ہمیں یہ اعتراف کرنے میں ہچکچاہٹ نہیں ہونی چاہیے کہ ہمارا معاشرہ تہذیبی طور پر ترقی کے بجائے تنزلی کا شکار ہو رہا ہے۔ زبان و بیان، شائستگی اور سلجھے ہوئے وہ انداز و اطوار جو ہماری قدیم معاشرت کا لازمی جزو تھے، جدید زندگی میں ہم ان سے محروم ہو گئے ۔ خاص طور پر مسلمانوں کی بیشتر اچھی عادات غیر مسلموں نے اپنالیں۔ انہی میں سے ایک عادت ’شکریہ‘ کہنے کی بھی ہے۔ جبکہ ہمارے رسولؐ نے ہر احسان کے بعد ہمیں ’جزاک اللہ‘ کہنا سکھایا ہے۔ آپ اس خیال سے متفق ہوں گے کہ ہمارے ہاں یہ عادت بہت کم ہے اور ہم اپنے بچوں کو ’شکریہ‘ یا جزاک اللہ کہنا کم ہی سکھاتے ہیں۔
ہمارے ہاں اونچے طبقے کے افراد تو کیا متوسط طبقے کے لوگ بھی حفظِ مراتب ذہن میں رکھ کر شکریہ کہنے لگے ہیں ۔ مثلاً ما تحت تو شاید ہر بات پر افسر کو شکریہ کہہ دے لیکن افسر کسی ملازم کا شکریہ ادا کرنا اپنی تو ہین سمجھتا ہے۔ اسی طرح جب ہم کوئی چیز خریدیں تو لاشعوری طور پر گویا دکاندار پر احسان کرتے ہیں اور شکریہ ادا کرنا غیر ضروری بلکہ بعض اوقات غلط سمجھتے ہیں۔ ہوٹل میں بیرے یا ریلوے اسٹیشن پر قلی کا شکریہ ادا کرنا بعض لوگوں کے خیال میں شاید باعث توہین ہو، مگر معاملہ بالکل برعکس ہے۔
بہت سے لوگ جنہیں ہم دل ہی دل میں ’چھوٹا‘ سمجھتے ہیں، ہمارے شکریے کے زیادہ مستحق ہوتے ہیں اور ان کے لیے اس لفظ کی اہمیت بھی زیادہ ہے۔ شاید آپ تصور بھی نہیں کر سکتے کہ شکریے کا ایک لفظ ان لوگوں کے دلوں میں خوشی کے کیسے پھول کھلا دیتا ہے۔ دکانوں کے سیلزمین، راستہ بتانے والا عام آدمی، سبزی فروش اور دیگر پھیری والے، پیٹرول پمپ پر آپ کی گاڑی میں پیٹرول بھرنے والے ایسے کسی انسان کو شکر یہ کہنے سے آپ کی عزت قطعی نہیں گھٹے گی بلکہ یقین کیجیے اس میں اضافہ ہوگا۔ اگرآپ شکریہ کہنے کی عادت اپنا لیں تو جلد محسوس کریں گے کہ خود آپ کو بھی یہ لفظ زیادہ سننے کومل رہا ہے۔
خوش خلقی بھی چھوت کی بیماری کی طرح ایک سے دوسرے کو لگتی ہے۔ اگر آپ دوسروں کے ساتھ خوش خلقی کا مظاہرہ کریں تو ان میں بھی یہی مثبت عادت پیدا ہوجاتی ہے جس کی آج کے دور میں اشد ضرورت ہے۔ خاص طور پر ہم گفتگو میں شائستگی کھوتے جارہے ہیں۔ نئی نسل کا انداز گفتگو تو تشویش ناک حد تک اخلاقی سطح سے گرتا محسوس ہوتا ہے۔
اگر آپ کو کسی ایسی جگہ کھڑے ہونے یا کسی ایسی بس میں سفر کرنے کا اتفاق ہو جس میں چار پانچ نوجوان سوار ہوں، تو شاید آپ کا دل دکھ اور تاسف سے بھرجائے۔ آپ سوچیں گے کہ کیا یہی وہ نسل ہے جسے ہم مستقبل کا معمار کہتے ہیں؟ جنہیں دنیا بھر کی آسائشیں مہیا کرنے کی کوشش میں اپنی اپنی بساط کے مطابق بیشتر والدین ہلکان ہورہے ہیں؟
ہم بچوں کو اچھے اچھے تعلیمی اداروں میں بھیجنے ، انہیں حسب استطاعت زیادہ سے زیادہ آسائشیں فراہم کرنے اور انہیں بڑا آدمی بنانے کے خواب ضرور دیکھتے ہیں لیکن انہیں اچھا آدمی بنانے کی طرف ہمارا دھیان کم ہی جاتا ہے۔ بیشتر والدین انہیں اچھی معاشرتی عادات کے بارے میں رسماً بتانے کی بھی زحمت نہیں کرتے ۔
