شہد کی مکھیاں

عبدالحمید شیخ

شہد کی مکھی پر دار کیڑوں کی اس جنس کی ایک قسم ہے، جن کے چار جھلی دار بازو ہوتے ہیں اور ان میں باریک باریک نسیں جال کی طرح بنی ہوئی ہوتی ہیں۔ اس خاندان کے کیڑوں میں شہد کی مکھیاں، بھڑیں، پردار چیونٹیاں وغیرہ شامل ہیں۔ ان کیڑوں کے بازو برہنہ ہوتے ہیں۔ ان کا پچھلا دھڑ گاؤ دم اور پیٹی میں سانپ کی کینچلی نما لہریں ہوتی ہیں۔ اکثر ان خاندانوں کے کیڑوں کی دم پر ایک ڈنگ ہوتا ہے، جس سے وہ اپنے دشمن پر حملہ کرتے ہیں۔ یہ کیڑے انڈوں سے پیدا ہوتے ہیں، ان کا بچہ ابتداً ایک پلو ہوتا ہے، جو کنڈلی مارے رہتا ہے۔ لیکن بعد ازاں یہ اپنا روپ بدل کر ایک خوشنما پردار کیڑے کی شکل میں ظاہر ہوتا ہے۔ شہد کی مکھی کی پیدائش سے موت تک کی داستان ایک دلچسپ کہانی ہے۔ شروع میں انڈے سے پلو پیدا ہوتا ہے، دو دن تک یہ پلّو دن رات اپنی غذا کھانے میں مشغول رہتا ہے۔ اس کے بعد وہ منہ سے مکڑی کی طرح سوت کاتنا شروع کردیتا ہے اور اپنے جسم کے چاروں طرف اس سوت کی ایک گولی سی بناکر اس میں بند ہوکر بے ہوش ہوجاتا ہے اور اسی حالت میں اس کے اندر چند دن قید رہ کر شہد کی مکھی کی صورت اختیار کرلیتا ہے۔ بعد ازاں اس گولی کو کتر کر باہر نکل آتا ہے اور اپنا کام شروع کردیتا ہے۔
تاریخی حالات
شہد کی مکھیاں اپنی حیرت انگیز سرگرمیوں کی وجہ سے زمانۂ قدیم سے مشہور ہیں۔ کوئی قوم دنیا میں ایسی نہیں گزری جس نے شہد کی مکھیوں کی خوش ذائقہ اور مفید پیداوار سے نفع نہیں اٹھایا۔ انسان کو رموز سیاست، ایثار نفسی، کفایت شعاری، انتھک لگاتار محنت کا سبق شہد کی مکھیوں نے سکھایا۔ قرآن پاک میں سورئہ نحل میں خود اللہ تعالیٰ نے اس مخلوق کی حسن کارکردگی کو اپنی قدرت کی ایک نشانی قرار دیا ہے۔ آج سے ۲۳۳۸ سال قبل ارسطو نے اپنی کتاب تاریخ حیوانات میں اس مخلوق کی زندگی کو بیان کرتے ہوئے خیالی باتوں کے ساتھ گہرے مشاہدات بھی درج کیے ہیں۔ سترھویں صدی کے آخری دور میں اس مخلوق کی زندگی کو سائنسی اصولوں کے مطابق بنظرِ عمیق تحقیقی انداز میں سمجھنے کی کوشش شروع ہوئی اور شہد کی مکھیوں کو شیشے کے مصنوعی چھتے میں پالاگیا، تاکہ ان کے داخلی معاملات کا مشاہدہ کیا جاسکے۔ اسی تحقیق سے یہ ثابت کیا گیا کہ جس مکھی کو امیرِ نحل کہا جاتا ہے وہ نر نہیں بلکہ مادہ ہے۔ اسی وجہ سے وہ ملکہ کے خطاب سے موسوم ہے۔
ملکہ مکھی
