باقر نواب کی خاندانی حویلی جہاں امارت والے تاب ناک ماضی کی علامت تھی، وہیں شہر کے پرانے علاقہ کی غمازبھی بن چکی تھی۔ نام تو اس کا ’عشرت محل‘ رکھا گیا تھا مگر عرف عام میں’ نواب صاحب کی حویلی‘ ہی سے شہرت یافتہ تھی اور سالوں سے موسموں کی مار جھیلنے کے باوجود پہلی شان وشوکت سے کھڑی رہ کر اپنی مضبوط بنیادوں کا بیّن ثبوت بھی دے رہی تھی۔
باقر نواب کی ہونڈا سٹی راستوں کے پیچ وخم سے ہوتی ہوئی حویلی کے سامنے پہنچ کر رک گئی۔ باقر نے اپنے مخصوص انداز میں کار کاہارن بجایا اور چند منٹوں بعد حویلی کا وسیع پھاٹک اپنی بے زاری کا اظہار کر تا ہوا ۷۰ ڈگری کے زاویہ پر پہنچ کر رک گیا۔ باقر کی کار معذرت خواہی کے انداز میں دھیرے سے اندرداخل ہوگئی۔ اندرایک اور کار کھڑی تھی۔
ـِ’’کون آیا ہے؟‘‘ اس نے خادم سے پوچھا جوپھاٹک بند کر کے اس کی طرف چلا آیا تھا۔
’’آپ کے دوست ہیں بابو جی۔‘‘
’’کون؟‘‘ باقر نے کار سے اتر تے ہوئے پوچھا۔
’’میں نے تو آج پہلی باردیکھا ہےانھیں ‘‘ خادم نے بیگ اٹھالیا اور رباقر حسب عادت تیزی سے زینے چڑھ کردیوان خانے میں داخل ہوگیا۔
’’الیاس!!‘‘ اس نے اپنے دوست کوپشت کی جانب سے پہچاننے میں بمشکل دو منٹ لیے ہوں گے اور الیاس ہنستا ہوااس سے لپٹ گیا۔
’’مائے گاڈ… تم میکسکو سے کب آئے؟‘‘ باقر نے پوچھا۔
’’ایک سال ہوگیا‘‘ الیاس بولا۔
’’کیا!!‘‘ باقر چونکا۔ ’’میں ایک سال بعد تو گھر نہیں لوٹ رہا؟‘‘ اس نے سنجیدگی کے ساتھ اپنی بیگم سے پوچھ لیا۔
’’کم آن باقر‘‘ الیاس ہنسا۔ ’’انڈیاآنے کے بعد مصروفیات ایسی رہیں کہ تمھیں اطلاع دینے کا موقع ہی نہیں ملا۔‘‘
’’اوہ‘‘ باقر نے تیور یاں چڑ ھالیں۔ ’’اور فی الحال آپ کہاں ہیں؟‘‘
’’ناگ پور میں…‘‘
’’پھرٹھیک ہے، ناگ پوراور اچل پور میں تو ہزارنوری سالوں کا فاصلہ ہے۔‘‘
’’اب چھوڑیے بھی ‘‘ بیگم باقر نے کہا۔ باقر خاموشی سے دیوان پر بیٹھ گیا۔
’’بدر!اب تم ہی سمجھائو‘‘ الیاس اپنی بیوی سے بولا۔
’’بھائی صاحب ہم سے غلطی ہوگئی، معاف کرد یجیے پلیز۔‘‘وہ بولی۔
’’میراجھگڑاالیاس سے ہے۔ ‘‘ اس نے نیلوفر کے سرپرہاتھ پھیر کر کہا،’’ نیلوفرہونا؟‘‘
’’جی انکل۔‘‘
’’اور میں ناہید‘‘ چھوٹی بیٹی نے خودہی اپنا نام بتایا۔
’’ان بچیوں کے طفیل تمھیں معاف کرتا ہوں۔‘‘ باقر نے کہا اور شہاب نے گردن جھکا کر اس کا شکریہ ادا کیا۔
’’ناگ پور میں کیا کرر ہے ہو؟‘‘ عورتوں کے زنان خانہ میں چلے جانے کے بعد باقرنے پوچھا۔
’’کنسٹر کشن۔‘‘ الیاس نے شانے اچکائے۔
’’یعنی بلڈربن گئے‘‘ باقر مسکرایا۔ اس بار الیاس نے صرف شانے اچکائے اور باقرہنس پڑا۔
’’تمھاری پر یکٹس کیسی چل رہی ہے؟‘‘ یہ الیاس کی باری تھی۔ باقر نے آنکھ ماردی۔ چائے آچکی تھی۔
’’ یہ حویلی بڑی پیاری ہے۔‘‘ الیاس نے ایک گھونٹ لے کر کہا۔
’’اولڈازگولڈ‘‘ باقر بولا۔
’’بے شک‘‘ الیاس نے چاروں طرف نظردوڑائی۔
’’نہیں گرے گی نہیں ‘‘ باقر نے ہنس کر کہا اور کھڑ کی کے پاس جاکر کھڑا ہوگیا۔
’’ وہ کیا ہے ؟ ‘‘ الیاس نے پوچھا۔
’’ حوض کٹورہ ۔ ‘‘ باقر نے چائے کی چسکی لیتے ہوئے کہا۔
’’ حوض کٹورہ ‘‘الیاس اس سلسلہ میں مزید جاننا چاہتا تھا۔
’’ اسے احمد شاہ بہمنی کے حکم پر برار کے منصب دار عبدالقادر نے بنوایا تھا۔ ‘‘ ایک نئی آواز ان کی گفتگو میں شامل ہوئی۔
’’ ارے آئیے عمر بھائی ‘‘باقر نے ہنس کر کہا ،’’ ان سے ملو الیاس، یہ ہیں عمر ہاشمی صاحب، مقامی کالج میں تاریخ کےپروفیسر ۔‘‘
’’واہ، تاریخ میرا پسندیدہ موضوع ہے۔‘‘ الیاس نے گرمجوشی سے مصافحہ کرتے ہوئے کہا۔
’’ دونوں کی گاڑھی چھنے گی۔‘‘ باقر نے ہنس کر کہا۔
’’تاریخی لحاظ سے برار ثروت مند علاقہ ہے صاحب!‘‘ پروفیسر نے بیٹھتے ہوئے بات آگے بڑھائی اور پھر وہ دیر تک محو گفتگو رہے۔
شام میں باقر کے کلینک جانے کے بعد الیاس موبائل سے حویلی کی تصویریں لیتا گھومتا رہا .