ہم انہیں یہ نہیں بتاتے کہ گلیوں میں کرکٹ اور فٹ بال کھیلنا، لوگوں کے گھروں کے شیشے توڑنا اور بعض اوقات ان کے سر پھوڑنا، گلیوں میں شور شرابا کرنا، اونچی آواز میں ڈیک چلانا، اڑوس پڑوس کے بڑوں کو سلام نہ کرنا، راہ چلتے گالی گلوچ اور بدتمیزی سے بات کرنا بے حدبری عادات ہیں۔ اکثر والدین اپنے بچوں کو نہ صرف ان بری عادات سے باز نہیں رکھتے بلکہ بعض ضروری مواقع پر شکریہ ادا کرنے کی تربیت بھی نہیں دیتے۔ نئی نسل کو بھی ایسی باتوں پر دھیان دینے کی فرصت نہیں رہی اور ہم نے بھی ایسی شائستہ عادات کو زحمت سمجھ لیا ہے، لیکن اس غفلت کی وجہ سے ہم کتنے بڑے تہذہبی نقصان کی طرف جا رہے ہیں اس کا ہمیں اندازہ نہیں۔
سچ تو یہ ہے کہ چھوٹی چھوٹی باتوں کے سلسلے میں نرمی، آداب اور شائستگی کا اظہار نہ صرف معاشرتی ماحول خوشگوار بنا تا ہے بلکہ ہماری عزت واحترام میں بھی اضافہ کرتا ہے۔ جب آپ اچھی عادات اپنالیں تو خود اپنی نظر میں بھی اپنے آپ کو زیادہ محترم، مطمئن اور پر اعتماد محسوس کرتے ہیں۔ جب آپ کے بارے میں یہ تاثر زیادہ سے زیادہ لوگوں تک پھیل کر پختہ ہو جائے کہ آپ شائستگی، تحمل، نرمی اور تہذیب سے بات کرتے ہیں، تو آپ محسوس کریں گے کہ دوسرے لوگ آپ کی زیادہ عزت کرنے لگیں گے۔ یونہی لوگوں میں اچھی عادتوں کا چراغ سے چراغ جلاتا ہے۔
چھوٹی چھوٹی اچھی عادتیں اپنانا زیادہ مشکل نہیں، یاددہانی کے لیے ہم کچھ باتوں کا تذکرہ کرتے چلیں۔ مناسب مواقع پر یا بعض اوقات بغیر کسی موقع کے حسب استطاعت اور حسب سہولت پڑوسیوں کے ہاں چھوٹی موٹی کھانے پینے کی اشیا یا تحفے بھجواتے رہیے۔ کسی کی طرف سے تحفہ آئے تو خلوص دل سے شکر یہ ادا کیجیے۔ آتے جاتے کسی کے لیے دروازہ کھول کر کھڑے ہو جائیے ۔ راستے میں ملنے والوں کو سلام کیجیے، جس شادی میں نہ جاسکیں، اس میں کچھ نہ کچھ بھجوائیے، اڑوس پڑوس کی خوشی غمی میں شریک ہوئیے۔ اپنی حیثیت کی پروا کیے بغیر خود اٹھ کر کسی کا کوئی چھوٹا موٹا کام کیجیے، راستے میں کسی کو کوئی مسئلہ در پیش دیکھ کر رک جائیں اور اس کی مدد کرنے کی کوشش کریں۔
یہ چھوٹی چھوٹی باتیں نہ صرف ہماری قدیم معاشرتی اور مذہبی اقدار بحال کرنے میں اہم کردار ادا کریں گی بلکہ دھیرے دھیرے ہمارا ماحول بھی خوبصورت اور خوشگوار بنا دیں گی۔ یہ باتیں اپنا کر آپ نہ صرف دوسروں کے لیے خوشی کا باعث بنیں گے بلکہ خود آپ کو بھی ایسی طمانیت اور سرشاری حاصل ہوگی کہ آپ بہتر انداز میں زندگی کے مسائل کا سامنا کرنے لگیں گے۔ ہمارے رسولؐ نے فرمایا تھا: ’’اپنے بھائی سے خندہ پیشانی سے ملنا بھی صدقہ ہے۔‘‘ اور ایک جگہ فرمایا: ’’تکلیف دہ چیز کو راستے سے ہٹا دینا بھی صدقہ ہے۔‘‘ تو پھر چلتے پھرتے صدقہ کرنے سے کون روکتا ہے؟
چلیے اگر آپ زیادہ کچھ نہیں کر سکتے تو زیادہ سے زیادہ مواقع پر شکریہ کہنے کی عادت ہی ڈال لیجیے اور اپنے بچوں کو بھی یہ بات سکھائے۔ اگر کسی کا شکریہ ادا کرنا ہو، لیکن آپ خود اس کے پاس نہ جاسکیں تو خط یا فون کے ذریعے شکریہ ادا کر دیجیے۔ یقین کیجیے یہ ایک لفظ نہ صرف آپ بلکہ دوسروں کی زندگی میں بھی بہت اہم کردار ادا کرتا ہے۔