تاریخ حیوانات میں سب سے بڑی خوبی جو شہد کی مکھیوں کو دوسرے پَردار کیڑوں سے ممتاز رکھتی ہے۔ وہ ان کی باہمی رفاقت، تمدنی حالت اور تقسیمِ کار کی تنظیم ہے۔ ان کے اس نظم سے ان کی عقل و دانش پر رشک آتا ہے۔ فرائضِ زندگی کے لحاظ سے ایک چھتے میں تین اقسام کی مکھیاں ہوتی ہیں۔ ان سب مکھیوں میں بڑی صرف ایک مکھی چھتے میں ہوتی ہے۔ جس کا بدن چھریرا، قد لمبا، نا زک کمر گاؤ دم ہوتی ہے۔ یہ گہرے سیاہ چمکدار رنگ میں سب مکھیوں سے ممتاز ہوتی ہے اوریہی ملکہ کہلاتی ہے۔ اور چھتے کی مکمل حکمرانی اسی کے تحت چلتی ہے۔ چھوٹی مکھیاں اس سے بے حد محبت کرتی ہیں۔ اور دس سے بارہ تک مکھیاں خاص طور پر اس کی خدمت پر ہر وقت مامور رہتی ہیں اور اس کے لیے چھتے میں ایوانِ خاص نہایت تکلف سے تیار کیا جاتا ہے۔ جس میں اس کے لیے نہایت مقوی غذائیں فراہم کی جاتی ہیں۔ جب یہ چھتے سے باہر سیر کے لیے نکلتی ہے تو کل مکھیاں اس کے ساتھ پورے اہتمام کے ساتھ نکلتی ہیں اور جہاں ملکہ صاحبہ تھک کر سستانے لگتی ہیں سب خدام مکھیاں اس کے گردا گرد ہجوم کرلیتی ہیں۔ ملکہ مکھی کی زبان چھوٹی اور پاؤں کمزور ہوتے ہیں۔ اس سے کوئی کام نہیں ہوسکتا۔ اس کا فرض محض انڈے دینا ہوتاہے۔ ملکہ کی عمر زیادہ سے زیادہ ۴ سے ۵ سال کے درمیان ہوتی ہے۔ اوریہ اپنی زندگی میں صرف ایک مرتبہ جوڑ کھاتی ہے۔ اور اس کی صورت یہ ہوتی ہے کہ کنواری ملکہ چھتے سے باہر نکل جاتی ہے اور کھلی فضا میں کسی نر کو اپنا شریکِ حیات بناتی ہے اور حاملہ ہونے کے بعد اپنی سلطنت میں واپس آکر مقیم ہوجاتی ہے۔ اور جلد ہی انڈے دینا شروع کردیتی ہے۔ آپ سن کر حیران ہوں گے کہ ملکہ ایک دن میں دو ہزار انڈے دیتی ہے۔ گویا کہ یہ ایک انڈے دینے والی مشین ہے۔ جو مسلسل ایک ماہ تک انڈے دیتی رہتی ہے۔ اور اس عرصہ میں چھتے کے کل خانوں کو جن کی تعداد پچاس اور ساٹھ ہزار کے درمیان ہوتی ہے، ہر خانہ میں ایک ایک انڈا محفوظ کردیا جاتا ہے۔ ملکہ مکھی کو بآسانی پہچانا جاسکتا ہے۔ اس کی صورت سے وقار شاہی نمایاں نظر آتا ہے۔ عام مکھیاں ہر وقت ملکہ کے گرد جمع رہتی ہیں اور سب کا رخ ملکہ کی طرف ہوتا ہے۔ جب ملکہ مکھی زچہ خانے میں مرجاتی ہے یا نئے جھول کو لے کر اڑجاتی ہے تو چھتے کی پوری تنظیم اپنا کام بند کردیتی ہے۔ اور کارکن مکھیوں پر ایک آفت آجاتی ہے۔ اس وقت وہ یا تو کسی اجنبی ملکہ کو اپنا حاکم بنالیتی ہیں یا چھتے کی نوخیز شہزادیوں میں سے انتخاب کرکے اپنی رانی منتخب کرلیتی ہیں۔ ملکہ مکھی اور کارکن مکھیاں ایک ہی قسم کے انڈوں سے پیدا ہوتی ہیں۔ اس لیے مکھیوں میں یہ قدرت ہے کہ وہ جس پلو کو چاہیں بشرطیکہ وہ نر نہ ہو، مقوی غذائیں کھلاپلاکر نئی رانی تیار کرلیتی ہیں۔
نرمکھی
ہر چھتے میں دو ہزار سے ۸؍ہزار تک ایسی مکھیاں ہوتی ہیں، جن کا بدن چوڑا چکلا اور بھاری ہوتا ہے، ان کا سر گول اور کمر موٹی ہوتی ہے۔ یہ نر مکھیاں ہوتی ہیں، جس سے ملکہ جوڑ کھاتی ہے۔ ان نر مکھیوں کا ڈنک نہیں ہوتا۔ ان کی پرواز نہایت تیز ہوتی ہے، جس سے گونج کی آواز پیدا ہوتی ہے۔ ان کی آنکھیں موٹی اور صورت کچھ بھدی سی ہوتی ہے۔ جسے بآسانی پہچانا جاسکتا ہے۔ نر محض کاہل ہوتے ہیں۔ یہ نہ تو شہد فراہم کرسکتے ہیں اور نہ ہی موم بناسکتے ہیں۔ دن رات یہ اپاہج کی طرز سے زندگی گزارتے ہیں۔ اور ان کا کام محض شہد چاٹنے تک محدود ہے اور کارکن مکھیوں کی محنت و جانفشانی کا تماشہ دیکھتے رہتے ہیں۔ نر مکھیوں کی تمام زندگی کا فرض محض ایک ساعت کا کام ہے کہ وہ کنواری مکھیوں سے مقاربت کریں اور انھیں حاملہ کردے جب تک یہ ضروری کام انجام نہیں پاتا کارکن مکھیاں نر مکھیوں کا چھتوں میں رہنا گوارا کرتی ہیں۔ لیکن جب یہ کام نکل جاتا ہے اور وہ انڈے دینا شروع کردیتی ہیں۔ تو نر چھتے سے نکال باہر کیے جاتے ہیں اور اگر وہ اس پرشرافت سے عمل نہ کریں تو پھر انھیں ڈنک مار مار کر ہلاک کردیا جاتا ہے۔
کارکن مکھیاں
چھوٹی چھوٹی مکھیاں جو دن رات چھتوں سے باہر سرگرمِ عمل نظر آتی ہیں، یہ خدام کہلاتی ہیں۔ ان کا قد چھوٹا،ٹانگیں بڑی اور رنگ سیاہ ہوتاہے۔ ان کے پچھلے پیروں میں سخت قسم کے بال ہوتے ہیں۔ جو زرگل کو جھاڑنے کے لیے جھاڑو کا کام دیتے ہیں۔ ایک چھتے میں عموماً ان کارکن مکھیوں کی تعداد ۲۰ سے ۳۰ ہزار کے لگ بھگ ہوتی ہے۔ ان کے ذمہ محنت کرنا، پھولوں کا رس لانا اور زرگل کا ذخیرہ جمع کرنا، بچوں کی نگہداشت اور خوراک بہم پہنچانا ہے۔ اس کے علاوہ موم بنانا، چھتے کی حیرت انگیز عمارت تعمیر کرنا، کارکن مکھیاں اپنے چھتے کی ملکہ کی پوری طرح فرماں برداری اور اطاعت شعاری کا حق ادا کرتی ہیں، ملکہ کی اس جاں نثار رعایا کی وفاداری قابلِ رشک ہے۔ اگر کوئی دشمن مثلاً چوہا، گھونگھا یا چھپکلی کبھی چھتے کی جانب رخ کرنے کی جسارت کربیٹھے تو خدام مکھیاں ڈنک مار مار کر اس کی طبیعت صاف کردیتی ہیں۔ اور اسے ہلاک کرکے ہی دم لیتی ہیں۔ اگر دشمن کسی وجہ سے بھاگ نکلنے میں کامیاب ہوجائے تو خیر، ورنہ اس کی لاش کو خانہ ساز سریش سے چپکا کر چھتے ہی میں اس کا مقبرہ بنادیا جاتا ہے۔ اس قسم کے حالات رونما ہونے پر ہزاروں مکھیاں خوفناک جنگ میں جاں بحق ہوجاتی ہیں، لیکن اپنی ملکہ پر جیتے جی کوئی خطرہ نہیں آنے دیتیں۔ دن رات کی ان تھک محنت ان کی جان پر شدید اثر ڈالتی ہے اور چھ ساتھ ہفتے کی ہنگامہ خیز زندگی گزارنے کے بعد یہ مرجاتی ہیں۔
——

مزید

حالیہ شمارے

ماہنامہ حجاب اسلامی ستمبر 2024

شمارہ پڑھیں

ماہنامہ حجاب اسلامی شمارہ ستمبر 2023

شمارہ پڑھیں

درج بالا کیو آر کوڈ کو کسی بھی یو پی آئی ایپ سے اسکین کرکے حجاب اسلامی کو عطیہ دیجیے۔ رسید حاصل کرنے کے لیے، ادائیگی کے بعد پیمنٹ کا اسکرین شاٹ نیچے دیے گئے  وہاٹس ایپ پر بھیجیے۔ خریدار حضرات بھی اسی طریقے کا استعمال کرتے ہوئے سالانہ زرِ تعاون مبلغ 600 روپے ادا کرسکتے ہیں۔ اس صورت میں پیمنٹ کا اسکرین شاٹ اور اپنا پورا پتہ انگریزی میں لکھ کر بذریعہ وہاٹس ایپ ہمیں بھیجیے۔

Whatsapp: 9810957146