عشائیے پر سبھی افراد ساتھ تھے۔ باقر کا بڑا بیٹا جنید سر جھکائے کھانے میں مصروف تھا ۔ اجنبی لڑکیوں کے سامنے وہ نوالہ بھی ٹھیک سے چبا نہیں سکتا تھا۔ نیلو فر بڑی دلچسپی سے اس کی پریشانی دیکھ رہی تھی۔
کھانے کے بعد دونوں دوست دیر تک گپیں مارتے رہے ۔ دوسرے دن ایک قریبی ہل اسٹیشن چکھلدرا گھومنے کی پلاننگ کر لی گئی۔
صبح ناشتہ کے بعد وہ سبھی گھومنے نکل پڑے تھے۔ باقر کو اس شرط پر کلینک جانے دیا گیا کہ وہ اپنی ’’ دُکان ‘‘ بند کرکے دوپہر میں انھیں جوائن کر لے ۔ خوبی تقدیر سے اتوار ہونے کی بنا پر باقر شام میں فری تھا۔ بہر حال ان کا دن بہت اچھا بیتا۔ تقریباً چھہ بجے وہ سبھی لوٹ آئے ۔ اور آدھا گھنٹہ بعد مہمان واپسی کے لیے تیار تھے۔
’’ برسوں بعد آئے اور دور وز بھی نہیں ٹھہرے ‘‘ بیگم باقر نے بدر سے شکایت کی۔
’’ دل تو ہمارا بھی نہیں بھرا آنٹی۔‘‘ نیلو فر نے اپنی ماں کی جانب سے جواب دیا۔
’’ ہاں تو تم رک جائو ، انھیں جانے دو ‘‘ بیگم باقر نے اس کا ہاتھ پکڑ کر کہا۔ وہ انھیں بہت اچھی لگنے لگی تھی ۔ جنید گھبرا گیا۔
’’ کلا سز نہ ہوتیں تو ضرور رک جاتیـ‘‘ اس نے کہا اور جنید نے راحت کی سانس لی۔
’’ یہ وقت بہت اچھا گزرا۔‘‘
’’ ہمیں بھی بڑا مزہ آیا۔ ‘‘
’’ اب آپ آئیے ۔‘‘
’’ آپ کو بھی مزا لینا ہے…‘‘ایک زور دار قہقہہ۔
’’ رام بھائو سب سامان رکھ دیا نا… ؟‘‘
’’ گڈ … اچھا خدا حافظ ‘‘
’’ خدا حافظ… خدا حافظ ‘‘ اور الیاس کی کار گیٹ سے باہر نکل گئی۔
چند ثانیوںبعد باقر پیچھے مڑا۔ مغل طرز کی عالیشان حویلی اسے بہت بھدّی معلوم ہورہی تھی اور الیاس کے تعریفی جملے اسے مسلسل الجھا رہے تھے۔
’’ مصیبت ٹلی… ‘‘ جنید نے ہاتھ جوڑے۔
’’ جنید تم کب تک تنہائی پسندرہوگے بیٹا، سوشل بنو۔‘‘ باقر نے کہا اور جنید سر جھٹکتا ہوا حویلی میں داخل ہوگیا۔
’’ چھوڑیے بھی۔ ‘‘ بیگم باقر نے اپنے خاوند کو ٹوکا۔ ’’ ہم اس کی شادی کسی سوشل لڑکی سے کردیں گے۔ ‘‘ وہ وہیں پڑی بید کی کرسیوں پر بیٹھ گئے۔
’’ نیلو فر کیسی رہے گی ؟ ‘‘ باقر دھیرے سے بولا۔
’’ آپ نے تو میرے دل کی بات کہہ دی۔ ‘‘ بیگم باقر خوش ہوگئیں۔
’’ اگر الیاس راضی ہوجائے تو ایک ڈیڑھ سال بعد شادی کرسکتے ہیں۔ ‘‘
’’ جنید کی انٹرن شپ چل رہی ہے ، ہم تو چھہ ہی مہینے میں شادی نمٹاسکتے ہیں ۔ ‘‘
’’ نہیں اس سال ہم اپنا نیا گھر بنائیں گے۔ ‘‘
’’ نیا گھر…! ‘‘ بیگم باقر حیرت سے بولیں۔
’’ اس خستہ حویلی کی جگہ نیا گھر ، جدید طرز کا ۔ ‘‘ بیگم اس کا منھ دیکھتی رہ گئیں اور وہ مسکراتا ہوا اٹھ گیا۔
