لے کر آئی ہوں، وہ مسلسل کھانس رہا ہے، ٹھنڈا برف کا پانی پلا دیا تھا کیا؟‘‘ یعنی اگر کسی نے آپ کا کوئی کام کردیا ہے تو دوسرے سے کسی لفظ کی توقع اس وقت تک نہ رکھیں جب تک اس کام میں کوئی خرابی نہ نکل آئے۔ پھر دیکھئے دل کھول کر زبان کھولیں گے۔
شکریہ، مہربانی، نوازش کے الفاظ تقریباً سب ہی نے اپنی لغت سے کاٹ دیے ہیں، اگر کسی نے کسی کی مدد کی تو اس میں اس کی اپنی کوئی غرض ہوگی۔ یا اسے ایسا ہی کرنا چاہیے تھا۔ کوئی تحفہ لے کر آئے تو اس کے پاس فالتو پیسے بہت آگئے ہوں گے یا کبھی کسی نے دیا ہوگا، ان کے کسی کام کا نہ ہوگا تو ہمیں دے دیا، کس بات کا شکریہ ادا کریں، کوئی ہم نے کہا تھا تحفہ لانے کو؟
کوئی اگر ہمارے کام آگیا تو بھلا کیا بڑی بات ہوئی کہ شکریہ کہتے زبان سکھائیں؟ اس کی اپنی کوئی غرض ہوگی یا ہم سے اس سے بھی بڑا کوئی کام لینے کا ارادہ ہوگا، شکر ہے کہ ہم نے شکریہ ادا نہ کیا۔ جھاڑ کا کانٹا ہی بن جاتے ہیں لوگ، ایک کام کر کے چمٹ جاتے ہیں، کوئی کہاں تک احسان کا بوجھ ٹانگے ٹانگے پھرے۔
اگر کسی نے دوسرے ملک سے فون کر کے ہماری خیریت معلوم کی تو یقینا کال مفت پڑ رہی ہوگی، کوئی پیکیج کرایا ہوگا، بھلا شکریہ کیسا؟
شکریہ کے سلسلے میں ایک یہ مفروضہ بھی ہے کہ بھلا اپنوں میں کیسا شکریہ؟ شکریہ تو غیروں میں ادا کیا جاتا ہے۔ گویا اپنائیت کا مظاہرہ صرف اس صورت میں ہوسکتا ہے کہ کسی کو اپنا سمجھتے ہوئے اس کا احسان اٹھاکر چلتے بنیں اور شکریے کا لفظ منہ سے نہ نکالیں۔ حالاں کہ شکریہ کسی تکلف کا حصہ نہیں ہوتا، بلکہ یہ کسی کے خلوص کا فوری جواب ہوتا ہے، پھر جب کسی اپنے کی غلطی پر یا اس کی بے رخی پر اسے بے نقط باتیں سنا سکتے ہیں تو شکریہ بھی کہہ سکتے ہیں، اس میں غیریت اور تکلف کی کوئی بات نہیں۔
کچھ خواتین شکریہ کہنے میں اس لیے بھی کنجوس ہوتی ہیں کہ توقعات کے معاملے میں شاہ خرچ ہوتی ہیں۔ کسی دوسرے سے لمبی چوڑی توقعات کا نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ دوسرا ہمارے لیے کچھ بھی کر ڈالے، ہمیں معمولی ہی لگتا ہے اور شکریہ ادا کرنا بوجھ لگتا ہے۔ منہ سے نکلتا ہے تو شکوہ کہ بس اتنا سا؟
عجیب بات یہ ہے کہ کسی کو برا بھلا کہنے میں ہم بہت تیز رفتار واقع ہوئے ہیں، لیکن کسی کا شکریہ ادا کرنے سے قبل مکمل چھان بین اور شک و شبہ دور کرنا پسند کرتے ہیں کہ کسی نے ہمارا کوئی کام کر ڈالا تو اس کے پیچھے اس کی اپنی کوئی غرض توپوشیدہ نہ تھی؟ ہم سے خلوص برت کر اپنا الو تو نہیں سیدھا کیا؟ ہمیں جو تحفہ عنایت کیا گیا ہے وہ کہیں سے مفت تو نہ ملا تھا؟ یہ چیز اس کے اپنے لیے فالتو اور بیکار تو نہ تھی جو ہمیں تھما دی؟ لیکن جب ہمارے ساتھ کوئی کچھ برا کرتا ہے تو ہمیں کسی قسم کی تفتیش کی ضرورت محسوس نہیں ہوتی۔ ہم دھواں دھار طریقے سے فی الفور اس پر چڑھ دوڑتے ہیں۔