باقر کو بھی حیرت تھی کہ اس نے ایسا اہم فیصلہ اتنی جلدی کیسے لے لیا ۔ لیکن فیصلے اچانک کب ہوتے ہیں۔ لاشعور کی عدالت میں کیس آہستگی کے ساتھ مگر لگا تار چلتا رہتا ہے اور وہ وقت آنے پر کچھ ایسے صادر ہوتا ہے کہ نہ جائے رفتن نہ پائے ماندن۔
جلد ہی اس فیصلہ نے عملی شکل بھی اختیار کرلی۔
ایک روز اچانک الیا س کا موبائل بجا۔ باتوں باتوں میں اس نے نیلو فر کے لیے کوئی اچھا لڑکا دیکھنے کی درخواست کی۔ چند روزبعد بیگم باقر نے فون کرکے بدر پر اپنا ارادہ ظاہر کردیا۔ وہ تو اسی بات کا انتظار کررہی تھی۔ خوشی سے پھولی نہ سمائی۔
’’ تمھاراکیا خیال ہے ؟ ‘‘ اسی رات باقر نے کھانے کے دوران جنید سے اس کی رائے پوچھی اور مثبت اشارہ پاکر یا کہیے بیٹے کی سعادت مندی پر دیر تک مسکراتا رہا۔
یوں تو باقر کی الیاس سے فون پر کئی بار بات چیت ہوئی مگر اس نے الیاس سے نئے گھر کا ذکر بالکل نہیں کیا۔ وہ اپنے دوست کو سر پرائز دینا چاہتا تھا۔
الیاس نے جنید اور نیلو فر کی منگنی کی تاریخ طے کر نے کے لیے باقر کو ناگ پور بلایا۔ باقر نے اپنا کلینک جیند کے سپرد کیا اور بیگم کے ساتھ روانہ ہوگیا۔ ریلوے اسٹیشن پر الیاس کی فیملی گل دستوں کے ساتھ ان کا استقبال کررہی تھی۔ کچھ دیر بعد وہ سب منزل کی طرف رواں دواں تھے۔ راستہ بہ مشکل پندرہ منٹ میں طے ہوگیا۔ الیاس نے ایک موڑ پر کار روک دی اور بولا ، ’’ذرا اپنی آنکھیں بند کرو، بھابی جان آپ بھی پلیز۔ ‘‘
’’ کیوں ؟ ‘‘ باقر نے آنکھیں موندتے ہوئے پوچھا۔
’’ تمھیں کچھ دکھانا ہے۔ ‘‘
’’ ہمارے شہر میں تو آنکھیں کھول کر دیکھا جاتا ہے بھائی ۔ ‘‘ باقر کی شوخی لازمی تھی۔
الیاس نے کار دائیں جانب موڑی اور بولا ’’ تو آنکھیں کھول ہی دو‘‘۔ باقر نے جو نہی آنکھیں کھولیں اسے اپنی آنکھوں پر یقین نہیںآیا۔ سامنے اسی کی قدیم حویلی کھڑی تھی۔
’’ عجوبے آج بھی ہوتے ہیں ۔‘‘ باقر نے قہقہہ مارا۔ ’’ تمھارے یہاں پہنچنے سے پہلے ہی ہم تمھاری حویلی یہاں اٹھالائے۔ ‘‘
کار حویلی کے بالکل سامنے پہنچ کر رک گئی ۔ سبھی کار سے اتر پڑے۔
’’ انھیں آپ کا مکان اتنا پسند آیا تھا کہ اپنا مکان بالکل ویسا ہی بنایا۔ ‘‘ بدر بیگم باقر سے کہہ رہی تھیں ۔ ’’ کہتے تھے بھائی صاحب کو سر پرائزدیں گے۔ ‘‘
’’ کیسی رہی ؟ ‘‘ الیاس نے باقر کی پشت پر ہاتھ مارا۔
ہوا کا ایک تیز جھونکا آگر گذرا گیا۔
الیاس مشرقی طرز تعمیر کی خوبیاں گنا رہا تھا اور بیگم باقراپنے شوہر کو دیکھ رہی تھیں جو کسی شکست خوردہ سلطان کی طرح نڈھال کھڑا تھا۔