دلچسپ بات یہ ہے کہ ہم شکریہ ادا کرنے سے بھی گریزاں ہیں، ساتھ ساتھ ہمارا یہ گلہ بھی اپنی جگہ زور و شور سے جاری رہتا ہے کہ اب تو لوگوں میں مروت ختم ہوگئی ہے، انہیں دوسروں کا خیال ہی نہیں رہتا۔ ہم اس پر غور نہیں کرتے کہ ہم نے شکریہ کی روایت ترک کردی ہے، احسان ماننے کا خیال دل سے نکال پھینکا ہے تو بھلا دوسرا کیوں ہماری بدمزاجی اور رکھائی کے باوجود خلوص و محبت کے پھول نچھاور کرتا رہے گا؟
ہمارا مسئلہ یہ ہے کہ ہم دوسروں سے توقعات تو وابستہ کرلیتے ہیں، لیکن خود اچھا انسان بننے پر آمادہ نہیں ہوتے۔ کسی سے تحفہ وصول کیا اور منہ بنانے کے بعد خاموشی سے رکھ دیا، کسی نے ہمارے ساتھ بھلائی کی، ہمارا خیال کیا ہم خاموشی سے بیٹھے رہے۔ اس کے بعد ہم اگر توقع کریں کہ دوسرا اگلی بار بھی ہمارے ساتھ کوئی اچھائی کرے گا تو یہ ہماری خوش فہمی ہوگی۔ بات یہ ہے کہ دوسرا اگر ہمارے ساتھ کچھ اچھا کرتا ہے تو بے شک وہ اپنی اچھائی اور خلوص کی وجہ سے کرتا ہے، اس کا مقصد شکریہ سننا، کسی کو احسان کے بوجھ تلے دبانا نہیں ہوتا، نہ ہمارے لفظ ’’شکریہ‘‘ سے اس کا کوئی فائدہ ہوتا ہے۔ یہ تو ہم پر واجب ہو جاتا ہے، ہم کسی کی بھلائی کا شکریہ ادا کریں لیکن انتہائی معمولی سا لفظ ہم پر اتنا بھاری کیوں پڑ جاتا ہے کہ ہم اس کو ادا کرنے سے ہچکچاتے ہیں؟
اس پر جتنا سوچا جائے، محض ایک نتیجہ ہی نکلتا ہے کہ وہ بندہ جو اپنے رب کی ہزار نعمتوں، اس کی مہربانیوں اور نوازشوں میں بھیگتا جاتا ہے اور زبان سے شکر کا ایک لفظ نہیں نکالتا، بلکہ سینہ تان کر کہتا ہے کہ جو کچھ میرے پاس ہے، سب میری اپنی محنت اور منصوبہ بندی کا نتیجہ ہے۔ بھلا وہ اپنے جیسے کسی دوسرے بندے کے کسی معمولی سے احسان کو کیوں ماننے لگا۔ واقعی بے شک انسان ناشکرا ہے۔ وہ ناشکرا انسان رب کا شکر بجا لاتا ہے، نہ بندوں کا شکریہ کہتا ہے۔ شکر گزاری کا جذبہ دن بدن ہماری زندگیوں سے کم ہوتا جا رہا ہے۔ دل تنگ ہوتے جا رہے ہیں، رشتے نازک سے نازک اور وقت کڑے سے کڑا۔
اس سے پہلے کہ دیر ہوجائے، رشتوں کو پیار، محبت، خلوص اور ایک ننھے سے ’شکریہ‘ کی کڑی سے باندھیں۔ اللہ تعالیٰ نے قرآن میں فرمایا ہے: ’’اگر تم شکر کروگے تو میں اور زیادہ دوں گا۔‘‘ اور اللہ کے رسولؐ نے فرمایا ہے: ’’جو بندوں کا شکریہ ادا نہیں کرتا وہ اللہ کا شکریہ کیسے ادا کرسکتا ہے۔‘‘
شکریہ چاہے رب کا ہو یا بندوں کا انسانوں کو خیر سے ہم کنار کرنے والا ہے۔ چناں چہ ہم دیکھتے ہیں کہ رسول پاکؐ نے ہمیں ’’جزاک اللہ‘‘ ’اللہ تمہیں اچھا بدلہ دے‘ کا لفظ سکھایا ہے جو احسان کرنے والے کے لیے ممنونیت کا بھی عکاس ہے، اور اس کے لیے شکر کے جذبات کا بھی۔ آئیے ہم بھی اس لفظ کو قدم قدم پر استعمال کرنا سیکھیں۔lll